عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو یا تین قلہ ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7305، ومصباح الزجاجة: 215) (صحیح)» ( «أو ثلاثاً» کا لفظ صرف اس روایت میں ہے، اصحاب حماد نے اس کے بغیر روایت کی ہے کماتقدم)
It was narrated from 'Ubaidullah bin 'Abdullah bin 'Umar that his father said:
"The Messenger of Allah said: 'If the water is the amount of two or three Qullah, nothing can make it impure (Najis).'" (Sahih) Another chain with similar wording.
(مرفوع) قال ابو الحسن بن سلمة: حدثنا ابو حاتم، حدثنا ابو الوليد، وابو سلمة، وابن عائشة القرشي، قالوا: حدثنا حماد بن سلمة، فذكر نحوه. (مرفوع) قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ سَلَمَةَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَأَبُو سَلَمَةَ، وَابْنُ عَائِشَةَ الْقُرَشِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
(امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کے شاگرد) ابو حسن بن سلمہ قطان نے یہی روایت اپنی عالی سند سے، یعنی بواسطہ ابوحاتم و ابوولید وغیرہ، حماد سے امام ابن ماجہ کے واسطے کے بغیر بیان کی۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان جو حوض و تالاب واقع ہیں، اور ان پر درندے، کتے اور گدھے پانی پینے آتے ہیں، تو ایسے حوضوں و تالابوں کا اور ان کے پانی سے طہارت حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ انہوں نے اپنی تہ میں سمیٹ لیا، وہ ان کا حصہ ہے، اور جو پانی حوض (تالاب) میں بچا، وہ ہمارے لیے پاک کرنے والا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4186، ومصباح الزجاجة: 216) (ضعیف)» (عبدالرحمن بن زید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1609)
It was narrated from Abu Sa'eed Al-Khudri that:
The Prophet was asked about the water basins located between Makkah and Al-Madinah, which were visited by wild animals, dogs and donkeys, and about using them for means of purification. He said: "Whatever they (the animals) have carried in their bellies is for them, and whatever is left over is for us, and is pure."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا عبد الرحمٰن بن زيد: ضعيف وكان يروي عن أبيه أحاديث موضوعة والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 397
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم ایک تالاب پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ایک گدھے کی لاش پڑی ہوئی ہے ہم اس (کے استعمال) سے رک گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“(یہ سنا) تو ہم نے پیا پلایا، اور پانی بھر کر لاد لیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3114) (صحیح)» (سند میں طریف بن شہاب اور شریک القاضی ضعیف ہیں، اس لئے یہ اسناد ضعیف ہے، اور «جیفہ حمار» کا قصہ صحیح نہیں ہے، لیکن بقیہ مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: ا لإرواء: 14، وصحیح ابی داود: 59)
It was narrated that Jabir bin 'Abdullah said:
"We came to a pond in which there was the carcass of a donkey, so we refrained from using the water until the Messenger of Allah came to us and said: 'Water is not made impure by anything.' Then we drank from it and gave it to our animals to drink, and we carried some with us."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قصة الجيفة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا قال البوصيري: ”ھذا إسناد فيه طريف بن شهاب،وقد أجمعوا علي ضعفه‘‘ وھو ضعيف (ترمذي: 238) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 397
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جو چیز اس کی بو، مزہ اور رنگ پر غالب آ جائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4860، ومصباح الزجاجة: 218) (ضعیف)» (رشدین اور راشد بن سعد دونوں ضعیف ہیں، یہ حدیث صحیح نہیں ہے، لیکن علماء کا اس کے عمل پر اجماع ہے، یعنی اگر نجاست پڑنے سے پانی میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو وہ پانی نجس ہے)
وضاحت: ۱؎: نجاست پڑنے کے بعد اگر پانی میں بو، رنگ اور مزہ کی تبدیلی ہو جائے تو وہ پانی کم ہو یا زیادہ نجس و ناپاک ہو جائے گا، اس پر علماء کا اجماع ہے کما تقدم۔
It was narrated that Abu Umamah Al-Bahili said:
"The Messenger of Allah said: 'Water is not made impure by anything except that which changes its smell, taste and color.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد فيه رشدين وھو ضعيف واختلف عليه مع ضعفه“ ويغني عنه الإجماع،انظر: الإجماع لابن المنذر (ص 33 نص 11،12) رشدين: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 397
لبابہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنا کپڑا دے دیجئیے اور دوسرا کپڑا پہن لیجئیے (تاکہ میں اسے دھو دوں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچے کے پیشاب پہ پانی چھڑکا جاتا ہے، اور بچی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 137 (375)، (تحفة الأشراف: 18055)، ویأتی عند المؤلف في تعبیر الرؤیا (3923) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کی ایک روایت میں «مالم يطعم»(جب تک وہ کھانا نہ کھانے لگے) کی قید ہے، اس لئے جو روایتیں مطلق ہیں مقید پر محمول کی جائیں گی، مؤلف نے ترجمۃ الباب میں «الصبى الذي لم يطعم» کہہ کر اسی جانب اشارہ کیا ہے۔
It was narrated that Lubabah bint Harith said:
"Husain bin 'Ali urinated in the lap of the Prophet and I said: 'O Messenger of Allah, give me your garment and put on another garment.' He said: 'Water should be sprinkled on the urine of a baby boy, and the urine of a baby girl should be washed away.'"
