Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كتاب العمل في الصلاة
کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
15. بَابُ لاَ يَرُدُّ السَّلاَمَ فِي الصَّلاَةِ:
باب: نماز میں سلام کا جواب (زبان سے) نہ دے۔
حدیث نمبر: 1217
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِير، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ لَهُ فَانْطَلَقْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ وَقَدْ قَضَيْتُهَا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَوَقَعَ فِي قَلْبِي مَا اللَّهُ أَعْلَمُ بِهِ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَيَّ أَنِّي أَبْطَأْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَوَقَعَ فِي قَلْبِي أَشَدُّ مِنَ الْمَرَّةِ الْأُولَى، ثُمَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ فَقَالَ: إِنَّمَا مَنَعَنِي أَنْ أَرُدَّ عَلَيْكَ أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي، وَكَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مُتَوَجِّهًا إِلَى غَيْرِ الْقِبْلَةِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے کثیر بن شنظیر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی ایک ضرورت کے لیے (غزوہ بنی مصطلق میں) بھیجا۔ میں واپس آیا اور میں نے کام پورا کر دیا تھا۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے دل میں اللہ جانے کیا بات آئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اس لیے خفا ہیں کہ میں دیر سے آیا ہوں۔ میں نے پھر دوبارہ سلام کیا اور جب اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا تو اب میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ خیال آیا۔ پھر میں نے (تیسری مرتبہ) سلام کیا، اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا کہ پہلے جو دو بار میں نے جواب نہ دیا تو اس وجہ سے تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر تھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ تھا بلکہ دوسری طرف تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1217 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1217  
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں ہے کہ یہ غزوہ بنی المصطلق میں تھا۔
اور مسلم ہی کی روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا اور جابر ؓ کا مغموم ومتفکر ہونا اس لیے تھا کہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ یہ اشارہ سلام کا جواب ہے۔
کیونکہ پہلے زبان سے سلام کا جواب دیتے تھے نہ کہ اشارہ سے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1217   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1217  
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیا تھا جسے حضرت جابر ؓ نہ سمجھ سکے، اس لیے وہ پریشان اور متفکر ہوئے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1205(540)
، و فتح الباري: 113/3)

امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور حدیث سے مقصود یہ ہے کہ دورانِ نماز میں جب نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ اس کا جواب زبان سے نہ دے۔
آپ کا قطعاً یہ مقصود نہیں کہ نمازی کو دوران نماز میں سلام کہنا مکروہ اور جواب دینا غیر مشروع ہے، کیونکہ دیگر احادیث سے دوران نماز ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دینا ثابت ہے، چنانچہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا:
میں نے حضرت بلال ؓ سے پوچھا کہ لوگ جب رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں سلام کرتے تو آپ انہیں کیسے جواب دیتے تھے؟ انہوں نے کہا:
اس طرح کرتے اور انہوں نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، یعنی ہاتھ کے اشارے سے جواب دیتے تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 927)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1217   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1206  
´نماز میں سلام کا جواب`
«. . . فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى بَعِيرِهِ، فَكَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ: هَكَذَا، وَأَوْمَأَ زُهَيْرٌ بِيَدِهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا زہیر نے بتلایا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة: 1206]
فقہ الحدیث
نمازی کو سلام کہنا جائز اور صحیح ہے، حالت نماز میں سلام کا جواب کلام کر کے نہیں، بلکہ اشارے کے ساتھ دینا سنت ہے، کلام کر کے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے۔
↰ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نمازی کو سلام کہنے اور اشارے سے جواب لوٹانا جائز ہے۔

