(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عامر بن زرارة ، حدثنا علي بن مسهر ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة بن قيس ، قال: كنت مع عبد الله بن مسعود بمنى، فخلا به عثمان، فجلست قريبا منه، فقال له عثمان: هل لك ان ازوجك جارية بكرا تذكرك من نفسك بعض ما قد مضى؟، فلما راى عبد الله انه ليس له حاجة سوى هذه، اشار إلي بيده فجئت وهو يقول: لئن قلت ذلك، لقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم، فإنه له وجاء". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ بِمِنًى، فَخَلَا بِهِ عُثْمَانُ، فَجَلَسْتُ قَرِيبًا مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: هَلْ لَكَ أَنْ أُزَوِّجَكَ جَارِيَةً بِكْرًا تُذَكِّرُكَ مِنْ نَفْسِكَ بَعْضَ مَا قَدْ مَضَى؟، فَلَمَّا رَأَى عَبْدُ اللَّهِ أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ سِوَى هَذِهِ، أَشَارَ إِلَيَّ بِيَدِهِ فَجِئْتُ وَهُوَ يَقُولُ: لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ، لَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ".
علقمہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں تھا، تو عثمان رضی اللہ عنہ انہیں لے کر تنہائی میں گئے، میں ان کے قریب بیٹھا تھا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ چاہتے ہیں آپ کی شادی کسی نوجوان لڑکی سے کرا دوں جو آپ کو ماضی کے حسین لمحات کی یاد دلا دے؟ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ ان سے اس کے علاوہ کوئی راز کی بات نہیں کہنا چاہتے، تو انہوں نے مجھ کو قریب آنے کا اشارہ کیا، میں قریب آ گیا، اس وقت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ ایسا کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے: ”اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص نان و نفقہ کی طاقت رکھے تو وہ شادی کر لے، اس لیے کہ اس سے نگاہیں زیادہ نیچی رہتی ہیں، اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت ہوتی ہے، اور جو نان و نفقہ کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ یہ شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے۔
It was narrated that:
Alqamah bin Qais said: “I was with Abdullah bin Masud in Mina, and Uthman took him aside. I was sitting near him. Uthman said to him: 'Would you like that I marry you to a young virgin who will remind you of how you were in the past?' When Abdullah saw that he did not say anything to him apart from that, he gestured to me, so I came and he said: 'As you say that the Messenger of Allah said “O young men, whoever among you can afford it, let him get married, for it is more effective in lowering the gaze and guarding one's chastity. Whoever cannot afford it, let him fast, for it will diminish his desire.” ' ”
(مرفوع) حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا آدم ، حدثنا عيسى بن ميمون ، عن القاسم ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" النكاح من سنتي، فمن لم يعمل بسنتي فليس مني، وتزوجوا فإني مكاثر بكم الامم، ومن كان ذا طول فلينكح، ومن لم يجد فعليه بالصيام، فإن الصوم له وجاء". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے، تم لوگ شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر (قیامت کے دن) فخر کروں گا، اور جو صاحب استطاعت ہوں شادی کریں، اور جس کو شادی کی استطاعت نہ ہو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17549، ومصباح الزجاجة: 654) (حسن)» (سند میں عیسیٰ بن میمون منکر الحدیث ہے، بلکہ بعض لوگوں نے متروک الحدیث بھی کہا ہے، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2383)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں نکاح کا لفظ امر کے ساتھ وارد ہوا ہے، اور امر وجوب کے لیے آتا ہے، اسی لیے اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ جس کو نان و نفقہ اور مہر وغیرہ کی قدرت ہو اس کو نکاح کرنا سنت ہے، اور اگر اس کے ساتھ گناہ میں پڑنے کا ڈر ہو تو نکاح کرنا واجب ہے، صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا، بعض نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا سوؤں گا نہیں، بعض نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی افطار نہیں کروں گا، یہ خبر نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا حال ہے لوگوں کا ایسا ایسا کہتے ہیں، میں تو روزے بھی رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں، سوتا بھی ہوں، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، پھر جو کوئی میرے طریقے سے نفرت کرے وہ مجھ سے نہیں ہے“۔
