سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
حدیث نمبر: 3047
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح المصري ، انبانا عبد الله بن وهب ، انبانا يونس ، عن ابن شهاب ، عن سالم ، عن ابيه " سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل ملبدا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ " سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ مُلَبِّدًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لبیک پکارتے ہوئے سنا، اس حال میں کہ آپ سر کی تلبید کیے ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 19 (1540)، اللباس 69 (5915)، صحیح مسلم/الحج 3 (1184)، سنن ابی داود/الحج 12 (1747)، سنن النسائی/الحج 40 (2684)، (تحفة الأشراف: 6976)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/121، 131) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
73. بَابُ: الذَّبْحِ
73. باب: ذبح کرنے کا بیان۔
Chapter: Slaughtering (the sacrificial animal)
حدیث نمبر: 3048
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، وعمرو بن عبد الله ، قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا اسامة بن زيد ، عن عطاء ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" منى كلها منحر، وكل فجاج مكة طريق ومنحر، وكل عرفة موقف، وكل المزدلفة موقف".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورا منیٰ قربانی کی جگہ ہے، اور مکہ کی سب گلیاں راستے، قربانی کی جگہیں ہیں، پورا عرفات اور پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 65 (1937)، (تحفة الأشراف: 2397)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/326)، سنن الدارمی/المناسک 50 (1921) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
74. بَابُ: مَنْ قَدَّمَ نُسُكًا قَبْلَ نُسُكٍ
74. باب: مناسک حج کی تقدیم و تاخیر کا بیان۔
Chapter: Whoever performs one rite before another
حدیث نمبر: 3049
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ايوب ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:" ما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عمن قدم شيئا قبل شيء، إلا يلقي بيديه كلتيهما لا حرج".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّنْ قَدَّمَ شَيْئًا قَبْلَ شَيْءٍ، إِلَّا يُلْقِي بِيَدَيْهِ كِلْتَيْهِمَا لَا حَرَجَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے حج کے کسی عمل کو دوسرے پر مقدم کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے یہی اشارہ کیا کہ کوئی حرج نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 24 (84)، الحج 125 (1723)، 130 (1735)، الأیمان 15 (6666)، (تحفة الأشراف: 5999)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 57 (1307)، سنن ابی داود/الحج 79 (1983)، سنن النسائی/الحج 224 (3069)، مسند احمد (1/216، 269، 291، 300، 311، 328) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 3050
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، حدثنا يزيد بن زريع ، عن خالد الحذاء ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسال يوم منى، فيقول: لا حرج لا حرج، فاتاه رجل، فقال: حلقت قبل ان اذبح؟، قال: لا حرج، قال: رميت بعد ما امسيت؟، قال: لا حرج".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ يَوْمَ مِنًى، فَيَقُولُ: لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟، قَالَ: لَا حَرَجَ، قَالَ: رَمَيْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَيْتُ؟، قَالَ: لَا حَرَجَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ منیٰ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں، ایک شخص نے آ کر کہا: میں نے قربانی سے پہلے حلق کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بات نہیں، دوسرا بولا: میں نے رمی شام کو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بات نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 125 (1723)، 130 (1735)، سنن ابی داود/المناسک 79 (1983)، سنن النسائی/مناسک الحج 224 (3069)، (تحفة الأشراف: 6047)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/216، 258، 269، 291، 300، 311، 382) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: جمرہ کبری کو کنکری مارنا، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارت) (یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے مگر باب کی روشنی میں رمی، ذبح حلق اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہو گا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 3051
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو " ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عمن ذبح قبل ان يحلق، او حلق قبل ان يذبح، قال: لا حرج".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَمَّنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يَحْلِقَ، أَوْ حَلَقَ قَبْلَ أَنْ يَذْبَحَ، قَالَ: لَا حَرَجَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے سر منڈانے سے پہلے قربانی کر لی، یا قربانی سے پہلے سر منڈا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 23 (83)، الحج 131 (1736، 1737)، صحیح مسلم/الحج 57 (1306)، سنن ابی داود/الحج 88 (2014)، سنن الترمذی/الحج 76 (916)، (تحفة الأشراف: 8906)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 81 (242)، مسند احمد (2/159، 160، 192، 202، 210، 217)، سنن الدارمی/المناسک 65 (1948) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3052
