ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر سے پہلے چار رکعتیں فوت ہو جاتیں تو آپ ان کو ظہر کے بعد کی دونوں رکعتوں کے بعد پڑھ لیتے۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف قیس بن ربیع نے شعبہ سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 201 (426)، (تحفة الأشراف: 16208) (ضعیف)» (اس باب میں صحیح حدیث کریب کی ہے، جو ام سلمہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4208)
It was narrated that ‘Aishah said:
“If the Messenger of Allah (ﷺ) missed the four Rak’ah before the Zuhr, he would perform them after the two Rak’ah which come after the Zuhr.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قيس بن الربيع: ضعيف ضعفه الجمهور وحديث الترمذي (426) ھو المحفوظ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 418
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، قال: ارسل معاوية إلى ام سلمة، فانطلقت مع الرسول، فسال ام سلمة ، فقالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو يتوضا في بيتي للظهر، وكان قد بعث ساعيا، وكثر عنده المهاجرون، وكان قد اهمه شانهم إذ ضرب الباب، فخرج إليه فصلى الظهر، ثم جلس يقسم ما جاء به، قالت: فلم يزل كذلك حتى العصر، ثم دخل منزلي فصلى ركعتين، ثم قال:" شغلني امر الساعي ان اصليهما بعد الظهر فصليتهما بعد العصر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: أَرْسَلَ مُعَاوِيَةُ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَ الرَّسُولِ، فَسَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ ، فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ يَتَوَضَّأُ فِي بَيْتِي لِلظُّهْرِ، وَكَانَ قَدْ بَعَثَ سَاعِيًا، وَكَثُرَ عِنْدَهُ الْمُهَاجِرُونَ، وَكَانَ قَدْ أَهَمَّهُ شَأْنُهُمْ إِذْ ضُرِبَ الْبَابُ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ جَلَسَ يَقْسِمُ مَا جَاءَ بِهِ، قَالَتْ: فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى الْعَصْرِ، ثُمَّ دَخَلَ مَنْزِلِي فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ:" شَغَلَنِي أَمْرُ السَّاعِي أَنْ أُصَلِّيَهُمَا بَعْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّيْتُهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ".
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک شخص بھیجا، قاصد کے ساتھ میں بھی گیا، اس نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں نماز ظہر کے لیے وضو کر رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ وصول کرنے والا ایک شخص روانہ کیا تھا، آپ کے پاس مہاجرین کی بھیڑ تھی، اور ان کی بدحالی نے آپ کو فکر میں مبتلا کر رکھا تھا کہ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ باہر نکلے، ظہر پڑھائی پھر بیٹھے، اور صدقہ وصول کرنے والا جو کچھ لایا تھا اسے تقسیم کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر تک ایسے ہی تقسیم کرتے رہے، پھر آپ میرے گھر میں داخل ہوئے، اور دو رکعت پڑھی، اور فرمایا: ”صدقہ وصول کرنے والے کے معاملے نے مجھے ظہر کے بعد دو رکعت سنت کی ادائیگی سے مشغول کر دیا تھا، اب نماز عصر کے بعد میں نے وہی دونوں رکعتیں پڑھی ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18171ومصباح الزجاجة: 413)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/السہو 8 (1233)، المغازي 69 (4370)، صحیح مسلم/المسافرین 54 (834)، سنن ابی داود/الصلاة 298 (1273)، سنن النسائی/المواقیت 35 (580)، مسند احمد (6/309)، سنن الدارمی/الصلاة 143 (1476) (منکر)» (یزید بن ابی زیاد القرشی الہاشمی ضعیف ہیں، بڑھاپے کی وجہ سے حافظہ میں فرق آ گیا تھا، اور تلقین قبول کرنے لگے تھے، نیز شیعہ تھے، ابن حجر کے الفاظ ہیں: «ضعيف كبر فتغير وصار يتلقن وكان شيعياً» (خت م 4) تہذیب الکمال 32؍ 140، والتقریب)، بخاری نے تعلیقاً اور مسلم نے دوسرے راوی کے ساتھ ان سے حدیث روایت کی ہے، صحیحین وغیرہ میں دوسرے سیاق کے ساتھ یہ حدیث موجو د ہے، اوپر کی تخریج ملاحظہ ہو)
It was narrated that ‘Abdullah bin Harith said:
“Mu’awiyah sent word to Umm Salamah, and I went with his envoy who put the question to Umm Salamah. She said: ‘While the Messenger of Allah (ﷺ) was performing ablution for the Zuhr in my house and he had sent a Sa’i,* the Muhajirun gathered around him in large numbers, and he was busy dealing with them. When a knock on the door came, he went out and performed the Zuhr, then he sat and distributed what had been brought to him.’ She said: ‘He continued doing that until the ‘Asr. Then he came into my house and performed two Rak’ah. Then he said: “The matter of the Sa’i kept me from praying them after Zuhr, so I prayed them after ‘Asr.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: منكر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يزيد بن أبي زياد: ضعيف مدلس انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا“۔
It was narrated from Umm Habibah that the Prophet (ﷺ) said:
“Whoever prays four Rak’ah before the Zuhr and four afterwards, Allah will forbid him to the Fire.”