It was narrated from Aishah that:
the Messenger of Allah said: “Marriage is part of my sunnah, and whoever does not follow my sunnah has nothing to do with me. Get married, for I will boast of your great numbers before the nations. Whoever has the means, let him get married, and whoever does not, then he should fast for it will diminish his desire.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عيسي بن ميمون المدني ضعيف و قال البوصيري: ”إسناده ضعيف لاتفاقھم علي ضعف عيسي ابن ميمون المديني لكن له شاھد صحيح“ و حديث البخاري (5063) و مسلم (1401) يغني عنه و روي أبو داود: ((تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم)) (2050) و سنده حسن و روي البزار عن رسول اللّٰه ﷺ قال: ((يا معشر الشباب! من استطاع منكم الطول فلينكح أو ليتزوج و إلا فعليه بالصوم فإنه له وجاء۔)) (كشف الاستار 2/ 148 ح 1398) وسنده حسن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 446
وضاحت: ۱؎: یعنی اکثر دو قوموں میں یا دو شخص میں عداوت ہوتی ہے، جب نکاح کی وجہ سے باہمی رشتہ ہو جاتا ہے تو وہ عداوت جاتی رہتی ہے، اور کبھی محبت کم ہوتی ہے تو نکاح سے زیادہ ہو جاتی ہے، اور یہی سبب ہے کہ قرابت دو طرح کی ہو گئی ہے، ایک نسبی قرابت، دوسرے سببی قرابت، اور انسان کو اپنی بیوی کے بھائی بہن سے ایسی الفت ہوتی ہے جیسے اپنے سگے بھائی بہن سے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی شادی کے بغیر زندگی گزارنے کی درخواست رد کر دی، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی ہوتی تو ہم خصی ہو جاتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «تبتل» کے معنی عورتوں سے الگ رہنے، نکاح نہ کر نے اور ازدواجی تعلق سے الگ تھلگ رہنے کے ہیں، نصاری کی اصطلاح میں اسے رہبانیت کہتے ہیں، تجرد کی زندگی گزارنا اور شادی کے بغیر رہنا شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے۔
It was narrated that:
Sa'd said: “The Messenger of Allah disapproved of Uthman bin Maz'un's desire to remain celibate; if he had given him permission, we would have gotten ourselves castrated.”
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجرد والی زندگی (بے شادی شدہ رہنے) سے منع فرمایا۔ زید بن اخزم نے یہ اضافہ کیا ہے: اور قتادہ نے یہ آیت پڑھی، «ولقد أرسلنا رسلا من قبلك وجعلنا لهم أزواجا وذرية»(سورة الرعد: 38)”ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور اولاد بنائیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتا ہے یا کافروں کے اعتراض رد کرتا ہے کہ اگر آپ نے کئی شادیاں کیں تو اولاً یہ نبوت کے منافی نہیں ہے، اگلے بہت سے انبیاء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے کئی کئی شادیاں کیں، ان کی اولاد بھی بہت تھی، بلکہ بنی اسرائیل تو سب یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں جن کے بارہ بیٹے تھے، اور کئی بیویاں تھیں، اور ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں، ایک سارہ، دوسری ہاجرہ، اور سلیمان علیہ السلام کی (۹۹) بیویاں تھیں، الروضہ الندیہ میں ہے کہ مانویہ اور نصاری نکاح نہ کرنے کو عبادت سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں اس کو باطل کیا، فطرت اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان نکاح کرے، اور اپنے بنی نوع کی نسل کو قائم رکھے، اور بڑھائے، البتہ جس شخص کو بیوی رکھنے کی قدرت نہ ہو اس کو اکیلے رہنا درست ہے۔
It was narrated from Samurah that:
the Messenger of Allah(ﷺ) forbade celibacy. Zaid bin Akhzam added: “And Qatadah recited: 'And indeed We sent Messengers before you (O Muhammad (ﷺ)), and made for them wives and offspring.'”
