(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا ابو عاصم ، اخبرني ابي ، عن الزبير بن عبيد ، عن نافع ، قال: كنت اجهز إلى الشام وإلى مصر فجهزت إلى العراق، فاتيت عائشة ام المؤمنين، فقلت: لها يا ام المؤمنين كنت اجهز إلى الشام فجهزت إلى العراق، فقالت: لا تفعل ما لك ولمتجرك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا سبب الله لاحدكم رزقا من وجه، فلا يدعه حتى يتغير له، او يتنكر له". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كُنْتُ أُجَهِّزُ إِلَى الشَّامِ وَإِلَى مِصْرَ فَجَهَّزْتُ إِلَى الْعِرَاقِ، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، فَقُلْتُ: لَهَا يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كُنْتُ أُجَهِّزُ إِلَى الشَّامِ فَجَهَّزْتُ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقَالَتْ: لَا تَفْعَلْ مَا لَكَ وَلِمَتْجَرِكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ".
نافع کہتے ہیں کہ میں اپنا سامان تجارت شام اور مصر بھیجا کرتا تھا، پھر میں نے عراق کی طرف بھیج دیا، پھر میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور ان سے کہا کہ میں اپنا سامان تجارت شام بھیجا کرتا تھا، لیکن اس بار میں نے عراق بھیج دیا ہے، تو انہوں نے کہا: ایسا نہ کرو، تمہاری پہلی تجارت گاہ کو کیا ہوا کہ اس کو چھوڑ کر تم نے دوسری اختیار کر لی؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17674، ومصباح الزجاجة: 761)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/246) (ضعیف)» (سند میں زبیر بن عبید مجہول راوی، اور ابوعاصم کے والد مختلف فیہ راوی ہیں)
It was narrated that Nafi' said:
I used to send trade goods to Sham and Egypt, then I prepared to send trade goods to 'Iraq. I went to 'Aishah, the Mother of the Believers, and said to her: " O Mother of the Believers I used to send trade goods to Sham and I am preparing to send trade goods to 'Iraq." She said: "Do not do that. What is wrong with the way you have been doing it? I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'If Allah causes provision to come to one of you through a certain means, he should not leave it unless it changes or deteriorates."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزبير بن عبيد: مجهول (تقريب: 1999) و في السند علل أخري،انظر أضواء المصابيح (2785) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 456
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں، سب نے بکریاں چرائی ہیں“، اس پر آپ کے صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے بھی؟ فرمایا: ”میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا“۱؎۔ سوید کہتے ہیں کہ ہر بکری پر ایک قیراط ملتا تھا۔
وضاحت: ۱؎: ایک قیراط دینار کا بیسواں حصہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محنت اور مزدوری کرنے میں کوئی ذلت نہیں، بلکہ حرام کا مال بیٹھ کر کھانا اور اڑانا انتہاء درجہ کی بے شرمی، و بے حیائی اور ذلت و خواری ہے، سرتاج انبیاء اشرف المخلوقات محمد رسول اللہ ﷺ نے مزدوری کی تو اور کسی کی کیا حقیقت ہے جو مزدوری کرنے کو ننگ و عار سمجھتا ہے، مسلمانان ہند کی ایک بڑی تعداد محنت اور مزدوری سے کتراتے ہیں، ایسی دنیا میں کوئی قوم نہیں، جب ہی تو وہ فاقوں مرتے ہیں، مگر اپنی محنت اور تجارت سے روٹی پیدا کرنا عار جانتے ہیں، اور بعض تو ایسے بے حیا ہیں کہ بھیک مانگتے ہیں، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں مگر محنت اور تجارت کو عار جانتے ہیں، خاک پڑے ان کی عقل پر نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جانور چرانا ایک حلال پیشہ ہے، اور غیرمسلموں کے یہاں مزدوری بھی کرنا جائز ہے کیونکہ مکہ والے اس وقت کافر ہی تھے۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
"Allah has not sent any Prophet but he was a shepherd." His Companions said to him: "Even you, O Messenger of Allah?" He said: "Even me I used to tend the sheep of the people of Makkah for a few Qirats." (Sahih)(One of the narrators) Suwaid said: " Meaning one Qirat for every sheep."