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة السلولي ، قال: سالنا عليا عن تطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار، فقال: إنكم لا تطيقونه، فقلنا: اخبرنا به ناخذ منه ما استطعنا، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا صلى الفجر يمهل حتى إذا كانت الشمس من ها هنا، يعني: من قبل المشرق بمقدارها من صلاة العصر من ها هنا، يعني: من قبل المغرب، قام فصلى ركعتين، ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من ها هنا، يعني: من قبل المشرق مقدارها من صلاة الظهر من ها هنا، قام فصلى اربعا، واربعا قبل الظهر إذا زالت الشمس، وركعتين بعدها، واربعا قبل العصر، يفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين، والنبيين، ومن تبعهم من المسلمين، والمؤمنين"، قال علي: فتلك ست عشرة ركعة تطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار، وقل من يداوم عليها، قال وكيع: زاد فيه ابي، فقال حبيب بن ابي ثابت: يا ابا إسحاق، ما احب ان لي بحديثك هذا ملء مسجدك هذا ذهبا". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ السَّلُولِيِّ ، قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا عَنْ تَطَوُّعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَا تُطِيقُونَهُ، فَقُلْنَا: أَخْبِرْنَا بِهِ نَأْخُذْ مِنْهُ مَا اسْتَطَعْنَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ يُمْهِلُ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ بِمِقْدَارِهَا مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ هَا هُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ، قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُمْهِلُ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مِقْدَارَهَا مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ مِنْ هَا هُنَا، قَامَ فَصَلَّى أَرْبَعًا، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الْعَصْرِ، يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ، وَالنَّبِيِّينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَالْمُؤْمِنِينَ"، قَالَ عَلِيٌّ: فَتِلْكَ سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ، وَقَلّ مَنْ يُدَاوِمُ عَلَيْهَا، قَالَ وَكِيعٌ: زَادَ فِيهِ أَبِي، فَقَالَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ: يَا أَبَا إِسْحَاق، مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِحَدِيثِكَ هَذَا مِلْءَ مَسْجِدِكَ هَذَا ذَهَبًا".
عاصم بن ضمرہ سلولی کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کی نفل نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: تم ان کو ادا نہ کر سکو گے، ہم نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیے، ہم ان میں سے جتنی ادا کر سکیں گے اتنی لے لیں گے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھنے کے بعد رکے رہتے یہاں تک کہ جب سورج مشرق (پورب) کی جانب سے اتنا بلند ہو جاتا جتنا کہ عصر کے وقت مغرب (پچھم) کی جانب سے ہوتا ہے تو کھڑے ہوتے اور دو رکعت پڑھتے، ۱؎ پھر ٹھہر جاتے یہاں تک کہ جب سورج (پورب) کی جانب سے اتنا بلند ہو جاتا جتنا ظہر کے وقت مغرب (پچھم) کی طرف سے بلند ہوتا ہے، تو آپ کھڑے ہوتے اور چار رکعت پڑھتے، ۲؎ اور جب سورج ڈھل جاتا تو نماز ظہر سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد دو رکعت پڑھتے، اور چار رکعت عصر سے پہلے جن میں ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں، انبیاء کرام اور ان کے پیروکار مسلمانوں اور مومنوں پر سلام بھیج کر فصل کرتے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ سب سولہ رکعتیں ہوئیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دن میں بطور نفل پڑھتے، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جو پابندی کے ساتھ انہیں پڑھتے رہیں۔ راوی حدیث وکیع کہتے ہیں کہ میرے والد نے اس حدیث میں اتنا اضافہ کیا کہ حبیب بن ابی ثابت نے ابواسحاق سے کہا کہ اے ابواسحاق! اگر اس حدیث کے بدلے مجھے تمہاری اس مسجد بھر سونا ملتا تو میں پسند نہیں کرتا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 301 (598، 599)، سنن النسائی/الإمامة 65 (875، 876)، (تحفةالأشراف: 10137)، مسند احمد (1/85) (حسن)» (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابو اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحة: 237)
وضاحت: ۱؎: یہ اشراق کی نماز ہوتی۔ ۲؎: یہ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) ہوتی۔
It was narrated that ‘Asim bin Damrah As-Saluli said:
“We asked ‘Ali about the voluntary (prayer) of Allah’s Messenger (ﷺ) during the day. He said: ‘You will not be able.’ We said: ‘Inform us of it, we will do what we can of it?’ So he said: ‘When he prayed the Fajr he would delay praying any more. When the sun appeared over there (west) – like it appears here, meaning in the direction of the east, about the amount for the ‘Asr prayer from there, meaning in the direction of the west, meaning before the Maghrib – he would stand and perform two Rak’ah* then he would delay praying until the sun appeared over there (west), meaning in the direction of the east, about the amount of the Zuhr prayer from there, then he would stand and perform four. And, four before the Zuhr when the sun passed the zenith, and two Rak’ah after it, and, four before the ‘Asr, separating between every two Rak’ah with Taslim** upon the angels that are close (to Allah), the Prophets, and those who follow them among the Muslims and the believers.’” 'Ali said: "That is sixteen Rak'ah of voluntary prayer which Allah's Messenger (ﷺ) performed during the day. And there are very few who offer them regularly." Waki` said: “My father added: Habib bin Abu Thabit said: ‘O Abu Ishaq, this mosque filled with gold would not be dearer to me than this Hadith of yours.’”