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هارون بن سعيد المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني اسامة بن زيد ، حدثني عطاء بن ابي رباح ، انه سمع جابر بن عبد الله ، يقول:" قعد رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى يوم النحر للناس فجاءه رجل، فقال: يا رسول الله، إني حلقت قبل ان اذبح، قال: لا حرج، ثم جاءه آخر، فقال: يا رسول الله، إني نحرت قبل ان ارمي، قال: لا حرج، فما سئل يومئذ عن شيء قدم قبل شيء، إلا قال: لا حرج".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ:" قَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى يَوْمَ النَّحْرِ لِلنَّاسِ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، قَالَ: لَا حَرَجَ، ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: لَا حَرَجَ، فَمَا سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ قَبْلَ شَيْءٍ، إِلَّا قَالَ: لَا حَرَجَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں لوگوں (کو حج کے احکام بتانے) کے لیے بیٹھے، تو ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، پھر دوسرا شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، آپ سے اس دن جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا جسے کسی چیز سے پہلے کر لیا گیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا: کوئی حرج نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2398، ومصباح الزجاجة: 1059)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/326) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ کے پاس کھڑے تھے، ایک شخص نے آ کر کہا: میں نے رمی سے پہلے بال منڈا دیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمی کر لو کچھ حرج نہیں، دوسرے نے کہا: میں نے رمی سے پہلے ذبح کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمی کر لو کچھ نہیں ہے، تیسرے نے کہا: میں نے رمی سے پہلے طواف افاضہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہے، غرض جس چیز کے متعلق اس دن سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب کر لو کچھ حرج نہیں اور اہل حدیث کا عمل انہی حدیثوں پر ہے، ان اعمال کی اگر تقدیم و تاخیر سہو سے ہو جائے تو کچھ نقصان نہیں، نہ دم لازم آئے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
75. بَابُ: رَمْيِ الْجِمَارِ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ
75. باب: ایام تشریق میں رمی جمار کا بیان۔
Chapter: Stoning the pillars on the days of Tashriq
حدیث نمبر: 3053
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حرملة بن يحيى المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، حدثنا ابن جريج ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى جمرة العقبة ضحى، واما بعد ذلك فبعد زوال الشمس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ ضُحًى، وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی چاشت کے وقت کی، اور اس کے بعد جو رمی کی (یعنی ۱۱، ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ) کو تو وہ زوال (سورج ڈھلنے) کے بعد کی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 53 (1299)، سنن ابی داود/الحج 78 (1971)، سنن الترمذی/الحج 59 (894)، سنن النسائی/الحج 221 (3065)، (تحفة الأشراف: 2795)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/312، 319، 400)، سنن الدارمی/المناسک 58 (1937) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 3054
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا جبارة بن المغلس ، حدثنا إبراهيم بن عثمان بن ابي شيبة ابو شيبة ، عن الحكم ، عن مقسم ، عن ابن عباس " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرمي الجمار، إذا زالت الشمس قدر، ما إذا فرغ من رميه صلى الظهر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ أَبُو شَيْبَةَ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْمِي الْجِمَارَ، إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ قَدْرَ، مَا إِذَا فَرَغَ مِنْ رَمْيِهِ صَلَّى الظُّهْرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دسویں ذی الحجہ کے بعد والے دنوں میں) رمی جمار سورج ڈھلنے کے بعد اس حساب سے کرتے تھے کہ جب آپ اپنی رمی سے فارغ ہوتے، تو ظہر پڑھتے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 62 (898)، (تحفة الأشراف: 6466)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/248، 290، 328) (ضعیف الإسناد جدّاً)» ‏‏‏‏ (سند میں جبارہ ضعیف اور ابراہیم بن عثمان متروک الحدیث راوی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
جبارةضعيف جدًا
وأبو شيبة إبراهيم بن عثمان: متروك الحديث
وللحديث شواهد دون قوله ”قدر ما إذا فرغ من رميه صلي الظهر“ راجع سنن الترمذي (898)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486
76. بَابُ: الْخُطْبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ
76. باب: یوم النحر کے خطبہ کا بیان۔
Chapter: The sermon on the day of sacrifice
حدیث نمبر: 3055
