(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، عن عبيد الله بن عمر ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي هريرة ، ان رجلا دخل المسجد، فصلى ورسول الله صلى الله عليه وسلم في ناحية من المسجد، فجاء، فسلم فقال" وعليك، فارجع فصل، فإنك لم تصل"، فرجع فصلى، ثم جاء، فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" وعليك فارجع فصل، فإنك لم تصل بعد"، قال في الثالثة: فعلمني يا رسول الله، قال:" إذا قمت إلى الصلاة فاسبغ الوضوء، ثم استقبل القبلة، وكبر، ثم اقرا ما تيسر معك من القرآن، ثم اركع حتى تطمئن راكعا، ثم ارفع حتى تطمئن قائما، ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا، ثم ارفع راسك حتى تستوي قاعدا، ثم افعل ذلك في صلاتك كلها". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَصَلَّى وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاحِيَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَجَاءَ، فَسَلَّمَ فَقَالَ" وَعَلَيْكَ، فَارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ"، فَرَجَعَ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ بَعْدُ"، قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: فَعَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، وَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَاعِدًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے، اس نے آ کر آپ کو سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی“، وہ واپس گیا اور اس نے پھر سے نماز پڑھی، پھر آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، تم نے ابھی بھی نماز نہیں پڑھی“، آخر تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز کا ارادہ کرو تو کامل وضو کرو، پھر قبلے کی طرف منہ کرو، اور «الله أكبر» کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں آسان ہو پڑھو، پھر رکوع میں جاؤ یہاں تک کہ پورا اطمینان ہو جائے، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھاؤ، اور پورے اطمینان کے ساتھ قیام کرو، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں مطمئن ہو جاؤ، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے بیٹھ جاؤ، پھر اسی طرح اپنی ساری نماز میں کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث «مسيء الصلاة» کے نام سے اہل علم کے یہاں مشہور ہے، اس لئے کہ صحابی رسول خرباق رضی اللہ عنہ نے یہ نماز اس طرح پڑھی تھی جس میں ارکان نماز یعنی قیام، رکوع اور سجود وغیرہ کو اچھی طرح نہیں ادا کیا تھا جس پر رسول اکرم ﷺ نے تنبیہ فرمائی، اور نماز کی یہ تفصیل بیان کی، یعنی ساری نماز کو اسی طرح اطمینان اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کرنے کی ہدایت کی، ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ اس شخص نے ہلکی نماز پڑھی تھی، اور رکوع اور سجدے کو پورا نہیں کیا تھا، اس حدیث سے صاف معلوم ہوا ہے کہ نماز میں تعدیل ارکان یعنی اطمینان کے ساتھ رکوع، سجود اور قومہ و جلسہ ادا کرنا فرض ہے، جب ہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے نماز ادا نہیں کی۔ ائمہ حدیث نیز امام شافعی، امام احمد، اور امام ابو یوسف وغیرہم نے یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث کے پیش نظر تعدیل ارکان کو فرض اور واجب کہا ہے، اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد نے تعدیل ارکان کو فرض نہیں کہا، بلکہ کرخی کی روایت میں واجب کہا ہے، اور جرجانی کی روایت میں سنت کہا ہے، وجوب اور فرضیت کے قائلین کا استدلال یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس حدیث میں جتنی باتیں بتائی ہیں وہ سب کی سب یا شروط نماز میں سے ہیں جیسے وضو، استقبال قبلہ، یا فرائض و واجبات میں سے، جیسے تکبیر تحریمہ، قرأت فاتحہ، وغیرہ وغیرہ، اور اگر یہ اعمال فرض نہ ہوتے تو رسول اکرم ﷺ اس صحابی کو بار بار نماز ادا کرنے کے لئے کیوں حکم دیتے؟ اور یہ فرماتے کہ ابھی تمہاری نماز نہیں ہوئی، یہ اور اس طرح کی احادیث کی روشنی میں تعدیل ارکان کو فرض اور واجب کہنے والے ائمہ کا مسلک صحیح اور راجح ہے، اس کے مقابل میں صرف ان چیزوں کو سنت کہنے والے ائمہ کے اتباع اور مقلدین کے طریقہ نماز کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کافی ہے کہ خشوع و خضوع اور تعدیل ارکان کی کتنی اہمیت ہے، اور اس کے مقابل میں سب سے اہم عبادت کو اس طرح ادا کرنا کہ کسی طور پر بھی اطمئنان نہ ہو بس جلدی جلدی ٹکریں مار لی جائیں، یہ بعینہ وہی نماز ہو جائے گی جس کو رسول اکرم ﷺ نے صحابی سے فرمایا کہ ”تم نے نماز ہی نہیں ادا کی اس لئے دوبارہ نماز ادا کرو“، «والله الهادي إلى الصواب» .