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے، آپ نے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور تیسری مرتبہ میں کہا: ”اس کے لیے جو چاہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان اور اقامت کے درمیان نفلی نماز ہے، اور یہ نفل ہر نماز میں اذان اور اقامت کے درمیان ہے، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل ثابت ہے۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Mughaffal said:
“The Prophet of Allah (ﷺ) said: ‘Between every two Adhans there is a prayer.’ He said it three times, and on the third time he said, ‘For those who wish.’”*
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مؤذن اذان دیتا تو لوگ اتنی کثرت سے مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے کہ محسوس ہوتا کہ نماز مغرب کے لیے اقامت کہہ دی گئی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1104)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 95 (503)، الأذان 14 (625)، صحیح مسلم/المسافرین 55 (836)، سنن ابی داود/الصلاة 300 (1282)، سنن النسائی/الأذان 39 (682)، سنن ابی داود/الصلاة 300 (1282)، مسند احمد (3/282) (صحیح)» (اس سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن کئی ثقات نے ان کی متابعت کی ہے کما فی التخریج)
وضاحت: ۱؎: یہ دو رکعتیں ہلکی ہوتی تھیں جب تک اذان سے فراغت ہوتی اور موذن تکبیر شروع کرتا تو ان سے فراغت ہو جاتی، نیز اس حدیث سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔
‘Ali bin Zaid bin Jud’an said:
“I heard Anas bin Malik say: ‘The Mu ’adh-dhin would call the Adhan during the time of the Messenger of Allah (ﷺ), and one would think that it was the Iqamah because there were so many people who stood and performed the two Rak’ah before the Maghrib.”
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بنو عبدالاشہل (قبیلہ) میں آئے، اور ہمیں ہماری مسجد میں مغرب پڑھائی، پھر فرمایا: ”یہ دونوں رکعتیں (مغرب کے بعد کی سنتیں) اپنے گھروں میں پڑھو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3584، ومصباح الزجاجة: 414) (حسن)» (عبد الوہاب بن الضحاک متروک ہے، اور اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل شام کے علاوہ سے ضعیف ہے، اور محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن حدیث کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں (1/129/2) محمد بن اسحاق کے طریق سے کی ہے، اس لئے عبد الوہاب اور ابن عیاش کی متابعت ہو گئی، نیز مسند احمد: 5/427) میں ابن اسحاق سے تحدیث کی تصریح ہے، لیکن وہ محمود بن لبید کی حدیث ہے، اس وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 1176، و مصباح الزجاجة: 418، تحقیق الشہری)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنتوں کا گھر میں ادا کرنا افضل ہے، کیونکہ اس میں ریا و نمود سے بچاؤ ہوتا ہے، اور گھر میں برکت بھی ہوتی ہے، افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں نے اس سنت کو چھوڑ دیا ہے، اور سنتوں کو مسجد میں ہی پڑھا کرتے ہیں، اور جمعہ کے بعد ایک فیصد بھی ایسا نہیں دیکھا جاتا، جو سنتیں گھر میں جا کر ادا کرے جیسے نبی اکرم ﷺ کا طریقہ تھا۔
It was narrated that Rafi’ bin Khadij said:
“We came to the Messenger of Allah (ﷺ) with Banu ‘Abdul-Ashhal, and he led us in praying the Maghrib in our mosque. Then he said: ‘Pray these two Rak’ah in your houses.’”
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کے بعد کی دو رکعت سنت میں: «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «حدیث زرعن عبد اللہ مسعود تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 926) وحدیث أبي وائل عن ابن سعود: أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 204 (431)، (تحفة الأشراف: 9278) (ضعیف)» (اس کی سند میں بدل بن المحبر اور عبد الملک بن الو لید ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: المشکاة: 851)
It was narrated from ‘Abdullah bin Mas’ud that for the two Rak’ah after Maghrib, the Prophet (ﷺ) used to recite:
“Say: O you disbelievers!” [Al-Kafirun (109)] and “Say: He is Allah the One.” [Al- Ikhlas (112)]
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (431) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعت نماز پڑھے اور ان کے درمیان کوئی غلط بات نہ کہے، تو وہ بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار دی جائیں گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 205 (435)، (تحفة الأشراف: 15412) (ضعیف جدا)» (اس حدیث کی سند میں عمر بن ابی خثعم منکر الحدیث ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 469)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 1374)
It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (ﷺ) said:
“Whoever prays six Rak’ah after the Maghrib and does not say anything bad in between them, will have a reward equal to the worship of twelve years.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا ترمذي (435) وانظر الحديث الآتي (1374) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419