سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے غلام کو قتل کیا ہم اسے قتل کریں گے، اور جس نے اس کی ناک کاٹی ہم اس کی ناک کاٹیں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 7 (4515، 4516، 4517)، سنن الترمذی/الدیات 18 (1414)، سنن النسائی/القسامة 6 (4740)، 7 (4743)، 12 (4757)، (تحفة الأشراف: 4586، ومصباح الزجاجة: 936)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/10، 11، 12)، سنن الدارمی/الدیات 7 (2403) (ضعیف)» (حسن بصری نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نہیں سنی ہے)
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو جان بوجھ کر قتل کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سو کوڑے مارے، ایک سال کے لیے جلا وطن کیا، اور مسلمانوں کے حصوں میں سے اس کا حصہ ختم کر دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8663، 10022، ومصباح الزجاجة: 938) (ضعیف جدا)» (سند میں اسحاق بن عبد اللہ متروک راوی ہے، اور اسماعیل بن عیاش غیر شامیوں سے روایت میں ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا إسحاق بن أبي فروة: متروك انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک عورت کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بڑے پتھر سے اگر کوئی مارے جس سے آدمی مر جاتا ہے تو اس میں قصاص واجب ہوتا ہے اس لیے کہ وہ قتل عمد ہے، اس میں قصاص واجب ہو گا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر مار ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی سے (اس کی موت سے پہلے) پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے کے متعلق پوچھا: (کیا فلاں نے مارا ہے؟) دوبارہ بھی اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کے متعلق پوچھا: تو اس نے سر کے اشارے سے کہا: ہاں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کر قتل کر دیا ۱؎۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصاص صرف تلوار سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11646، ومصباح الزجاجة: 940) (ضعیف جدا)» (سند میں جابر الجعفی ضعیف ہے، بلکہ کذاب ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإروا: 7/287)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا جابر الجعفي: ضعيف رافضي وأبو عازب:مستور (تقريب: 8194) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 475
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصاص صرف تلوار سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشر اف: 11669، ومصباح الزجاجة: 939) (ضعیف)» (سند میں مبارک بن فضالہ اور حسن بصری مدلس ہیں، اور دونوں نے روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز حسن بصری نے ابوبکرة رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نہیں سنی، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 2229)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الحسن عنعن وللحديث طريق معلول عند الدار قطني (106/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 475
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”خبردار! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا، (یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10694)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفتن 2 (2159) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کی شرح میں ابن الأثیر فرماتے ہیں: «جنایہ»: گناہ اور جرم انسان کے اس کام کا نام ہے جس پر دنیا یا آخرت میں وہ عذاب یا قصاص کا مستحق ہوتا ہے، یعنی کسی رشتہ دار یا دوسرے آدمی کو غیر کے گناہ اور جرم پر نہیں پکڑا جائے گا، تو جب کوئی جرم کرے گا تو اس پر دوسرے کو سزا نہ دی جائے گی، جیسا کہ ارشادہے: «لا تزر وازرة وزر أخرى»(سورة الأنعام: 164)”کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا“ یعنی اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا، اور جس نے اچھا یا برا جو کچھ کیا ہو گا، اس کے مطابق جزا و سزا دے گا، نیکی کا اچھا بدلہ اور برے کاموں پر سزا دے گا، اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔
طارق محاربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے خبردار! کوئی ماں اپنے بچے کے جرم میں نہیں پکڑی جائے گی، خبردار! کوئی ماں اپنے بچے کے جرم میں نہیں پکڑی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4990، ومصباح الزجاجة: 941)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/القسامة 35 (4837) (صحیح)»
خشخاش عنبری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری اس کے جرم پر اور اس کی تیرے جرم پر گرفت نہیں ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3534، ومصباح الزجاجة: 942)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/345، 5/81) (صحیح)»