It was narrated from Abu Hurairah that a man entered the mosque and performed prayer, and the Prophet (ﷺ) was in a corner of the mosque. The man came and greeted him, and he said:
“And also upon you. Go back and repeat your prayer, for you have not prayed.” So he went back and repeated his prayer, then he came and greeted the Prophet (ﷺ). He said: “And also upon you. Go back and repeat your prayer, for you have not prayed.” On the third occasion, the man said: “Teach me, O Messenger of Allah!” He said: “When you stand up to offer the prayer, perform ablution properly, then stand to face the prayer direction and say Allahu Akbar. Then recite whatever you can of Qur’an, and then bow until you can feel at ease bowing. Then stand up until you feel at ease standing, then prostrate until you feel at ease prostrating. Then raise your head until you are sitting up straight. Do that throughout your prayer.”
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو عاصم ، حدثنا عبد الحميد بن جعفر ، حدثنا محمد بن عمرو بن عطاء ، قال: سمعت ابا حميد الساعدي في عشرة من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم ابو قتادة، فقال ابو حميد: انا اعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: لم؟ فوالله ما كنت باكثرنا له تبعة، ولا اقدمنا له صحبة، قال: بلى، قالوا: فاعرض، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا قام إلى الصلاة كبر، ثم رفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ويقر كل عضو منه في موضعه، ثم يقرا، ثم يكبر، ويرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ثم يركع ويضع راحتيه على ركبتيه معتمدا، لا يصب راسه ولا يقنع معتدلا، ثم يقول: سمع الله لمن حمده، ويرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، حتى يقر كل عظم إلى موضعه، ثم يهوي إلى الارض ويجافي بين يديه عن جنبيه، ثم يرفع راسه، ويثني رجله اليسرى، فيقعد عليها ويفتخ اصابع رجليه إذا سجد، ثم يسجد، ثم يكبر، ويجلس على رجله اليسرى، حتى يرجع كل عظم منه إلى موضعه، ثم يقوم فيصنع في الركعة الاخرى مثل ذلك، ثم إذا قام من الركعتين رفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه كما صنع عند افتتاح الصلاة، ثم يصلي بقية صلاته هكذا، حتى إذا كانت السجدة التي ينقضي فيها التسليم اخر إحدى رجليه وجلس على شقه الايسر متوركا"، قالوا: صدقت، هكذا كان يصلي رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ أَبُو قَتَادَةَ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: لِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعَةً، وَلَا أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ كَبَّرَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، وَيَقِرَّ كُلُّ عُضْوٍ مِنْهُ فِي مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ مُعْتَمِدًا، لَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ وَيُجَافِي بَيْنَ يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى، فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَخُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، ثُمَّ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ، وَيَجْلِسُ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى، حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ مِنْهُ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَصْنَعُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا صَنَعَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يُصَلِّي بَقِيَّةَ صَلَاتِهِ هَكَذَا، حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي يَنْقَضِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ إِحْدَى رِجْلَيْهِ وَجَلَسَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ مُتَوَرِّكًا"، قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کی موجودگی میں ۱؎، جن میں ایک ابوقتادہ رضی اللہ عنہ تھے، ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: کیسے؟ جب کہ اللہ کی قسم آپ نے ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ہے اور نہ آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے؟، ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ... ضرور لیکن میں آپ لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز بیان کریں، انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «الله أكبر» کہتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے)، اور آپ کا ہر عضو اپنی جگہ پر برقرار رہتا، پھر قراءت کرتے، پھر «الله أكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے)، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر ٹیک کر رکھتے، نہ تو اپنا سر پیٹھ سے نیچا رکھتے نہ اونچا بلکہ پیٹھ اور سر دونوں برابر رکھتے، پھر «سمع الله لمن حمده» کہتے، اور دونوں ہاتھ کندھے کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے) یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ جاتی، پھر زمین کی طرف (سجدہ کے لیے) جھکتے اور اپنے دونوں ہاتھ پہلو سے جدا رکھتے، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑ کر اس پر بیٹھ جاتے، اور سجدہ میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی رکھتے، پھر سجدہ کرتے، پھر «الله أكبر» کہتے، اور اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ واپس لوٹ آتی، پھر کھڑے ہوتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے، پھر جب دو رکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے، تو اپنے دونوں ہاتھ کندھے کے بالمقابل اٹھاتے جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کیا تھا ۳؎، پھر اپنی باقی نماز اسی طرح ادا فرماتے، یہاں تک کہ جب اس آخری سجدہ سے فارغ ہوتے جس کے بعد سلام ہے تو بائیں پاؤں کو ایک طرف نکال دیتے، اور بائیں پہلو پہ سرین کے بل بیٹھتے ۲؎، لوگوں نے کہا: آپ نے سچ کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے ۳؎۔
وضاحت: ۱؎: گویا یہ حدیث دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کی کیونکہ ان سب نے ابوحمید رضی اللہ عنہ کے کلام کی تصدیق کی۔ ۲؎: اس بیٹھک کو تورّک کہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ آخری تشہد میں تورک مسنون ہے، رہی افتراش والی روایت تو وہ مطلق ہے اس میں یہ نہیں کہ یہ دونوں تشہد کے لئے ہے یا پہلے تشہد کے لئے ہے، ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی اس روایت نے اس اطلاق کی کر دی ہے اور یہ کہ افتراش پہلے تشہد میں ہے اور تورّک آخری تشہد میں ہے۔ ”تورّک“ کے مسئلہ میں اختلاف ہے، یعنی تشہد میں سرین (چوتڑ) کے بل بیٹھے یا نہ بیٹھے، بعض نے کہا کہ دونوں قعدوں (تشہد) میں تورّک کرے، امام مالک کا یہی مذہب ہے، اور بعض نے کہا کسی قعدہ (تشہد) میں تورک نہ کرے، بلکہ بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے، یہی امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے، اور بعض نے کہا کہ جس قعدہ (تشہد) کے بعد سلام ہو تو اس میں تورّک کرے، خواہ وہ پہلا تشہد ہو، جیسے نماز فجر میں، یا دوسرا تشہد ہو، جیسے چار یا تین رکعتوں والی نماز، اور جس قعدہ (تشہد) کے بعد سلام نہ ہو اس میں بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھے، اور یہ امام شافعی کا مذہب ہے، اور بعض نے کہا کہ جس نماز میں دو قعدے ہوں تو دوسرے قعدہ میں تورک کرے، اور جس نماز میں ایک ہی قعدہ ہو تو اس میں بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھے، امام احمد اور اہل حدیث نے اسی کو اختیار کیا ہے اور حدیث سے یہی ثابت ہے۔ ۳؎: اس روایت سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہو گیا کیونکہ حدیث کا سیاق یہ بتا رہا ہے کہ ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ان سے جو گفتگو کی وہ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں چار جگہوں پر رفع یدین کیا جائے گا، تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے، اور قعدہ اولیٰ (پہلے تشہد) کے بعد تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت۔
Muhammad bin ‘Amr bin ‘Ata’ said:
‘While he was among ten of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) including Abu Qatadah: “I heard Abu Humaid As-Sa’idi say: ‘I am the most knowledgeable of you concerning the prayer of the Messenger of Allah (ﷺ).’ They said: ‘Why? By Allah, you did not follow him more than we did, and you did not accompany him for longer.’ He said: ‘Yes I am.’ They said: ‘Show us.’ He said: ‘When the Messenger of Allah (ﷺ) stood up for prayer, he would say the Takbir, then he would raise his hands parallel to his shoulders, and every part of his body would settle in place. Then he would recite, then he would raise his hands parallel to his shoulders and bow, placing his palms on his knees and supporting his weight on them. He neither lowered his head, nor raised it up, it was evenly balanced (between either extreme). Then he would say: “Sami’ Allahu liman hamidah (Allah hears those who praise Him); and he would raise his hands parallel with his shoulders, until every bone returned to its place. Then he would prostrate himself on the ground, keeping his arms away from his sides. Then he would raise his head and tuck his left foot under him and sit on it, and he would spread his toes when he prostrated.