ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ پہلی صف کے لوگ سن لیتے، اور آمین سے مسجد گونج اٹھتی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15444، ومصباح الزجاجة: 311)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 172 (934) (ضعیف)» (اس کی سند میں ابو عبداللہ مجہول ہیں، اور بشر بن رافع ضعیف ہیں، اس لئے ابن ماجہ کی یہ روایت جس میں «فيرتج بها المسجد» (جس سے مسجد گونج جائے) کا لفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 465)
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The people stopped saying Amin, but when the Messenger of Allah (ﷺ) said ‘Not (the way) of those who earned Your Anger, nor of those who went astray’[1:7] he would say Amin, until the people in the first row could hear it, and the mosque would shake with it.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (934) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 408
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم «ولا الضالين» کہتے تو «آمین» کہتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10065، ومصباح الزجاجة: 312) (صحیح)» (اس حدیث کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد میں آنے والی صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 845، فواد عبد الباقی اور خلیل مامون شیحا کے نسخوں میں اور مصباح الزجاجہ کے دونوں نسخوں میں عثمان بن ابی شیبہ ہے، مشہور حسن نے ابوبکر بن ابی شیبہ ثبت کیا ہے، اور ایسے تحفة الأشراف میں ہے، اس لئے ہم نے ابو بکر کو ثبت کیا ہے، جو ابن ماجہ کے مشاہیر مشائخ میں ہیں، اس لئے کہ امام مزی نے تحفہ میں یہی لکھا ہے، اور تہذیب الکمال میں حمید بن عبدالرحمن کے ترجمہ میں تلامیذ میں ابوبکر بن ابی شیبہ کے نام کے آگے (م د ق) کا رمز ثبت فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح مسلم، ابوداود، اور ابن ماجہ میں ابو بکر کے شیخ حمید بن عبد الرحمن ہی ہیں، ملاحظہ ہو، تہذیب الکمال: (7/ 377)، اور عثمان بن ابی شیبہ کے سامنے (خ م) یعنی بخاری و مسلم کا رمز دیا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں میں حمید سے روایت کرنے والے عثمان ہیں، ایسے ہی عثمان کے ترجمہ میں حمید بن عبد الرحمن کے آگے (خ م) کا رمز دیا ہے)
وضاحت: ۱؎: آمین کے معنی ہیں قبول فرما، اور بعضوں نے کہا کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اور بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے، اور جو کوئی اس کو برا سمجھے اس کو اپنی حدیث مخالف روش پر فکر مند ہونا چاہئے کہ وہ حدیث رسول کے اعراض سے کیوں کر اللہ کے یہاں سرخرو ہو سکے گا۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے «ولا الضالين» کہا، تو اس کے بعد آمین کہا، یہاں تک کہ ہم نے اسے سنا۔
It was narrated from ‘Abdul-Jabbar bin Wa’il that his father said:
“I performed prayer with the Prophet (ﷺ) and when he said: ‘Nor of those who went astray’,[1:7] he said Amin and we heard that from him.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (933) وانظر الحديث الآتي طرفه (3802) و حديث أبي داود (932،933) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 408
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام کرنے، اور آمین کہنے پر حسد کیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16074، ومصباح الزجاجة: 313)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/125) (صحیح)»
It was narrated from ‘Aishah that the Prophet (ﷺ) said:
“The Jews do not envy you for anything more than they envy you for the Salam and (saying) ‘Amin’.”
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا «آمین» کہنے پر کیا، لہٰذا تم آمین کثرت سے کہا کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5897، ومصباح الزجاجة: 314) (ضعیف جدا)» (سند میں طلحہ بن عمرو متروک ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث بغیر آخری ٹکڑے «فأكثروا من قول آمين» کے ثابت ہے)
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“The Jews do not envy you for anything more than they envy you for the Salam and (saying) Amin, so say Amin a great deal.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،لإتفاقھم علي ضعف طلحة بن عمرو“ طلحة: متروك (تقريب: 3030) و الحديث السابق (الأصل: 856) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 408
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ ان دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے مقابل لے جاتے، اور جب رکوع میں جاتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، (تو بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے رفع یدین کرتے) اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ ہاتھ نہ اٹھاتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا مسنون ہونا ثابت ہو گیا ہے، جو لوگ اسے منسوخ یا مکروہ کہتے ہیں ان کا قول درست نہیں۔
It was narrated that Ibn ‘Umar said:
“I saw the Messenger of Allah (ﷺ) raising his hands until they were parallel to his shoulders when he started the prayer, and when he bowed in Ruku’, and when he raised his head from Ruku’, but he did not raise them between the two prostrations.”
