(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن توبة ، حدثنا زافر بن سليمان ، عن ابي سنان ، عن عمرو بن مرة ، عن مرة ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على ناقته المخضرمة بعرفات فقال:" اتدرون اي يوم هذا، واي شهر هذا، واي بلد هذا؟"، قالوا: هذا بلد حرام، وشهر حرام، ويوم حرام، قال:" الا وإن اموالكم ودماءكم عليكم حرام، كحرمة شهركم هذا، في بلدكم هذا، في يومكم هذا، الا وإني فرطكم على الحوض، واكاثر بكم الامم فلا تسودوا وجهي، الا وإني مستنقذ اناسا، ومستنقذ مني اناس، فاقول: يا رب اصيحابي، فيقول: إنك لا تدري ما احدثوا بعدك". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ تَوْبَةَ ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْمُخَضْرَمَةِ بِعَرَفَاتٍ فَقَالَ:" أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا، وَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا، وَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟"، قَالُوا: هَذَا بَلَدٌ حَرَامٌ، وَشَهْرٌ حَرَامٌ، وَيَوْمٌ حَرَامٌ، قَالَ:" أَلَا وَإِنَّ أَمْوَالَكُمْ وَدِمَاءَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، أَلَا وَإِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَأُكَاثِرُ بِكُمُ الْأُمَمَ فَلَا تُسَوِّدُوا وَجْهِي، أَلَا وَإِنِّي مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا، وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّي أُنَاسٌ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أُصَيْحَابِي، فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور اس وقت آپ عرفات میں اپنی کنکٹی اونٹنی پر سوار تھے: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے، اور کون سا مہینہ ہے، اور کون سا شہر ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ حرمت والا شہر، حرمت والا مہینہ، اور حرمت والا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! تمہارے مال اور تمہارے خون بھی ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ مہینہ تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس دن میں، سنو! میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا، اور تمہاری کثرت کے سبب دوسری امتوں پر فخر کروں گا، تو تم مجھے رو سیاہ مت کرنا، سنو! کچھ لوگوں کو میں (عذاب کے فرشتوں یا جہنم سے) نجات دلاؤں گا، اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں گے (فرشتے مجھ سے چھین کر انہیں جہنم میں لے جائیں گے)، میں کہوں گا: یا رب! یہ میرے صحابہ ہیں وہ فرمائے گا: آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد بدعتیں ایجاد کی ہیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: آپ کی وفات کے بعد اسلام سے پھر گئے، مسلمانوں کو مارا، اور اصحاب سے مراد یہ ہے کہ میری امت کے لوگ ہیں۔
أموالكم ودماءكم عليكم حرام كحرمة شهركم هذا في بلدكم هذا في يومكم هذا فرطكم على الحوض أكاثر بكم الأمم فلا تسودوا وجهي إني مستنقذ أناسا ومستنقذ مني أناس فأقول يا رب أصيحابي إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3057
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جس طرح مکہ مکرمہ کا شہر قابل احترام ہےاسی طرح وہ تمام علاقے جن کا تعلق حج کی ادائیگی سے قابل احترام ہیں۔
(2) اللہ کے حکم سے چند مہینے بھی قابل احترام ہیں اس لیے انھیں حرمت والے مہینے (اشهر الحرم) کہا جاتا ہے۔ وہ چار مہینے ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اوررجب بالخصوص حج کا دن یوم عرفہ (نو ذوالحجہ) بہت زیادہ احترام کا حامل ہے۔
(3) جو چیز سامعین کوپہلےذہن نشین کرانے کے لیے سوال کی صورت میں دریافت کی جاسکتی ہے۔ جو چیز سامعین کو پہلے سے معلوم ہواس کی اہمیت ذہن نشین کرانے کے لیے سوال کی صورت میں دریافت کی جاسکتی ہے۔
(4) تشبیہ اور تمثیل سے علمی مسائل کو اچھی طرح سمجھایا اور ذہن نشین کرایا جاسکتا ہے۔
(5) قیامت کے دن نبی اکرم ﷺ کو حوض کوثر ملے گا جس سے آپ کے وہ امتی پانی پئیں گیں جنہوں نے زندگی میں سنت نبوی پر عمل کیا ہوگا۔
(6) بدعتوں کو ایجاد کرنا اور ان پر عمل کرنا حوض کوثر کے پانی سے محرومی کا باعث ہے۔
(7) امت کی کثرت تعداد شرعاً مطلوب ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہےکہ اسلامی تعلیمات وہدایات کے مطابق بچوں کی بہتر تربیت کر کےانھیں ایسے مسلمان بنایا جائے جنھیں دیکھ کر قیامت کو رسول اللہ ﷺ کو خوشی حاصل ہو۔
(8) رسول اللہﷺامت کے گناہ گاروں کی سفارش کرینگے اور انھیں جہنم سے نکالیں گے۔
(9) رسول اللہﷺ کو بعض لوگوں کی شفاعت سے منع کردیا جائے گا۔ ایسے لوگ جہنم میں طویل عرصے تک پڑے رہیں گے۔ اگر انھوں نے شرک اکبر یا کفر اکبر کا ارتکاب کیا ہوگا تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہینگے۔ اعاذناالله (10) جس طرح مسلمان کو قتل کرنا اور اس کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کرنا حرام ہے اسی طرح اس کی بے عزتی کرنا اور اسے ذلیل کرنے کی کوشش کرنا بھی حرام ہے۔
(11) رسول اللہ ﷺ نے منصب رسالت کو کما حقہ ادا فرما دیا۔ اب اگر کوئی شخص گمراہی اختیار کرتا ہے تو خود ذمہ دار ہے۔ رسول اللہﷺ کی اونٹنی کا نام عضباء (کان کٹی) تھا۔ ویسے اس کے کان کٹے ہوئے نہیں تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3057