(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة ، انبانا حماد بن زيد ، عن يحيى بن سعيد ، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف ، ان عثمان بن عفان اشرف عليهم فسمعهم وهم يذكرون القتل، فقال: إنهم ليتواعدوني بالقتل فلم يقتلوني وقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يحل دم امرئ مسلم إلا في إحدى ثلاث: رجل زنى وهو محصن فرجم، او رجل قتل نفسا بغير نفس، او رجل ارتد بعد إسلامه"، فوالله ما زنيت في جاهلية ولا في إسلام ولا قتلت نفسا مسلمة ولا ارتددت منذ اسلمت. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَسَمِعَهُمْ وَهُمْ يَذْكُرُونَ الْقَتْلَ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونِي بِالْقَتْلِ فَلِمَ يَقْتُلُونِي وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ زَنَى وَهُوَ مُحْصَنٌ فَرُجِمَ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، أَوْ رَجُلٌ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلَامِهِ"، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا مُسْلِمَةً وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ.
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان (بلوائیوں) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا: ”یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں: ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کا ارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کر دے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مرتد ہو جائے)، اللہ کی قسم میں نے نہ کبھی جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام میں، نہ میں نے کسی مسلمان کو قتل کیا، اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد ارتداد کا شکار ہوا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حجت قائم کی ان بے رحم باغیوں پر جو آپ کے قتل کے درپے تھے، لیکن انہوں نے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں دیا، اور بڑی بے رحمی کے ساتھ گھر میں گھس کر آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، اس وقت آپ روزے سے تھے، اور تلاوت قرآن میں مصروف تھے، «إنا للہ وإنا إلیہ راجعون» ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کا جو صرف اللہ کے معبود برحق ہونے، اور میرے اللہ کا رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو، خون کرنا حلال نہیں، البتہ تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ہو تو حلال ہے: اگر اس نے کسی کی جان ناحق لی ہو، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہوا ہو، یا اپنے دین (اسلام) کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو گیا ہو (یعنی مرتد ہو گیا ہو)“، (تو ان تین صورتوں میں اس کا خون حلال ہے)۱؎۔
وضاحت: ۱؎: پس جہاں توحید و رسالت پر ایمان لایا، مسلمان ہو گیا، اب اس کا خون بہانا حرام اور ناجائز ٹھہرا، اگرچہ وہ دوسرے فروعی مسائل میں کتنا ہی اختلاف رکھتا ہو۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس عمدہ قانون کو چھوڑ کر آپس ہی میں اختلاف و تشدد اور لڑائی جھگڑے کا بازار گرم کیا، اور مسلمان مسلمان ہی کو مارنے لگے، اور ان کے بعض جاہل مولوی فتوی دینے لگے کہ فلاں مسلمان اس مسئلہ میں خلاف کرنے سے کافر اور مرتد اور واجب القتل ہو گیا، حالانکہ صحیح حدیث سے صاف ثابت ہے کہ جو توحید اور رسالت کو مانتا ہو وہ مسلمان ہے، اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں، اب اگر یہ کہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکاۃ کے خلاف جہاد کیا تھا، حالانکہ وہ توحید اور رسالت کو مانتے تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ زکاۃ اسلام کا رکن ہے، اور اس کے ساتھ بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ پر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا تھا، جب انہوں نے ان لوگوں سے لڑنا چاہا تھا، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ امام اور خلیفہ وقت تھے، اور ان کی اطاعت بموجب حدیث نبوی واجب تھی اور انہوں نے دلیل لی دوسری احادیث و آیات سے، اب ایسا واجب اطاعت امام اور خلیفہ کون ہے جس کے ماتحت ہو کر تم مسلمانوں سے لڑتے ہو اور ان کو ستاتے ہو، اور بات بات پر مار کاٹ اور زد و کوب اور سب و شتم کا ارتکاب کرتے ہو، بھلا دوران نماز رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، آمین زورسے یا آہستہ کہنا، ہاتھ زیر ناف یا ٍسینے پر باندھنا، یہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے مسلمانوں میں فتنہ و فساد ہو؟ اور ان کی عزت اور جان کو داؤ پر لگایا جائے؟ سنت نبوی پر عمل کرنے والوں کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں اور ان کو مارنے پیٹنے والوں کا معاملہ قاتلین عثمان کی طرح ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے“، پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس نکتہ کو سمجھیں اور باہم متحد ہو جائیں، مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ جب وہ آپس میں فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے لڑتے جھگڑتے ہیں تو ان کی اس ناسمجھی پر دشمن کتنا ہنستے اور خوش ہوتے ہیں، برخلاف مسلمانوں کے نصاری میں متعدد فرقے ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمی خیال کرتا ہے، لیکن عیسی علیہ السلام کے ماننے کی وجہ سے سب ایک رہتے ہیں، اور غیر مذہب والوں سے مقابلہ کرتے وقت سب ایک دوسرے کے مددگار اور معاون بن جاتے ہیں، مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے کہ جو کوئی اللہ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، محمد ﷺ کو سچا رسول اور آخری نبی جانے اس آدمی کو اپنا مسلمان بھائی سمجھیں، گو فروعی مسائل میں اختلاف باقی رہے۔مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی رسی یعنی کتاب و سنت کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور آپس میں اختلاف نہ کریں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُواْ»(سورة آل عمران: 103)”سب مل کراللہ کی رسی - یعنی اس کے دین اور کتاب و سنت - کومضبوطی سے تھام لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو“، نیز رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: «تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله و سنة رسوله»”میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب اللہ و سنت رسول چھوڑی ہیں جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہو گے“۔
