عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ میں سے کئی لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اپنے جی میں کہا: یہ تو مال نہیں ہے، یہ اللہ کے راستے میں تیر اندازی کے لیے میرے کام آئے گا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم کو یہ اچھا لگے کہ اس کمان کے بدلے تم کو آگ کا ایک طوق پہنایا جائے تو اس کو قبول کر لو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 37 (3416)، (تحفة الأشراف: 5068)، وقدأخرجہ: مسند احمد (5/315) (صحیح)» (سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 256)
وضاحت: ۱؎: اہل صفہ وہ صحابہ جو مسجد نبوی کے سائبان میں رہا کرتے تھے۔ اس حدیث سے حنفیہ نے استدلال کرتے ہوئے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کو ناجائز کہا ہے، تلاوت پر اجرت لینا جائز ہے، تلاوت پر اجرت لینے کا جواز ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نکلتا ہے (جو اوپر گزری، ملاحظہ ہو حدیث ۲۱۵۶)، اور صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے ابوسعید سے کہا: آپ نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی، اس پر انہوں نے فرمایا کہ سب سے زیادہ جس کے اجرت لینے کا حق ہے، وہ اللہ کی کتاب ہے، اور احمد، ابوداود اور نسائی میں ہے کہ خارجہ کے چچا نے جب سورہ فاتحہ سے دیوانے پر جھاڑ پھونک کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم اس کی اجرت لے لو، قسم میری عمر کی! لوگ تو جھاڑ پھونک سے جھوٹ پیدا کرتے ہیں تو نے سچ جھاڑ پھونک کر کے کھایا۔ اور تعلیم پر اجرت جائز نہ ہونے کی دلیل عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے، دوسرے ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث جو آگے آ رہی ہے، تیسرے مسند احمد میں عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے کہ قرآن پڑھو، اس میں غلو اور جفا مت کرو اور اس سے روٹی مت کھاؤ اور مال مت بڑھاؤ، بزار نے بھی اس کے کئی شاہد ذکر کئے ہیں۔ چوتھی مسند احمد و ترمذی میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ سے فرمایا: قرآن پڑھو اور اللہ تعالی سے قرآن کا بدلہ مانگو، اس لئے کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو لوگوں سے قرآن کا عوض مانگیں گے، اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔ لیکن جن علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کا فتوی دیا ہے وہ اس اعتبار سے کہ اس کے سیکھنے سکھانے میں معلم نے اپنا وقت لگایا، تو اس کے لئے اس نیک عمل پر اجرت کا لینا وقت کے مقابل جائز ہوا۔
It was narrated that 'Ubadah bin Samit said:
"I taught people from Ahtus-Suffah" Qur'an and how to write, and one of them gave me a bow. I said: 'It is not money, and I can shoot (with it) for the sake of Allah., I asked the Messenger of Allah (ﷺ) about it and he said: 'If it would please you to have a necklace of fire placed around your neck, then accept it.'"
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھنا سکھایا تو اس نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم نے یہ لی تو آگ کی ایک کمان لی“، اس وجہ سے میں نے اس کو واپس کر دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 69، ومصباح الزجاجة: 758) (صحیح)» (سند میں عطیہ اور أبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور عبدالرحمن بن سلم مجہول راوی ہیں، سند میں اضطراب بھی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1493)
It was narrated that Ubayy bin Ka'b said:
"I taught a man the Qur'an, and he gave me a bow. I mentioned that to the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: 'If you accept it you will be accepting a bow of fire.' So I returned it."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عطية بن قيس الكلاعي عن أبي بن كعب مرسل (جامع التحصيل ص 239) و الحديث السابق (الأصل: 2157) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 456
ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی اجرت سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتے کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے، مگر نسائی کی روایت کے مطابق شکاری کتا اس سے مستثنی ہے یعنی اس کی قیمت جائز اور نجومی میں وہ رمال، جفار اور جوتشی وغیرہ بھی شامل ہیں جو مستقبل کی باتیں بتاتے ہیں۔
It was narrated from Abu Mas'ud that :
the Prophet (ﷺ) forbade the price of a dog, the payment (given to a prostitute) and the payment made to a soothsayer.
وضاحت: ۱؎: نر گھوڑا، اونٹ یا گدھا یا بیل یا بکرا وغیرہ کی مادہ جانوروں سے جفتی کرانے کی اجرت لینا منع ہے، البتہ اگر بطور احسان و سلوک کے بلا شرط کے کچھ دے دے، تو اس کا لینا جائز ہے اور نر کا عاریتاً دینا مستحب ہے، اور علماء کی ایک جماعت نے اس کی اجرت کی بھی اجازت دی ہے تاکہ نسل ختم نہ ہو، لیکن اکثر صحابہ اور فقہاء ان احادیث کی رو سے اس کی حرمت کے قائل ہیں۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی کی قیمت سے منع کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 2783)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 49 (1279)، سنن النسائی/الصید 16 (4300)، البیوع 90 (4672)، سنن ابی داود/البیوع 64 (3479)، مسند احمد (3/339، 349) (صحیح)» (سند میں ابن لہیعہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ایسا ہی ابوالزبیر کی روایت کا معاملہ ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 2971)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بلی بلا قیمت اکثر جگہوں پر مل جاتی ہے، اور اس کی نسل بھی بہت ہوتی ہے، قیمت سے خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے (یعنی نہ خریدنا زیادہ اچھا ہے)، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کی ایک جماعت سے یہ مروی ہے کہ بلی کی قیمت کسی حال میں لینا جائز نہیں، اور اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور حجام (پچھنا لگانے والے) کو اس کی اجرت دی۔ ابن ماجہ کا قول ہے کہ ابن ابی عمر اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔
It was narrated from Ibn 'Abbas that :
the Prophet (ﷺ) was treated with cupping and he gave him (the cupper) his wages. (Sahih)Ibn Abu 'Umar was alone in narrating it. That was said by Ibn Majah. [1]
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور مجھے حکم دیا تو میں نے حجام (پچھنا لگانے والے) کو اس کی اجرت دی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10284، ومصباح الزجاجة: 766)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/90، 134، 135) (صحیح)» (عبدالاعلی بن عامر متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن باب کی احادیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)