جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی کی قیمت سے منع کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بلی بلا قیمت اکثر جگہوں پر مل جاتی ہے، اور اس کی نسل بھی بہت ہوتی ہے، قیمت سے خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے (یعنی نہ خریدنا زیادہ اچھا ہے)، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کی ایک جماعت سے یہ مروی ہے کہ بلی کی قیمت کسی حال میں لینا جائز نہیں، اور اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 2783)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 49 (1279)، سنن النسائی/الصید 16 (4300)، البیوع 90 (4672)، سنن ابی داود/البیوع 64 (3479)، مسند احمد (3/339، 349) (صحیح)» (سند میں ابن لہیعہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ایسا ہی ابوالزبیر کی روایت کا معاملہ ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 2971)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2161
اردو حاشہ: فائدہ: بلی میں وہ فوائد نہیں جو کتے میں ہیں، اس لیے اس کی خریدو فروخت جائز نہیں۔ اور جن علماء کے نزدیک کتے کی خریدو فروخت منع ہے ان کے نزدیک بلی کی خریدو فروخت بالاولیٰ منع ہوگی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2161
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4300
´شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی ۱؎ اور کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا، سوائے شکاری کتے کے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: حماد بن سلمہ سے حجاج (حجاج بن محمد) نے جو حدیث روایت کی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4300]
اردو حاشہ: امام صاحب کی بات کی تائید دوسرے محدثین نے بھی کی ہے کیونکہ یہ روایت شکاری کتے کے استشنا کے بغیر صحیح سندوں کے ساتھ آتی ہے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر شکاری کتے کا استشنا مذکور نہیں۔ اس روایت کے الفاظ ہیں: بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کی شیرینی (نذرو نیاز) سے منع کیا ہے۔ (صحیح مسلم‘المساقاة‘باب تحریم ثمن الکلب.....حدیث:1567)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4300
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3250
´بلی کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3250]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: بلی، کچلی والا جانور ہے لہٰذا یہ حرام ہے۔ کچلی کی وضاحت کےلیے دیکھیے فوائد حدیث: 3232۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3250
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1280
´کتے اور بلی کی قیمت کی کراہت کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1280]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں عمربن زید صنعانی ضعیف ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1280
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن نسائی4300
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا، سوائے شکاری کتے کے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: حماد بن سلمہ سے حجاج (حجاج بن محمد) نے جو حدیث روایت کی ہے وہ صحیح نہیں ہے ... [سنن نسائي 4300]
کیا کتوں کا بیچنا جائز ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتے کی قیمت حلال نہیں ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کتے کی قیمت لینے آئے تو اس کے ہاتھوں کو مٹی سے بھر دو۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بھی کتے اور بلی کی قیمت کو ناجائز سمجھتے تھے۔
جن روایات میں بعض کتوں کا بیچنا جائز قرار دیاگیا ہے وہ ساری کی ساری ضعیف و مردود ہیں۔
کتے کی قیمت حرام و خبیث ہونے کے مقابلے میں بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا بیچنا جائز ہے۔ یہ سارے اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 57: «مَالِكٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بنِ الحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ أَبِيْ مَسْعُوْدٍ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم نَهَي عَنْ ثَمَنِ الكَلْبِ وَمَهْرِ البَغْيِ وَحُلْوانِ الكَاهِنِ.» (سیدنا) ابو مسعود (عقبہ بن عمرو) الانصاری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت سے، زانیہ کی خرچی سے اور کاہن (نجومی) کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے۔
تحقیق: صحیح
وصرح ابن شہاب بالسماع عند الحمیدی [بتحقيقي: 451]
تخریج: متفق علیہ [الموطأ رواية يحييٰ 2/ 656 ح 1400، ك 31 ب 29 ح 68 التمهيد 8/ 397، الاستذكار: 1321]
٭ وأخرجہ البخاری (2237) ومسلم (1567) من حدیث مالک بہ۔ تفقہ:
یہ حدیث ان لوگوں کا زبردست رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کتا بیچنا جائز ہے۔!
