(مرفوع) حدثنا ازهر بن مروان ، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان جميلة بنت سلول اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: والله ما اعتب على ثابت في دين، ولا خلق ولكني اكره الكفر في الإسلام لا اطيقه بغضا، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" اتردين عليه حديقته؟"، قالت: نعم، فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ياخذ منها حديقته ولا يزداد. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ جَمِيلَةَ بِنْتَ سَلُولَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَعْتِبُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ، وَلَا خُلُقٍ وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ لَا أُطِيقُهُ بُغْضًا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟"، قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهَا حَدِيقَتَهُ وَلَا يَزْدَادَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جمیلہ بنت سلول رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کی قسم میں (اپنے شوہر) ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ نہیں کر رہی ہوں، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر (شوہر کی ناشکری) کو ناپسند کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے ناپسند ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا ان کا دیا ہوا باغ واپس لوٹا دو گی“؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا باغ لے لیں، اور زیادہ نہ لیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: صحیح سند سے دارقطنی کی روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ثابت نے مہر میں اس کو ایک باغ دیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: تم اس کا باغ واپس کر دیتی ہو جو اس نے تم کو دیا ہے؟ تو انہوں کہا: ہاں، باغ بھی دیتی ہوں اور کچھ زیادہ بھی دیتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: زیادہ نہیں، صرف باغ لوٹا دو، اس نے کہا: بہت اچھا۔ معلوم ہوا کہ شوہر نے جو بیوی کو دیا خلع کے بدلے اس سے زیادہ لینا جائز نہیں، علی، طاؤس، عطاء، زہری، ابوحنیفہ، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ اور جمہور کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ بھی لینا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فلا جناح عليهما فيما افتدت به»، اور یہ عام ہے، قلیل اور کثیر دونوں کو شامل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں سے اس کی تخصیص ہو جاتی ہے۔
It was narrated from Ibn 'Abbas that:
Jamilah bint Salul came to the Prophet (ﷺ) and said: "By Allah, I do not find any fault with Thabit regarding his religion nor his behavior, but I hate disbelief after becoming Muslim and I cannot stand him. "The Prophet (ﷺ) said to her: 'WiIl you give him back his garden?" She said: "Yes." So the Messenger of Allah (ﷺ) told him to take back his garden from her and no more than that.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن أبي عروبة مدلس و قتادة مدلس وعنعنا و حديث البخاري (5273) يغني عنه من غير قوله: ’’ولا يزداد“ فإنه ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو خالد الاحمر ، عن حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: كانت حبيبة بنت سهل تحت ثابت بن قيس بن شماس، وكان رجلا دميما، فقالت: يا رسول الله، والله لولا مخافة الله إذا دخل علي لبصقت في وجهه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتردين عليه حديقته؟"، قالت: نعم، فردت عليه حديقته، قال: ففرق بينهما رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: كَانَتْ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَكَانَ رَجُلًا دَمِيمًا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوْلَا مَخَافَةُ اللَّهِ إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ لَبَصَقْتُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟"، قَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ، قَالَ: فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں، وہ ناٹے اور بدصورت آدمی تھے، حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! اگر اللہ کا ڈر نہ ہوتا تو ثابت جب میرے پاس آئے تو میں ان کے منہ پر تھوک دیتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ان کا باغ واپس لوٹا دو گی“؟ کہا: ہاں، اور ان کا باغ انہیں واپس دے دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8677، ومصباح الزجاجة: 726)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/3) (ضعیف)» (سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن صحیح احادیث اس سے مستغنی کر دیتی ہے)
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, that his grandfather said:
"Habibah bint Sahl was married to Thabit bin Qais bin Shammas, who was an ugly man. She said: 'O Messenger of Allah, (ﷺ) by Allah, were it not for fear of Allah when he enters upon me I would spit in his face.' The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Will you give him back his garden?' She :said: 'Yes.' So she gave him back his garden and the Messenger of Allah (ﷺ) separated them."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حجاج بن أرطاة: ضعيف مدلس وضعفه البوصيري لتدليس الحجاج انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا سے کہا: تم مجھ سے اپنا واقعہ بیان کرو، انہوں نے کہا: میں نے اپنے شوہر سے خلع کرا لیا، پھر میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر پوچھا: مجھ پر کتنی عدت ہے؟ انہوں نے کہا: تم پر کوئی عدت نہیں مگر یہ کہ تمہارے شوہر نے حال ہی میں تم سے صحبت کی ہو، تو تم اس کے پاس رکی رہو یہاں تک کہ تمہیں ایک حیض آ جائے، ربیع رضی اللہ عنہا نے کہا: عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی پیروی کی، جو آپ نے بنی مغالہ کی خاتون مریم رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں کیا تھا، جو ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں اور ان سے خلع کر لیا تھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: نسائی میں ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ ثابت کی عورت کے قصے میں نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: ”جو تمہارا اس کے پاس ہے وہ لے لو اور اس کو چھوڑ دو“ ثابت نے کہا: اچھا، پھر نبی کریم ﷺ نے اس کو ایک حیض کی عدت گزارنے کا حکم دیا۔ اور یہ کئی طریق سے مروی ہے، ان حدیثوں سے یہ نکلتا ہے کہ خلع کرانے والی کی عدت ایک حیض ہے اور خلع نکاح کا فسخ ہے، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اگر خلع طلاق ہوتا تو اس کی عدت تین حیض ہوتی، ابوجعفر النحاس نے الناسخ والمنسوخ میں اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور یہی دلائل کی روشنی میں زیادہ صحیح ہے۔
It was narrated from 'Ubadah bin Samit from Rubai' bint Mu'awwidh bin 'Afra'.:
He said: "I said to her: 'Tell me your Hadith.' She said: 'I got Khul' from my husband, then I came to 'Uthman and asked him: "What waiting period do I have to observe?" He said: "You do not have to observe any waiting period, unless you had intercourse with him recently, in which case you should stay with him until you have menstruated." In that he was following the ruling of the Messenger of Allah (ﷺ) concerning Maryam Maghaliyyah, who was married to Thabit bin Qais and she got Khul' from him.' "
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الرجال ، عن ابيه ، عن عمرة ، عن عائشة ، قالت:" اقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان لا يدخل على نسائه شهرا، فمكث تسعة وعشرين يوما حتى إذا كان مساء ثلاثين دخل علي، فقلت: إنك اقسمت ان لا تدخل علينا شهرا، فقال:" شهر هكذا يرسل اصابعه فيها ثلاث مرات وشهر هكذا وارسل اصابعه كلها، وامسك إصبعا واحدا في الثالثة". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" أَقْسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا، فَمَكَثَ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا كَانَ مِسَاءَ ثَلَاثِينَ دَخَلَ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، فَقَالَ:" شَهْرٌ هَكَذَا يُرْسِلُ أَصَابِعَهُ فِيهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَشَّهْرُ هَكَذَا وَأَرْسَلَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا، وَأَمْسَكَ إِصْبَعًا وَاحِدًا فِي الثَّالِثَةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی کہ ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے، آپ ۲۹ دن تک رکے رہے، جب تیسویں دن کی شام ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، میں نے کہا: آپ نے تو ایک ماہ تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ اس طرح ہوتا ہے آپ نے دونوں ہاتھوں کی ساری انگلیوں کو کھلا رکھ کر تین بار فرمایا، اس طرح کل تیس دن ہوئے، پھر فرمایا: ”اور مہینہ اس طرح بھی ہوتا ہے“ اس بار دو دفعہ ساری انگلیوں کو کھلا رکھا، تیسری بار میں ایک انگلی بند کر لی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17919، ومصباح الزجاجة: 727)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/33، 105) (حسن صحیح)»
It was narrated that 'Aishah said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) swore that he would not enter upon his wives for a month, and he stayed for twenty-nine days until, on the eve of the thirtieth, he entered upon me. I said: 'You swore not to enter upon us for a month.' He said: 'The month may be like this,' and he held up his (ten) fingers three times; 'or the month may be like this,' and he held up his fingers three times, keeping one finger down on the third time."
