It was narrated that Jarir bin ‘Abdullah Al-Bajali said:
“We used to think that gathering with the family of the deceased and preparing food was a form of wailing.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسماعيل بن أبي خالد مدلس و عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 437
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مدینہ ہی میں پیدا ہونے والے ایک شخص کا مدینہ میں انتقال ہو گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا: ”کاش کہ اپنی جائے پیدائش کے علاوہ سر زمین میں انتقال کیا ہوتا“ ایک شخص نے پوچھا: کیوں اے اللہ کے رسول؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی کا انتقال اپنی جائے پیدائش کے علاوہ مقام میں ہوتا ہے، تو اس کی پیدائش کے مقام سے لے کر موت کے مقام تک جنت میں اس کو جگہ دی جاتی ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 8 (1833)، (تحفة الأشراف: 8856)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/177) (حسن)» (سند میں حُيَيُّ بن عبد اللہ المعافری ضعیف ہیں، اور ان کی احادیث منکر ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جنت میں ادنی جنتی کو اس دنیا کے برابر جگہ ملے گی جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے پھر اس حدیث کا مطلب کیا ہو گا۔بعض نے کہا: یہاں جنت سے مراد قبر ہے، اس کی قبر میں اتنی وسعت ہو جائے گی۔ بعض نے کہا: یہ ثواب کا اندازہ ہے یعنی اتنا ثواب ملے گا جو پیدائش سے لے کر موت کے مقام تک سما جائے۔ «واللہ اعلم» ۔
It was narrated that ‘Abdullah bin ‘Amr said:
“A man died in Al- Madinah, and he was one of those who were born in Al-Madinah. The Prophet (ﷺ) offered the funeral prayer for him and said: “Would that he had died somewhere other than his birthplace.” A man among the people said: “Why, O Messenger of Allah?” He said: “If a man dies somewhere other than his birthplace, a space will be measured for him in Paradise (as big as the distance) from the place where he was born to the place where he died.”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بیمار ہو کر مرا وہ شہید مرا، اور وہ قبر کے فتنہ سے بچایا جائے گا، صبح و شام جنت سے اس کو روزی ملے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14627، ومصباح الزجاجة: 588)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/404) (ضعیف جدا)» (اس کی سند میں ابراہیم بن محمد سخت ضعیف ہیں، اور حدیث کو ابن الجوزی نے موضوعات میں ذکر کیا ہے)
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Whoever dies from a sickness dies as a martyr. He is protected from the torment of the grave and he is granted provision from Paradise morning and evening.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا إبراهيم الأسلمي: متروك و قيل: أنه كان يتبرأ من ھذا الحديث انوار الصحيفه، صفحه نمبر 437
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردہ کی ہڈی کے توڑنے کا گناہ زندہ شخص کی ہڈی کے توڑنے کی طرح ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18277) (ضعیف)» (سند میں عبد اللہ بن زیاد مجہول ہیں، لیکن «فِي الإِثْمِ» کے لفظ کے علاوہ بقیہ حدیث بطریق عائشہ رضی اللہ عنہا صحیح ہے، کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 3/215)
It was narrated from Umm Salamah that the Prophet (ﷺ) said:
“Breaking the bones of the deceased is, in sin, like breaking his bones when he is alive.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اﷲ بن زياد: مجهول (تقريب: 3329) والحديث السابق: في سنن ابن ماجه (الأصل:1616) حسن يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 437.
(مرفوع) حدثنا سهل بن ابي سهل ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، قال: سالت عائشة ، فقلت: اي امه اخبريني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قالت:" اشتكى فعلق ينفث، فجعلنا نشبه نفثه بنفثة آكل الزبيب، وكان يدور على نسائه، فلما ثقل استاذنهن ان يكون في بيت عائشة وان يدرن عليه، قالت: فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بين رجلين، ورجلاه تخطان بالارض احدهما العباس، فحدثت به ابن عباس، فقال: اتدري من الرجل الذي لم تسمه عائشة، هو علي بن ابي طالب". (مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ: أَيْ أُمَّهْ أَخْبِرِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَتْ:" اشْتَكَى فَعَلَقَ يَنْفُثُ، فَجَعَلْنَا نُشَبِّهُ نَفْثَهُ بِنَفْثَةِ آكِلِ الزَّبِيبِ، وَكَانَ يَدُورُ عَلَى نِسَائِهِ، فَلَمَّا ثَقُلَ اسْتَأْذَنَهُنَّ أَنْ يَكُونَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ وَأَنْ يَدُرْنَ عَلَيْهِ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ بِالْأَرْضِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ، فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّهِ عَائِشَةُ، هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ".
