(مرفوع) حدثنا محرز بن سلمة العدني ، قال: حدثنا نافع بن عمر الجمحي ، عن ابن ابي مليكة ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت:" صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الكسوف، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع، ثم سجد فاطال السجود، ثم رفع، ثم سجد فاطال السجود، ثم رفع، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع، ثم سجد فاطال السجود، ثم رفع، ثم سجد فاطال السجود، ثم انصرف"، فقال:" لقد دنت مني الجنة حتى لو اجترات عليها لجئتكم بقطاف من قطافها، ودنت مني النار حتى قلت اي رب وانا فيهم"، قال نافع: حسبت انه قال: ورايت امراة تخدشها هرة لها، فقلت: ما شان هذه؟، قالوا: حبستها حتى ماتت جوعا لا هي اطعمتها، ولا هي ارسلتها تاكل من خشاش الارض". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ:" صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْكُسُوفِ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ"، فَقَالَ:" لَقَدْ دَنَتْ مِنِّي الْجَنَّةُ حَتَّى لَوِ اجْتَرَأْتُ عَلَيْهَا لَجِئْتُكُمْ بِقِطَافٍ مِنْ قِطَافِهَا، وَدَنَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ أَيْ رَبِّ وَأَنَا فِيهِمْ"، قَالَ نَافِعٌ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: وَرَأَيْتُ امْرَأَةً تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ لَهَا، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ هَذِهِ؟، قَالُوا: حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا، وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خِشَاشِ الْأَرْضِ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گہن کی نماز پڑھائی، اور کافی لمبا قیام کیا، پھر کافی لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو کافی لمبا قیام کیا، پھر کافی لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو کافی لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا، اور کافی لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”جنت مجھ سے اتنی قریب ہو گئی کہ اگر میں جرات کرتا تو تمہارے پاس اس کے خوشوں (گچھوں) میں سے کوئی خوشہ (گچھا) لے کر آتا، اور جہنم بھی مجھ سے اتنی قریب ہو گئی کہ میں نے کہا: اے رب! (کیا لوگوں پر عذاب آ جائے گا) جبکہ میں ان کے درمیان موجود ہوں؟“۔ نافع کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ اس کو اس کی بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا: اس کا سبب کیا ہے؟ فرشتوں نے بتایا کہ اس عورت نے اسے باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی، نہ اس نے اسے کھلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 90 (749)، سنن النسائی/الکسوف 21 (1499)، (تحفة الأشراف: 15717)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الکسوف 2 (4)، مسند احمد (6/315) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «خشاش» کا لفظ ہے خائے معجمہ سے یعنی زمین کے کیڑے مکوڑے اور بعضوں نے «حشاش» کہا ہے حائے حطی سے، اور یہ سہو ہے کیونکہ «حشاش» سوکھی گھاس کو کہتے ہیں، اسی سے «حشیش» ہے، اور وہ بلی کی غذا نہیں ہے، اس حدیث سے بھی ہر رکعت میں دو رکوع ثابت ہوتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جاندار کو قید میں رکھنا اور اس کو خوراک نہ دینا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جائے بہت بڑا گناہ ہے، جس کی وجہ سے آدمی جہنم میں جائے گا۔
It was narrated that Asma’ bint Abu Bakr said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) performed the eclipse prayer. He stood for a long time, then he bowed for a long time, then he stood up for a long time, then he bowed for a long time, then he stood up, then he prostrated for a long time, then he sat up, then he prostrated for a long time. He stood for a long time, then he bowed for a long time, then he stood up for a long time, then he bowed for a long time, then he stood up, then he prostrated for a long time, then he sat up, then he prostrated for a long time. Then he finished and said: ‘Paradise was brought close to me, so that if I had dared, I could have brought you some of its fruits. And Hell was brought near to me, until I said: “O Lord, am I one of them?” Nafi’ said: “I think that he said: ‘And I saw a woman being scratched by a cat that belonged to her. I said: “What is wrong with this woman?” They said: “She detained it until it died of hunger; she did not feed it and she did not let it loose to eat of the vermin of the earth.”