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کھائے تو اس کو کھلائے، جب خود پہنے تو اس کو بھی پہنائے، اس کے چہرے پر نہ مارے، اس کو برا بھلا نہ کہے، اور اگر اس سے لاتعلقی اختیار کرے تو بھی اسے گھر ہی میں رکھے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 42 (2142)، (تحفة الأشراف: 11396)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/447، 5/3) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی بات پر ناراض ہو تو اسے گھر سے دوسری جگہ نہ بھگائے، گھر ہی میں رکھے، بطور تأدیب صرف بستر الگ کر دے، اس لئے کہ اس کو دوسرے گھر میں بھیج دینے سے اس کے پریشان اور آوارہ ہونے کا ڈر ہے، اور تعلقات بننے کی بجائے مزید بگڑنے کی راہ ہموار ہونے کا خطرہ ہے۔
It was narrated from Hakim bin Muawiyah, from his father, that:
a man asked the Prophet(ﷺ): “What are the right of the woman over her husband?” He said: “That he should feed her as he feeds himself and clothe her as he clothes himself; he should not strike her on the face nor disfigure her, and he should not abandon her except in the house (as a form of discipline).” (Hassan)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا الحسين بن علي ، عن زائدة ، عن شبيب بن غرقدة البارقي ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، حدثني ابي ، انه شهد حجة الوداع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله واثنى عليه، وذكر ووعظ، ثم قال:" استوصوا بالنساء خيرا، فإنهن عندكم عوان ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك، إلا ان ياتين بفاحشة مبينة، فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع، واضربوهن ضربا غير مبرح، فإن اطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا، إن لكم من نسائكم حقا، ولنسائكم عليكم حقا، فاما حقكم على نسائكم، فلا يوطئن فرشكم من تكرهون، ولا ياذن في بيوتكم لمن تكرهون، الا وحقهن عليكم، ان تحسنوا إليهن في كسوتهن، وطعامهن". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ الْبَارِقِيِّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَّرَ وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ:" اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا، إِنَّ لَكُمْ مِنْ نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ، فَلَا يُوَطِّئَنَّ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمُ لِمَنْ تَكْرَهُونَ، أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ، أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ، وَطَعَامِهِنَّ".
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: ”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورتوں پر حق ہے، اور ان کا حق تم پر ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارا بستر ایسے شخص کو روندنے نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو ۱؎ اور وہ کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، سنو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اچھی طرح ان کو کھانا اور کپڑا دو“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی مرد کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ اندر آئے، اور اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے، پہلے عربوں میں یہ چیز معیوب نہیں تھی لیکن جب آیت حجاب نازل ہوئی تو اس سے منع کر دیا گیا۔ ۲؎: «لمن تكرهون» میں غیر محرم مرد تو یقینی طور پر داخل ہیں، نیز وہ محرم مرد اور عورتیں بھی اس میں داخل ہیں جن کے آنے جانے کو شوہر پسند نہ کرے۔
It was narrated that:
Sulaiman bin Amr bin Ahwas said: “My father told me that he was present at the Farewell Pilgrimage with the Messenger of Allah. He praised and glorified Allah, and reminded and exhorted (the people). Then he said: 'I enjoin good treatment of women, for they are prisoners with you, and you have no right to treat them otherwise, unless they commit clear indecency. If they do that, then forsake them in their beds and hit them, but without causing injury or leaving a mark. If they obey you, then do not seek means of annoyance against them. You have rights over your women and your women have rights over you. Your rights over your women are that they are not to allow anyone whom you dislike to tread on your bedding (furniture), nor allow anyone whom you dislike to enter your houses. And their right over you are that you should treat them kindly with regard to their clothing and food.' ”