وضاحت: ۱؎: ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیحین میں ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن میں ان کے پاس گئے، وہاں ایک شخص بندھا ہوا تھا، انہوں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: یہودی تھا پھر مسلمان ہو گیا، اب پھر یہودی ہو گیا، معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق اسے قتل نہ کر دیا جائے، اور مرتد چاہے مرد ہو یا عورت واجب القتل ہے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے قید کریں گے، یہاں تک کہ دوبارہ دین اسلام میں داخل ہو جائے۔ اور فقہاء کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے مرتد کے ان شبہات کا ازالہ کریں گے جو اس کو اسلام کے بارے میں لاحق ہے، اور تین دن تک قید میں رکھیں گے، اگر اس پر بھی مسلمان نہ ہو تو اس کو قتل کر دیں گے۔
معاویہ بن حیدۃ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا جو اسلام لانے کے بعد شرک کرے، الا یہ کہ وہ پھر مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے مل جائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 1 (2438)، 73 (2569)، (تحفة الأشراف: 11388)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/5) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی دار الکفر سے دار الاسلام میں آ جائے، مراد وہ دار الکفر ہے جہاں مسلمان اسلام کے ارکان اور عبادات بجا نہ لا سکیں، ایسی جگہ سے ہجرت کرنا فرض ہے اور بعضوں نے کہا: مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہونے کا مقصدیہ ہے کہ کافروں کی عادات و اخلاق چھوڑ دے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی ایک حد کا نافذ کرنا اللہ تعالیٰ کی زمین پر چالیس رات بارش ہونے سے بہتر ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7381، ومصباح الزجاجة: 899) (حسن)» (سند میں سعید بن سنان ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 331)
وضاحت: ۱؎: جیسے بارش سے خوشحالی آ جاتی ہے، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔ ایسے ہی رعایا کی زندگی اسلامی حدود کے نافذ کرنے سے ہوتی ہے، مجرمین کو سزا ہوتی ہے لوگوں کے جان و مال محفوظ رہتے ہیں، اور لوگوں کو راحت حاصل ہوتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا سعيد بن سنان الحنفي الحمصي: ”متروك رماه الدار قطني وغيره بالوضع“ (تقريب: 2333) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 470
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی ایک حد جو دنیا میں نافذ ہو، اہل زمین کے لیے یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ چالیس دن تک بارش ہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/قطع السارق 7 (4919، 4920 موقوفاً)، (تحفة الأشراف: 14888)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/362، 402) (حسن)» (سند میں جریر بن یزید ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (4908،4909) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 470
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا حفص بن عمر ، حدثنا الحكم بن ابان ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من جحد آية من القرآن، فقد حل ضرب عنقه، ومن قال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله، فلا سبيل لاحد عليه، إلا ان يصيب حدا، فيقام عليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ جَحَدَ آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَدْ حَلَّ ضَرْبُ عُنُقِهِ، وَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَلَا سَبِيلَ لِأَحَدٍ عَلَيْهِ، إِلَّا أَنْ يُصِيبَ حَدًّا، فَيُقَامَ عَلَيْهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو قرآن کی کسی آیت کا انکار کرے، اس کی گردن مارنا حلال ہے، اور جو یہ کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اس پر زیادتی کرنے کا اب کوئی راستہ باقی نہیں، مگر جب وہ کوئی ایسا کام کر گزرے جس پر حد ہو تو اس پر حد جاری کی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6042، ومصباح الزجاجة: 900) (ضعیف)» (سند میں حفص بن عمر ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1416)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حفص بن عمر العدني: ضعيف (تقريب: 1420) والسند ضعفه البوصيري من أجله انوار الصحيفه، صفحه نمبر 470
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کرو، خواہ کوئی قریبی ہو یا دور کا، اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5087، ومصباح الزجاجة: 901)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/330) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبيدة بن الأسود مدلس وعنعن وللحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 471
عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ غزوہ قریظہ کے دن (جب بنی قریظہ کے تمام یہودی قتل کر دیئے گئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو جس کے زیر ناف بال اگ آئے تھے اسے قتل کر دیا گیا، اور جس کے نہیں اگے تھے اسے (نابالغ سمجھ کر) چھوڑ دیا گیا، میں ان لوگوں میں تھا جن کے بال نہیں اگے تھے تو مجھے چھوڑ دیا گیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عطیہ رضی اللہ عنہ کا تعلق یہود بنی قریظہ سے تھا، غزوہ احزاب کے فوراً بعد اس قبیلے کی غداری اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد اس پر چڑھائی کا واقعہ پیش آیا، اس غزوہ میں عطیہ رضی اللہ عنہ دیگر نابالغ بچوں کے ساتھ قتل ہونے سے بچ گئے، اور بعد میں اسلام قبول کیا، ان کا اسلام اور ان کی اسلامی خدمات بہت اعلیٰ درجے کی ہیں۔