(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شريك ، عن ابي إسحاق ، عن بريد بن ابي مريم ، عن ابي الحوراء ، عن الحسن بن علي ، قال:" علمني جدي رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات اقولهن في قنوت الوتر: اللهم عافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، واهدني فيمن هديت، وقني شر ما قضيت، وبارك لي فيما اعطيت، إنك تقضي ولا يقضى عليك، إنه لا يذل من واليت، سبحانك ربنا تباركت وتعاليت". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ، قَالَ:" عَلَّمَنِي جَدِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ: اللَّهُمَّ عَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَاهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، سُبْحَانَكَ رَبَّنَا تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ".
حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جن کو میں وتر کے قنوت میں پڑھا کروں: «اللهم عافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت واهدني فيمن هديت وقني شر ما قضيت وبارك لي فيما أعطيت إنك تقضي ولا يقضى عليك إنه لا يذل من واليت سبحانك ربنا تباركت وتعاليت»”اے اللہ! مجھے عافیت دے ان لوگوں میں جن کو تو نے عافیت بخشی ہے، اور میری سرپرستی کر ان لوگوں میں جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے زمرے میں جن کو تو نے ہدایت دی ہے، اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، اور میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے، پس جو تو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، اور تجھ پر کسی کا حکم نہیں چل سکتا، اور جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب! تو پاک، بابرکت اور بلند ہے“۔
It was narrated that Al-Hasan bin ‘Ali said:
“My grandfather, the Messenger of Allah (ﷺ), taught me some words to say in Qunut of Witr: Allahumma ‘afini fiman ‘afait, wa tawallani fiman tawallait, wahdini fiman hadait, wa qini sharra ma qadait, wa barik li fima a’tait. Innaka taqdi wa la yuqda ‘alaik, innahu la yudhillu man walait. Subhanaka rabbana tabarakta wa ta’alait (O Allah, pardon me along with those whom You have pardoned, be an ally to me along with those whom You are an ally to, guide me along with those whom You have guided, protect me from the evil that You have decreed, and bless for me that which You have bestowed. For verily You decree and none can decree over You. He whom You support can never be humiliated. Glory is to You, our Lord, You are Blessed and Exalted).”
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»”اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعہ تیری ناراضی سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیری معافی کے ذریعہ تیری سزاؤں سے پناہ مانگتا ہوں، اور تیرے رحم و کرم کے ذریعہ تیرے غیظ و غضب سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری حمد و ثنا کو شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف کی ہے“۔
It was narrated from ‘Ali bin Abi Talib that the Prophet (ﷺ) used to say at the end of Witr:
“Allahumma inni a’udhu biridaka min sakhatika, wa a’udhu bimu’afatika min ‘uqubatika, wa a’udhu bika minka, la uhsi thana’an ‘alaika, Anta kama athnaita ‘ala nafsika (O Allah, I seek refuge in Your pleasure from Your wrath, and I seek refuge in Your forgiveness from your punishment, and I seek refuge in You from You. I cannot enumerate Your praise, You are as You have praised Yourself).”
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بھی دعا میں اپنے ہاتھ (مبالغہ کے ساتھ) نہیں اٹھاتے تھے، البتہ آپ استسقاء میں اپنے ہاتھ اتنا اوپر اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ روایت ان بہت سی روایتوں کی معارض ہے جن سے استسقاء کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر دعا میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا ثابت ہے، لہذا اولیٰ یہ ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ آپ نے جو نفی کی ہے، وہ اپنے علم کی حد تک کی ہے، جس سے دوسروں کے علم کی نفی لازم نہیں آتی ہے، یا یہ کہا جائے کہ اس میں ہاتھ زیادہ اٹھانے کی نفی ہے، یعنی دوسری دعاؤں میں آپ اپنے ہاتھ اتنے اونچے نہیں اٹھاتے تھے جتنا استسقاء میں اٹھاتے تھے، حتی «رأيت بياض إبطيه» کے ٹکڑے سے اس قول کی تائید ہو رہی ہے، اس سے مطلق قنوت میں ہاتھ نہ اٹھانے پر استدلال صحیح نہیں، اس لئے کہ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا صحیح روایتوں سے ثابت ہے۔
It was narrated from Anas bin Malik that the Prophet (ﷺ) did not raise his hands in any of his supplications except when praying for rain (Istisqa’), when he raised his hands so high that the whiteness of his armpits could be seen.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کا باطن منہ کی طرف کر کے دعا کرو، ان کے ظاہری حصہ کو منہ کی طرف نہ کرو، اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرہ پر پھیر لو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 358، (1485)، (تحفة الأشراف: 6448، ومصباح الزجاجة: 417)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3866) (ضعیف)» (اس کی سند میں صالح بن حسان ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 334)
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘When you call upon Allah, then do so with the palms of your hands (upwards). Do not do so with the back of your hands (upwards). And when you finish, then wipe your face with them.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف جدًا صالح بن حسان: متروك والحديث ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے نماز فجر میں دعائے قنوت کے متعلق پوچھا گیا کہ کب پڑھی جائے؟ تو انہوں نے کہا: ہم رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح دعائے قنوت پڑھا کرتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: محدثین نے اسی پر عمل کیا ہے، اور نماز فجر کی طرح وتر میں بھی یہ جائز رکھا ہے کہ خواہ رکوع سے پہلے قنوت پڑھے یا رکوع کے بعد، مگر رکوع کے بعد پڑھنے کی حدیثیں زیادہ قوی اور زیادہ صحیح ہیں۔
It was narrated that Anas bin Malik said:
He was asked about Qunut in the Subh prayer, and he said: “We used to recite Qunut before Ruku’ and afterwards.”
محمد (محمد بن سیرین) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا، کبھی رات کے شروع حصے میں، کبھی درمیانی حصے میں، اور وفات کے قریبی ایام میں اپنا وتر صبح صادق کے قریب پڑھا۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے وتر کو رات میں مختلف اوقات میں پڑھا ہے، لیکن اخیر عمر میں وتر کو صبح صادق کے قریب پڑھا ہے، تو ایسا ہی کرنا افضل ہے، بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو اخیر رات میں تہجد کے لئے اٹھا کرتے ہیں، اور جو آپ ﷺ نے رات کے ابتدائی حصہ یا درمیانی حصہ میں پڑھا ہے تو اس سے جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں امت کے لئے آسانی ہے، «واللہ اعلم» ۔
It was narrated that Masruq said:
“I asked ‘Aishah about the Witr of the Messenger of Allah (ﷺ). She said: ‘He prayed Witr at every part of the night, at the beginning, in the middle and at the end, when he died (he would perform it) just before dawn.’”
It was narrated that ‘Ali said:
“At every part of the night the Messenger of Allah (ﷺ) prayed Witr, at the beginning and in the middle, and finally his Witr was just before dawn.”