Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كتاب العمل في الصلاة
کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
12. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الْبُصَاقِ وَالنَّفْخِ فِي الصَّلاَةِ:
باب: اس بارے میں کہ نماز میں تھوکنا اور پھونک مارنا کہاں تک جائز ہے؟
حدیث نمبر: 1213
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَتَغَيَّظَ عَلَى أَهْلِ الْمَسْجِدِ وَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قِبَلَ أَحَدِكُمْ، فَإِذَا كَانَ فِي صَلَاتِهِ فَلَا يَبْزُقَنَّ أَوْ قَالَ لَا يَتَنَخَّمَنَّ، ثُمَّ نَزَلَ فَحَتَّهَا بِيَدِهِ"، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِذَا بَزَقَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْزُقْ عَلَى يَسَارِهِ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں قبلہ کی طرف رینٹ دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجود لوگوں پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہے اس لیے نماز میں تھوکا نہ کرو، یا یہ فرمایا کہ رینٹ نہ نکالا کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور خود ہی اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب کسی کو تھوکنا ضروری ہو تو اپنی بائیں طرف تھوک لے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1213 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1213  
حدیث حاشیہ:
اس سے یہ معلوم ہوا کہ برے کام کو دیکھ کر تمام جماعت پر ناراض ہونا جائز ہے تاکہ سب کو تنبیہ ہو اورآئندہ کے لیے اس کا لحاظ رکھیں۔
نما ز میں قبلہ کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا۔
نہ کہ مطلق تھوک ڈالنے سے بلکہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت فرمائی جیسا کہ اگلی حدیث میں مذکور ہے۔
جب تھوک مسجد میں پختہ فرش ہونے کی وجہ سے دفن نہ ہو سکے تو رومال میں تھوکنا چاہیے۔
پھونک مارنا بھی کسی شدید ضرورت کے تحت جائز ہے بلا ضرورت پھونک مارنا نماز میں خشوع کے خلاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1213   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 96  
´فاسق و فاجر کو امامت سے ہٹا دینا چاہئیے`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى بصاقا فى جدار القبلة فحكه: ثم اقبل على الناس فقال: إذا كان احدكم يصلي فلا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلى . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی طرف دیوار پر تھوک دیکھا تو اسے کھرچ (کر صاف کر) دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے سامنے اللہ ہوتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 96]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 406، ومسلم 547، من حديث مالك به]
تفقہ:
① قبلہ رخ تھوکنا حرام ہے۔
② ایک شخص کسی قبیلے کا امام تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں قبلے کی طرف تھوکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا یصلي لکم۔» یہ تمہیں نماز نہ پڑھائے۔ پھر اس نے بعد میں نماز پڑھانے کی کوشش کی تو لوگوں نے اسے روک دیا۔ [سنن ابي داود: 481 وسنده حسن و صححه ابن حسان: 334]
معلوم ہوا کہ فاسق فاجر اور حدیث کی مخالفت کرنے والے شخص کو امامت سے ہٹایا جا سکتا ہے لہٰذا بدعتی کو کبھی امام نہیں بنانا چاہئے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «مَنْ صَلَّى فَبَزَقَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاءَتْ بَزْقَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيْ وَجْهِهِ» جس شخص نے نماز پڑھی (اور) قبلے کی طرف تھوکا (تو) قیامت کے دن اس کا تھوک اس کے چہرے پر (لگا ہوا) ہو گا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/365 ح7455، وسنده صحيح]
④ اس حدیث سے بھی نماز کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔
⑤ عالم ہو یا عامی، اپنی وسعت کے مطابق مسجد کی صفائی کرنا سنت ہے۔
⑥ اگر کسی شخص کو نماز میں تھوکنے کی ضرورت محسوس ہو تو اپنی چادر یا کپڑے میں تھوک لے۔
⑦ مسلمان کو کسی طرح بھی تکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے۔
⑧ اس پر اجماع ہے کہ عملِ قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ دیکھئے [التمهيد 14/155]