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اماں جان! مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا حال بیان کیجئے تو انہوں نے بیان کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو (اپنے بدن پر) پھونکنا شروع کیا، ہم نے آپ کے پھونکنے کو انگور کھانے والے کے پھونکنے سے تشبیہ دی ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کا باری باری چکر لگایا کرتے تھے، لیکن جب آپ سخت بیمار ہوئے تو بیویوں سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہنے کی اجازت مانگی، اور یہ کہ بقیہ بیویاں آپ کے پاس آتی جاتی رہیں گی۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس دو آدمیوں کے سہارے سے آئے، اس حال میں کہ آپ کے پیر زمین پہ گھسٹ رہے تھے، ان دو میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ عبیداللہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کی تو انہوں نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ دوسرا آدمی کون تھا، جن کا عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں لیا؟ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 39 (665)، 46 (679)، 47 (683)، 51 (687)، 67 (712)، 68 (713)، 70 (796)، المغازي 83 (4442)، الاعتصام 5 (7303)، صحیح مسلم/الصلاة 21 (418)، سنن النسائی/الإمامة 40 (834)، (تحفة الأشراف: 16309)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصرالصلاة 24 (83)، مسند احمد (6/34، 96، 97، 210، 224، 228، 249، 251)، دي الصلاة 44 (1292) (صحیح)» (زبیب کے جملہ کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی انگور کھانے والا منہ سے بیج نکالنے کے لیے جس طرح پھونکتا ہے اس طرح آپ پھونک رہے تھے۔
It was narrated that ‘Ubaidullah bin ‘Abdullah said:
“I asked ‘Aishah: ‘O mother! Tell me about the sickness of the Messenger of Allah (ﷺ).’ She said: ‘He felt pain and started to spit (over his body), and we began to compare his spittle to the spittle of a person eating raisins. Like a person eating raisins and spitting out the seeds. He used to go around among his wives, but when he became ill, he asked them permission to stay in the house of ‘Aishah and that they should come to him in turns.’ She said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) entered upon me, (supported) between two men, with his feet making lines along the ground. One of them was ‘Abbas.’ I told Ibn ‘Abbas this Hadith and he said: ‘Do you know who the other man was whom ‘Aishah did not name? He was ‘Ali bin Abu Talib.’”
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يتعوذ بهؤلاء الكلمات، اذهب الباس رب الناس، واشف انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما"، فلما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه، اخذت بيده فجعلت امسحه واقولها، فنزع يده من يدي، ثم قال:" اللهم اغفر لي والحقني بالرفيق الاعلى"، قالت: فكان هذا آخر ما سمعت من كلامه صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا"، فَلَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، أَخَذْتُ بِيَدِهِ فَجَعَلْتُ أَمْسَحُهُ وَأَقُولُهَا، فَنَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى"، قَالَتْ: فَكَانَ هَذَا آخِرَ مَا سَمِعْتُ مِنْ كَلَامِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ حفاظت و عافیت کی دعا کرتے تھے «أذهب الباس رب الناس. واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما»”اے لوگوں کے رب! بیماری دور کر دے، اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، شفاء تو بس تیری ہی شفاء ہے، تو ایسی شفاء عنایت فرما کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بیماری سخت ہو گئی جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتی تھی، اور یہ کلمات کہتی جاتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے نکال لیا، اور فرمایا: «اللهم اغفر لي وألحقني بالرفيق الأعلى»”اے اللہ! مجھے بخش دے، اور رفیق اعلیٰ سے ملا دے) یہی آخری کلمہ تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 84 (4437)، المرضی 18 (5675)، الدعوات 29 (6348)، صحیح مسلم/الطب 19 (2191)، سنن الترمذی/ الدعوات 77 (3496)، (تحفة الأشراف: 17638)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز 16 (46)، مسند احمد (6/44، 45، 109، 127)، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے: 3520) (صحیح)» (صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں «یعوذ» کے لفظ سے ہے، اور وہی محفوظ ہے)۔
It was narrated that ‘Aishah said:
“The Prophet (ﷺ) used to seek refuge using the following words: ‘Adhhibil-ba’s, Rabbin-nas, washfi Antash-shafi, la shifa’a illa shifa’uka, shifa’an la yughadiru saqaman (Take away the affliction, O Lord of mankind, and grant healing, for You are the Healer and there is no healing that leaves no sickness).’ When the Prophet (ﷺ) fell sick with the sickness that would be his last, I took his hand and wiped it over his body and recited these words. He withdrew his hand from mine and said: ‘O Allah, forgive me and let me meet the exalted companions (i.e., those who occupy high positions in Paradise).’ Those were the last words of his that I heard.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح ق بلفظ يعوذ وهو المحفوظ
قال الشيخ زبير على زئي: عبد اﷲ بن زياد: مجهول (تقريب: 3329)
(مرفوع) حدثنا ابو مروان العثماني ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن ابيه ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة"، قالت: فلما كان مرضه الذي قبض فيه اخذته بحة فسمعته، يقول:" مع الذين انعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين سورة النساء آية 69" فعلمت انه خير. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ مَرَضُهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ سورة النساء آية 69" فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو نبی بھی بیمار ہوا اسے دنیا یا آخرت میں رہنے کا اختیار دیا گیا“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کو ہچکی آنے لگی، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے: «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين»”ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے احسان کیا، انبیاء، صدیقین شہداء، اور صالحین میں سے“ تو اس وقت میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 84 (4435، 4436)، تفسیر سورة النساء 13 (4586)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2444)، (تحفة الأشراف: 16338)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/176، 205، 269) (صحیح)»