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وهناد بن السري ، قالا: حدثنا ابو الاحوص ، عن شبيب بن غرقدة ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، عن ابيه ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع:" يا ايها الناس، الا اي يوم احرم ثلاث مرات؟"، قالوا: يوم الحج الاكبر، قال:" فإن دماءكم واموالكم واعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، الا لا يجني جان إلا على نفسه، ولا يجني والد على ولده ولا مولود على والده، الا إن الشيطان قد ايس ان يعبد في بلدكم هذا ابدا، ولكن سيكون له طاعة في بعض ما تحتقرون من اعمالكم فيرضى بها، الا وكل دم من دماء الجاهلية موضوع واول ما اضع منها دم الحارث بن عبد المطلب، كان مسترضعا في بني ليث فقتلته هذيل، الا وإن كل ربا من ربا الجاهلية موضوع، لكم رءوس اموالكم لا تظلمون، ولا تظلمون، الا يا امتاه هل بلغت؟"، ثلاث مرات، قالوا: نعم، قال:" اللهم اشهد" ثلاث مرات.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ؟"، قَالُوا: يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ، وَلَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلَا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يُعْبَدَ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَبَدًا، وَلَكِنْ سَيَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِي بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَيَرْضَى بِهَا، أَلَا وَكُلُّ دَمٍ مِنْ دِمَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ مَا أَضَعُ مِنْهَا دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ، وَلَا تُظْلَمُونَ، أَلَا يَا أُمَّتَاهُ هَلْ بَلَّغْتُ؟"، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا: لوگو! سنو، کون سا دن زیادہ تقدیس کا ہے؟ آپ نے تین بار یہ فرمایا، لوگوں نے کہا: حج اکبر ۱؎ کا دن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی، اور تمہارے اس مہینے کی، اور تمہارے اس شہر کی حرمت ہے، جو کوئی جرم کرے گا، تو اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا، باپ کے جرم کا مواخذہ بیٹے سے، اور بیٹے کے جرم کا مواخذہ باپ سے نہ ہو گا، سن لو! شیطان اس بات سے ناامید ہو گیا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی، لیکن عنقریب بعض کاموں میں جن کو تم معمولی جانتے ہو، اس کی اطاعت ہو گی، وہ اسی سے خوش رہے گا، سن لو! جاہلیت کے سارے خون معاف کر دئیے گئے (اب اس کا مطالبہ و مواخذہ نہ ہو گا) اور میں حارث بن عبدالمطلب کا خون سب سے پہلے زمانہ جاہلیت کے خون میں معاف کرتا ہوں، (جو قبیلہ بنی لیث میں دودھ پیا کرتے تھے اور قبیلہ ہذیل نے انہیں شیر خوارگی کی حالت میں قتل کر دیا تھا) سن لو! جاہلیت کے تمام سود معاف کر دئیے گئے، تم صرف اپنا اصل مال لے لو، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم ہو، آگاہ رہو، اے میری امت کے لوگو! کیا میں نے اللہ کا حکم تمہیں پہنچا دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا، لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ نے پہنچا دیا، آپ نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہ، اور اسے آپ نے تین بار دہرایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 5 (3334)، سنن الترمذی/الفتن 2 (2159)، تفسیر القرآن 10 (1) (3087)، (تحفة الأشراف: 10691)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/426، 489) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ہر حج کو حج اکبر کہتے ہیں، اور عمرہ کو حج اصغر، رہی بات عوام الناس کی جو ان کے درمیان مشہور ہے کہ حج اکبر اس حج کو کہتے ہیں، جس میں عرفہ کا دن جمعہ کے دن آئے اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 3056
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، عن عبد السلام ، عن الزهري ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخيف من منى، فقال:" نضر الله امرا سمع مقالتي فبلغها، فرب حامل فقه غير فقيه، ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه، ثلاث لا يغل عليهن قلب مؤمن: إخلاص العمل لله، والنصيحة لولاة المسلمين، ولزوم جماعتهم، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًى، فَقَالَ:" نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُؤْمِنٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَالنَّصِيحَةُ لِوُلَاةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں مسجد خیف میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات سنے، اور اسے لوگوں کو پہنچائے، کیونکہ بہت سے فقہ کی بات سننے والے خود فقیہ نہیں ہوتے، اور بعض ایسے ہیں جو فقہ کی بات سن کر ایسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں، تین باتیں ایسی ہیں جن میں کسی مومن کا دل خیانت نہیں کرتا، ایک اللہ کے لیے عمل خالص کرنے میں، دوسرے مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی کرنے میں، اور تیسرے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنے میں، اس لیے کہ ان کی دعا انہیں چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3198، ومصباح الزجاجة: 1060)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/80) (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے: 231) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبدالسلام ضعیف ہیں، لیکن متن صحیح ہے، بلکہ حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو: دراستہ حدیث نضر اللہ 000 للشیخ عبد المحسن العباد)

وضاحت:
۱؎: شیطان کا مکر جماعت پر نہیں چلتا، اور جو جماعت سے الگ رہتا ہے شیطان اسے اچک لیتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

Previous    14    15    16    17    18    19    20    21    22    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.