سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
حدیث نمبر: 3057
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن توبة ، حدثنا زافر بن سليمان ، عن ابي سنان ، عن عمرو بن مرة ، عن مرة ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على ناقته المخضرمة بعرفات فقال:" اتدرون اي يوم هذا، واي شهر هذا، واي بلد هذا؟"، قالوا: هذا بلد حرام، وشهر حرام، ويوم حرام، قال:" الا وإن اموالكم ودماءكم عليكم حرام، كحرمة شهركم هذا، في بلدكم هذا، في يومكم هذا، الا وإني فرطكم على الحوض، واكاثر بكم الامم فلا تسودوا وجهي، الا وإني مستنقذ اناسا، ومستنقذ مني اناس، فاقول: يا رب اصيحابي، فيقول: إنك لا تدري ما احدثوا بعدك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ تَوْبَةَ ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْمُخَضْرَمَةِ بِعَرَفَاتٍ فَقَالَ:" أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا، وَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا، وَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟"، قَالُوا: هَذَا بَلَدٌ حَرَامٌ، وَشَهْرٌ حَرَامٌ، وَيَوْمٌ حَرَامٌ، قَالَ:" أَلَا وَإِنَّ أَمْوَالَكُمْ وَدِمَاءَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، أَلَا وَإِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَأُكَاثِرُ بِكُمُ الْأُمَمَ فَلَا تُسَوِّدُوا وَجْهِي، أَلَا وَإِنِّي مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا، وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّي أُنَاسٌ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أُصَيْحَابِي، فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور اس وقت آپ عرفات میں اپنی کنکٹی اونٹنی پر سوار تھے: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے، اور کون سا مہینہ ہے، اور کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ حرمت والا شہر، حرمت والا مہینہ، اور حرمت والا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! تمہارے مال اور تمہارے خون بھی ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ مہینہ تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس دن میں، سنو! میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا، اور تمہاری کثرت کے سبب دوسری امتوں پر فخر کروں گا، تو تم مجھے رو سیاہ مت کرنا، سنو! کچھ لوگوں کو میں (عذاب کے فرشتوں یا جہنم سے) نجات دلاؤں گا، اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں گے (فرشتے مجھ سے چھین کر انہیں جہنم میں لے جائیں گے)، میں کہوں گا: یا رب! یہ میرے صحابہ ہیں وہ فرمائے گا: آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد بدعتیں ایجاد کی ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9557، ومصباح الزجاجة: 1061) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: آپ کی وفات کے بعد اسلام سے پھر گئے، مسلمانوں کو مارا، اور اصحاب سے مراد یہ ہے کہ میری امت کے لوگ ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3058
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا صدقة بن خالد ، حدثنا هشام بن الغاز ، قال: سمعت نافعا ، يحدث عن ابن عمر : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف يوم النحر بين الجمرات في الحجة التي حج فيها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اي يوم هذا؟"، قالوا: يوم النحر، قال:" فاي بلد هذا؟"، قالوا: هذا بلد الله الحرام، قال:" فاي شهر هذا؟"، قالوا: شهر الله الحرام، قال:" هذا يوم الحج الاكبر ودماؤكم واموالكم واعراضكم عليكم حرام، كحرمة هذا البلد، في هذا الشهر، في هذا اليوم"، ثم قال:" هل بلغت؟"، قالوا: نعم، فطفق النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" اللهم اشهد، ثم ودع الناس"، فقالوا: هذه حجة الوداع.