* Then he would prostrate, then say the Takbir and sit on his left foot, until every bone returned to its place. Then he would stand up and do the same in the next Rak’ah. Then when he stood up after two Rak’ah, he would raise his hands level with his shoulders as he did at the beginning of the prayer. Then he would offer the rest of his prayer in like manner until, when he did the prostration after which the Taslim comes, he would push one of his feet back and sit with his weight on his left side, Mutawarrikan.’** They said: ‘You have spoken the truth; this is how the Messenger of Allah (ﷺ) used to perform the prayer.’”***
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن حارثة بن ابي الرجال ، عن عمرة ، قالت: سالت عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا توضا فوضع يديه في الإناء سمى الله، ويسبغ الوضوء، ثم يقوم فستقبل القبلة، فيكبر، ويرفع يديه حذاء منكبيه، ثم يركع، فيضع يديه على ركبتيه ويجافي بعضديه، ثم يرفع راسه، فيقيم صلبه، ويقوم قياما هو اطول من قيامكم قليلا، ثم يسجد، فيضع يديه تجاه القبلة، ويجافي بعضديه ما استطاع فيما رايت، ثم يرفع راسه، فيجلس على قدمه اليسرى، وينصب اليمنى، ويكره ان يسقط على شقه الايسر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ أَبِي الرِّجَالِ ، عَنْ عَمْرَةَ ، قَالَت: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا تَوَضَّأَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ فِي الْإِنَاءِ سَمَّى اللَّهَ، وَيُسْبِغُ الْوُضُوءَ، ثُمَّ يَقُومُ فَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، فَيُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ، فَيَضَعُ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَيُجَافِي بِعَضُدَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيُقِيمُ صُلْبَهُ، وَيَقُومُ قِيَامًا هُوَ أَطْوَلُ مِنْ قِيَامِكُمْ قَلِيلًا، ثُمَّ يَسْجُدُ، فَيَضَعُ يَدَيْهِ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ، وَيُجَافِي بِعَضُدَيْهِ مَا اسْتَطَاعَ فِيمَا رَأَيْتُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَجْلِسُ عَلَى قَدَمِهِ الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُ الْيُمْنَى، وَيَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ".
عمرہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی تھی؟ انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو شروع کرتے تو اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر «بسم الله» کہتے اور وضو مکمل کرتے، پھر قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور «الله أكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر رکوع کرتے، اور اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پہ رکھتے اور بازوؤں کو پسلیوں سے جدا رکھتے، پھر رکوع سے سر اٹھاتے اور پیٹھ سیدھی کرتے، اور تمہارے قیام سے کچھ لمبا قیام کرتے، پھر سجدہ کرتے اور اپنے دونوں ہاتھ قبلہ رخ رکھتے، اور میرے مشاہدہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تک ہو سکتا اپنے بازوؤں کو (اپنی بغلوں سے) جدا رکھتے، پھر سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے اور بائیں قدم پہ بیٹھ جاتے، اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے، (اور قعدہ اولیٰ میں) بائیں طرف مائل ہونے کو ناپسند فرماتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17888) (ضعیف جدا) (ملاحظہ ہو حدیث نمبر: 874)»
It was narrated that ‘Amrah said:
“I asked ‘Aishah: ‘How did the Messenger of Allah (ﷺ) perform prayer?’ She said: ‘When the Prophet (ﷺ) performed ablution, he would put his hand in the vessel and say Bismillah, and he would perform ablution properly. Then he would stand and face the Qiblah. He would say the Takbir raising his hands parallel to his shoulders. Then he would bow, putting his hands on his knees and keeping his arms away from his sides. Then he would raise his head and straighten his back, and he would stand a little longer than your standing. Then he would prostrate, pointing his hands towards the Qiblah, keeping his arms away (from his sides) as much as possible, according to what I have seen. Then he would raise his head and sit on his left foot with his right foot held upright, and he disliked leaning towards his left side.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حارثة: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 415