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاء کیا، اس لیے کہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے آپ کا بھیجا ہوا ہدیہ واپس کر دیا تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: زینب نے آپ کی بےقدری کی ہے، یہ سن کر آپ غصہ ہوئے اور ان سب سے ایلاء کر لیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17890، ومصباح الزجاجة: 728) (ضعیف)» (سند میں حارثہ بن محمد بن ابی الرجال ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم ﷺ کو رنج و ملال ہوا، ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے پاس کہیں سے ہدیہ آیا، آپ نے سب بیویوں کو اس میں سے حصے بھیجے، زینب رضی اللہ عنہا نے وہ حصہ واپس کر دیا، آپ نے اور زیادہ کر کے بھیجا جب بھی پھیر دیا، تب آپ غصہ ہوئے، اور قسم کھائی کہ میں تم سب کے پاس ایک مہینہ تک نہ آؤں گا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جانور ذبح کیا تھا، اس کا گوشت سب بیویوں کو بھیجا جب انہوں نے نہ لیا تو اس وقت آپ کو غصہ آیا۔ اور بعضوں نے کہا: ایلاء کا سبب یہ نہ تھا بلکہ آپ ﷺ کی بیویاں آپ سے خرچ مانگتی تھیں، اور تقاضا کرتی تھیں، چنانچہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آئے، انہوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا، اس وقت آپ ﷺ نے ایلاء کیا، پھر یہ آیت تخییر اتری۔ «واللہ اعلم»
It was narrated from Aishah that:
the Messenger of Allah (ﷺ) swore to keep away from his wives, because Zainab had sent back her gift and 'Aishah said: "She has disgraced you." He became angry and swore to keep away from them.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حارثه بن أبي الرجال: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں سے ایک ماہ کا ایلاء کیا، جب ۲۹ دن ہو گئے تو آپ صبح کو یا شام کو بیویوں کے پاس تشریف لے گئے، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ابھی تو ۲۹ ہی دن ہوئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ ۲۹ کا بھی ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 11 (1910)، صحیح مسلم/الصیام 4 (1085)، (تحفة الأشراف: 18201)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/315) (صحیح)»
It was narrated from Umm Salamah that:
the Messenger of Allah (ﷺ) swore to keep away from some of his wives for a month. On the twenty-ninth day, in the evening or the morning, it was said: "O Messenger of Allah, only twenty-nine days have passed." He said: "The month is twenty-nine days."
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن عمرو بن عطاء ، عن سليمان بن يسار ، عن سلمة بن صخر البياضي ، قال: كنت امرا استكثر من النساء لا ارى رجلا كان يصيب من ذلك ما اصيب، فلما دخل رمضان ظاهرت من امراتي حتى ينسلخ رمضان، فبينما هي تحدثني ذات ليلة انكشف لي منها شيء، فوثبت عليها، فواقعتها، فلما اصبحت غدوت على قومي، فاخبرتهم خبري، وقلت لهم: سلوا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ما كنا لنفعل إذا ينزل الله عز وجل فينا كتابا، او يكون فينا من رسول الله صلى الله عليه وسلم قول: فيبقى علينا عاره، ولكن سوف نسلمك لجريرتك، اذهب انت فاذكر شانك لرسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فخرجت حتى جئته فاخبرته الخبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت بذاك"، فقلت: انا بذاك، وهانا يا رسول الله، صابر لحكم الله علي، قال:" فاعتق رقبة"، قال: قلت: والذي بعثك بالحق ما اصبحت املك إلا رقبتي هذه، قال:" فصم شهرين متتابعين"، قال: قلت: يا رسول الله، وهل دخل علي ما دخل من البلاء إلا بالصوم؟، قال:" فتصدق واطعم ستين مسكينا"، قال: قلت: والذي بعثك بالحق لقد بتنا ليلتنا هذه ما لنا عشاء، قال:" فاذهب إلى صاحب صدقة بني زريق فقل له: فليدفعها إليك واطعم ستين مسكينا وانتفع ببقيتها". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أَسْتَكْثِرُ مِنَ النِّسَاءِ لَا أَرَى رَجُلًا كَانَ يُصِيبُ مِنْ ذَلِكَ مَا أُصِيبُ، فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ ظَاهَرْتُ مِنَ امْرَأَتِي حَتَّى يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ، فَبَيْنَمَا هِيَ تُحَدِّثُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ انْكَشَفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا، فَوَاقَعْتُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى قَوْمِي، فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي، وَقُلْتُ لَهُمْ: سَلُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مَا كُنَّا لِنَفْعَلَ إِذًا يُنْزِلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِينَا كِتَابًا، أَوْ يَكُونَ فِينَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلٌ: فَيَبْقَى عَلَيْنَا عَارُهُ، وَلَكِنْ سَوْفَ نُسَلِّمُكَ لِجَرِيرَتِكَ، اذْهَبْ أَنْتَ فَاذْكُرْ شَأْنَكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى جِئْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ بِذَاكَ"، فَقُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، وَهَأَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَابِرٌ لِحُكْمِ اللَّهِ عَلَيَّ، قَالَ:" فَأَعْتِقْ رَقَبَةً"، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَصْبَحْتُ أَمْلِكُ إِلَّا رَقَبَتِي هَذِهِ، قَالَ:" فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ دَخَلَ عَلَيَّ مَا دَخَلَ مِنَ الْبَلَاءِ إِلَّا بِالصَّوْمِ؟، قَالَ:" فَتَصَدَّقْ وَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ مَا لَنَا عَشَاءٌ، قَالَ:" فَاذْهَبْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَقُلْ لَهُ: فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ وَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَانْتَفِعْ بِبَقِيَّتِهَا".