اس پر اجماع ہے کہ زانیہ کی خرچی اور کاہن کی مٹھائی حرام ہے۔ [التمهيد 8/ 398]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «ثمن الكلب خبيث ومهر البغي خبيث وكسب الحجام خبيث»
کتے کی قیمت خبیث ہے اور زانیہ کی خرچی خبیث ہے اور حجام کی کمائی خبیث ہے۔ [صحيح مسلم: 41/ 1568، 4012]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لايحل ثمن الكلب»
کتے کی قیمت حلال نہیں ہے۔ [سنن ابي داود: 3484 وسنده حسن]
ایک حدیث میں آیا ہے کہ:
اگر کوئی شخص کتے کی قیمت لینے آئے تو اس کے ہاتھوں کو مٹی سے بھر دو۔ [سنن ابي داود: 3482 وسنده صحيح]
جن روایات میں بعض کتوں کا بیچنا جائز قرار دیاگیا ہے وہ ساری کی ساری ضعیف و مردود ہیں۔ مثلاً: «عن جابر أن النبى ﷺ نهي عن ثمن السنور والكلب إلا كلب صيد» [سنن النسائي 7/191 ح 4300 وقال: ليس هو بصحيح 7/309 ح 4672 وقال: ”هٰذا منكر“]
یہ روایت ابو الزبیر محمد بن مسلم بن تدرس کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابو الزبیر مشہور مدلس تھے۔ دیکھئے: [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص 61، 62 رقم 3/ 101] «عن أبى هريرة نهي عن مهر البغي وعسب الفحل وعن ثمن السنور وعن الكلب إلا كلب صيد» [السنن الكبريٰ للبيهقي 6/6]
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
1- محمد بن یحییٰ بن مالک الضبی کی توثیق نامعلوم ہے۔
2- حماد بن سلمہ اور قیس بن سعد دونوں ثقہ ہیں لیکن حماد کی قیس سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ «قال البيهقي: ورواية حماد عن قيس فيها نظر»[ايضاً 6/6]
حماد بن سلمہ عن قیس بن سعد والی یہی روایت صحیح ابن حبان میں موجود ہے لیکن اس میں کتا بیچنے کی اجازت نہیں بلکہ لکھا ہوا ہے کہ: «إنّ مهر البغي وثمن الكلب والسنور وكسب الحجام من السحت» [الاحسان7/ 217 ح 4920]
سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے کتے اور بلی کی قیمت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: «زجر النبى ﷺ عن ذلك»
نبی ﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم: 42/1569، 4015]
اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بھی کتے اور بلی کی قیمت کو ناجائز سمجھتے تھے۔
سنن دارقطنی (3/ 72، 73 ح 3045، 3046، 3047) میں بعض روایتیں مروی ہیں جن سے بعض کتوں کی فروخت کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ساری روایتیں ضعیف و مردود ہیں اور ان میں سے بعض کے راویوں کو خود امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
آلِ تقلید کی پیش کردہ بعض مزید روایات کی تحقیق درج ذیل ہے: «أبو حنيفة عن الهيثم عن عكرمة عن ابن عباس قال: رخص رسول الله ﷺ فى ثمن كلب الصيد» [مسند ابي حنيفه رواية الحصكفي ص 169، اردو مترجم ص 319، جامع المسانيد للخوارزمي 2/ 10، 11]
مسند الحصکفی (متوفی 650 ھ) کا ایک سابق راوی ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی تھا۔ [اردو مترجم ص 24 مسند الحصكفي ص 27]
عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی محدثینِ کرام کے نزدیک سخت مجروح ہے۔ ابو زرعہ احمد بن الحسین الرازی نے کہا: ”ضعیف“[سوالات حمزه بن يوسف السهمي: 318]
ابو احمدالحافظ اور حاکم نیشاپوری نے کہا: «الأستاذ ينسج الحديث» یہ استاد تھا، حدیث بناتا تھا۔ [كتاب القراءت خلف الامام للبيهقي ص178 ح 388]
یعنی یہ شخص حدیثیں گھڑنے میں پورا استاد تھا۔ اس پر خطیب بغدادی، خلیلی، ابن جوزی اور حافظ ذہبی وغیرہ نے جرح کی ہے۔ [تاريخ بغداد 10/ 126 ت 5262، الارشاد للخليلي، 3/972 ت 899، كتاب الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي 2/ 141، ديوان الضعفاء للذهبي 2/ 63 ت 2297]
نیز دیکھئے میزان الاعتدال (2/ 496) ولسان المیزان (3/ 348، 349)
اس کی توثیق کسی قابلِ اعتماد محدث سے ثابت نہیں ہے۔
جامع المسانید للخوارزمی کی سندوں کاجائزہ درج ذیل ہے:
1- خوارزمی بذاتِ خود غیر موثق ومجہول التوثیق ہے۔
2- ابو محمد البخاری الحارثی کذاب ہے۔ کما تقدم
3- احمد بن محمد بن سعید عرف ابن عقدہ جمہور محدثین کے نزدیک مجروح راوی ہے۔ امام دارقطنی نے اس کی تعریف کے باوجود فرمایا کہ یہ خراب آدمی یعنی رافضی تھا۔ [تاريخ بغداد 5/ 22 ت 2365 وسنده صحيح]