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا ، يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ يَوْمَ النَّحْرِ بَيْنَ الْجَمَرَاتِ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي حَجَّ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟"، قَالُوا: يَوْمُ النَّحْرِ، قَالَ:" فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟"، قَالُوا: هَذَا بَلَدُ اللَّهِ الْحَرَامُ، قَالَ:" فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟"، قَالُوا: شَهْرُ اللَّهِ الْحَرَامُ، قَالَ:" هَذَا يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ وَدِمَاؤُكُمْ وَأَمْوَالُكُمْ وَأَعْرَاضُكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ هَذَا الْبَلَدِ، فِي هَذَا الشَّهْرِ، فِي هَذَا الْيَوْمِ"، ثُمَّ قَالَ:" هَلْ بَلَّغْتُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ثُمَّ وَدَّعَ النَّاسَ"، فَقَالُوا: هَذِهِ حَجَّةُ الْوَدَاعِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حج کیا دسویں ذی الحجہ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: آج کون سا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ یوم النحر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ اللہ کا حرمت والا شہر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ اللہ کا حرمت والا مہینہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حج اکبر کا دن ہے، اور تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت و آبرو اسی طرح تم پر حرام ہیں جیسے اس شہر کی حرمت اس مہینے اور اس دن میں ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے (اللہ کے احکام تم کو) پہنچا دئیے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، (آپ نے پہنچا دئیے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے: اے اللہ! تو گواہ رہ، اس کے بعد لوگوں کو رخصت کیا، تو لوگوں نے کہا: یہ حجۃ الوداع یعنی الوداعی حج ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 132 (1742 تعلیقاً)، سنن ابی داود/المناسک 67 (1945)، (تحفة الأشراف: 8514) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی آپ کا آخری حج ہے، اس کے بعد آپ ہمیں جدائی کا داغ دے جائیں گے، نیز اس حج کے تھوڑے دنوں کے بعد آپ کی وفات ہوئی اس واسطے اس کو حجۃ الوواع کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
77. بَابُ: زِيَارَةِ الْبَيْتِ
77. باب: طواف زیارت کا بیان۔
Chapter: Visiting the House
حدیث نمبر: 3059
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا بكر بن خلف ابو بشر ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا سفيان ، حدثني محمد بن طارق ، عن طاوس ، وابي الزبير ، عن عائشة ، وابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلم اخر طواف الزيارة إلى الليل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ طَارِقٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، وَأَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ".
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت میں رات تک تاخیر فرمائی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «حدیث ابن عباس أخرجہ: صحیح البخاری/ الحج 129 (1732 تعلیقاً)، سنن ابی داود/المناسک 82 (2000)، سنن الترمذی/الحج 80 (920)، (تحفة الأشراف: 6452، 17594)، حدیث عائشہ تقدم تخریجہ في حدیث ابن عباس، وحدیث طاوس تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18845، ومصباح الزجاجة: 1062)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/288) (شاذ)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی سند میں ابو الزبیر مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ترمذی اور منذری نے اس حدیث کی تحسین کی ہے، اور ابن القیم نے اس کو وہم کہا ہے، اور البانی صاحب نے شاذ کا حکم لگایا ہے، اس لیے کہ صحیح ترین احادیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارہ (افاضہ) زوال کے بعد کیا تھا، ملاحظہ ہو: الإرواء: 4/ 364 - 365 و ضعیف أبی داود: 342)

وضاحت:
۱؎: دسویں تاریخ کے طواف کو طواف زیارت یا طواف افاضہ کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: شاذ

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (2000) ترمذي (920)
محمد بن طارق عن طاوس مرسل (تحفة الأشراف 13 / 239) وحديث أبي الزبير مسند لكنه عنعن (انظر الحديث السابق: 92) وعلقه البخاري في صحيحه (قبل: 1732)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486
حدیث نمبر: 3060
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حرملة بن يحيى ، حدثنا ابن وهب ، انبانا ابن جريج ، عن عطاء ، عن عبد الله بن عباس " ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يرمل في السبع الذي افاض فيه" قال عطاء: ولا رمل فيه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْمُلْ فِي السَّبْعِ الَّذِي أَفَاضَ فِيهِ" قَالَ عَطَاءٌ: وَلَا رَمَلَ فِيهِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا ۱؎۔ عطا کہتے ہیں کہ طواف افاضہ میں رمل نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 83 (2001)، (تحفة الأشراف: 5917) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: رمل طواف قدوم میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
78. بَابُ: الشُّرْبِ مِنْ زَمْزَمَ
78. باب: زمزم کا پانی پینے کا بیان۔
Chapter: Drinking from Zamzam
حدیث نمبر: 3061
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا عبيد الله بن موسى ، عن عثمان بن الاسود ، عن محمد بن عبد الرحمن بن ابي بكر ، قال: كنت عند ابن عباس جالسا، فجاءه رجل فقال: من اين جئت؟، قال: من زمزم، قال: فشربت منها كما ينبغي، قال: وكيف؟، قال: إذا شربت منها، فاستقبل الكعبة واذكر اسم الله، وتنفس ثلاثا، وتضلع منها، فإذا فرغت فاحمد الله عز وجل، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن آية ما بيننا وبين المنافقين، إنهم لا يتضلعون من زمزم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَالِسًا، فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟، قَالَ: مِنْ زَمْزَمَ، قَالَ: فَشَرِبْتَ مِنْهَا كَمَا يَنْبَغِي، قَالَ: وَكَيْفَ؟، قَالَ: إِذَا شَرِبْتَ مِنْهَا، فَاسْتَقْبِلْ الكَعْبةَ وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، وَتَنَفَّسْ ثَلَاثًا، وَتَضَلَّعْ مِنْهَا، فَإِذَا فَرَغْتَ فَاحْمَدِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ آيَةَ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُنَافِقِينَ، إِنَّهُمْ لَا يَتَضَلَّعُونَ مِنْ زَمْزَمَ".
محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا، تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا: زمزم کے پاس سے، پوچھا: تم نے اس سے پیا جیسا پینا چاہیئے، اس نے پوچھا: کیسے پینا چاہیئے؟ کہا: جب تم زمزم کا پانی پیو تو کعبہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو اور اللہ کا نام لو، اور تین سانس میں پیو، اور خوب آسودہ ہو کر پیو، پھر جب فارغ ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارے اور منافقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ سیر ہو کر زمزم کا پانی نہیں پیتے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6442، ومصباح الزجاجة: 1063) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں اختلاف کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإروا ء: 1125)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 3062
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا الوليد بن مسلم ، قال: قال عبد الله بن المؤمل انه سمع ابا الزبير ، يقول: سمعت جابر بن عبد الله ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ماء زمزم لما شرب له".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُؤَمَّلِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: زمزم کا پانی اس مقصد اور فائدے کے لیے ہے جس کے لیے وہ پیا جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2784، ومصباح الزجاجة: 1064)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/357، 372) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں عبداللہ بن مؤمل ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1123)

وضاحت:
۱؎: اگر آدمی زمزم کا پانی شفا کے لیے پئے تو شفا حاصل ہو گی، اگر پیٹ بھرنے کے لئے تو کھانے کی احتیاج نہ ہو گی، اگر پیاس بجھانے کے لیے پئے تو پیاس دور ہو جائے گی، بہرحال جس نیت سے پئے گا وہی فائدہ اللہ چاہے تو حاصل ہو گا، خواہ دنیا کا فائدہ ہو یا آخرت کا،صحیح کہا اور بہت سے ائمہ دین نے زمزم کو مختلف اغراض سے پیا ہے اور جو غرض تھی، وہ حاصل ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبد اللّٰه بن مؤمل ضعيف
و قيل: تابعه إبراھيم بن طھمان عند البيھقي (5/ 202) و لكن سنده ضعيف،فيه أحمد بن إسحاق بن شيبان البغدادي ولم أجد له ترجمة
و للحديث شواھد ضعيفة عند الطبراني (الأوسط: 3827) وغيره
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486
79. بَابُ: دُخُولِ الْكَعْبَةِ
79. باب: کعبہ کے اندر داخلے کا بیان۔
Chapter: Entering the Ka`bah
حدیث نمبر: 3063
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي ، حدثنا عمر بن عبد الواحد ، عن الاوزاعي ، حدثني حسان بن عطية ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، قال:" دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح الكعبة ومعه بلال وعثمان بن شيبة، فاغلقوها عليهم من داخل، فلما خرجوا، سالت بلالا: اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فاخبرني: انه صلى على وجهه حين دخل بين العمودين عن يمينه، ثم لمت نفسي ان لا اكون سالته كم صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ الْكَعْبَةَ وَمَعَهُ بِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ شَيْبَةَ، فَأَغْلَقُوهَا عَلَيْهِمْ مِنْ دَاخِلٍ، فَلَمَّا خَرَجُوا، سَأَلْتُ بِلَالًا: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَأَخْبَرَنِي: أَنَّهُ صَلَّى عَلَى وَجْهِهِ حِينَ دَخَلَ بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ لُمْتُ نَفْسِي أَنْ لَا أَكُونَ سَأَلْتُهُ كَمْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن کعبہ کے اندر تشریف لے گئے، آپ کے ساتھ بلال اور عثمان بن شیبہ رضی اللہ عنہما بھی تھے، پھر ان لوگوں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا، جب وہ لوگ باہر نکلے تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی؟ تو انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرہ مبارک کے سامنے ہی نماز پڑھی، جب دونوں ستو نوں کے درمیان تشریف لے گئے، پھر میں نے اپنے آپ پر اس بات پر ملامت کی کہ میں نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھیں؟۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 30 (397)، 81 (486)، 96 (504)، التھجد 25 (1167)، الحج 51 (1598)، الجہاد 127 (2688)، المغازي 49 (4289)، 77 (4400)، صحیح مسلم/الحج 68 (1329)، سنن ابی داود/الحج 93 (2023)، سنن الترمذی/الحج 46 (874)، سنن النسائی/المساجد 5 (693)، القبلة 6 (750)، الحج 126 (2908)، 127 (2909)، (تحفة الأشراف: 2037)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 63 (193)، مسند احمد (2/33، 55، 113، 120، 138، 6/12، 13، 14، 15)، سنن الدارمی/المناسک 43 (1908) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3064