⑨ اگر کوئی شخص کسی مجبوری یا بیماری کی وجہ سے لمبا سانس لیتا یا کھنکھارتا ہے تو اس سے نماز خراب نہیں ہوتی لیکن بعض لوگ عادت سے مجبور ہو کر یا ویسے ہی کھنکارتے رہتے ہیں، ان لوگوں کو ایسی حرکات سے اجتناب کرنا چاہئے۔
اس کے سامنے اللہ ہوتا ہے۔ سے مراد اس کے سامنے اللہ کا قبلہ ہوتا ہے۔‏‏‏‏ دیکھئے: [معالم السنن للخطابي 124/1]
لہٰذا اس حدیث سے معتزلہ کا یہ استدلال غلط اور باطل ہے کہ اللہ ہر جگہ بذاتہ موجود ہے کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو پر کپڑے پر اور قدموں کے نیچے بھی تھوکنا جائز نہ ہوتا حالانکہ یہ بالاجماع جائز ہے۔ [التمهيد 157/14، نيز ديكهئے ح 460]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 205   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 725  
´مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ والی دیوار پر تھوک دیکھا تو اسے رگڑ دیا، پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے چہرہ کی جانب ہرگز نہ تھوکے، کیونکہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے چہرہ کے سامنے ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 725]
725 ۔ اردو حاشیہ: اللہ عزوجل اس کے سامنے ہوتا ہے۔ کیسے ہوتا ہے؟ جیسے اس کی شان عظیم کے لائق ہے۔ اس کا انکار درست نہیں اور نہ تاویل کرنا ہی مناسب ہے۔ اہل سنت و الجماعت اور محدثین رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل کے ظاہر الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے، اس لیے جب عام انسان سے ہم کلام ہوتے ہوئے اس کے سامنے تھوکنا اس کی توہین ہے تو نماز میں سامنے تھوکنا یقیناًً اللہ تعالیٰ کی توہین ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 725   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث763  
´مسجد میں تھوکنے اور ناک جھاڑنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار قبلہ پر بلغم دیکھا، اس وقت آپ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بلغم کھرچ دیا، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 763]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز میں بندہ اللہ تعالی کے حضور اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے لہٰذا اس وقت سامنے تھوکنا اس ادب واحترام کے منافی ہے جس کا اختیار کرنا ایسے موقعوں پر ضروری ہے۔

(2)
اللہ تعالی کے نمازی کے سامنے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔

(3)
اس سے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔
اس مسئلہ میں صحیح موقف یہی ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں سے اوپر عرش عظیم پر ہے لیکن اس کا علم قدرت اور رحمت ہر شے کو محیط ہے۔
محدثین کرام کا یہی مسلک ہےجس کے دلائل قرآن وحدیث میں اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾ (طه: 5)
 وہ رحمٰن ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا ہے۔
جبکہ حدیث میں اس کی دلیل مشہور ومعروف حدیث جاریہ ہے۔
حضرت معاویہ سلمی کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد پہاڑ اور جوانیہ کے درمیان میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔
ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور بکریوں میں سے ایک کو اٹھا کر لے گیا۔ (مجھے اس کی غفلت پر غصہ آیا)
تو میں نے اس کو زور سے تھپڑ مارا۔ (پھر مجھے ندامت محسوس ہوئی)
تو میں نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کردیا۔
نبی کریمﷺ نے بھی اسے سخت ناپسند کیا۔
میں نے خواہش ظاہر کی کہ کیا میں اسے آزاد نہ کردوں؟ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ لونڈی کو بلا لاؤں۔
جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا:
اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا:
اللہ تعالی آسمان میں ہے۔
آپ نے سوال کیا کہ میں کون ہوں؟ لونڈی نے جواب دیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
یہ سن کر آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں لونڈی کو آزاد کردوں کیونکہ یہ مومنہ ہے۔
 (صحيح مسلم، المساجد، باب تحريم الكلام في الصلاة۔
۔
۔
۔
۔
، حدیث: 537)

نيز الله تعالي اپنے علم، قدرت، رحمت اور حفاظت کے ساتھ اپنے نیک بندوں کا ساتھ دیتا ہے۔
فرمان الہی ہے:
﴿وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ﴾ (المائدة: 12)
