اس سند سے بھی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر آگے راوی نے اسی کے مثل ذکر کیا، اور اس کے راویوں میں سعد کا ذکر نہیں کیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري ، حدثنا ابو الاحوص ، عن ابي إسحاق ، عن النجراني ، قال: قلت لعبد الله بن عمر : اسلم في نخل، قبل ان يطلع، قال: لا، قلت: لم، قال: إن رجلا اسلم في حديقة نخل في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قبل ان يطلع النخل فلم يطلع النخل شيئا ذلك العام، فقال المشتري: هو لي حتى يطلع، وقال البائع: إنما بعتك النخل هذه السنة، فاختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال للبائع:" اخذ من نخلك شيئا"، قال: لا، قال:" فبم تستحل ماله اردد عليه ما اخذت منه ولا تسلموا في نخل حتى يبدو صلاحه". (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ النَّجْرَانِيِّ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أُسْلِمُ فِي نَخْلٍ، قَبْلَ أَنْ يُطْلِعَ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: لِمَ، قَالَ: إِنَّ رَجُلًا أَسْلَمَ فِي حَدِيقَةِ نَخْلٍ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَبْلَ أَنْ يُطْلِعَ النَّخْلُ فَلَمْ يُطْلِعِ النَّخْلُ شَيْئًا ذَلِكَ الْعَامَ، فَقَالَ الْمُشْتَرِي: هُوَ لِي حَتَّى يُطْلِعَ، وَقَالَ الْبَائِعُ: إِنَّمَا بِعْتُكَ النَّخْلَ هَذِهِ السَّنَةَ، فَاخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِلْبَائِعِ:" أَخَذَ مِنْ نَخْلِكَ شَيْئًا"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فَبِمَ تَسْتَحِلُّ مَالَهُ ارْدُدْ عَلَيْهِ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ وَلَا تُسْلِمُوا فِي نَخْلٍ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ".
نجرانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا میں کسی درخت کے کھجور کی ان کے پھلنے سے پہلے بیع سلم کروں؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: کیوں؟ کہا: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کھجور کے ایک باغ کے پھلوں میں ان کے پھلنے سے پہلے بیع سلم کی، لیکن اس سال کھجور کے درخت میں پھل آیا ہی نہیں، تو خریدار نے کہا: یہ درخت میرے رہیں گے جب تک ان میں کھجور نہ پھلے، اور بیچنے والے نے کہا: میں نے تو صرف اسی سال کا کھجور تیرے ہاتھ بیچا تھا، چنانچہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں معاملہ لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے کہا: ”کیا اس نے تمہارے کھجور کے درختوں سے کچھ پھل لیے“؟ وہ بولا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم کس چیز کے بدلے اس کا مال اپنے لیے حلال کرو گے، جو تم نے اس سے لیا ہے، اسے واپس کرو اور آئندہ کھجور کے درختوں میں بیع سلم اس وقت تک نہ کرو جب تک اس کے پھل استعمال کے لائق نہ ہو جائیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 58 (3467)، (تحفة الأشراف: 8595)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 21 (49)، مسند احمد (2/25، 49، 51، 58، 144) (ضعیف)» (اس کی سند میں نجرانی مبہم راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3467) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مسلم بن خالد ، حدثنا زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي رافع ، ان النبي صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكرا، وقال:" إذا جاءت إبل الصدقة قضيناك" فلما قدمت، قال:" يا ابا رافع، اقض هذا الرجل بكره"، فلم اجد إلا رباعيا فصاعدا، فاخبرت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اعطه، فإن خير الناس احسنهم قضاء". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْلَفَ مِنْ رَجُلٍ بَكْرًا، وَقَالَ:" إِذَا جَاءَتْ إِبِلُ الصَّدَقَةِ قَضَيْنَاكَ" فَلَمَّا قَدِمَتْ، قَالَ:" يَا أَبَا رَافِعٍ، اقْضِ هَذَا الرَّجُلَ بَكْرَهُ"، فَلَمْ أَجِدْ إِلَّا رَبَاعِيًا فَصَاعِدًا، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَعْطِهِ، فَإِنَّ خَيْرَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً".
ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے ایک جوان اونٹ کی بیع سلم کی یعنی اسے قرض کے طور پر لیا، اور فرمایا: ”جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہارا اونٹ کا قرض ادا کر دیں گے“، چنانچہ جب صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابورافع! اس کے اونٹ کا قرض ادا کر دو“، ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ڈھونڈا تو مجھے ویسا اونٹ نہیں ملا، سوائے ایک ایسے اونٹ کے جس نے اپنے سامنے کے چاروں دانت گرا رکھے تھے، جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی کو دے دو کیونکہ لوگوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جو مال بغیر شرط کے قرض لیا تھا اس سے افضل دیتے ہیں،اگر قرض سے بہتر یا زیادہ مال دیا جائے تو مستحب اور اس کا لینا جائز ہے، لیکن شرط کے ساتھ جائز نہیں، کیونکہ وہ ربا (سود) ہے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بیع سلم بلکہ قرض لینا بھی جانور کا درست ہے۔
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک اعرابی نے آ کر عرض کیا: میرا جوان اونٹ مجھے دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک اونٹ دیا جو اس سے بڑا تھا، اعرابی (دیہاتی) بولا: اللہ کے رسول! اس کی عمر تو اس سے زیادہ ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 62 (4623)، (تحفة الأشراف: 9887)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/128) (صحیح)»
سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! زمانہ جاہلیت میں آپ میرے شریک تھے، تو آپ بہت بہترین شریک ثابت ہوئے نہ آپ میری مخالفت کرتے تھے نہ جھگڑتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 20 (4836)، (تحفة الأشراف: 3791)، وقد أخرجہ: مسند احمد (/425) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ نبوت سے پہلے سائب مخزومی نبی کریم ﷺ کے شریک تھے، فتح مکہ کے دن وہ آئے، اور کہا: مرحباً، (خوش آمدید) میرے بھائی، میرے شریک، ایسے شریک کہ نہ کبھی انہوں نے مقابلہ کیا نہ جھگڑا، اس حدیث کے اور بھی کئی طریق ہیں، سبحان اللہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق شروع سے ایسے تھے کہ تعلیم و تربیت اور ریاضت کے بعد بھی ویسے اخلاق حاصل ہونا مشکل ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4836) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سعد اور عمار تینوں بدر کے دن مال غنیمت میں شریک ہوئے، تو مجھ کو اور عمار کو کچھ نہ ملا، البتہ سعد کافروں کے دو آدمی پکڑ لائے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 30 (3388)، سنن النسائی/الأیمان 47 (3969)، البیوع 103 (4701)، (تحفة الأشراف: 9616) (ضعیف)» (سند میں ابوعبیدہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لئے کہ ابوعبیدہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1474)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3388) نسائي (3969،4701) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزوں میں برکت ہے: پہلی یہ کہ مقررہ مدت کے وعدے پر بیع کرنے میں، دوسری: مضاربت میں، تیسری: گیہوں اور جو ملانے میں جو کہ گھر کے کھانے کے لیے ہو، نہ کہ بیچنے کے لیے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4963، ومصباح الزجاجة: 804) (ضعیف جدا)» (سند میں صالح صہیب، عبد الرحمن بن داود اور نصر بن قاسم وغیرہ سب مجہول راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2100)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا نصر: مجهول،وصالح (بن صهيب بن سنان الرومي): مجهول الحال (تقريب: 7123،2870) وأورده ابن الجوزي في الموضوعات (2/ 248،249) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے کھانوں میں سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو تمہارے ہاتھ کی کمائی کا ہو، اور تمہاری اولاد بھی تمہاری ایک قسم کی کمائی ہے“۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس مال اور اولاد دونوں ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں“۔