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا إسماعيل بن عبد الملك ، عن ابن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: خرج النبي صلى الله عليه وسلم من عندي وهو قرير العين، طيب النفس، ثم رجع إلي وهو حزين، فقلت: يا رسول الله، خرجت من عندي وانت قرير العين، ورجعت وانت حزين، فقال:" إني دخلت الكعبة، ووددت اني لم اكن فعلت، إني اخاف ان اكون اتعبت امتي من بعدي".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِي وَهُوَ قَرِيرُ الْعَيْنِ، طَيِّبُ النَّفْسِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ وَهُوَ حَزِينٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَرَجْتَ مِنْ عِنْدِي وَأَنْتَ قَرِيرُ الْعَيْنِ، وَرَجَعْتَ وَأَنْتَ حَزِينٌ، فَقَالَ:" إِنِّي دَخَلْتُ الْكَعْبَةَ، وَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ فَعَلْتُ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَكُونَ أَتْعَبْتُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے نکلے، آپ بہت خوش اور ہشاش بشاش تھے، پھر میرے پاس واپس آئے تو آپ غمگین تھے، یہ دیکھا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے، ابھی میرے پاس سے آپ نکلے تو آپ بہت خوش تھے، اور واپس آئے ہیں تو غمگین ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کعبہ کے اندر گیا، پھر میرے جی میں آیا کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا، میں ڈرتا ہوں کہ اپنے بعد میں اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈال دوں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 95 (2029)، سنن الترمذی/الحج 45 (873)، (تحفة الأشراف: 16230)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/137) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں اسماعیل بن عبدالملک منکر راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 3346)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (2029) ترمذي (873)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486
80. بَابُ: الْبَيْتُوتَةِ بِمَكَّةَ لَيَالِيَ مِنًى
80. باب: منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کا بیان۔
Chapter: Staying overnight in Makkah on the nights of Mina
حدیث نمبر: 3065
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا عبد الله بن نمير ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" استاذن العباس بن عبد المطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان يبيت بمكة ايام منى من اجل سقايته، فاذن له".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ أَيَّامَ مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی، کیونکہ زمزم کے پلانے کا کام ان کے سپرد تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 133 (1745)، صحیح مسلم/الحج 60 (1315)، سنن ابی داود/المناسک 75 (1959)، (تحفة الأشراف: 7939)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/22)، سنن الدارمی/المناسک 91 (1986) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: عذر کی وجہ سے اجازت خاص طور پر تھی ورنہ ہر شخص کو منیٰ کی دنوں میں یہ ضروری ہے کہ رات منیٰ میں بسر کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3066
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، وهناد بن السري ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن إسماعيل بن مسلم ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، قال:" لم يرخص النبي صلى الله عليه وسلم لاحد يبيت بمكة، إلا للعباس من اجل السقاية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" لَمْ يُرَخِّصْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَحَدٍ يَبِيتُ بِمَكَّةَ، إِلَّا لِلْعَبَّاسِ مِنْ أَجْلِ السِّقَايَةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (منیٰ کے دنوں میں) کسی کو مکہ میں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی سوائے عباس کے، کیونکہ حاجیوں کو پانی پلانے کا کام ان کے سپرد تھا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5882، ومصباح الزجاجة: 1065) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (سند میں اسماعیل بن مسلم ضعیف راوی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ضعفه البوصيري من أجل إسماعيل بن مسلم ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486

Previous    15    16    17    18    19    20    21    22    23    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.