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ امراء میں سے کسی امیر نے مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر نے مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھ لیا؟ پھر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاجزی کے ساتھ سادہ لباس میں، خشوع خضوع کے ساتھ، آہستہ رفتار سے، گڑگڑاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) روانہ ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی، اور اس طرح خطبہ نہیں دیا جیسے تم دیتے ہو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کے لئے استسقاء کئی بار مختلف طریقوں سے کیا لیکن جو طریقہ سنت کا اپنی امت کے لئے اختیار کیا وہ یہ ہے کہ لوگوں سمیت نہایت عاجزی کے ساتھ عید گاہ تشریف لے گئے، اور دو رکعتیں پڑھیں، ان میں زور سے قراءت کی، پھر خطبہ پڑھا، اور قبلے کی طرف منہ کیا، خطبہ میں دعا مانگی، اور دونوں ہاتھ اٹھائے، اور اپنی چادر پلٹی، استسقاء کی نماز دو رکعت مسنون ہے، ان کے بعد خطبہ ہے، اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک استسقاء میں صرف دعا اور استغفار کافی ہے، جب کہ متعدد احادیث میں نماز وارد ہے، اور جن حدیثوں میں نماز کا ذکر نہیں ان سے نماز کی نفی لازم نہیں آتی، اور ابن ابی شیبہ نے جو عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ استسقاء کو نکلے پھر نہ زیادہ کیا استغفار پر، یہ ایک صحابی کا موقوف اثر ہے، قطع نظر اس کے سنت کے ترک سے اس کی سنیت باطل نہیں ہوتی، اور اسی پر وہ مرفوع حدیث بھی محمول ہو گی جس میں نماز کا ذکر نہیں ہے، اور صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کا وسیلہ لیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ لیا، اس معنی میں کہ نبی اکرم ﷺ نے خود استسقاء کی نماز ادا فرمائی، اور بارش کی دعا کی، آپ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے یہاں اور کون تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو نماز استسقاء کے لیے آگے بڑھایا کیونکہ آپ کی بزرگی، صالحیت اور اللہ کے رسول سے تعلق کی وجہ سے اس بات کی توقع کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کی دعا قبول ہو گی، اور بعض روایتوں میں نماز سے پہلے خطبہ وارد ہے، اور دونوں طرح صحیح ہے، (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ)۔
It was narrated from Hisham bin Ishaq bin ‘Abdullah bin Kinanah that his father said:
“One of the chiefs* sent me to Ibn ‘Abbas to ask him about the prayer for rain. Ibn ‘Abbas said: ‘What kept him from asking me?’ He said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) went out humbly, walking with a humble and moderate gait, imploring, and he performed two Rak’ah as he used to pray for ‘Eid, but he did not give a sermon like this sermon of yours.’”
عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید گاہ کی جانب نماز استسقاء کے لیے نکلے، آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا، اپنی چادر کو پلٹا، اور دو رکعت نماز پڑھائی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی چادر کو اس طرح پلٹا کہ اوپر کا حصہ نیچے ہو گیا، اور نیچے کا اوپر، اور داہنا کنارہ بائیں طرف ہو گیا، اور بایاں کنارہ داہنی طرف اس کا طریقہ یہ ہے کہ داہنے ہاتھ سے چادر کا نیچے کا بایاں کونہ اور بائیں ہاتھ سے نیچے کا داہنا کونہ پکڑ کر پیٹھ کے پیچھے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھرا دے اس طرح سے کہ جو کونہ داہنے ہاتھ سے پکڑا ہے وہ داہنے کندھے پر آ جائے، اور جو بائیں ہاتھ سے پکڑا ہے وہ بائیں کندھے پر آ جائے۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Abu Bakr said:
“I heard ‘Abbad bin Tamim narrating to my father that his paternal uncle had seen the Prophet (ﷺ) going out to the prayer place to pray for rain. He faced the Qiblah and turned his cloak around, and prayed two Rak’ah.” (One of the narrators) Muhammad bin Sabbah said: “Sufyan told us something similar, narrating from Yahya bin Sa`eed, from Abu Bakr bin Muhammad bin `Amr bin Hazm. from `Abbad bin Tamim, from his paternal uncle, from the Prophet (ﷺ).” Sufyan narrated that Al-Mas`udi said: “I asked Abu Bakr bin Muhammad bin `Amr: 'Did he turn it upside down or right to left?' He said: 'No, it was right to left.'”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول المسعودي سألت. . الخ
