Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
40. بَابُ : مَنْ بَلَّغَ عِلْمًا
باب: علم دین کے مبلغ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 230
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ أَبِي هُبَيْرَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرِ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ"، زَادَ فِيهِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ:" ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَالنُّصْحُ لِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچایا، اس لیے کہ بعض علم رکھنے والے خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں، اور بعض علم کو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچاتے ہیں۔ علی بن محمد نے اپنی روایت میں اتنا مزید کہا: تین چیزیں ہیں کہ ان میں کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا، ہر نیک کام محض اللہ کی رضا کے لیے کرنا، مسلمانوں کے اماموں اور سرداروں کی خیر خواہی چاہنا، مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہنا، ان سے جدا نہ ہونا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3722، ومصباح الزجاجة: 88)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/العلم 10 (3660)، سنن الترمذی/العلم 7 (2656)، مسند احمد (1/437، 5/ 183)، سنن الدارمی/المقدمة 24 (235) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح، بلکہ متواتر ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 403، ودراسة حديث: «نضر الله امرأ» رواية ودراية للشيخ عبدالمحسن العباد)

وضاحت: ۱؎: حدیث سے علم دین اور اس کی تبلیغ کی فضیلت معلوم ہوئی، نیز معلوم ہوا کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہو گا، قرآن و حدیث کی تعلیم و تبلیغ کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اس میں بشارت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد بھی بہت سارے لوگ دین میں تفقہ و بصیرت حاصل کریں گے، اور مشکل مسائل کا حل قرآن و حدیث سے تلاش کیا کریں گے، اور یہ محدثین کا گروہ ہے، ان کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے خیر فرمائی، اور یہ معاملہ قیامت تک جاری رہے گا، اور اس میں ان لوگوں کی تردید بھی ہے جو اجتہاد کے دروازہ کو بغیر کسی شرعی دلیل کے بند کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 230 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث230  
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں حدیث کا علم حاصل کرنے اور اس کی تبلیغ و تعلیم کے شرف کا بیان ہے کہ یہ کام انجام دینے والوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی ہے۔

(2)
حدیث میں (نَضَّرَ اللهُ)
کا لفظ ہے۔
اس کا اصل مفہوم دل کی خوشی کے اثرات کا چہرے پر ظاہر ہونا ہے جس کی وجہ سے چہرہ روشن اور چمکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

(3)
اس میں تعلیم حدیث کا ایک فائدہ بیان کیا گیا ہے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو حدیث یاد ہوتی ہے لیکن وہ استنباط اور اجتہاد نہیں کر سکتا۔
جب وہ حدیث دوسرے آدمی تک پہنچتی ہے تو وہ اس سے مختلف مسائل اخذ کر لیتا ہے۔
یا حدیث سنانے والے نے جو اس سے مسائل اخذ کیے ہیں، ہو سکتا ہے سننے والا اس سے زیادہ مسائل اخذ کر لے۔

(4)
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا، ممکن ہے بعد کے زمانے کا ایک آدمی اپنے سے پہلے زمانے والوں سے زیادہ اجتہاد کر سکتا ہو یا آئندہ زمانے میں ایسے حالات پیش آئیں کہ نئے اجتہاد کی ضرورت ہو، تب اس زمانے کے علماء ان احادیث کی روشنی میں شریعت کا منشا سمجھنے کی کوشش کریں جو ان تک پہنچی ہیں، لہذا جس طرح پہلے زمانے کے لوگ حدیث پڑھنے پڑھانے کی ضرورت رکھتے تھے، اسی طرح متاخرہ زمانہ والے بھی حدیث کی تعلیم و تعلم کے محتاج ہیں۔

(5)
دل کے خیانت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ان تین معاملات میں کوتاہی نہیں کرتا اور ان تین کاموں سے جی نہیں چراتا۔
اس سے ان تین اعمال کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوتی ہے۔

(6)
مسلمانوں کے ائمہ سے مراد علماء اور حکام ہیں۔
علماء کی خیرخواہی، ان کا احترام اور خدمت ہے، اور ان کی غلطیوں سے درگزر کر کے ان کے صحیح اقوال پر عمل پیرا رہنا بھی اس میں شامل ہے، ہاں پورے احترام اور خدمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں کسی غلطی پر متنبہ کیا جا سکتا ہے۔
حکام کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کے جو احکام شریعت سے متصادم نہ ہوں، ان کی تعمیل کی جائے اور جو احکامات شرعا غلط ہوں، ان کی غلطی ان پر واضح کی جائے، نیز ان کی ہدایت اور اصلاح کے لیے دعا کی جائے، ان سے بغاوت نہ کی جائے تاکہ ملک میں فتنہ و فساد برپا نہ ہو۔

