ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس پر جہاد فی سبیل اللہ کا کوئی نشان نہ ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس میں نقصان ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد 26 (1666)، (تحفة الأشراف: 12554)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/160، 214) (ضعیف)» (سند میں ابو رافع ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1666) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 478
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن حميد ، عن انس بن مالك ، قال: لما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك فدنا من المدينة قال:" إن بالمدينة لقوما ما سرتم من مسير ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم فيه"، قالوا: يا رسول الله وهم بالمدينة؟ قال:" وهم بالمدينة، حبسهم العذر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ فَدَنَا مِنَ الْمَدِينَةِ قَالَ:" إِنَّ بِالْمَدِينَةِ لَقَوْمًا مَا سِرْتُمْ مِنْ مَسِيرٍ وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ فِيهِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ؟ قَالَ:" وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے لوٹے، اور مدینہ کے نزدیک پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جس راہ پر تم چلے اور جس وادی سے بھی تم گزرے وہ تمہارے ہمراہ رہے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: مدینہ میں رہ کر بھی وہ ہمارے ساتھ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، مدینہ میں رہ کر بھی، عذر نے انہیں روک رکھا تھا“۱؎۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن سنان ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي سفيان ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بالمدينة رجالا ما قطعتم واديا ولا سلكتم طريقا إلا شركوكم في الاجر، حبسهم العذر"، قال ابو عبد الله: او كما قال: كتبته لفظا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بِالْمَدِينَةِ رِجَالًا مَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا وَلَا سَلَكْتُمْ طَرِيقًا إِلَّا شَرِكُوكُمْ فِي الْأَجْرِ، حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: أَوْ كَمَا قَالَ: كَتَبْتُهُ لَفْظًا.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم جس وادی سے بھی گزرے، یا جس راہ پر چلے ثواب میں ہر جگہ وہ تمہارے شریک رہے، انہیں عذر نے روک رکھا تھا“۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: ایسا ہی کچھ احمد بن سنان نے کہا میں نے اسے لفظ بلفظ لکھ لیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 48 (1911)، (تحفة الأشراف: 2304)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/300) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا عبد الرحمن بن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن مصعب بن ثابت ، عن عبد الله بن الزبير ، قال: خطب عثمان بن عفان الناس فقال: يا ايها الناس، إني سمعت حديثا من رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يمنعني ان احدثكم به إلا الضن بكم وبصحابتكم فليختر مختار لنفسه او ليدع، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من رابط ليلة في سبيل الله سبحانه كانت كالف ليلة صيامها وقيامها". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: خَطَبَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ النَّاسَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ بِهِ إِلَّا الضِّنُّ بِكَمْ وَبِصَحَابَتِكُمْ فَلْيَخْتَرْ مُخْتَارٌ لِنَفْسِهِ أَوْ لِيَدَعْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ رَابَطَ لَيْلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ كَانَتْ كَأَلْفِ لَيْلَةٍ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں خطبہ دیا اور فرمایا: لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے جو میں نے تم سے صرف اس لیے نہیں بیان کی کہ میں تمہارا اور تمہارے ساتھ رہنے کا بہت حریص ہوں ۱؎، اب اس پر عمل کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جس نے اللہ کے راستے میں ایک رات بھی سرحد پر پڑاؤ ڈالا، تو اسے ہزار راتوں کے صیام و قیام کے مثل ثواب ملے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9816، ومصباح الزجاجة: 976)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/61، 64) (ضعیف جدا)» (عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں، ترمذی اور نسائی کے یہاں یہ روایت «صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا» کے بغیر موجود ہے)
وضاحت: ۱؎: کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حدیث سنتے ہی تم جہاد کے لئے نکل جاؤ اور میں اکیلا رہ جاؤں۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد الرحمٰن بن زيد بن أسلم ضعيف وللحديث شاھد ضعيف عند الحاكم (2/ 81) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 479
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے راستے میں «رباط»(سرحد پر پڑاؤ ڈالے ہوئے) مر جائے، تو جو وہ نیک عمل کرتا تھا اس کا ثواب اس کے لیے جاری رہے گا، جنت میں سے اس کا رزق مقرر ہو گا، قبر کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ہر ڈر اور گھبراہٹ سے محفوظ اٹھائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14617، ومصباح الزجاجة: 978)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/404) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل بن سمرة ، حدثنا محمد بن يعلى السلمي ، حدثنا عمر بن صبح ، عن عبد الرحمن بن عمرو ، عن مكحول ، عن ابي بن كعب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لرباط يوم في سبيل الله من وراء عورة المسلمين محتسبا من غير شهر رمضان، اعظم اجرا من عبادة مائة سنة صيامها وقيامها، ورباط يوم في سبيل الله من وراء عورة المسلمين محتسبا من شهر رمضان، افضل عند الله واعظم اجرا، اراه قال: من عبادة الف سنة صيامها وقيامها، فإن رده الله إلى اهله سالما لم تكتب عليه سيئة الف سنة، وتكتب له الحسنات، ويجرى له اجر الرباط إلى يوم القيامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ سَمُرَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْلَى السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ صُبْحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَرِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مِنْ وَرَاءِ عَوْرَةِ الْمُسْلِمِينَ مُحْتَسِبًا مِنْ غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ عِبَادَةِ مِائَةِ سَنَةٍ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا، وَرِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مِنْ وَرَاءِ عَوْرَةِ الْمُسْلِمِينَ مُحْتَسِبًا مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، أَفْضَلُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَعْظَمُ أَجْرًا، أُرَاهُ قَالَ: مِنْ عِبَادَةِ أَلْفِ سَنَةٍ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا، فَإِنْ رَدَّهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِهِ سَالِمًا لَمْ تُكْتَبْ عَلَيْهِ سَيِّئَةٌ أَلْفَ سَنَةٍ، وَتُكْتَبُ لَهُ الْحَسَنَاتُ، وَيُجْرَى لَهُ أَجْرُ الرِّبَاطِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثواب کی نیت سے مسلمانوں کے ناکے پر (جہاں سے دشمن کے حملہ آور ہونے کا ڈر ہو) اللہ کی راہ میں سرحد پر ایک دن پڑاؤ کی حفاظت کا ثواب غیر رمضان میں سو سال کے روزوں، اور ان کے قیام اللیل صیام سے بڑھ کر ہے، اور اللہ کے راستے میں مسلمانوں کے ناکے پر ثواب کی نیت سے رمضان میں ایک دن کی سرحد کی نگرانی کا ثواب ہزار سال کے نماز سے بڑھ کر ہے، پھر اگر اللہ تعالیٰ نے اسے صحیح سالم گھر لوٹا دیا تو ایک ہزار سال تک اس کی برائیاں نہیں لکھی جائیں گی، نیکیاں لکھی جائیں گی، اور قیامت تک «رباط» کا ثواب جاری رہے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 75، ومصباح الزجاجة: 979) (موضوع)» (سند میں عمر بن صبح ہے، جو وضع حدیث کرتا تھا، نیز محمد بن یعلی ضعیف راوی ہے، اور مکحول کی أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده موضوع عمر بن صبح: متروك كذبه ابن راھويه ومحمد بن يعلي السلمي: ضعيف وقال المنذري: ”وآثار الوضع ظاهرة عليه“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 479
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ لشکر کے پہرہ دار پر رحم فرمائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9945، ومصباح الزجاجة: 980)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الجہاد 11 (2445) (ضعیف)» (سند میں صالح بن محمد بن زائدہ ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف صالح بن محمدبن زائدة: ضعيف و عمر بن عبدالعزيز لم يلق عقبة بن عامر رضي اللّٰه عنه وللحديث لون آخر ضعيف عند الحاكم (86/2) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 479
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ے سنا: ”اللہ کی راہ میں ایک رات پہرہ دینا، کسی آدمی کے اپنے گھر میں رہ کر ایک ہزار سال کے صوم و صلاۃ سے بڑھ کر ہے، سال تین سو ساٹھ دن کا ہوتا ہے، جس کا ہر دن ہزار سال کے برابر ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 860، ومصباح الزجاجة: 981) (موضوع)» (سند میں سعید بن خالد الطویل ہے، جو وضع حدیث کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1234، اس موضوع پر صحیح حدیث کے لئے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1866)
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده موضوع سعيد بن خالد: منكر الحديث (تقريب: 2290) وقال الھيثمي: ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 14/10) وقال الحاكم: روي عن أنس بن مالك أحاديث موضوعة (المدخل إلي الصحيح ص 141) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 479
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: ”میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے، اور ہر اونچی زمین پر اللہ اکبر کہنے کی وصیت کرتا ہوں“۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة ، انبانا حماد بن زيد ، عن ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: ذكر النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" كان احسن الناس، وكان اجود الناس، وكان اشجع الناس، ولقد فزع اهل المدينة ليلة فانطلقوا قبل الصوت فتلقاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لابي طلحة عري ما عليه سرج في عنقه السيف وهو يقول:" يا ايها الناس لن تراعوا" يردهم، ثم قال للفرس:" وجدناه بحرا، او إنه لبحر". قال حماد، وحدثني ثابت، او غيره قال: كان فرسا لابي طلحة يبطا فما سبق بعد ذلك اليوم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: ذُكِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" كَانَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَانْطَلَقُوا قِبَلَ الصَّوْتِ فَتَلَقَّاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ سَبَقَهُمْ إِلَى الصَّوْتِ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ مَا عَلَيْهِ سَرْجٌ فِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ لَنْ تُرَاعُوا" يَرُدُّهُمْ، ثُمَّ قَالَ لِلْفَرَسِ:" وَجَدْنَاهُ بَحْرًا، أَوْ إِنَّهُ لَبَحْرٌ". قَالَ حَمَّادٌ، وَحَدَّثَنِي ثَابِتٌ، أَوْ غَيْرُهُ قَالَ: كَانَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ يُبَطَّأُ فَمَا سُبِقَ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے“، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کے متعلق فرمایا: ”ہم نے اسے سمندر پایا، یا واقعی یہ تو سمندر ہے“۔ حماد کہتے ہیں: مجھ سے ثابت نے یا کسی اور نے بیان کیا کہ وہ گھوڑا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا تھا، جو سست رفتار تھا لیکن اس دن کے بعد سے وہ کبھی کسی گھوڑے سے پیچھے نہیں رہا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب امام یا حاکم جہاد کے لئے نکلنے کا اعلان عام کر دے تو ہر ایک مسلمان جس کو کوئی عذر نہ ہو، کا جہادکے لیے نکلنا واجب ہے۔ ۲؎: یہ برکت تھی آپ ﷺ کے فرمانے کی، آپ ﷺ کی زبان سے جو نکلا حق تعالیٰ ویسا ہی کر دیا ایک سست رفتار اور خراب گھوڑا دم بھر میں عمدہ گھوڑوں سے زیادہ تیز اور چالاک ہو گیا۔