«ان عبدالله بن عمر على رجل، و هو يصلي، فسلم عليه فرد الرجل كلاما، فرجع اليه عبدالله بن عمر، فقال له: اذا سلم على احد كم، وهو يصلي، فلا يتكلم وليشر بيده۔۔»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک ادمی کے پاس سے گزرے، وہ نماز پڑھ رہا تھا، آپ نے اسے سلام کہا:، اس نے بول کر جواب د یا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کی طرف لوٹے اور اسے فرمایا: جب تم میں سے کسی ایک کو سلام کہا جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو وہ کلام نہ کرے، بلکہ اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کر دے۔ [الموطا للامام مالك: 168/1، مصنف ابن ابي شيبه: 74/2، ح: 4749، اسناده صحيح كالشمس وضوحاًً]

مانعین کا ایک اعتراض
«عن جابر بن عبدالله رضى الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حاجة له، فانطلقت، ثم رجعت، وقد قضيتها، فا اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فلم يرد علي، فوقع فى قلبي ما الله اعلم به، فقلت فى نفسي: لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد علي أني أ بطأت عليه، ثم سلمت عليه، فلم يرد علي، فوقع فى قلبي أشد من المره الأولي، ثم سلمت عليه، فرد علي، فقال: انما منعني أن أرد عليك أني كنت اصلي، و كان على راحلته متوجها الي غير القبلة۔»
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام کی غرض سے بھیجا۔ میں کام مکمل کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا:، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہیں د یا۔ میرے غم، حزن کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے، میں نے دل میں کہا: کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہو گئے۔ دوبارہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا:، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ لوٹایا، میرے د ل میں پہلے سے بھی زیادہ حزن، ملال پیدا ہوا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب ارشا د کیا اور فرمایا، بے شک مجھے آپ کے سلام کا جواب دینے سے صرف نماز نے منع کیا تھا۔ [صحيح بخاري: 1217، صحيح مسلم: 540]
جناب تھانوی لکھتے ہیں:
«فآنه قد صريح فى أنه صلى الله عليه و سلم لم يرد على جابر، لا اشاره ولا لفظا ولو كان رد عليه اشارة لم يقع فى قلب جابر ما وقع، فتقييده بالكلام غير سديد، و أيضا لو كان صلى الله عليه وسلم رد عليه بالاشاره لم يحتج الي رد عليه بعد الفراغ ‘كما هو مذهب من يجير الرد با لاشارة، و قد ثبت أنه رد عليه بعد ما انصرف عن صلاته، و هو الماثور من مذهب الجابر۔۔۔»
اس میں گویا صراحت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر کو نہ اشارتاًً جواب دیا تھا اور نہ ہی لفظاًً۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے جواب دیا ہوتا تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے دل میں غم و حزن ہوتا۔ اس کو اس بات پر مقید کرنا کہ یہ سلام کا جواب بالاشارہ تھا نہ کہ بالکلام، کوئی پختہ رائے نہیں ہے۔ اس طرح اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب بالاشارہ لوٹایا ہوتا، تو نماز سے فراغت کے بعد بالکلام سلام کا جواب لوٹانے کی کیا ضرورت تھی؟ جو اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب لوٹانا جائز سمجھتا ہے، وہ تو ایسا نہیں کرتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد سلام کا جواب لوٹایا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ [اعلاء السنن: 33/5]
جواب:
تھانوی صاحب کا یہ کلام حقیقت پر مبنی نہیں ہے، کیونکہ صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب لوٹایا ہے۔ اس سے صحیح بخاری والی روایت کا مفہوم بھی واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ رہا یہ مسٔلہ کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے دل میں غم کیوں پیدا ہوا تو حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فيحمل فى حديث الباب فلم يرد علي أى باللفظ،، وكان جابر الم يعرف اولا أن المراد بالاشارة الرد فلذلك قال: فوقع فى قلبي ما الله اعلم به، أى من الحزن۔»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر جواب نہیں لوٹایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ بالتسلط نہیں لوٹایا، گویا کہ پہلے پہل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو علم نہ تھا کہ اشارے سے مراد جواب ہے، اسی لیے تو انہوں نے کہا کہ میرے دل میں وہ حزن و ملال پیدا ہوا، جسے اللہ ہی جانتا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 87/3]
↰ تھانوی صاحب کا یہ کہنا کہ
جواب نہ لوٹانے کو کلام کے ساتھ مقید کرنا پختہ رائے نہیں ہے،