(7)
مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہنے کا مطلب یہ ہے کہ تفرقہ پیدا نہ کیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے مسلمانوں کے دشمنوں کو فائدہ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 230   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 228  
´محدثین کے لیے دعائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرِ فَقِيهٍ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ. ثَلَاثٌ لَا يَغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَالنَّصِيحَةُ لِلْمُسْلِمِينَ وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ ورائهم» . رَوَاهُ الشَّافِعِي وَالْبَيْهَقِيّ فِي الْمدْخل . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے۔ جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے محفوظ رکھا اور اسے ہمیشہ یاد رکھا اور اس کو لوگوں تک پہنچا دیا۔ یعنی پڑھا دیا یا سنا دیا۔ بعض فقیہ یعنی دینی علم اٹھانے والے سمجھ دار نہیں ہوتے، بعض حامل فقیہ یعنی عالم ان لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں سچے مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا۔ ایک اللہ کے لئے خالص عمل کرنا اور دوسرے تمام مسلمانوں کے لئے خیر خواہی کرنا اور تیسرے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا۔ کیونکہ مسلمانوں کی جماعت کی دعا ان کو سب طرح سے گھیر لیتی ہے۔ اس حدیث کو شافعی، بیہقی نے مدخل میں روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 228]
تحقیق الحدیث:
یہ حدیث صحیح ہے۔
◄ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی ایک حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح اور ابن حبان [الاحسان: 66، 68، 69] نے صحیح قرار دیا ہے۔
◄ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ان کے بیٹے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن مسعود رحمہ اللہ کے سماع میں کلام ہے اور خاص اس حدیث میں سماع معلوم نہیں لیکن اس کے دو صحیح شواہد ہیں:
اول:
«نضر الله» سے لے کر «ليس بفقيه» تک والی روایت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔
اسے ترمذی نے حسن [2656] اور ابن حبان [67] نے صحیح قرار دیا۔ اس کی سند صحیح ہے۔
دوم:
«ثلاث خصال لا يغل عليهن قلب مسلم أبدا: اخلاص العمل لله ومناصحة ولاة الأمر ولزوم الجماعة فإن دعوتهم تحيط من ورائهم.»
تین خصلتوں پر مسلم کا دل کبھی خیانت نہیں کرتا: خالص اللہ کے لئے عمل، حکمرانوں کے لئے خیر خواہی اور جماعت کو لازم پکڑنا کیونکہ ان کی دعوت دور والوں کو بھی گھیر لیتی ہے۔ [مسند أحمد 5؍183 ح 21590 عن زيد بن ثابت رضى الله عنه وسنده صحيح]
↰ ان شواہد کے ساتھ روایت مذکورہ بھی صحیح ہے۔ «والحمد لله»

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث میں اہل حدیث (صحیح العقیدہ محدثین کرام) کی بہت بڑی فضیلت ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«نضر الله امرءا سمع منا حديثا فحفظه حتي يبلغه فرب حامل فقه إليٰ من هو أفقه منه ورب حامل فقه ليس بفقيه»
اس شخص کے چہرے کو اللہ تروتازہ رکھے جو ہم سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد کرے حتیٰ کہ وہ اسے آگے پہنچائے کیونکہ بعض اوقات فقہ اٹھانے والا اس تک پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے اور بعض اوقات فقہ اٹھانے والا فقیہ نہیں ہوتا۔ [سنن ابي داود: 3660، عن زيد بن ثابت رضى الله عنه وسنده صحيح]
➋ بعض لوگ فتاویٰ شامی، فتاویٰ عالمگیری اور ملا مرغینانی کی کتاب الہدایہ وغیرھا کو فقہ سمجھے بیٹھے ہیں، حالانکہ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ حدیث فقہ ہے۔
➌ حدیث کو بار بار پڑھنا پڑھانا اور اس کی تکرار کرنا صحیح ہے تاکہ حدیث یاد ہو جائے۔
➍ بغیر عذر کے الفاظ حدیث میں اختصار کرنا ناپسندیدہ ہے۔
➎ حدیث سے استنباط کر کے مسائل نکالنا تفقہ کہلاتا ہے اور یہ مسنون اور قابل تعریف عمل ہے۔
➏ ہمیشہ روایت باللفظ کا التزام اور روایت بالمعنیٰ سے اجتناب کرنا چاہئے، تاہم زمانۂ تدوین حدیث میں ثقہ و صدوق راویوں نے جو روایات بالمعنیٰ بیان کیں، وہ بھی صحیح یا حسن ہیں اور ان سے استدلال جائز ہے، بشرطیکہ شاذ یا معلول نہ ہوں۔
➐ خلوص نیت اور اعمال صالحہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مومن کو خیانت اور نفاق وغیرہ سے بچاتا ہے۔
➑ ہر وقت حسب استطاعت قرآن و حدیث کی دعوت دوسروں تک پہنچانے میں مصروف رہنا چاہئیے۔
➒ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
➓: لزوم جماعت سے کیا مراد ہے؟ اس کی تشریح میں مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«أي موافقة المسلمين فى الاعتقاد والعمل الصالح وصلوٰة الجماعة والجمعة والعيدين وطاعة الأمراء المسلمين وغير ذلك.»
یعنی اعتقاد، عمل صالح، نماز باجماعت، جمعہ اور عیدین میں مسلمانوں کی موافقت کرنا اور مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کرنا وغیرہ۔ [مرعاة المفاتيح ج1 ص327 - 328]
↰ یعنی روایت مذکورہ میں جماعت (اور جماعت المسلمین) سے مراد تین باتیں ہیں:
① تمام مسلمانوں کا اجماع، نيز ديكهئے: [الرساله للشافعي: 1105]
② صحیح العقیدہ مسلمانوں کی نماز باجماعت
③ مسلمان حکمرانوں اور خلیفہ کی اطاعت پر مجتمع مسلمین، نيز ديكهئے: [التمهيد 21؍277۔ 278]
◄ اس حدیث سے مروجہ کاغذی پارٹیاں اور بےحد و شمار جماعتیں مراد نہیں ہیں، جو کہ باہم ایک دوسرے سے برسر پیکار اور دست بگریباں ہیں۔
◄ یاد رہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس بات کی قطعاً اجازت نہیں کہ صحیح العقیدہ مسلمان مختلف پارٹیوں اور جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں اور ایک دوسرے کے سر پھاڑتے، فتوے لگاتے یا ایک دوسرے سے بغض رکھتے پھریں بلکہ دین اسلام میں مسلمانوں کا اتفاق اور باہمی محبت و اتحاد مطلوب ہے۔