اور اللہ نے فرمایا میں تمھارے ساتھ ہوں۔
 حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں:
یعنی اپنی حفاظت اور مدد کے ساتھ۔
ارشاد باری تعالی ہے ﴿وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ﴾ (البقره: 19)
اور الله تعالی کافروں کو گھیرنے والا ہے (اپنی قدرت ومشیت سے۔)
حافظ ابن کثیر ؒ اللہ تعالی کے ارشاد مبارک:
﴿قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ﴾ (طه: 46)
 اللہ تعالی نے فرمایا:
تم بالکل خوف نہ کھاؤ میں تمھارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا رہوں گا ۔
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یعنی اپنی نصرت وتائید وحفاظت کے ساتھ تمھارے ساتھ رہوں گا۔
اس معنی کی وضاحت کے لیے ویگر فرامین الہی اور احادیث نبویہ بکثرت موجود ہیں۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَلِکَ۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 763   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1223  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبلہ والی دیوار میں تھوک دیکھا تو آپ ﷺ نے اسے کھرچ دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو تو اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ اس کے سامنے ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1223]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان جب نماز پڑھتا ہے تو اللہ سے راز و نیاز اور مناجات کرتا ہے اور یوں تصور کرتا ہے کہ گویا کہ میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔
اس لحاظ سے گویا وہ سامنے موجود ہے،
اس کو آپﷺ نے سامنے ہونے سے تعبیر فرمایا ہے اصل مقصد یہ ہے کہ قبلہ کا احترام و اعزاز ہونا چاہیے حالت نماز میں ہو یا نماز سے خارج ہو انسان کسی بھی وقت قبلہ کی طرف نہ تھوکے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1223   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 753  
753. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے مسجد کے قبلے کی طرف تھوک دیکھا جبکہ آپ لوگوں کے آگے کھڑے ہو کر انہیں نماز پڑھا رہے تھے، آپ نے اسے زائل کر دیا۔ اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے چہرے کی طرف ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔ اس روایت کو موسیٰ بن عقبہ اور ابن ابو رواد نے حضرت نافع سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:753]
حدیث حاشیہ:
باب اورحدیث میں مطابقت یہ کہ آنحضرت ﷺ نے بحالت نماز مسجد کی قبلہ رخ دیوارپر بلغم دیکھا اورآپ کو اس کی ناگواری کا بہت سخت احساس ہوا، ایسی حالت میں آپ نے اس کی طرف التفات فرمایا توایسا التفات جائز ہے۔
حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حالت نماز ہی میں آپ نے اس کو صاف کرڈالا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 753   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:406  
406. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیوار قبلہ پر تھوک دیکھا تو اسے کھرچ ڈالا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑح رہا ہو تو اپنے سامنے کی جانب نہ تھوکے کیونکہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے سامنے ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:406]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحالت نماز دیوارقبلہ پر نخامہ (بلغم)
دیکھا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 753)
دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اہل مسجد پر خفا ہوئے اور انھیں وعظ فرمایا، پھر منبر سے اُترے اور اسے اپنے ہاتھوں سے دورفرمایا۔
(صحیح البخاري، العمل في الصلاة، حدیث: 1213)
علامہ اسماعیلی ؒ نے اپنی بیان کردہ روایت میں صراحت کی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے زعفران منگوایا اور اسے تھوک کی جگہ پر لگایا۔
مساجد میں زعفران استعمال کرنے کی سنت اسی بنا پر قائم ہوئی۔
(فتح الباري: 659/1)

مسجد میں تھوکنے سے ممانعت کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں:
۔
بندے کا اپنے رب سے مناجات میں مشغول ہونا۔
۔
اللہ تعالیٰ کانمازی اور قبلے کے درمیان ہونا۔
۔
دیوار قبلہ کا احترام۔
نماز کااحترام اورکاتب حسنات فرشتے کا احترام۔