It was narrated that ‘Aishah said:
“I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘There is no Prophet who fell sick but he was given the choice between this world and the Hereafter.’ She said: ‘When he became sick with the illness that would be his last, (his voice) became hoarse and I heard him say, “In the company of those on whom Allah has bestowed His grace, of the Prophets, the true believers, the martyrs, and the righteous.’” [4:69] Then I knew that he had been given the choice.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: والحديث السابق: في سنن ابن ماجه (الأصل:1616) حسن يغني عنه
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، عن زكريا ، عن فراس ، عن عامر ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: اجتمعن نساء النبي صلى الله عليه وسلم فلم تغادر منهن امراة، فجاءت فاطمة كان مشيتها مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" مرحبا بابنتي"، ثم اجلسها عن شماله، ثم إنه اسر إليها حديثا، فبكت فاطمة، ثم إنه سارها فضحكت ايضا، فقلت لها: ما يبكيك؟، قالت: ما كنت لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما رايت كاليوم فرحا اقرب من حزن، فقلت لها: حين بكت اخصك رسول الله صلى الله عليه وسلم بحديث دوننا، ثم تبكين، وسالتها عما قال؟، فقالت: ما كنت لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا قبض سالتها عما قال، فقالت:" إنه كان يحدثني، ان جبرائيل كان يعارضه بالقرآن في كل عام مرة، وانه عارضه به العام مرتين، ولا اراني إلا قد حضر اجلي، وانك اول اهلي لحوقا بي، ونعم السلف انا لك فبكيت"، ثم إنه سارني، فقال:" الا ترضين ان تكوني سيدة نساء المؤمنين، او نساء هذه الامة، فضحكت لذلك". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّا ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: اجْتَمَعْنَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ تُغَادِرْ مِنْهُنَّ امْرَأَةٌ، فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مِشْيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَرْحَبًا بِابْنَتِي"، ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا، فَبَكَتْ فَاطِمَةُ، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ أَيْضًا، فَقُلْتُ لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟، قَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ، فَقُلْتُ لَهَا: حِينَ بَكَتْ أَخَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ دُونَنَا، ثُمَّ تَبْكِينَ، وَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ؟، فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا قُبِضَ سَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ، فَقَالَتْ:" إِنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُنِي، أَنَّ جِبْرَائِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً، وَأَنَّهُ عَارَضَهُ بِهِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِي، وَأَنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لُحُوقًا بِي، وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ فَبَكَيْتُ"، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّنِي، فَقَالَ:" أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ، فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہی، اتنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کی طرح تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری بیٹی! خوش آمدید“ پھر انہیں اپنے بائیں طرف بٹھایا، اور چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر چپکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں روئیں؟ تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو فاش نہیں کرنا چاہتی، میں نے کہا: آج جیسی خوشی جو غم سے قریب تر ہو میں نے کبھی نہیں دیکھی، جب فاطمہ روئیں تو میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خاص بات تم سے فرمائی ہے، جو ہم سے نہیں کہی کہ تم رو رہی ہو، اور میں نے پوچھا: آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد میں نے ان سے پھر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جبرائیل مجھ سے ہر سال ایک بار قرآن کا دور کراتے تھے اب کی سال دو بار دور کرایا، تو میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے، اور تم میرے رشتہ داروں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی، اور میں تمہارے لیے کیا ہی اچھا پیش رو ہوں“ یہ سن کر میں روئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے مجھ سے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی، یہ سن کر میں ہنسی ۱؎“۔
It was narrated that ‘Aishah said:
“The wives of the Prophet (ﷺ) gathered together and not one of them lagged behind. Fatimah came, and her gait was like that of the Messenger of Allah (ﷺ). He said, ‘Welcome to my daughter.’ Then he made her sit to his left, and he whispered something to her, and she smiled. I said to her: ‘What made you weep?’ She said: ‘I will not disclose the secret of the Messenger of Allah (ﷺ).’ I said: ‘I never saw joy so close to grief as I saw today.’ When she wept I said: ‘Did the Messenger of Allah (ﷺ) tell you some special words that were not for us, then you wept?’ And I asked her about what he had said. She said: ‘I will not disclose the secret of the Messenger of Allah (ﷺ).’ After he died I asked her what he had said, and she said: ‘He told me that Jibra’il used to review the Qur’an with him once each year, but he had reviewed it with him twice that year, (and he said:) “I do not think but that my time is near. You will be the first of my family to join me, and what a good predecessor I am for you.” So I wept. Then he whispered to me and said: “Will you not be pleased to be the leader of the women of this Ummah?” So I smiled.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: انوار الصحيفه، صفحه نمبر 437