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زکریا علیہ السلام (یحییٰ علیہ السلام کے والد) بڑھئی تھے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفضائل 45 (2379)، (تحفة الأشراف: 14652)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/296، 405، 485) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ بڑھئی کا پیشہ حلال ہے، اور رسولوں نے یہ پیشہ اختیار کیا ہے، اسی طرح سے ہر صنعت اور پیشہ جس میں رزق حلال ہو اچھا کام ہے، اور اسے اپنانے اور اس میدان میں آگے بڑھنے میں ہماری طاقت و قوت ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا جن کو تم نے بنایا ہے، ان میں جان ڈالو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جان ڈالو، اور یہ ان سے نہ ہو سکے گا، بس اسی بات پر ان کو عذاب ہوتا رہے گا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مصوری کا پیشہ ناجائز ہے، البتہ اگر بے جان چیزوں کی تصویر بنانی ہو جیسے مکانوں کی، درختوں کی، شہروں کی تو کوئی حرج نہیں ہے، اب علماء کا اختلاف ہے کہ کون سی تصویر مراد ہے؟ مجسم یعنی بت جو پتھر یا لکڑی یا لوہے وغیرہ سے بناتے ہیں، یا ہر طرح کی تصویر؟ گرچہ نقشی یا عکسی ہو؟ جس کو ہمارے زمانہ میں فوٹو کہتے ہیں، حدیث عام ہے اور ہر ایک تصویر کو شامل ہے، لیکن بعضوں نے صرف مجسم تصویر کو حرام کہا ہے۔
It was narrated from 'Aishah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
"The image-makers will be punished on the Day of Resurrection and will be told: 'Give life to that which you have created.' "
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹے رنگ ریز اور سنار ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14838، ومصباح الزجاجة: 762)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/292، 324، 345) (موضوع)» (سند میں فرقد سبخی غیر قوی، اور عمر بن ہارون کذاب ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 144)
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «جلب» کرنے والا روزی پاتا ہے اور (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا ملعون ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشرا: 10455، ومصباح الزجاجة: 763)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع 12 (2586) (ضعیف)» (سند میں زید بن علی بن جدعان ضعیف راوی ہے)
وضاحت: ۱؎: ذخیرہ اندوزی ( «حکر» اور «احتکار») یہ ہے کہ مال خرید کر اس انتظار میں رکھ چھوڑے کہ جب زیادہ مہنگا ہو گا تو بیچیں گے۔ «جلب»: یہ ہے کہ شہر میں بیچنے کے لئے دوسرے علاقہ سے مال لے کر آئے۔: ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت آئی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی حرام ہے، لیکن مراد وہی ذخیرہ اندوزی ہے کہ جس وقت شہر میں غلہ نہ ملتا ہو اور لوگوں کو غلہ کی احتیاج ہو، کوئی شخص بہت سا غلہ لے کر بند کر کے رکھ چھوڑے اور شہر والوں کے ہاتھ نہ بیچے اس انتظار میں کہ جب اور زیادہ گرانی ہو گی تو بیچیں گے، یہ اس وجہ سے حرام ہوا کہ اپنے ذرا سے فائدہ کے لئے لوگوں کو تکلیف دینا ہے، اور مردم آزاری کے برابر کوئی گناہ نہیں ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو مسلمانوں کے کھانے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے جذام (کوڑھ) یا افلاس (فقر) میں مبتلا کر دے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10622، ومصباح الزجاجة: 764)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/21) (ضعیف)» سند میں ابویحییٰ المکی مجہول ہیں، صرف ابن حبان نے ان کی توثیق ہے، اور یہ معلوم ہے کہ وہ مجہول رواة کی توثیق کرتے ہیں ایسے ہی فروخ کی توثیق بھی صرف ابن حبان نے کی ہے، جو حجت نہیں ہے، ابن الجوزی نے العلل المتناہیة میں حدیث کی تضعیف ابویحییٰ کی جہالت کی وجہ سے کی ہے، نیزملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة: 764)
It was narrated that 'Umar bin Khattab said:
"I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'Whoever hoards food (and keeps it from) the Muslims, Allah will afflict him with leprosy and bankruptcy."'
