(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا حاتم بن إسماعيل ، عن حميد بن صخر ، عن المقبري ، عن ابي هريرة ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من جاء مسجدي هذا، لم ياته إلا لخير يتعلمه، او يعلمه، فهو بمنزلة المجاهد في سبيل الله، ومن جاء لغير ذلك، فهو بمنزلة الرجل ينظر إلى متاع غيره". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ صَخْرٍ ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا، لَمْ يَأْتِهِ إِلَّا لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ، أَوْ يُعَلِّمُهُ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر (علم دین) سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آئے تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جس کی نظر دوسروں کی متاع پر لگی ہوتی ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12956، ومصباح الزجاجة: 85)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/350، 418، 526) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مسجد نبوی میں علم دین حاصل کرنے کی غرض سے جانے والا مجاہد کے درجہ میں ہے، اور اسی وجہ سے دوسری مساجد اور دینی درسگاہوں میں علم دین حاصل کرنے والا بھی فضیلت کا مستحق ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"I heard the Messenger of Allah say: 'Whoever comes to this mosque of mine, and only comes for a good purpose, such as to learn or to teach, his status is like that of one who fights in Jihad in the cause of Allah. Whoever comes for any other purpose, his status is that of a man who is keeping an eye on other people's property.'"
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا صدقة بن خالد ، حدثنا عثمان بن ابي عاتكة ، عن علي بن يزيد ، عن القاسم ، عن ابي امامة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عليكم بهذا العلم قبل ان يقبض، وقبضه ان يرفع، وجمع بين إصبعيه الوسطى والتي تلي الإبهام هكذا"، ثم قال:" العالم، والمتعلم شريكان في الاجر، ولا خير في سائر الناس". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي عَاتِكَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ، وَقَبْضُهُ أَنْ يُرْفَعَ، وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ الْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ هَكَذَا"، ثُمَّ قَالَ:" الْعَالِمُ، وَالْمُتَعَلِّمُ شَرِيكَانِ فِي الْأَجْرِ، وَلَا خَيْرَ فِي سَائِرِ النَّاسِ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس علم دین کو اس کے قبض کیے جانے سے پہلے حاصل کر لو، اور اس کا قبض کیا جانا یہ ہے کہ اسے اٹھا لیا جائے“، پھر آپ نے بیچ والی اور شہادت کی انگلی دونوں کو ملایا، اور فرمایا: ”عالم اور متعلم (سیکھنے اور سکھانے والے) دونوں ثواب میں شریک ہیں، اور باقی لوگوں میں کوئی خیر نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4918، ومصباح الزجاجة: 86)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة 26 (246) (ضعیف)» (اس کی سند میں علی بن یزید الہانی سخت ضعیف راوی ہے، اور عثمان بن أبی عاتکہ کی علی بن یزید سے روایت میں ضعف ہے، اور قاسم بن عبدالرحمن الدمشقی بھی متکلم فیہ راوی ہیں، خلاصہ یہ کہ یہ سند ضعیف ہے، بلکہ علماء کے نزدیک یہ سند ضعف میں مشہور ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 2/143)
It was narrated that Abu Umamah said:
"The Messenger of Allah said: 'You must acquire this knowledge before it is taken away, and its taking away means that it will be lifted up.' He joined his middle finger and the one that next to the thumb like this, and said: 'The scholar and the seeker of knowledge will share the reward, and there is no good in the rest of the people.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا علي بن يزيد: ضعيف و عثمان بن أبي العاتكة: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 382
(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال الصواف ، حدثنا داود بن الزبرقان ، عن بكر بن خنيس ، عن عبد الرحمن بن زياد ، عن عبد الله بن يزيد ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم من بعض حجره، فدخل المسجد، فإذا هو بحلقتين إحداهما يقرءون القرآن ويدعون الله، والاخرى يتعلمون ويعلمون، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" كل على خير هؤلاء يقرءون القرآن ويدعون الله، فإن شاء اعطاهم، وإن شاء منعهم، وهؤلاء يتعلمون، وإنما بعثت معلما فجلس معهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِهِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَيْنِ إِحْدَاهُمَا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُونَ اللَّهَ، وَالْأُخْرَى يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلٌّ عَلَى خَيْرٍ هَؤُلَاءِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَدْعُونَ اللَّهَ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ، وَهَؤُلَاءِ يَتَعَلَّمُونَ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا فَجَلَسَ مَعَهُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنے کسی کمرے سے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے اس میں دو حلقے دیکھے، ایک تلاوت قرآن اور ذکرو دعا میں مشغول تھا، اور دوسرا تعلیم و تعلم میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دونوں حلقے نیکی کے کام میں ہیں، یہ لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں، اور اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور چاہے تو نہ دے، اور یہ لوگ علم سیکھنے اور سکھانے میں مشغول ہیں، اور میں تو صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، پھر انہیں کے ساتھ بیٹھ گئے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8869، ومصباح الزجاجة: 87)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة 32 (261) (ضعیف)» (اس کی سند میں داود، بکر بن خنیس اور عبد الرحمن بن زیاد افریقی تینوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 11)
It was narrated that 'Abdullah bin 'Amr said:
"The Messenger of Allah came out of one of his apartments one day and entered the mosque, where he saw two circles, one reciting Qur'an and supplicating to Allah, and the other learning and teaching. The Prophet said: 'Both of them are good. These people are reciting the Qur'an and supplicating to Allah, and if He wills He will give them, and if He wills He will withhold from them. And these people are learning and teaching. Verily I have been sent as a teacher.' Then he sat down with them."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف داودبن الزبرقان:متروك وشيخه بكر بن خنيس: ضعيف ضعفه الجمهور و عبد الرحمٰن بن زياد الإفريقي: ضعيف وللحديث لون آخر عند الدارمي (355) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 382
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچایا، اس لیے کہ بعض علم رکھنے والے خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں، اور بعض علم کو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچاتے ہیں“۔ علی بن محمد نے اپنی روایت میں اتنا مزید کہا: تین چیزیں ہیں کہ ان میں کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا، ہر نیک کام محض اللہ کی رضا کے لیے کرنا، مسلمانوں کے اماموں اور سرداروں کی خیر خواہی چاہنا، مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہنا، ان سے جدا نہ ہونا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3722، ومصباح الزجاجة: 88)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/العلم 10 (3660)، سنن الترمذی/العلم 7 (2656)، مسند احمد (1/437، 5/ 183)، سنن الدارمی/المقدمة 24 (235) (صحیح)» (اس کی سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح، بلکہ متواتر ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 403، ودراسة حديث: «نضر الله امرأ» رواية ودراية للشيخ عبدالمحسن العباد)
وضاحت: ۱؎: حدیث سے علم دین اور اس کی تبلیغ کی فضیلت معلوم ہوئی، نیز معلوم ہوا کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہو گا، قرآن و حدیث کی تعلیم و تبلیغ کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اس میں بشارت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد بھی بہت سارے لوگ دین میں تفقہ و بصیرت حاصل کریں گے، اور مشکل مسائل کا حل قرآن و حدیث سے تلاش کیا کریں گے، اور یہ محدثین کا گروہ ہے، ان کے لئے نبی اکرم ﷺ نے دعائے خیر فرمائی، اور یہ معاملہ قیامت تک جاری رہے گا، اور اس میں ان لوگوں کی تردید بھی ہے جو اجتہاد کے دروازہ کو بغیر کسی شرعی دلیل کے بند کہتے ہیں۔
It was narrated from Zaid bin Thabit that:
The Messenger of Allah said: "May Allah cause his face to shine, the man who hears what I say and conveys it (to others). There are those who have knowledge but no understanding, and there may be those who convey knowledge to those who have more understanding of it than they do.' " (One of the narrators) 'Ali bin Muhammed added to it: "There are three things because of which hatred does not enter the heart of a Muslim: Sincerity in doing an action for the sake of Allah; being sincere towards the rulers of the Muslims; and adhering to the Jama'ah (main body of the Muslims."
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کی مسجد خیف میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا، اس لیے کہ بہت سے علم دین رکھنے والے فقیہ نہیں ہوتے ہیں، اور بہت سے وہ ہیں جو علم کو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچاتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3198، ومصباح الزجاجة: 89)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/437، 3/225، 5/80، 82)، سنن الدارمی/ المقدمة 24، (234) (یہ حدیث مکرر ہے ملاحظہ ہو: نمبر 3056) (صحیح)» (اس کی سند میں عبدالسلام بن أبی الجنوب ضعیف ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، کماتقدم)
Muhammed bin Jubair bin Mut'im narrated that his father said:
"The Messenger of Allah stood up at Khaif in Mina and said: 'May Allah cause his face to shine, the man who hears what I say and conveys it (to others). There are those who have knowledge but no understanding, and there may be those who convey knowledge to those who have more understanding of it than they do.'" (Hasan)Other chains with similar wording.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا، اس لیے کہ بہت سے وہ لوگ جنہیں حدیث پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والوں سے زیادہ ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/العلم 7 (2657)، (تحفة الأشراف: 9361) وقد أخرجہ: مسند احمد (1/436) (صحیح)»
'Abdur-Rahman bin 'Abdullah narrated from his father that:
The Prophet said: "May Allah cause his face to shine, the man who hears a Hadith from us and conveys it, for perhaps the one to whom it is conveyed may remember it better than the one who (first) hears it."
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو خطبہ دیا اور فرمایا: ”یہ باتیں حاضرین مجلس ان لوگوں تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں، اس لیے کہ بہت سے لوگ جنہیں کوئی بات پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والے سے زیادہ اس بارے میں ہوشمند اور باشعور ہوتے ہیں“۔
It was narrated that Abu Bakrah said:
"The Messenger of Allah delivered a religious speech on the Day of Sacrifice and said: 'Let those who are present convey to those who are absent. For perhaps the one to whom it is conveyed will understand it better than the one who (first) hears it.'"
معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! حاضرین یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11393، ومصباح الزجاجة: 90) وقد أخرجہ: مسند احمد (4/31، 32) (صحیح)ط (اس کی سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے)۔
Bahz bin Hakim narrated from his father that his grandfather Mu'awiyah Al-Qushairi said:
"The Messenger of Allah said: 'Let the one who is present convey to the one who is absent.'"
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو لوگ حاضر ہیں انہیں چاہیئے کہ جو لوگ یہاں حاضر نہیں ہیں، ان تک (جو کچھ انہوں نے سنا ہے) پہنچا دیں“۔