صحیح مسلم کی حدیث اس کا ردّ کرتی ہے، بلکہ دیگر احادیث اور آثار بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔ باقی رہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعدِ نماز سلام کا جواب لوٹانے کی کیا ضرورت محسوس کی، روایت میں واضح ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز میں اور سلام پھیرنے کے بعد دونوں کیفیتوں میں سلام کہا:، حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب اشارہ سے اور سلام پھیرنے کے بعد زبان سے بول کر فرمایا، اتنی سی بات تھانوی صاحب کو سمجھ نہ آ سکی اور وہ حدیث کی تاویل کے درپے ہو گئے۔
ظفر احمد تھانوی صاحب نے یہ ذکر کیا ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا مذھب یہ تھا کہ اگر نمازی پر سلام کہا جائے تو وہ بعدِ نماز ہی جواب دے گا،
اس کے ثبوت پر جو دلیل دی ہے، وہ ضعیف ہے، جیسا کہ پیچھے اس کا بیان ہو چکا ہے۔ بالفرض تھانوی صاحب کی با ت درست مان بھی لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نمازی پر سلام کہا جا سکتا ہے، اگر وہ جواب نہ دے تو حرج نہیں، اگر دے تو جائز ہے، وہ بھی بالاشارہ جواب دے سکتا ہے۔ کلام کر کے جواب دینا ممنوع ہے۔ ہم بھی نماز میں اشارے سے سلام کے جواب کو ضروری قرار نہیں دیتے، بلکہ صرف جواز کے قائل ہیں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 16، حدیث/صفحہ نمبر: 14   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 926  
´نماز میں سلام کا جواب دینا۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بنی مصطلق کے پاس بھیجا، میں (وہاں سے) لوٹ کر آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ سے بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے اس طرح سے اشارہ کیا، میں نے پھر آپ سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا یعنی خاموش رہنے کا حکم دیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآت کرتے سن رہا تھا اور آپ اپنے سر سے اشارہ فرما رہے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: میں نے تم کو جس کام کے لیے بھیجا تھا اس سلسلے میں تم نے کیا کیا؟، میں نے تم سے بات اس لیے نہیں کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 926]
926۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح مسلم کتاب المساجد، حدیث [540] میں ہے کہ زہیر نے زمین کی طرف اشارہ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کی وضاحت کی۔
➋ سفر میں (نفل) نماز سواری پر پڑھی جا سکتی ہے، رکوع اور سجود اشارے سے ہوں گے۔
➌ اثنائے نماز میں کسی مخاطب کو اشارے سے جواب دینا جائز ہے۔
➍ اگر کوئی کسی وجہ سے جواب نہ دے سکے، تو چاہیے کہ معذرت پیش کرے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 926   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1191  
´نماز میں اشارے سے سلام کے جواب دینے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی ضرورت سے) بھیجا، میں (لوٹ کر) آپ کے پاس آیا تو آپ (سواری پر) مشرق یا مغرب کی طرف جا رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، میں واپس ہونے لگا تو آپ نے مجھے آواز دی: اے جابر! (تو میں نے نہیں سنا) پھر لوگوں نے بھی مجھے جابر کہہ کر (بلند آواز سے) پکارا، تو میں آپ کے پاس آیا، اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے مجھے جواب نہیں دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز پڑھ رہا تھا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1191]
1191۔ اردو حاشیہ: یہ روایت پہلی روایت ہی کی تفصیل ہے۔ گویا حضرت جابر یہ نہ سمجھ سکے کہ اشارہ سلام کا جواب ہے۔ کیونکہ یہ زبان کے ساتھ جواب دینے سے نہی کا ابتدائی دور تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1191   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1206  
حضرت جابر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے آپﷺ نے جبکہ آپﷺ بنو مصطلق کی طرف جارہے تھے (کام کے لیے) بھیجا، میں واپس آپﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ اپنے اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپﷺ سے گفتگو کرنا چاہی تو آپﷺ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا (زہیر نے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا) اور میں آپﷺ کی قرأت سن رہا تھا (رکوع و سجود کے لیے) سر سے اشارہ فرماتے تھے، آپ ﷺ نے فارغ ہو کر پوچھا، جس کام کے لیے میں نے بھیجا تھا اس کے بارے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1206]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مصطلق کے ساتھ جنگ 5 یا 6 ہجری میں ہوئی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1206