Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
121. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ آخِرَ اللَّيْلِ
باب: رات کے آخری حصے میں وتر پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1185
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِهِ، وَأَوْسَطِهِ، وَانْتَهَى وِتْرُهُ حِينَ مَاتَ فِي السَّحَرِ".
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا، کبھی رات کے شروع حصے میں، کبھی درمیانی حصے میں، اور وفات کے قریبی ایام میں اپنا وتر صبح صادق کے قریب پڑھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المسافرین 17 (745)، سنن الترمذی/الصلاة 218 (456)، سنن النسائی/قیام اللیل 28 (1682)، (تحفة الأشراف: 17653)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوتر 2 (996)، سنن ابی داود/الصلاة 343 (1435)، مسند احمد (6/129، 204)، سنن الدارمی/الصلا ة 211، (1628) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو رات میں مختلف اوقات میں پڑھا ہے، لیکن اخیر عمر میں وتر کو صبح صادق کے قریب پڑھا ہے، تو ایسا ہی کرنا افضل ہے، بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو اخیر رات میں تہجد کے لئے اٹھا کرتے ہیں، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ابتدائی حصہ یا درمیانی حصہ میں پڑھا ہے تو اس سے جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں امت کے لئے آسانی ہے، «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1185 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1185  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وتر کا وقت تہجد کے بعد ہے۔
رات کے ہر حصے میں وتر پڑھنے سے رات کے ہر حصے میں تہجد پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا غالب معمول رات کے نصف آخر میں جاگنے کا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ ر ات کے پہلے حصے میں سوتے اور آخری حصے میں اُٹھ کرنماز پڑھتے تھے۔
پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے تھے۔
جب مؤذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوتے۔
۔
۔
، (صحیح البخاري، التھجد، باب من نام أول اللیل وأحیا آخرہ، حدیث: 1146)
 یہ صورت غالباً وہی ہے۔
جس کا ذکر اس حدیث مُبارک میں ہے۔
اللہ کو سب سے محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے۔
اوراللہ کو سب سے محبوب روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔
و ہ نصف رات سوتے (پھر)
تہائی رات قیام فرماتے (پھر)
رات کا چھٹا حصہ سوتے تھے۔
اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہیں رکھتے تھے۔
 (صحیح البخاري، التهجد، باب من نام عند السحر، حدیث: 1131)

(3)
رسول اللہ ﷺنے آخری عمر میں جو معمول اختیار فرمایا وہ صبح صادق تک نماز پڑھنے کا تھا تاہم فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیرلیٹ جاتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1185   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1435  
´وتر کے وقت کا بیان۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کب پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: سبھی وقتوں میں آپ نے پڑھا ہے، شروع رات میں بھی پڑھا ہے، درمیان رات میں بھی اور آخری رات میں بھی لیکن جس وقت آپ کی وفات ہوئی آپ کی وتر صبح ہو چکنے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1435]
1435. اردو حاشیہ: نماز وتر کا وقت آدھی رات تک ہے۔ اور وتروں کا سحر (صبح صادق سے پہلے) تک۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1435   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 300  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی انتہا سحر تک تھی۔ دونوں روایتوں کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 300»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوتر، باب ساعات الوتر، حديث:996، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل، حديث:745.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر رات کے شروع‘ درمیان اور آخری حصے میں بھی پڑھے ہیں۔
2. وتروں کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہو کر طلوع فجر تک رہتا ہے۔
جو لوگ نماز تہجد کے عادی ہوں انھیں وتر رات کے آخری حصے میں پڑھنے چاہییں اور جو سحری کے وقت اٹھ نہ سکتے ہوں وہ نماز عشاء کے بعد پڑھیں۔
3.کسی مجبوری اور عذر کی وجہ سے اگر وقت پر وتر نہ پڑھے جا سکیں تو فجر کی جماعت کھڑی ہونے تک انھیں پڑھ لے۔
ہاں‘ اگر سو جائے یا اسے یاد ہی نہ رہے تو جس وقت بیدار ہو یا جس وقت یاد آئے، پڑھ لے کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا ادا کرنا جائز ہے۔
ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر وتر اپنے وقت پر نہ پڑھے جا سکیں تو پھر انھیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ اس موقف کی تائید میں بھی بعض روایات آتی ہیں لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔
دیکھیے: (حاشیہ ترمذي‘ أحمد محمد شاکر:۲ /۳۳۳) نیز بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل بھی بیان ہوا ہے کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سے آپ کا قیام اللیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ (۱۲) رکعت پڑھتے۔
دیکھیے: (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۴۶) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جائیں تو وہ اس کی قضا جفت شکل میں دے‘ یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت اور تین وتر کی جگہ چار رکعات پڑھے۔
لیکن ہمارے خیال میں ایسا اس شخص کے لیے ضروری ہو گا جو نماز تہجد کا عادی ہو ‘ عام شخص کے لیے وتروں کی قضا ادا کرنا‘ وتر ہی کی صورت میں مناسب معلوم ہوتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 300   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 456  
´رات کے ابتدائی اور آخری دونوں حصوں میں وتر پڑھا جا سکتا ہے۔`
مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا وتر سحر تک پہنچ گیا تھا۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 456]
اردو حاشہ:
1؎:
ان دونوں حدیثوں اور اس باب میں مروی دیگر حدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پر منحصر ہے،
وہ جب آخری پہر رات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتا ہو تو عشاء کے بعد یا سونے سے پہلے ہی وتر نہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے،
اور اگر اس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے،
اس مسئلہ میں ہر طرح کی گنجائش ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 456   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:188  
فائدہ:
اس حدیث میں نماز وتر کے وقت کا بیان ہے کہ نماز عشاء کے ادا کرنے سے لے کر صبح کی اذان تک رات کے کسی بھی حصے میں اس کو ادا کیا جا سکتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 188   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1736  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں وتر پڑھتے ہیں اور اخیر میں آپﷺ کے وترسحری کے وقت کو پہنچ گئے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1736]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
وتر کا آخری وقت سحری کا وقت ہے اور اس سے پہلے عشاء کی نماز کے بعد جب چاہے پڑھ سکتا ہے اور آپﷺ نے امت کی سہولت کےلیے رات کے ہر حصے میں اس پر عمل فرمایا ہے۔
اور آپﷺ زندگی کے آخری دور میں وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھتےتھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1736   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 996  
996. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں نماز وتر ادا کی ہے، بالآخر آپ کی نماز وتر وقت سحر تک پہنچ گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:996]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایتوں میں ہے کہ آپ نے وتر اول شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی اور آخر شب میں بھی۔
گویا عشاءکے بعد سے صبح صادق کے پہلے تک وتر پڑھنا آپ سے ثابت ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مختلف حالات میں آپ نے وتر مختلف اوقات میں پڑھے۔
غالباً تکلیف اور مرض وغیرہ میں اول شب میں پڑھتے تھے اور مسافرت کی حالت میں درمیان شب میں لیکن عام معمول آپ کا اسے آخر شب ہی میں پڑھنے کا تھا (تفہیم البخاری)
رسول اللہ ﷺ نے امت کی آسانی کے لیے عشاء کے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 996   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:996  
996. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر حصے میں نماز وتر ادا کی ہے، بالآخر آپ کی نماز وتر وقت سحر تک پہنچ گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:996]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے مختلف حالات کے پیش نظر مختلف اوقات میں وتر ادا کیے ہیں، شاید تکلیف اور مرض کے وقت اول شب میں، بحالت سفر درمیان شب میں جبکہ عام معمول آخر شب میں پڑھنے کا تھا۔
حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ؓ نے رات کے ہر حصے، یعنی اول شب، درمیان رات اور آخر شب میں وتر ادا کیے ہیں لیکن آخر کار ان کی ادائیگی وقت سحر تک پہنچ گئی۔
جامع الترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فوت ہوئے تو آخر شب نماز وتر پڑھا کرتے تھے۔
(جامع الترمذي، الوتر، حدیث: 456)
آخر شب سے مراد فجر اول ہے۔
جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت سے واضح ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 2/628،627)
البتہ امت کی آسانی کے پیش نظر عشاء کے بعد جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔
(2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
حدیث عائشہ کے دو معنی ہیں:
٭ رسول اللہ ﷺ آخری عمر میں نماز وتر سحری کے وقت پڑھتے اور اسی پر آپ نے دوام کیا تاآنکہ آپ فوت ہو گئے، قبل ازیں نماز وتر عشاء کے بعد رات کے تمام حصوں میں پڑھنے کا معمول تھا۔
٭ دوسری توجیہ یہ ہے کہ اوقات وتر کی آخری حد سحری تک ہے، اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 996