یہ سب وجوہ اشارتاً یا دلالتاً نصوص سے ثابت ہیں، لہذا ان سب وجوہ کے مجموعے کو باعث ممانعت قراردیاجائے تو بہتر ہے، خاص طور پر نماز ی کا مناجات حق کے وقت بہترین حالت میں ہونا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتاہے، اس لیے ایسی حالت میں تھوکنا مناسب نہیں ہے، البتہ کسی مجبوری کے پیش نظر ایسا کیاجاسکتا ہے۔
اس مجبوری سے عہدہ برآہونے کے لیے مختلف طریقے احادیث میں بتائے گئے ہیں جن کا آئندہ تذکرہ ہوگا۔

امام بخاری ؒ نے مساجد سے متعلق ان ابواب میں دو چیزیں بیان فرمائی ہیں:
۔
آداب مسجد، انھیں مختلف انداز میں ثابت فرمایا، مثلاً:
حک بزاق (تھوک کاکھرچنا)
وغیرہ۔
۔
کچھ چیزوں کا استثناء فرمایا جن کا مسجد میں کرناجائز ہے۔
جیسا کہ مسجد میں سوناوغیرہ، کیونکہ مساجد کے متعلق کچھ تشددات اوروعیدات وارد ہوئی ہیں اور پھر ان کے کچھ آداب بھی ذکر ہوئے ہیں جن سے شبہ ہوسکتا ہے کہ ان میں تلاوت قرآن، ذکراللہ اور ادائے نماز کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہ کیا جائے۔
امام بخاری ؒ نے ان ابواب میں ایسی باتوں یا ایسے کاموں کا تذکرہ کیا ہے جنھیں مسجد میں کیا جاسکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 406   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:753  
753. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے مسجد کے قبلے کی طرف تھوک دیکھا جبکہ آپ لوگوں کے آگے کھڑے ہو کر انہیں نماز پڑھا رہے تھے، آپ نے اسے زائل کر دیا۔ اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے چہرے کی طرف ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔ اس روایت کو موسیٰ بن عقبہ اور ابن ابو رواد نے حضرت نافع سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:753]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز ہی میں تھوک کو زائل کیا لیکن پہلے یہ روایت مالک عن نافع کے طریق سے گزرچکی ہے، وہاں دوران نماز میں کے الفاظ نہیں تھے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ، حضرت عائشہ، حضرت ابو سعید اور حضرت انس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی یہ حدیث گزرچکی ہے، ان تمام احادیث میں دوران نماز میں کے الفاظ نہیں ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز میں نہیں بلکہ فراغت کے بعد ہی ایسا عمل فرمایا تھا۔
بعض دفعہ راویوں کے تصرفات وتسامحات کی وجہ سے روایت کے الفاظ مقدم و مؤخر ہوجاتے ہیں جس سے مقصد برعکس ہو جاتا ہے۔
(2)
موسیٰ بن عقبہ کی روایت کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے جبکہ ابن ابو رواد کی روایت، جسے امام احمد ؒ نے موصولا بیان کیا ہے، میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز سے فراغت کے بعد تھوک کو زائل کیا تھا۔
(مسندأحمد: 34/2)
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 753   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6111  
6111. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ اس اثناء میں آپ نے مسجد میں قبیلے کی جانب بلغم دیکھا، آپ نے اسے دست مبارک میں صاف کیا اورغصے ہوئے، پھر فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے سامنے ہوتا ہے لہذا کوئی شخص دوران نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6111]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو صاف ستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 455)
کیونکہ مساجد، اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں ہیں۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1528(671)
ایک اور حدیث میں مسجد میں تھوکنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 415)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلے کی جانب تھوک دیکھا تو آپ نے ایک شاخ سے اسے صاف کر دیا، پھر آپ نے اس بلغم والی جگہ پر خوشبو لگائی۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 485) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صرف اس لیے امامت سے الگ کر دیا تھا کہ اس نے مسجد میں قبلے کی جانب تھوک دیا تھا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 481)
ایسے حالات میں مسجد کے تقدس کو ماپال ہوتا دیکھ کر آپ کیسے خاموش رہ سکتے تھے، آپ کا غصہ برمحل اور اللہ تعالیٰ کے لیے تھا۔
جسے آپ نے امامت سے الگ کیا تھا، اسے فرمایا:
اس کام سے تو نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6111