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے، جمعہ اور عید بھی دو رکعت ہیں، بہ زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل ہیں ناقص نہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10596، ومصباح الزجاجة: 378)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الجمعة 37 (1421)، مسند احمد (1/37) (صحیح)» (سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن سفیان ثوری نے مسند احمد میں ان کی متابعت کی ہے، اور عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ کا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع مختلف فیہ ہے، لیکن بعض علماء نے سماع کو ثابت مانا ہے، ملاحظہ ہو: نصب الرایہ: 2/189، و الإرواء: 3/106)
وضاحت: ۱؎: یعنی سفر میں دو ہی رکعتیں واجب ہیں، اور یہ نہیں ہے کہ چار واجب تھیں سفر کی وجہ سے دو ہو گئیں اب قرآن کریم میں جو آیا ہے: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة»”جب تم سفر میں ہو تو تم پر نماز کو قصر پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے“(سورۃ النساء: ۱۰۱)، یہاں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی، اور خوف کی قید اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے، یا خوف کی حالت میں نازل ہوئی، اور سفر کی حالت اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت نے آیت میں قصر سے مراد رکوع اور سجود کو ایما اور اشارہ سے کرنے کے معنی میں لیا ہے، اور امام بخاری نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ نماز پہلے دو ہی رکعت فرض ہوئی تھی پھر سفر کی نماز اپنی حالت پر باقی رہی اور حضر میں دو دو رکعتیں بڑھا دی گئیں، اکثر ائمہ کے یہاں سفر میں قصر واجب ہے، امام ابوحنیفہ کے یہاں اتمام ناجائز ہے، اور امام شافعی کے نزدیک سفر میں قصر و اتمام دونوں جائز ہے، اور قصر افضل ہے، اور احادیث سے قصر کا وجوب ہی ثابت ہوتا ہے، اور نبی کریم ﷺ سے اسفار میں ہمیشہ قصر ہی ثابت ہے، ملاحظہ ہو: (الروضہ الندیہ: ۱/۳۷۳، ۳۷۴)
It was narrated that ‘Umar said:
“The prayer while traveling is two Rak’ah, and Friday is two Rak’ah, and ‘Eid is two Rak’ah. They are complete and are not shortened, as told by Muhammad (ﷺ).”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے، اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر اور عید الاضحی کی دو دو رکعت ہے، بہ زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل ہیں ناقص نہیں۔
‘Umar said:
“The prayer when traveling is two Rak’ah, and Friday is two Rak’ah, and Al-Fitr and Al-Adha are two Rak’ah, complete, not shortened, as told by Muhammad (ﷺ).”
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، میں نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا»”نماز قصر کرنے میں تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر کافروں کی فتنہ انگیزیوں کا ڈر ہو“(سورۃ النساء: ۱۰۱)، اب اس وقت تو لوگ مامون (امن و امان میں) ہو گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: جس بات پر تمہیں تعجب ہوا مجھے بھی اسی پر تعجب ہوا تھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ صدقہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، لہٰذا تم اس کے صدقہ کو قبول کرو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 1 (686)، سنن ابی داود/الصلاة270 (1199، 1200)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء (3034)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 1 (1434)، (تحفة الأشراف: 10659)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/25، 36)، سنن الدارمی/الصلاة 179 (1546) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اللہ تعالیٰ کا ایک صدقہ ہمارے اوپر یہ ہے کہ سفر میں دشمنوں کا ڈر نہ رہتے بھی نماز قصر مشروع اور ثابت ہے، اور رسول اکرم ﷺ اپنے تمام اسفار میں قصر کرتے تھے، اس حدیث سے بھی قصر کے وجوب کی تائید ہوتی ہے، اس لئے کہ اس میں نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے صدقے کو قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔
It was narrated that Ya’la bin Umayyah said:
“I asked ‘Umar bin Khattab: ‘Allah says: “And when you travel in the land, there is no sin on you if you shorten the prayer if you fear that the disbelievers may put you in trial (attack you), verily, the disbelievers are ever to you open enemies,” [4:101] but now there is security and people are safe.’ He said: ‘I found it strange just as you do, so I asked the Messenger of Allah (ﷺ) about that, and he said: “It is charity that Allah has bestowed upon you, so accept His charity.”
امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ہم قرآن میں نماز حضر اور نماز خوف کا ذکر پاتے ہیں، لیکن سفر کی نماز کا ذکر نہیں پاتے؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہماری جانب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے، اور ہم دین کی کچھ بھی بات نہ جانتے تھے، ہم وہی کرتے ہیں جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/التقصیر1 (1435)، (تحفة الأشراف: 6380)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/66، 94) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حالانکہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا» اخیر تک، یعنی: ”جب تم زمین میں سفر کرو تو نماز کے قصر کرنے میں تم پر گناہ نہیں، اگر تم کو ڈر ہو کہ کافر تم کو ستائیں گے“، اس آیت سے سفر کی نماز کا حکم نکلتا ہے، مگر چونکہ اس میں قید ہے کہ اگر تم کو کافروں کا ڈر ہو تو امیہ بن عبداللہ نے نماز خوف سے اس کو خاص کیا، کیونکہ صرف سفر کا حکم جس میں ڈر نہ ہو قرآن میں نہیں پایا، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حکم صاف طور سے قرآن میں نہیں ہے، لیکن نبی اکرم ﷺ کے فعل سے مطلق سفر میں قصر کرنا ثابت ہے، پس حدیث سے جو امر ثابت ہو اس کی پیروی تو ویسے ہی ضروری ہے، جیسے اس امر کی جو قرآن سے ثابت ہو، ہم تک قرآن اور حدیث دونوں نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اور قرآن میں حدیث کی پیروی کا صاف حکم ہے، جو کوئی صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ کرے، اور حدیث کو نہ مانے وہ گمراہ ہے، اور اس نے قرآن کو بھی نہیں مانا، اس لئے کہ قرآن میں صاف حکم ہے: «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا» اور فرمایا: «من يطع الرسول فقد أطاع الله» اور یہ ممکن نہیں کہ حدیث کے بغیر کوئی قرآن پر عمل کر سکے، اس لئے کہ قرآن مجمل ہے، اور حدیث اس کی تفسیر ہے، مثلاً قرآن میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے شرائط، ارکان، اور کیفیات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، اسی طرح زکاۃ، حج، روزہ وغیرہ دین کے ارکان بھی صرف قرآن دیکھ کر ادا نہیں ہو سکتے، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: «ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه»”خبردار ہو! مجھے قرآن دیا گیا، اور اس کے مثل ایک اور“، یعنی حدیث۔
It was narrated from Umayyah bin ‘Abdullah bin Khalid that he said to ‘Abdullah bin ‘Umar:
“We find (mention of) the prayer of the resident and the prayer in a state of fear in the Qur’an, but we do not find any mention of the prayer of the traveler. ‘Abdullah said to him: “Allah sent Muhammad (ﷺ) to us, and we did not know anything, rather we do what we saw Muhammad (ﷺ) doing.”
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس شہر سے باہر نکلتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ آپ یہاں لوٹ آتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6655)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/99، 124) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حالانکہ مدینہ سے نکلتے ہی کافروں کا ڈر نہ ہوتا، پھر معلوم ہوا کہ بغیر ڈر کے بھی سفر میں قصر درست ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسافر جب شہر سے نکل جائے اس وقت سے قصر شروع کرے۔
It was narrated that Ibn ‘Umar said:
“When the Messenger of Allah (ﷺ) went out from this city (Al-Madinah) he did not perform more than two Rak’ah for prayer until he returned.”
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضر (اقامت) میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض کیں۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“Allah enjoined the prayer upon the tongue of your Prophet (ﷺ): Four Rak’ah while a resident and two Rak’ah when traveling.”
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور عشاء کی نماز کو سفر میں جمع کرتے تھے، نہ تو آپ کو کسی چیز کی عجلت ہوتی، نہ کوئی دشمن آپ کا پیچھا کئے ہوئے ہوتا، اور نہ آپ کو کسی چیز کا خوف ہی ہوتا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5550، 5907، 6411)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/217) (ضعیف)» (اس کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف ہیں)
It was narrated from Mujahid, Sa’eed bin Jubair, ‘Ata’ bin Abi Rabah and Tawus that Ibn ‘Abbas told them that the Messenger of Allah (ﷺ) used to combine the Maghrib and ‘Isha’ when traveling, although there was nothing to make him hurry and no enemy pursuing him, and he was not afraid of anything.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع الأنصاري: ضعيف (تقريب: 148) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 415