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن جعفر بن إياس ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثين راكبا في سرية فنزلنا بقوم فسالناهم، ان يقرونا فابوا فلدغ سيدهم فاتونا، فقالوا: افيكم احد يرقي من العقرب؟، فقلت: نعم، انا ولكن لا ارقيه حتى تعطونا غنما، قالوا: فإنا نعطيكم ثلاثين شاة فقبلناها فقرات عليه الحمد سبع مرات فبرئ وقبضنا الغنم فعرض في انفسنا منها شيء، فقلنا: لا تعجلوا حتى ناتي النبي صلى الله عليه وسلم، فلما قدمنا ذكرت له الذي صنعت، فقال:" او ما علمت، انها رقية اقتسموها واضربوا لي معكم سهما". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ رَاكِبًا فِي سَرِيَّةٍ فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ فَسَأَلْنَاهُمْ، أَنْ يَقْرُونَا فَأَبَوْا فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا، فَقَالُوا: أَفِيكُمْ أَحَدٌ يَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا وَلَكِنْ لَا أَرْقِيهِ حَتَّى تُعْطُونَا غَنَمًا، قَالُوا: فَإِنَّا نُعْطِيكُمْ ثَلَاثِينَ شَاةً فَقَبِلْنَاهَا فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْحَمْدُ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَبَرِئَ وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْءٌ، فَقُلْنَا: لَا تَعْجَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ، فَقَالَ:" أَوَ مَا عَلِمْتَ، أَنَّهَا رُقْيَةٌ اقْتَسِمُوهَا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم تیس سواروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (فوجی ٹولی) میں بھیجا، ہم ایک قبیلہ میں اترے، اور ہم نے ان سے اپنی مہمان نوازی کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر ایسا ہوا کہ ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چنانچہ وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: کیا آپ لوگوں میں کوئی بچھو کے ڈسنے پر جھاڑ پھونک کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں کرتا ہوں لیکن میں اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک تم ہمیں کچھ بکریاں نہ دے دو، انہوں نے کہا: ہم آپ کو تیس بکریاں دیں گے، ہم نے اسے قبول کر لیا، اور میں نے سات مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ اچھا ہو گیا، اور ہم نے وہ بکریاں لے لیں، پھر ہمیں اس میں کچھ تردد محسوس ہوا ۱؎ تو ہم نے (اپنے ساتھیوں سے) کہا (ان کے کھانے میں) جلد بازی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں، (اور آپ سے ان کے بارے میں پوچھ لیں) پھر جب ہم (مدینہ) آئے تو میں نے جو کچھ کیا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سورۃ فاتحہ جھاڑ پھونک ہے؟ انہیں آپس میں بانٹ لو، اور اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگاؤ“۔
It was narrated that Abu Sa'eed Al-Khudri said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) sent us, thirty horsemen, on a military campaign. We camped near some people and asked them for hospitality but they refused. Then their leader was stung by a scorpion and they said: 'Is there anyone among you who can recite Ruqyah for a scorpion sting?' I said: 'Yes, I can, but I will not recite Ruqyah for him until you give us some sheep.' They said: 'We will give you thirty sheep.' So we accepted them, and I recited Al-Hamd (i.e. Al-Fatihah) over him seven times. Then he recovered, and I took the sheep. Then some doubts occurred within ourselves. Then we said: 'Let us not hasten (to make a decision concerning the sheep) until we come to the Prophet (ﷺ)' So when we came back: 'I told him what I had done. He said: 'How did you know that it is a Ruqyah? Divide them up and give me a share as well.'"