عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا، (راوی ابووائل کہتے ہیں:) میں نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا: میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ میں بیٹھ جاؤں، اور آپ کو (کھڑا) چھوڑ دوں۔
وضاحت: نماز تہجد باجماعت جائز ہے۔ نماز تہجد میں طویل قرات افضل ہے۔ شاگردوں کو تربیت دینے کے لیے ان سے مشکل کام کروانا جائز ہے اگرچہ اس میں مشقت ہو۔ استاد کا خود نیک عمل کرنا شاگردوں کو اس کا شوق دلاتا اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیک کا اس قدر شوق رکھتے تھے کہ افضل کام کو چھوڑ کر جائز کام اختیار کرنے کو انہوں نے برا کام قرار دیا۔
It was narrated from Abu Wa’il that ‘Abdullah said:
“I prayed one night with the Messenger of Allah (ﷺ) and he kept standing until I thought of doing something bad.” I said: “What was that?”He said: “I thought of sitting down and leaving him.”
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن زياد بن علاقة ، سمع المغيرة ، يقول:" قام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى تورمت قدماه، فقيل: يا رسول الله، قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، قال:" افلا اكون عبدا شكورا". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، سَمِعَ الْمُغِيرَةَ ، يَقُولُ:" قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ:" أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا".
مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آ گیا، تو عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس مغفرت پر شکر نہ ادا کروں؟ سبحان اللہ! جب نبی کریم ﷺ نے باوصف ایسے علو مرتبہ اور جلالت شان کے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کا درجہ ہے، عبادت کو ترک نہ کیا، اور دوسرے لوگوں سے زیادہ آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت و عبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے، تو کسی دوسرے کا یہ خیال کب صحیح ہو گا کہ آدمی جب ولایت کے اعلی درجہ کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے ذمہ سے عبادت ساقط ہو جاتی ہے، یہ صاف ملحدانہ خیال ہے، بلکہ جتنا بندہ اللہ سے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا شوق عبادت بڑھتا جاتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ساری رات نماز میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ما أنزلنا عليك القرآن لتشقى» یعنی ہم نے آپ پر اس لئے قرآن نہیں اتارا کہ آپ اتنی مشقت اٹھائیں (سورة طه: 2)۔
It was narrated from Ziyad bin ‘Ilaqah that he heard Mughirah say:
“The Messenger of Allah (ﷺ) stood (in prayer) until his feet became swollen. It was said: ‘O Messenger of Allah, Allah has forgiven you your past and future sins.’ He said: ‘Should I not be a thankful slave?’”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں“۱؎۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) used to pray until his feet became swollen. It was said: ‘O Messenger of Allah, Allah has forgiven you your past and future sins.’ He said: ‘Should I not be a thankful slave?’”
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس میں قیام لمبا ہو“۔
ابوفاطمہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیے جس پر میں جما رہوں اور اس کو کرتا رہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے اوپر سجدے کو لازم کر لو، اس لیے کہ جب بھی تم کوئی سجدہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا، اور ایک گناہ مٹا دے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12078)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/276، 280) (حسن صحیح)»
It was narrated from Kathir bin Murrah that Abu Fatimah told him:
“I said: ‘O Messenger of Allah! Tell me of a deed that I can adhere to and act upon.’ He said: “You should prostrate, for you will not prostrate to Allah but He will raise you in status one degree thereby and erase from you one sin.”
معدان بن ابی طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے کہا: آپ مجھ سے کوئی حدیث بیان کریں، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ دے گا، یہ سن کر وہ خاموش رہے، پھر میں نے دوبارہ وہی بات کہی، تو بھی وہ خاموش رہے، تین بار ایسا ہی ہوا، پھر انہوں نے کہا: تم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے لیے سجدہ لازم کر لو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے، اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے“۔ معدان کہتے ہیں کہ پھر میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی بیان کیا۔
Ma’dan bin Abu Talhah Al-Ya’muri said:
“I met Thawban and said to him: ‘Tell me a Hadith that Allah may benefit me thereby.’ But he remained silent. Then I said the same and he remained silent. That happened three times. Then he said to me: ‘You should prostrate to Allah; for I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “No one prostrates to Allah but Allah will raise him one degree in status thereby and will erase one of his sins.” Ma’dan said: “Then I met Abu Darda’ and asked him the same question, and he gave a similar answer.”
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سجدہ کرے گا، اللہ اس کے بدلے ایک نیکی لکھے گا، اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا، اور اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا، لہٰذا تم کثرت سے سجدے کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5102، ومصباح الزجاجة: 503) (صحیح)» (صحیح مسلم وغیرہ میں ثوبان کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ا س کی سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، الإرواء: 457)
It was narrated from ‘Ubadah bin Samit that he heard the Messenger of Allah (ﷺ) say:
“No one prostrates to Allah but Allah will record one Hasanah (good reward) for him, and will erase thereby one bad deed and raise him in status one degree. So prostrate a great deal.”
انس بن حکیم کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ جب تم اپنے شہر والوں کے پاس پہنچو تو ان کو بتاؤ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”مسلمان بندے سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ فرض نماز ہو گی، اگر اس نے اسے کامل طریقے سے ادا کی ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ کہا جائے گا کہ دیکھو کیا اس کے پاس کچھ نفل ہے؟ اگر اس کے پاس نفل نمازیں ہوں گی تو اس سے فرض میں کمی پوری کی جائے گی، پھر باقی دوسرے فرائض اعمال کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا“۔
It was narrated that Anas bin Hakim Dabbi said:
“Abu Hurairah said to me: ‘When you go to your country, tell them that I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “The first thing for which the Muslim will be brought to account on the Day of Resurrection will be the prescribed prayers. If they are complete, all well and good, otherwise it will be said: ‘Look and see whether he has any voluntary prayers.’ If he has any voluntary prayers, his prescribed prayers will be completed from his voluntary prayers. Then the same will be done with regard to all his obligatory deeds.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (864) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 427
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہو گی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہو گی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہو گا“۔
It was narrated from Tamim Dari that the Prophet (ﷺ) said:
“The first thing for which a person will be brought to account on the Day of Resurrection will be his prayer. If it is complete, then the voluntary (prayers) will also be recorded for him (as an increase). If it is not complete then Allah will say to His angels: ‘Look and see whether you find any voluntary prayers for My slave, and take them to make up what is lacking from his obligatory prayers.’ Then all his deeds will be reckoned in like manner.”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں کا کوئی اتنا عاجز و مجبور ہے کہ جب (فرض) نماز پڑھ چکے تو نفل کے لیے آگے بڑھ جائے، یا پیچھے ہٹ جائے، یا دائیں، بائیں ہو جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأاذان 57 (848) تعلیقاً، سنن ابی داود/الصلاة 194 (1006)، (تحفة الأشراف: 12179)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/425) (صحیح)» (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف، اور ابراہیم بن اسماعیل مجہول الحال ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 629، 922، 1034)
It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (ﷺ) said:
“Is anyone of you incapable, when he prays, of stepping forwards or backwards, or to his right or left?” meaning in order to offer a voluntary prayer.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1006) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 427