سنن ابن ماجه
كتاب التجارات
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
63. بَابُ : الشَّرِكَةِ وَالْمُضَارَبَةِ
باب: شرکت و مضاربت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2287
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، وَأَبُو بَكْرٍ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ قَائِدِ السَّائِبِ ، عَنْ السَّائِبِ ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُنْتَ شَرِيكِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَكُنْتَ خَيْرَ شَرِيكٍ لَا تُدَارِينِي وَلَا تُمَارِينِي".
سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! زمانہ جاہلیت میں آپ میرے شریک تھے، تو آپ بہت بہترین شریک ثابت ہوئے نہ آپ میری مخالفت کرتے تھے نہ جھگڑتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 20 (4836)، (تحفة الأشراف: 3791)، وقد أخرجہ: مسند احمد (/425) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ نبوت سے پہلے سائب مخزومی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے، فتح مکہ کے دن وہ آئے، اور کہا: مرحباً، (خوش آمدید) میرے بھائی، میرے شریک، ایسے شریک کہ نہ کبھی انہوں نے مقابلہ کیا نہ جھگڑا، اس حدیث کے اور بھی کئی طریق ہیں، سبحان اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق شروع سے ایسے تھے کہ تعلیم و تربیت اور ریاضت کے بعد بھی ویسے اخلاق حاصل ہونا مشکل ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (4836)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 461
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2287 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2287
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کاروبار میں شراکت جائز ہے۔
(2)
جاہلیت میں کاروبار کے جو طریقے رائج تھے ان میں سے وہی ممنوع ہیں جن سے اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے منع فرما دیا، باقی صورتیں جائز ہیں۔
(3)
رسول اللہ ﷺ بعثت سے پہلے بھی بہترین اخلاق و کردار سے متصف تھے۔
(4)
یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک صحیح ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2287
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 743
´شراکت اور وکالت کا بیان`
سیدنا سائب مخزومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجارت میں شریک تھے۔ پھر وہ فتح مکہ کے موقع پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مبارک ہو میرے بھائی اور میرے شریک۔“ اسے احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ تینوں نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 743»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الادب، باب في كراهية المراء حديث:4836، وابن ماجه، التجارات، حديث:2287، وأحمد:3 /425.* مجاهد سمعه من قائد السائب والقائد لم أجد له ترجمة، وفي سند الحديث اضطراب.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ تاہم مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(التعلیق علی الروضۃ الندیۃ:۲ /۱۴۰) 2. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت نبوی سے پہلے بھی کاروبار میں شراکت کا رواج تھا۔
اسلام نے بھی اسے جاری رکھا‘ البتہ جو نقائص دور جاہلیت میں تھے ان سے شراکت کو پاک اور صاف کر دیا۔
3. آپ نے بعثت سے پہلے کے شریک تجارت کی کس قدر حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کی‘ اس لیے پرانے اور دیرینہ دوستوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
جب ملاقات ہو تو خندہ پیشانی اور کشادہ ظرفی سے ملاقات کرنی چاہیے۔
راویٔ حدیث: «حضرت سائب بن ابی سائب مخزومی رضی اللہ عنہ» فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔
عکرمہ بن ابوجہل کی معیت میں مرتدین سے قتال کیا اور فتح کی خوشخبری دے کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جانب قاصد بھیجا۔
علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ مؤلفۃالقلوب لوگوں میں سے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کا اسلام بہت عمدہ ہے اور لمبی عمریں پائی ہیں۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک زندہ رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 743
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4836
´جھگڑے اور فساد کی برائی کا بیان۔`
سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو لوگ میری تعریف اور میرا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان کو تم لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں“ میں نے عرض کیا: سچ کہا آپ نے میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں، آپ میرے شریک تھے، تو آپ ایک بہترین شریک تھے، نہ آپ لڑتے تھے اور نہ جھگڑتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4836]
فوائد ومسائل:
نبی ﷺ کے انہی خصائلِ حمیدہ کی وجہ سے آپ ؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کو بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے۔
ارشادِ الٰہی ہے: (فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ) بلا شبہ میں تم میں اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں۔
کیا پس تم عقل نہیں کرتے ہوز (یونس: 16) اور اللہ عزوجل نے آپ کی حیاتِ مبارکہ کہ قسم کھائی ہے فرمایا: (لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ) تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بد مستی میں سرگرداں تھے۔
(الحجر: 72) یہ رویت سندَا ضعیف ہے، لیکن معناََ صحیح ہے، جیسا کہ سیخ البانی ؒ نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4836