فائدہ:
«تلزم جماعة المسلمين وإمامهم اور الجماعة» والی احادیث کا معنی تو آپ نے پڑھ لیا، اب «وإمامهم» کا معنی پیش خدمت ہے:
امام اہل سنت أحمد بن حنبل رحمہ اللہ نے «ميتة جاهلية» والی حدیث کے بارے میں فرمایا:
کیا تجھے پتا ہے کہ (اس حدیث میں) امام کسے کہتے ہیں؟ جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو جائے، ہر آدمی یہی کہے کہ یہ امام (خلیفہ) ہے، پس اس حدیث کا یہی معنی ہے۔ [سوالات ابن هاني: 2011، علمي مقالات ج1 س403 بتصرف يسير]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 228   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3660  
´علم پھیلانے کی فضیلت کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ و بصیرت والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3660]
فوائد ومسائل:

صاحب حدیث کو لازم ہے۔
کہ نقل الفاظ میں حفظ وامانت کو پیش نظر رکھے۔
البتہ فہم واستنباط ایک وہبی ملکہ ہے۔
جو اللہ تعالیٰ مختلف طبقات میں اصحاب علم کو عنایت فرماتا رہتا ہے۔
عین ممکن ہے کہ براہ راست سننے والا وہ کچھ نہ سمجھ سکے۔
جو اس کے شاگرد کی سمجھ میں آجائے۔


یہ بھی معلوم ہوا کہ علم شریعت کا مدار براہ راست اساتذہ سے پڑھنے اور سننے میں ہے۔
جو شخص محض کتابیں پڑھ کر کوئی چیز سمجھتا ہے۔
وہ اتنا معتمد نہیں جتنا کہ اساتذہ سے پڑھنے اور سننے والا ہوسکتا ہے۔
محض کتابوں سے پڑھنے والے کو محدثین کی اصطلاح میں صحفی کہا جاتا ہے۔


حدیث میں وارد فقہ وفقیہ کے الفاظ معروف اصطلاحی کلمات نہیں ہیں۔
جو کہ بہت بعد میں ایجاد ہوئے ہیں۔
اس سے مراد فہم واستنباط مسائل کا وہبی ملکہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3660   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2656  
´دوسرے تک دین کی بات پہنچانے پر ابھارنے کا بیان۔`
ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ دوپہر کے وقت مروان کے پاس سے نکلے (لوٹے)، ہم نے کہا: مروان کو ان سے کوئی چیز پوچھنا ہو گی تبھی ان کو اس وقت بلا بھیجا ہو گا، پھر ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے ہم سے کئی چیزیں پوچھیں جسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچا دے، کیونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2656]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں یہ ترغیب ہے کہ علم کو حاصل کرکے اسے اچھی طرح محفوظ رکھا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے کیوں کہ بسا اوقات پہنچانے والے سے کہیں زیادہ ذی علم اور عقلمند وہ شخص ہو سکتا ہے جس تک علم دین پہنچایا جا رہا ہے،
گویا دعوت و تبلیغ کا فریضہ برابر جاری رہنا چاہیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2656