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے عورتوں کی بڑی چاہت رہتی تھی، میں کسی مرد کو نہیں جانتا جو عورت سے اتنی صحبت کرتا ہو جتنی میں کرتا تھا، جب رمضان آیا تو میں نے اپنی بیوی سے رمضان گزرنے تک ظہار کر لیا، ایک رات وہ مجھ سے باتیں کر رہی تھی کہ اس کا کچھ بدن کھل گیا، میں اس پہ چڑھ بیٹھا، اور اس سے مباشرت کر لی، جب صبح ہوئی تو میں اپنے لوگوں کے پاس گیا، اور ان سے اپنا قصہ بیان کیا، میں نے ان سے کہا: تم لوگ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھو، تو انہوں نے کہا: ہم نہیں پوچھیں گے، ایسا نہ ہو کہ ہماری شان میں وحی اترے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے سلسلے میں کچھ فرما دیں، اور اس کا عار ہمیشہ کے لیے باقی رہے لیکن اب یہ کام ہم تمہارے ہی سپرد کرتے ہیں، اب تم خود ہی جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا حال بیان کرو۔ سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں خود ہی چلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا: ”تم نے یہ کام کیا ہے“؟ میں نے عرض کیا: ہاں، اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور اپنے بارے میں اللہ کے حکم پر صابر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک غلام آزاد کرو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں تو صرف اپنی جان کا مالک ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لگاتار دو ماہ کے روزے رکھو، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول یہ بلا جو میرے اوپر آئی ہے روزے ہی کہ وجہ سے تو آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو صدقہ دو، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ“، میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم نے یہ رات اس حالت میں گزاری ہے کہ ہمارے پاس رات کا کھانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی زریق کا صدقہ وصول کرنے والے کے پاس جاؤ، اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں کچھ مال دیدے، اور اس میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ اور جو بچے اپنے کام میں لے لو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ، کفارہ ادا ہو گیا، اور مال بھی ہاتھ آ گیا، یہی حال ہوتا ہے اس کا جو سچائی اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالی کی درگاہ میں حاضر ہو، اور اس پر اجماع ہے کہ ظہار کا کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب مرد اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ کرے، اور اگر کفارے سے پہلے جماع کر لیا تو گنہگار ہو گا، لیکن ایک ہی کفارہ واجب ہو گا اور یہی حق ہے۔
It was narrated that Salamah bin Sakhr Al-Bayadi said:
"I was a man who had a lot of desire for women, and I do not think there was any man who had as great a share of that as me. When Ramadan began, I declared Zihar upon my wife (to last) until Ramadan ended. While she was talking to me one night, part of her body became uncovered. I jumped on her and had intercourse with her. The next morning I went to my people and told them, and said to them: 'Ask the Messenger of Allah (ﷺ) for me.' They said: 'We will not do that, lest Allah reveal Quran concerning us or the Messenger of Allah (ﷺ) says, something about us, and it will be a lasting source of disgrace for us. Rather we will leave you to deal with it yourself. Go yourself and tell the Messenger of Allah (ﷺ) about your problem.' So I went out and when I came to him, I told him what happened. The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Did you really do that?' I said: 'I really did that, and here I am, O Messenger of Allah. (ﷺ) I will bear Allah’s ruling on me with patience.' He said: 'Free a slave.' I said: 'By the One Who sent you with the truth, I do not own anything but myself.' He said: 'Fast for two consecutive months.' I said: 'O Messenger of Allah, the thing that happened to me was only because of fasting.' He said: 'Then give charity, or feed sixty poor persons.' I said: 'By the One Who sent you with the truttu we spent last night with no dinner.' He said: 'Then go to the collector of charity of Banu Zuraiq, and tell him to give you something, then feed sixty poor persons, and benefit from the rest.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2213) ترمذي (1198،3299) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن ابي عبيدة ، حدثنا ابي ، عن الاعمش ، عن تميم بن سلمة ، عن عروة بن الزبير ، قال: قالت عائشة : تبارك الذي وسع سمعه كل شيء، إني لاسمع كلام خولة بنت ثعلبة ويخفى علي بعضه وهي تشتكي زوجها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهي تقول: يا رسول الله، اكل شبابي، ونثرت له بطني حتى إذا كبرت سني، وانقطع ولدي ظاهر مني اللهم إني اشكو إليك فما برحت حتى نزل جبرائيل بهؤلاء الآيات قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها وتشتكي إلى الله سورة المجادلة آية 1. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : تَبَارَكَ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ كُلَّ شَيْءٍ، إِنِّي لَأَسْمَعُ كَلَامَ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ وَيَخْفَى عَلَيَّ بَعْضُهُ وَهِيَ تَشْتَكِي زَوْجَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ تَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلَ شَبَابِي، وَنَثَرْتُ لَهُ بَطْنِي حَتَّى إِذَا كَبِرَتْ سِنِّي، وَانْقَطَعَ وَلَدِي ظَاهَرَ مِنِّي اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْكُو إِلَيْكَ فَمَا بَرِحَتْ حَتَّى نَزَلَ جِبْرَائِيلُ بِهَؤُلَاءِ الْآيَاتِ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ سورة المجادلة آية 1.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا بابرکت ہے وہ ذات جو ہر چیز کو سنتی ہے، میں خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کی بات سن رہی تھی، کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھیں کہ میرا شوہر میری جوانی کھا گیا، میں اس کی اولاد جنتی رہی، جب میں بوڑھی ہو گئی اور ولادت کا سلسلہ منقطع ہو گیا، تو اس نے مجھ سے ظہار کر لیا، اے اللہ! میں تجھ ہی سے شکوہ کرتی ہوں، وہ ابھی وہاں سے ہٹی بھی نہیں تھیں کہ جبرائیل علیہ السلام یہ آیتیں لے کر اترے: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها وتشتكي إلى الله»(سورة المجادلة: 1)”اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کر رہی تھی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اپنی مصیبت اور دکھ کا شکوہ کر رہی تھی، تب اللہ تعالی نے یہ حکم اتارا، اور ظہار کا کفارہ بیان فرمایا، اور عورت کی داد رسی کی شوہر نے کفارہ دے کر پھر اس کو بیوی کی طرح سمجھا، اور اس سے صحبت کی۔
It was narrated from 'Urwah bin Zubair, that 'Aishah said:
"Blessed is the One Whose hearing encompasses all things. I heard some of the words of Khawlah bint Tha'labah, but some of her words were not clear to me, when she complained to the Messenger of Allah (ﷺ) about her husband, and said: 'O Messenger of Allah, (ﷺ) he has consumed my youth and I split my belly for him (i.e., bore him many children), but when I grew old and could no longer bear children he declared Zihar upon me; O Allah, I complain to You.' She continued to complain until Jibra'il brought down these Verses: 'Indeed Allah has heard the statement of she who pleads with you (O Muhammad) concerning her husband, and complains to Allah" (58:1)
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہار کرنے والے شخص کے متعلق جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جماع کر لے فرمایا: ”اس پر ایک ہی کفارہ ہے“۔
It was narrated from Salamah bin Sakhr Al-Bayedi that:
the Prophet (ﷺ) said concerning a man who declared Zihar upon his wife having intercourse with her before compensation: "Let him offer one expiation."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف انظر الحديث السابق (2062) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
(مرفوع) حدثنا العباس بن يزيد ، حدثنا غندر ، حدثنا معمر ، عن الحكم بن ابان ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان رجلا ظاهر من امراته، فغشيها قبل ان يكفر، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له، فقال: ما حملك على ذلك، قال: يا رسول الله، رايت بياض حجليها في القمر، فلم املك نفسي ان وقعت عليها، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم" وامره الا يقربها حتى يكفر". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ، فَغَشِيَهَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ بَيَاضَ حِجْلَيْهَا فِي الْقَمَرِ، فَلَمْ أَمْلِكْ نَفْسِي أَنْ وَقَعْتُ عَلَيْهَا، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَأَمَرَهُ أَلَّا يَقْرَبَهَا حَتَّى يُكَفِّرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا، اور کفارہ کی ادائیگی سے قبل ہی جماع کر لیا، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے ایسا کیوں کیا“؟ وہ بولا: اللہ کے رسول! میں نے اس کے پازیب کی سفیدی چاندنی رات میں دیکھی، میں بے اختیار ہو گیا، اور اس سے جماع کر بیٹھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، اور اسے حکم دیا کہ کفارہ کی ادائیگی سے پہلے اس کے قریب نہ جائے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 17 (2223)، سنن الترمذی/الطلاق 19 (1199)، سنن النسائی/الطلاق 33 (3487)، (تحفة الأشراف: 6036) (حسن)» (سند میں حکم بن ابان ضعیف الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے)
It was narrated from Ibn 'Abbas that:
a man declared Zihar upon his wife, then he had intercourse with her before offering expiation. He came to the Prophet (ﷺ) and told him about that. He said: "What made you do that?" He said: "I saw her ankles in the moonlight, and I could not control myself, and I had intercourse with her." The Messenger of Allah (ﷺ) smiled and told him not to go near her until he had offered expiation.