اس سند سے بھی عباد بن تمیم نے اپنے چچا (عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ) سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ سفیان ثوری نے مسعودی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابوبکر بن محمد بن عمرو سے پوچھا کہ چادر کو کیسے پلٹا، کیا اوپر کا حصہ نیچے کر دیا، یا دائیں کو بائیں جانب کر دیا؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ دائیں کو بائیں جانب کر لیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول المسعودي سألت. . الخ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نماز استسقاء پڑھنے کے لیے نکلے، تو بغیر اذان و اقامت کے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنا منہ قبلہ کی طرف کیا، پھر اپنی چادر پلٹی تو دایاں جانب بائیں کندھے پر اور بایاں جانب دائیں کندھے پر کر لیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12291، ومصباح الزجاجة: 442)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/326) (ضعیف)» (بوصیری نے اسناد کو صحیح کہا اور رجال کو ثقات بتایا، جب کہ سند میں نعمان بن راشد صدوق سئی الحفظ ہیں، ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ نعمان کی توثیق کے سلسلہ میں دل میں کچھ شک ہے، اس لئے کہ ان کی زہری سے روایت میں بہت خلط ملط ہے، اگر یہ خبر ثابت ہو جائے، تو اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور دعا کی، اور دو مرتبہ اپنی چادر پلٹی، ایک بار صلاة سے پہلے ایک بار اس کے بعد صحیح ابن خزیمہ: 2/338، لیکن البانی صاحب نے حدیث کی تضعیف کی)
وضاحت: ۱؎: استسقا (بارش طلب کرنے) میں جہاں تک ہو سکے امام کو اور رعایا کو اللہ تعالی سے گڑگڑا کر رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئے، اور سب لوگوں کو اپنے گناہوں سے توبہ اور استغفار کرنا چاہئے، کیونکہ پانی گناہوں کی نحوست سے رک جاتا ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) went out one day to pray for rain. He led us in praying two Rak’ah without any Adhan or Iqamah, then he addressed us and supplicated to Allah. He turned to face the Qiblah, raising his hands, then he turned his cloak around, putting its right on the left and its left on the right.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال ابن خزيمة في صحيحه: ”في القلب من النعمان بن راشد فإن في حديثه عن الزهري تخليط كثير“(1422) والزهري مدلس وعنعن (د 145) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 421
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن شرحبيل بن السمط ، انه قال لكعب : يا كعب بن مرة، حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحذر، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، استسق الله، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه، فقال:" اللهم اسقنا غيثا مريئا مريعا، طبقا عاجلا غير رائث، نافعا غير ضار"، قال: فما جمعوا حتى اجيبوا، قال: فاتوه، فشكوا إليه المطر، فقالوا: يا رسول الله، تهدمت البيوت، فقال:" اللهم حوالينا ولا علينا"، قال: فجعل السحاب ينقطع يمينا وشمالا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ ، أَنَّهُ قَالَ لِكَعْبٍ : يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ، حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ اللَّهَ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مَرِيئًا مَرِيعًا، طَبَقًا عَاجِلًا غَيْرَ رَائِثٍ، نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ"، قَالَ: فَمَا جَمَّعُوا حَتَّى أُجِيبُوا، قَالَ: فَأَتَوْهُ، فَشَكَوْا إِلَيْهِ الْمَطَرَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا"، قَالَ: فَجَعَلَ السَّحَابُ يَنْقَطِعُ يَمِينًا وَشِمَالًا.
شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ انہوں نے کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: کعب بن مرہ! آپ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کیجئیے اور احتیاط برتئے، تو انہوں نے کہا: ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے بارش مانگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا: «اللهم اسقنا غيثا مريئا مريعا طبقا عاجلا غير رائث نافعا غير ضار»”اے اللہ! ہم پر اچھے انجام والی، سبزہ اگانے والی، زمین کو بھر دینے والی، جلد برسنے والی، تھم کر نہ برسنے والی، فائدہ دینے والی اور نقصان نہ پہنچانے والی بارش برسا“ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابھی نماز جمعہ سے ہم فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ بارش ہونے لگی اور مسلسل ہوتی رہی، بالآخر پھر لوگ آپ کے پاس آئے، اور بارش کی کثرت کی شکایت کی اور کہا اللہ کے رسول! مکانات گر گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا فرمائی «اللهم حوالينا ولا علينا»”اے اللہ! بارش ہمارے اردگرد میں ہو ہم پر نہ ہو“، کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا تھا کہ بادل دائیں اور بائیں پھٹنے لگا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11165، ومصباح الزجاجة: 441، 443)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/235، 236) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 2/145)»
It was narrated from Shurahbil bin Simt that he said to Ka’b:
“O Ka’b bin Murrah, narrate to us a Hadith from the Messenger of Allah (ﷺ), but be careful.” He said: “A man came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘O Messenger of Allah, ask Allah for rain!’ So the Messenger of Allah (ﷺ) raised his hands and said: ‘O Allah! Send wholesome, productive rain upon all of us, sooner rather than later, beneficial and not harmful.’ No sooner had they finished performing Friday (prayer) but they were revived. Then they came to him and complained to him about the rain, saying: ‘O Allah, around us and not upon us.’ Then the clouds began to disperse right and left.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال أبو داود (3967): ”سالم لم يسمع من شرحبيل،مات شرحبيل بصفين“ فالسند منقطع و لبعض الحديث شواھد صحيحة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 421
(مرفوع) حدثنا محمد بن ابي القاسم ابو الاحوص ، حدثنا الحسن بن الربيع ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، حدثنا حصين ، عن حبيب بن ابي ثابت ، عن ابن عباس ، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، لقد جئتك من عند قوم ما يتزود لهم راع، ولا يخطر لهم، فحل، فصعد المنبر، فحمد الله، ثم قال:" اللهم اسقنا غيثا مغيثا مريئا طبقا مريعا غدقا عاجلا غير رائث، ثم نزل، فما ياتيه احد من وجه من الوجوه إلا قالوا قد احيينا". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْقَاسِمِ أَبُو الْأَحْوَصِ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ جِئْتُكَ مِنْ عِنْدِ قَوْمٍ مَا يَتَزَوَّدُ لَهُمْ رَاعٍ، وَلَا يَخْطِرُ لَهُمْ، فَحْلٌ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا طَبَقًا مَرِيعًا غَدَقًا عَاجِلًا غَيْرَ رَائِثٍ، ثُمَّ نَزَلَ، فَمَا يَأْتِيهِ أَحَدٌ مِنْ وَجْهٍ مِنَ الْوُجُوهِ إِلَّا قَالُوا قَدْ أُحْيِينَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کے پاس ایک ایسی قوم کے پاس سے آیا ہوں جس کے کسی چرواہے کے پاس توشہ (کھانے پینے کی چیزیں) نہیں، اور کوئی بھی نر جانور (کمزوری دور دبلے پن کی وجہ سے) دم تک نہیں ہلاتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر یوں دعا فرمائی: «اللهم اسقنا غيثا مغيثا مريئا طبقا مريعا غدقا عاجلا غير رائث»”اے اللہ! ہمیں سیراب کر دینے والا، فائدہ دینے والا، ساری زمین پر برسنے والا، سبزہ اگانے والا، زور کا برسنے والا، جلد برسنے والا اور تھم کر نہ برسنے والا پانی نازل فرما“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر گئے، اس کے بعد جو بھی جس کسی سمت سے آتا وہ یہی کہتا کہ ہمیں زندگی عطا ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5392، ومصباح الزجاجة: 444) (صحیح)» (بوصیری نے حدیث کو صحیح کہا ہے، اور رجال کو ثقات لیکن اس حدیث کی سند میں حبیب بن ابی ثابت مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2؍146، اسی کے ہم مثل اوپر صحیح حدیث گذری، اور بعض اجزاء حدیث کو اصحاب سنن اربعہ نے روایت کیا ہے، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجہ بتحقیق الشہری: 448)
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“A Bedouin came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘O Messenger of Allah, I have come to you from people who have no place to graze their flocks and even their male camels have become weak. He mounted the pulpit and praised Allah, then he said: ‘O Allah, send upon us all abundant, wholesome rain, productive and plentiful, sooner rather than later.’ Then the rain came down, and no one came to him from any direction but they said: ‘We have been revived.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حبيب بن أبي ثابت: مدلس و عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 421