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے قریب تک اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے تو بھی اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے)، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔
It was narrated that Malik bin Huwairith said that when the Messenger of Allah (ﷺ) said Allahu Akbar, he would raise his hands until they were close to his ears; when he bowed in Ruku’ he did likewise, and when he raised his head from Ruku’ he did likewise.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ نماز میں مونڈھوں (کندھوں) کے بالمقابل اٹھاتے جس وقت نماز شروع کرتے، جس وقت رکوع کرتے (یعنی رفع یدین کرتے)، اور جس وقت سجدہ کرتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13655، ومصباح الزجاجة: 315)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 4 (19)، سنن الدارمی/الصلاة 41 (1285) (صحیح)» (اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل حجاز سے ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق وشواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 724)
وضاحت: ۱؎: سجدے کے وقت بھی رفع یدین کرنا اس روایت میں وارد ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“I saw the Messenger of Allah (ﷺ) raising his hands during prayer until they were parallel with his shoulders when he started to pray, when he bowed and when he prostrated.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف صالح بن كيسان: حجازي ورواية إسماعيل عن الحجازين ضعيفة انظر ضعيف سنن الترمذي (131) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 409
عمیر بن حبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ ہر تکبیر کے ساتھ فرض نماز میں اٹھاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10896، ومصباح الزجاجة: 316) (صحیح)» (اس سند میں رفدة بن قضاعہ ضعیف راوی ہیں، اور عبد اللہ بن عبید بن عمیر نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا ہے، کما فی التاریخ الأوسط والتاریخ الکبیر: 5/455، اور تاریخ کبیر میں عبد اللہ کے والد کے ترجمہ میں ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا ہے، بایں ہمہ طرق شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 724)
It was narrated that ‘Umair bin Habib said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) used to raise his hands at every Takbir (saying Allahu Akbar) in the obligatory prayer.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري ما ملخصه: ”رفدة ضعيف و عبد اللّٰه لم يسمع من أبيه شيئًا“ رفدة بن قضاعة: ضعيف (تقريب: 1952) وقال الھيثمي: وضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 269/6) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 409
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا عبد الحميد بن جعفر ، حدثنا محمد بن عمرو بن عطاء ، عن ابي حميد الساعدي ، قال: سمعته، وهو في عشرة من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم احدهم ابو قتادة بن ربعي، قال:" انا اعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قام في الصلاة اعتدل قائما ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ثم قال: الله اكبر، وإذا اراد ان يركع رفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، فإذا قال: سمع الله لمن حمده رفع يديه فاعتدل، فإذا قام من الثنتين كبر ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه كما صنع حين افتتح الصلاة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ، وَهُوَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ، قَالَ:" أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَامَ فِي الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكَبْرُ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، فَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فَاعْتَدَلَ، فَإِذَا قَامَ مِنَ الثِّنْتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِما مَنْكِبَيْهِ كَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ".
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید ساعدی کو کہتے سنا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس اصحاب کے بیچ میں تھے جن میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے، ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو سب سے زیادہ جانتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر «ألله أكبر» کہتے، اور جب رکوع میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور جب دو رکعت کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو «ألله أكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے)، جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کیا تھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث صحیح ہے، اور اس میں دس صحابہ کی رفع یدین پر گواہی ہے، کیونکہ سب نے سکوت اختیار کیا، اور کسی نے ابوحمید رضی اللہ عنہ پر نکیر نہیں کی، ان دس میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما بھی تھے۔
It was narrated that Muhammad bin `Amr bin `Ata’ said, concerning Abu Humaid As-Sa`di:
“I heard him when he was among ten of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ), one of whom was Abu Qatadah bin Rib`i, saying: ‘I am the most knowledgeable of you about the prayer of the Messenger of Allah (ﷺ). When he stood up for prayer, he stood up straight and raised his hands until they were parallel to his shoulders, then he said: Allahu Akbar. When he wanted to bow in Ruku`, he raised his hands until they were parallel to his shoulders. When he said Sami` Allahu liman hamidah (Allah hears those who praise Him), he raised his hands and stood up straight. When he stood up after two Rak`ah, he said Allahu Akbar and raised his hands until they were parallel to his shoulders, as he did when he started the prayer.’”