(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما،" ان النبي صلى الله عليه وسلم راى نخامة في قبلة المسجد فتغيظ على اهل المسجد وقال: إن الله قبل احدكم، فإذا كان في صلاته فلا يبزقن او قال لا يتنخمن، ثم نزل فحتها بيده"، وقال ابن عمر رضي الله عنهما: إذا بزق احدكم فليبزق على يساره.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَتَغَيَّظَ عَلَى أَهْلِ الْمَسْجِدِ وَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قِبَلَ أَحَدِكُمْ، فَإِذَا كَانَ فِي صَلَاتِهِ فَلَا يَبْزُقَنَّ أَوْ قَالَ لَا يَتَنَخَّمَنَّ، ثُمَّ نَزَلَ فَحَتَّهَا بِيَدِهِ"، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِذَا بَزَقَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْزُقْ عَلَى يَسَارِهِ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں قبلہ کی طرف رینٹ دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجود لوگوں پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہے اس لیے نماز میں تھوکا نہ کرو، یا یہ فرمایا کہ رینٹ نہ نکالا کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور خود ہی اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب کسی کو تھوکنا ضروری ہو تو اپنی بائیں طرف تھوک لے۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet saw some sputum on the wall facing the Qibla of the mosque and became furious with the people of the mosque and said, "During the prayer, Allah is in front of everyone of you and so he should not spit (or said, 'He should not expectorate')." Then he got down and scratched the sputum with his hand. Ibn `Umar said (after narrating), "If anyone of you has to spit during the prayer, he should spit to his left."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 304
(مرفوع) حدثنا محمد، حدثنا غندر، حدثنا شعبة , قال: سمعت قتادة، عن انس رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا كان في الصلاة فإنه يناجي ربه، فلا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن شماله تحت قدمه اليسرى".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا كَانَ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ، فَلَا يَبْزُقَنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلَكِنْ عَنْ شِمَالِهِ تَحْتَ قَدَمِهِ الْيُسْرَى".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انہوں نے کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، اس لیے اس کو سامنے نہ تھوکنا چاہیے اور نہ دائیں طرف البتہ بائیں طرف اپنے قدم کے نیچے تھوک لے۔
Narrated Anas: The Prophet said, "Whenever anyone of you is in prayer, he is speaking in private to his Lord and so he should neither spit in front of him nor on his right side but to his left side under his left foot."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 305
فيه سهل بن سعد رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم.فِيهِ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه , قال:" كان الناس يصلون مع النبي صلى الله عليه وسلم وهم عاقدو ازرهم من الصغر على رقابهم، فقيل للنساء: لا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ عَاقِدُو أُزْرِهِمْ مِنَ الصِّغَرِ عَلَى رِقَابِهِمْ، فَقِيلَ لِلنِّسَاءِ: لَا تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے، ان کو سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز اس طرح پڑھتے کہ تہبند چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں سے باندھے رکھتے اور عورتوں کو (جو مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک رہتی تھیں) کہہ دیا جاتا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کر نہ بیٹھ جائیں تم اپنے سر (سجدے سے) نہ اٹھانا۔
Narrated Sahl bin Sa`d: The people used to offer the prayer with the Prophet with their waist-sheets tied round their necks because of the shortness of the sheets and the women were ordered not to lift their heads till the men had sat straight.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 306
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي شيبة، حدثنا ابن فضيل، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله , قال:" كنت اسلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة فيرد علي، فلما رجعنا سلمت عليه فلم يرد علي وقال: إن في الصلاة لشغلا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ:" كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَرُدُّ عَلَيَّ، فَلَمَّا رَجَعْنَا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ وَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا".
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ(ابتداء اسلام میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں ہوتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے تھے۔ مگر جب ہم (حبشہ سے جہاں ہجرت کی تھی) واپس آئے تو میں نے (پہلے کی طرح نماز میں) سلام کیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا (کیونکہ اب نماز میں بات چیت وغیرہ کی ممانعت نازل ہو گئی تھی) اور فرمایا کہ نماز میں اس سے مشغولیت ہوتی ہے۔
Narrated `Abdullah: I used to greet the Prophet while he was in prayer and he would return my greeting, but when we returned (from Ethiopia) I greeted the Prophet (while he was praying) but he did not return the greeting, and (after finishing the prayer) he said, "In the prayer one is occupied (with a more serious matter)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 307
(مرفوع) حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا كثير بن شنظير، عن عطاء بن ابي رباح، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما , قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة له فانطلقت ثم رجعت وقد قضيتها، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه فلم يرد علي فوقع في قلبي ما الله اعلم به، فقلت في نفسي لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد علي اني ابطات عليه، ثم سلمت عليه فلم يرد علي فوقع في قلبي اشد من المرة الاولى، ثم سلمت عليه فرد علي فقال: إنما منعني ان ارد عليك اني كنت اصلي، وكان على راحلته متوجها إلى غير القبلة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِير، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ لَهُ فَانْطَلَقْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ وَقَدْ قَضَيْتُهَا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَوَقَعَ فِي قَلْبِي مَا اللَّهُ أَعْلَمُ بِهِ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَيَّ أَنِّي أَبْطَأْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَوَقَعَ فِي قَلْبِي أَشَدُّ مِنَ الْمَرَّةِ الْأُولَى، ثُمَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ فَقَالَ: إِنَّمَا مَنَعَنِي أَنْ أَرُدَّ عَلَيْكَ أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي، وَكَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مُتَوَجِّهًا إِلَى غَيْرِ الْقِبْلَةِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے کثیر بن شنظیر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی ایک ضرورت کے لیے (غزوہ بنی مصطلق میں) بھیجا۔ میں واپس آیا اور میں نے کام پورا کر دیا تھا۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے دل میں اللہ جانے کیا بات آئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اس لیے خفا ہیں کہ میں دیر سے آیا ہوں۔ میں نے پھر دوبارہ سلام کیا اور جب اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا تو اب میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ خیال آیا۔ پھر میں نے (تیسری مرتبہ) سلام کیا، اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا کہ پہلے جو دو بار میں نے جواب نہ دیا تو اس وجہ سے تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر تھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ تھا بلکہ دوسری طرف تھا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: Allah's Apostle sent me for some job and when I had finished it I returned and came to the Prophet and greeted him but he did not return my greeting. So I felt so sorry that only Allah knows it and I said to myself,, 'Perhaps Allah's Apostle is angry because I did not come quickly, then again I greeted him but he did not reply. I felt even more sorry than I did the first time. Again I greeted him and he returned the greeting and said, "The thing which prevented me from returning the greeting was that I was praying." And at that time he was on his Rahila and his face was not towards the Qibla.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 308
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه , قال:" بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم ان بني عمرو بن عوف بقباء كان بينهم شيء فخرج يصلح بينهم في اناس من اصحابه، فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت الصلاة فجاء بلالإلى ابي بكر رضي الله عنهما , فقال: يا ابا بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حبس وقد حانت الصلاة، فهل لك ان تؤم الناس؟ قال: نعم، إن شئت، فاقام بلال الصلاة وتقدم ابو بكر رضي الله عنه فكبر للناس، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف يشقها شقا حتى قام في الصف فاخذ الناس في التصفيح , قال سهل: التصفيح هو التصفيق، قال: وكان ابو بكر رضي الله عنه لا يلتفت في صلاته، فلما اكثر الناس التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشار إليه يامره ان يصلي , فرفع ابو بكر رضي الله عنه يده فحمد الله، ثم رجع القهقرى وراءه حتى قام في الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى للناس، فلما فرغ اقبل على الناس , فقال: يا ايها الناس ما لكم حين نابكم شيء في الصلاة اخذتم بالتصفيح، إنما التصفيح للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله، ثم التفت إلى ابي بكر رضي الله عنه , فقال: يا ابا بكر ما منعك ان تصلي للناس حين اشرت إليك؟ , قال ابو بكر: ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِقُبَاءٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَجَاءَ بِلَالٌإِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتِ الصَّلَاةُ، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ، فَأَقَامَ بِلَالٌ الصَّلَاةَ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَبَّرَ لِلنَّاسِ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ يَشُقُّهَا شَقًّا حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيحِ , قَالَ سَهْلٌ: التَّصْفِيحُ هُوَ التَّصْفِيقُ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ , فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ , فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ، إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ لِلنَّاسِ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ؟ , قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ قباء کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح صفائی کے لیے ٹھہر گئے۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا تو بلال رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے اور نماز کا وقت ہو گیا، تو کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اگر تم چاہتے ہو تو پڑھا دوں گا۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نیت باندھ لی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے، لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے شروع کر دیئے۔ (سہل نے کہا کہ «تصفيح» کے معنی «تصفيق» کے ہیں) آپ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے بہت دستکیں دیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلے آئے اور صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! یہ کیا بات ہے کہ جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو۔ یہ مسئلہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ تمہیں اگر نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو «سبحان الله» کہا کرو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ابوبکر! میرے کہنے کے باوجود تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔
Narrated Sahl bin Sa`d: The news about the differences amongst the people of Bani `Amr bin `Auf at Quba reached Allah's Apostle and so he went to them along with some of his companions to affect a reconciliation. Allah's Apostle was delayed there and the time for the prayer became due. Bilal came to Abu Bakr! and said, "O Abu Bakr! Allah's Apostle is detained (there) and the time for the prayer is due. Will you lead the people in prayer?" Abu Bakr replied, "Yes, if you wish." So Bilal pronounced the Iqama and Abu Bakr went forward and the people said Takbir. In the meantime, Allah's Apostle came piercing through the rows till he stood in the (first) row and the people started clapping. Abu Bakr, would never look hither and thither during the prayer but when the people clapped much he looked back and saw Allah's Apostle. The Prophet beckoned him to carry on. Abu Bakr raised both his hands, praised Allah and retreated till he stood in the row and Allah's Apostle went forward and led the people in the prayer. When he had finished the prayer, he addressed the people and said, "O people! Why did you start clapping when something happened to you in the prayer? Clapping is for women. Whenever one is confronted with something unusual in the prayer one should say, 'Sub Han Allah'." Then the Prophet looked towards Abu Bakr and asked, "What prevented you from leading the prayer when I beckoned you to carry on?" Abu Bakr replied, "It does not befit the son of Al Quhafa to lead the prayer in the presence of Allah's Apostle.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 309
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نماز میں پہلو پر ہاتھ رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ ہشام اور ابوہلال محمد بن سلیم نے، ابن سیرین سے اس حدیث کو روایت کیا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان فردوسی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلو پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