اور فرمایا: یہ منکر روایتیں کثرت سے بیان کرتا تھا۔ [ايضاً وسنده صحيح]
ابو عمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا البغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ شخص جامع براثا میں صحابۂ کرام یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما وغیرہما پر تنقیدیں لکھوایا کرتا تھا لہٰذا میں نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا۔ [سوالات حمزة السهمي: 166، وسنده صحيح]
یہ (ابن عقدہ) چور بھی تھا، اس نے عثمان بن سعید المری کے بیٹے کے گھر سے کتابیں چُرا لی تھیں۔ [الكامل فى الضعفاء لابن عدي 1/209 وسنده صحيح، محمد بن الحسين بن مكرم البغدادي ثقة وثقه الدارقطني وغيره]
معلوم ہوا کہ ابن عقدہ چور، ساقط العدالت اور رافضی تھا۔
4- احمد بن عبداللہ بن محمد الکندی اللجلاج نے امام ابو حنیفہ کے لئے منکرحدیثیں بیان کی ہیں۔ [الكامل لابن عدي 1/ 197]
امام ابو حنیفہ ایسی منکر حدیثوں کے محتاج نہیں ہیں۔ والحمدللہ
احمد بن عبداللہ الکندی کی اس کتے والی روایت کو حافظ عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ نے باطل حدیث قرار دیا ہے۔ [الاحكام الوسطيٰ 3/ 249، 248، لسان الميزان 1/ 199]
5- محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی کے بارے میں اسماء الرجال کے امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: ”لیس بشئ“ وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ [تاريخ ابن معين: 1770]
امام ابن معین نے مزید فرمایا: «جهمي كذاب» محمدبن الحسن الشیبانی جہمی کذاب ہے۔ [كتاب الضعفاء للعقيلي 4/ 52 وسنده صحيح]
دوسری سندمیں احمد بن عبداللہ الکندی اور محمد بن الحسن الشیبانی دونوں مجروح ہیں اور الحسن بن الحسین الانطاکی نامعلوم ہے۔ تیسری سند میں ابن عقدہ چور، عبداللہ بن محمد البخاری کذاب اور احمد بن عبداللہ الکندی و محمد بن الحسن دونوں مجروح ہیں۔ چوتھی سند میں حسین بن محمدبن خسرو البلخی، الحسین بن الحسین انطاکی (؟) احمد بن عبداللہ اور محمد بن الحسن مجروح ہیں۔ پانچویں سند میں ابن خسرو، حسین بن حسین، احمد بن عبداللہ الکندی اور محمد بن الحسن ہیں۔ چھٹی اور آخری سندمیں ابن خسرو معتزلی مجروح ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (2/ 312) وسیر اعلام النبلاء (19/ 592) قاضی ابو نصر بن اشکاب اور عبداللہ بن طاہر نامعلوم اور محمدبن الحسن الشیبانی مجروح ہے۔ خلاصۃ التحقیق: یہ روایت باطل و مردود ہے اور امام ابو حنیفہ سے ثابت ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بعض کتوں کی فروخت کے جواز والی سب روایتیں ضعیف و مردود ہیں۔
کتے کی قیمت حرام و خبیث ہونے کے مقابلے میں بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتابیچنا جائز ہے۔ دیکھئے الہدایہ للمرغینانی (2/ 101، واللفظ لہ، 3/ 79) القدوری (ص74 قبل باب الصرف) فتح القدیر لابن ہمام (6/ 345) بدائع الصنائع (5/ 142) کنز الدقائق (ص257) البحر الرائق (6/ 172) الدرالمختار مع کشف الاستار (2/ 50) رد المحتار المعروف بفتاویٰ شامی (4/ 238، 239) حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (3/ 127) کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ (2/ 232) اور الفقہ الاسلامی وادلتہ (4/ 446) وغیرہ، بلکہ بعض الناس نے لکھا ہے کہ کتا ذبح کر کے اس کا گوشت بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے فتاویٰ عالمگیری (3/ 115)! یہ سارے اقوال صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
ملا مرغینانی نے لکھا ہے کہ: «وإذا ذبح مالا يؤكل لحمه طهر جلده ولحمه إلا الآدمي والخنزير»
آدمی اور خنزیر کے علاوہ جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا، اسے ذبح کرنے سے اس کا گوشت اور چمڑا پاک ہو جاتا ہے۔ [الهدايه 2/ 441 دوسرا نسخه4/ 69]
یہ فتویٰ بھی بلادلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
اصل مضمون کے لئے دیکھئے الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث 57 صفحہ 132 تا 135
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 999