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں کسی کو سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اور اگر شوہر عورت کو جبل احمر سے جبل اسود تک، اور جبل اسود سے جبل احمر تک پتھر ڈھونے کا حکم دے تو عورت پر حق ہے کہ اس کو بجا لائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16120، ومصباح الزجاجة: 656)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/47، 76، 97، 112، 135) (ضعیف)» (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، صرف حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے، الإرواء: 1998، 7/58، صحیح أبی داود: 1877)
It was narrated from Aishah:
that the messenger of Allah of said: “If I were to command anyone to prostrate to anyone else, I would have commanded women to prostrate to their husbands. If a man were to command his wife to move (something) from a red mountain to a black mountain, and from a black mountain to a red mountain, her duty is to obey to him.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن الشطر الأول منه صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف علي بن زيد بن جدعان: ضعيف ولبعض حديثه شواهد انوار الصحيفه، صفحه نمبر 446
(مرفوع) حدثنا ازهر بن مروان ، قال: حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن القاسم الشيباني ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: لما قدم معاذ من الشام، سجد للنبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما هذا يا معاذ؟، قال: اتيت الشام فوافقتهم يسجدون لاساقفتهم، وبطارقتهم، فوددت في نفسي ان نفعل ذلك بك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلا تفعلوا، فإني لو كنت آمرا احدا ان يسجد لغير الله، لامرت المراة ان تسجد لزوجها، والذي نفس محمد بيده، لا تؤدي المراة حق ربها حتى تؤدي حق زوجها، ولو سالها نفسها وهي على قتب لم تمنعه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنَ الشَّامِ، سَجَدَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا هَذَا يَا مُعَاذُ؟، قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ، وَبَطَارِقَتِهِمْ، فَوَدِدْتُ فِي نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذَلِكَ بِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا، وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعْهُ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب معاذ رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ (سجدہ تحیہ) کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے معاذ! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، ایسا نہ کرنا، اس لیے کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کر لے، اور اگر شوہر عورت سے جماع کی خواہش کرے، اور وہ کجاوے پر سوار ہو تو بھی وہ شوہر کو منع نہ کرے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5180، ومصباح الزجاجة: 657)، وقد أخرجہ: مسند احمد (/3814) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ نیک اور دیندار عورت دنیاوی عیش و عشرت کا عنوان ہوتی ہے، اس کی صحبت سے آدمی کو خوشی ہوتی ہے، باہر سے کتنے ہی رنج میں آئے جب اپنی پاک سیرت عورت کے پاس بیٹھتا ہے تو سارا رنج و غم بھول جاتا ہے برخلاف اس کے اگر عورت خراب اور بدخلق ہو تو دنیا کی زندگی جہنم بن جاتی ہے، کتنا ہی مال اور دولت ہو سب بیکار اور لغو ہو جاتا ہے، کچھ مزا نہیں آتا، علی رضی اللہ عنہ نے «رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً»(سورة البقرة: 201) سے دنیا کی نیکی سے نیک اور دیندار عورت اور آخرت کی نیکی سے جنت کی حور، اور آگ کے عذاب سے خراب اور بدزبان عورت مراد لی ہے۔
It was narrated that:
Abdullah bin Abu Awfa said “When Muadh bin Jabal came from Sham, he prostrated to the Prophet who said: 'What is this, O Muadh?' He said: 'I went to Sham and saw them prostrating to their bishops and patricians and I wanted to do that for you.' The messenger of Allah said: 'Do not do that. If I were to command anyone to prostrate to anyone other than Allah, I would have commanded women to prostrate to their husbands. By the One in Whose Hand is the soul of Muhammad! No woman can fulfill her duty towards Allah until she fulfills her duty towards her husband. If he asks her (for intimacy) even if she is on her camel saddle, she should not refuse.' ”
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الرضاع 10 (1161)، (تحفة الأشراف: 18294) (ضعیف) (مساور الحمیری اور ان کی ماں دونوں مبہم راوی ہیں)»
It was narrated that from Musawir Al Himyari from his mother that:
she heard Umm Salamah say: “I heard the Messenger of Allah say: 'Any woman who dies when her husband is pleased with her, will enter Paradise.' ”