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی دعا مانگی یہاں تک کہ میں نے آپ کی بغل کی سفیدی دیکھی، یا یوں کہا کہ یہاں تک کہ آپ کی بغل کی سفیدی دکھائی دی۔ معتمر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ یہ استسقاء کے بارے میں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12222، ومصباح الزجاجة: 445)، وقد أخرجہ: مسند احمد2/235، 370) (صحیح)»
Mu’tamir narrated from his father, from Barakah, from Bashir bin Nahik, from Abu Hurairah:
“The Prophet (ﷺ) supplicated for rain (raising his hands) until I saw or one could see the whiteness of his armpits.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سليمان التيمي مدلس و عنعن و لبعض الحديث شواھد و ھي تغني عن ھذا الحديث انوار الصحيفه، صفحه نمبر 421
(مرفوع) حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا ابو النضر ، حدثنا ابو عقيل ، عن عمر بن حمزة ، حدثنا سالم ، عن ابيه ، قال:" ربما ذكرت قول الشاعر، وانا انظر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، فما نزل حتى جيش كل ميزاب بالمدينة، فاذكر قول الشاعر: وابيض يستسقى الغمام بوجهه، ثمال اليتامى عصمة للارامل"، وهو قول ابي طالب. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" رُبَّمَا ذَكَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَمَا نَزَلَ حَتَّى جَيَّشَ كُلُّ مِيزَابٍ بِالْمَدِينَةِ، فَأَذْكُرُ قَوْلَ الشَّاعِرِ: وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ، ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ"، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو منبر پہ دیکھتا تھا، تو اکثر مجھے شاعر کا یہ شعر یاد آ جاتا تھا، آپ ابھی منبر سے اترے بھی نہیں کہ مدینہ کے ہر پر نالہ میں پانی زور سے بہنے لگا، وہ شعر یہ ہے: وہ سفید فام شخصیت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) جس کے چہرے کے وسیلے سے بادل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کا نگہبان، بیواؤں کا محافظ۔ یہ ابوطالب کا کلام ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستسقاء 3 تعلیقاً وموصولا (1009عقیب حدیث عبد اللہ بن دینار)، (تحفة الأشراف: 6775)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/93) (حسن)»
Salim narrated that his father said:
“Sometimes I remember the words of the poet when I was looking at the face of the Messenger of Allah (ﷺ) on the pulpit. He did not come down until all the waterspouts in Al-Madinah were filled with rain. And I remember what the poet said: ‘He has a white complexion and rain is sought by virtue of his countenance, He cares for the orphans, and protects the widows, These are the words of Abu Talib.”
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، انبانا سفيان بن عيينة ، عن ايوب ، عن عطاء ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: اشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انه صلى قبل الخطبة، ثم خطب، فراى انه لم يسمع النساء، فاتاهن فذكرهن، ووعظهن وامرهن بالصدقة، وبلال قائل بيديه هكذا، فجعلت المراة تلقي الخرص والخاتم والشيء". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ صَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ خَطَبَ، فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ، وَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، وَبِلَالٌ قَائِلٌ بِيَدَيْهِ هَكَذَا، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْخُرْصَ وَالْخَاتَمَ وَالشَّيْءَ".
عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی، پھر خطبہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ عورتوں تک آواز نہیں پہنچ سکی ہے لہٰذا آپ ان کے پاس آئے، ان کو (بھی) وعظ و نصیحت کی، اور انہیں صدقہ و خیرات کا حکم دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا دامن پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں اپنی بالیاں، انگوٹھیاں اور دیگر سامان ڈالنے لگیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو نماز عید کے لئے عید گاہ جانا صحیح ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے باپردہ اور کنواری عورتوں کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی، اور فرمایا: وہ مسجد کے باہر رہ کر دعا میں شریک رہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے عیدگاہ میں نماز عید پڑھے اس کے بعد خطبہ دے، اور نماز عیدین کے بارے میں اختلاف ہے کہ واجب ہے یا سنت، اور حق یہ ہے کہ واجب ہے اور بعضوں نے کہا آیت: «فصل لربك و انحر» سے عید کی نماز مراد ہے اور جب عید کے دن جمعہ آ جائے تو عید کی نماز پڑھنے سے جمعہ واجب نہیں رہتا یعنی جمعہ کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔
It was narrated that ‘Ata’ said:
“I heard Ibn ‘Abbas say: ‘I bear witness that the Messenger of Allah (ﷺ) prayed before the sermon, then he delivered the sermon. And he thought that the women had not heard, so he went over to them and reminded them (of Allah) and preached to them and enjoined them to give in charity, and Bilal was spreading his hands like this, and the women started giving their earrings, rings and things.’”