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ کے اوپر پیشاب کر دیا، آپ نے اس پر صرف پانی بہا لیا، اور اسے دھویا نہیں۔
It was narrated that 'Aishah said:
"A baby boy was brought to the Prophet who then urinated on him. He sprinkled over it with water and did not wash it."
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے ایک شیرخوار بچے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس نے آپ کے اوپر پیشاب کر دیا، آپ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا۔
It was narrated that Umm Qais bint Mihsan said:
"I came to the Messenger of Allah with a son of mine who was not yet eating solid food, and he (the baby) urinated on him. He called for water and sprinkled it over (the urine)."
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیرخوار بچے کے پیشاب کے بارے میں فرمایا: ”بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے، اور بچی کا پیشاب دھویا جائے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 137 (377)، سنن الترمذی/الطھارة 54 (610)، الصلاة 430 (610)، (تحفة الأشراف: 10131)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/97) (صحیح)»
It was narrated from 'Ali that :
The Prophet said concerning the urine of a nursing infant: "Water should be sprinkled over the urine of a boy, and the urine of a girl should be washed." Abul-Hasan bin Salamah said: "Ahmad bin Musa bin Ma'qil narrated to us that Abul-Yaman Al-Misri said: 'I asked Shafi'i about the Hadith of the Prophet, "Water should be sprinkled over the urine of a baby boy, and the urine of a baby girl should be washed," when the two types of water (urine) are the same. He said, "This is because the urine of the boy is of water and clay, but the urine of the girl is of flesh and blood." Then he said to me: "Did you understand?" I said: "No." He said: "When Allah the Most High created Adam, He created Eve (Hawwa') from his short rib, so the boy's urine is from water and clay, and the girl's urine is from flesh and blood." Then he said to me: "Did you understand?" I said: "Yes." He said: "May Allah cause you benefit from this."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (377۔378) ترمذي (610) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 397
(مرفوع) قال ابو الحسن بن سلمة: حدثنا احمد بن موسى بن معقل، حدثنا ابو اليمان المصري، قال: سالت الشافعي عن حديث النبي صلى الله عليه وسلم يرش من بول الغلام، ويغسل من بول الجارية، والماءان جميعا واحد؟ قال:" لان بول الغلام من الماء والطين، وبول الجارية من اللحم والدم، ثم قال لي: فهمت، او قال: لقنت، قال: قلت: لا، قال: إن الله تعالى لما خلق آدم، خلقت حواء من ضلعه القصير، فصار بول الغلام من الماء والطين، وصار بول الجارية من اللحم والدم، قال: قال لي: فهمت، قلت: نعم، قال لي: نفعك الله به". (مرفوع) قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ سَلَمَةَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُوسَى بْنِ مَعْقِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ، وَيُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ، وَالْمَاءَانِ جَمِيعًا وَاحِدٌ؟ قَالَ:" لِأَنَّ بَوْلَ الْغُلَامِ مِنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، وَبَوْلَ الْجَارِيَةِ مِنَ اللَّحْمِ وَالدَّمِ، ثُمَّ قَالَ لِي: فَهِمْتَ، أَوْ قَالَ: لَقِنْتَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمَّا خَلَقَ آدَمَ، خُلِقَتْ حَوَّاءُ مِنْ ضِلْعِهِ الْقَصِيرِ، فَصَارَ بَوْلُ الْغُلَامِ مِنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، وَصَارَ بَوْلُ الْجَارِيَةِ مِنَ اللَّحْمِ وَالدَّمِ، قَالَ: قَالَ لِي: فَهِمْتَ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ لِي: نَفَعَكَ اللَّهُ بِهِ".
ابوالیمان مصری کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث «يرش من الغلام، ويغسل من بول الجارية» بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے اور بچی کا پیشاب دھویا جائے کے متعلق پوچھا کہ دونوں میں فرق کی کیا وجہ ہے جب کہ پیشاب ہونے میں دونوں برابر ہیں؟ تو امام شافعی نے جواب دیا: لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے بنا ہے، اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے، اس کے بعد مجھ سے کہا: کچھ سمجھے؟ میں نے جواب دیا: نہیں، انہوں نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، تو ان کی چھوٹی پسلی سے حواء پیدا کی گئیں، تو بچے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہوا، اور بچی کا پیشاب خون اور گوشت سے، پھر مجھ سے پوچھا: سمجھے؟ میں نے کہا: ہاں، اس پر انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے نفع بخشے۔