حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کسی بدعتی کا روزہ، نماز، صدقہ و زکاۃ، حج، عمرہ، جہاد، نفل و فرض کچھ بھی قبول نہیں کرتا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جاتا ہے جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3369، ومصباح الزجاجة: 18) (موضوع)» (اس کی سند میں محمد بن محصن العکاشی کذاب راوی ہے، نیزملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1493)
It was narrated that Hudhaifah said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Allah will not accept any fasting, prayer, charity, Hajj, 'Umrah, Jihad, or any other obligatory or voluntary action from a person who follows innovation (Bid'ah). He comes out of Islam like a hair pulled out of dough." (Maudu')
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده موضوع محمد بن محصن العكاشي كذاب كما قال الإمام أبوحاتم الرازي (الجرح والتعديل 195/7) وقال ابن حجر في التقريب: كذبوه (6268) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 376
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کسی بدعتی کا عمل قبول نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اپنی بدعت ترک نہ کر دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6569، ومصباح الزجاجة: 19) (ضعیف)» (سند میں ابوزید اور ابو المغیرہ دونوں مجہول راوی ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الا ٔلبانی: رقم: 148، وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1492)
It was narrated that 'Abdullah bin 'Abbas said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Allah refuses to accept the good deeds of one who follows innovation until he gives up that innovation.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو زيد و أبو مغيرة: مجهولان (تقريب: 8110،8387) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 376
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا اور وہ باطل پر تھا تو اس کے لیے جنت کے کناروں میں ایک محل بنایا جائے گا، اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود بحث اور کٹ حجتی چھوڑ دی اس کے لیے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا، اور جس نے اپنے آپ کو حسن اخلاق سے مزین کیا اس کے لیے جنت کے اوپری حصہ میں محل بنایا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر والصلة 58 (1993)، (تحفة الأشراف: 868) (ضعیف)» (اس حدیث کی امام ترمذی نے تحسین فرمائی ہے، لیکن اس کی سند میں سلمہ بن وردان منکرالحدیث راوی ہیں، اور متن مقلوب ہے جس کی وضاحت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے، ملاحظہ ہو: سنن ابی داود: 4800)
It was narrated that Ans bin Malik said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Whoever gives up telling lies in support of a false claim, a palace will be built for him in the outskirts of Paradise. Whoever gives up argument when he is in the right, a palace will be built from him in the middle (of Paradise). And whoever had good behavior, a palace will be built for him in the highest reaches (of Paradise).'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: سنده ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1993) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 376
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں مٹائے گا کہ اسے یک بارگی لوگوں سے چھین لے گا، بلکہ اسے علماء کو موت دے کر مٹائے گا، جب اللہ تعالیٰ کسی بھی عالم کو باقی اور زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، تو گمراہ ہوں گے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب کتاب و سنت سے آگاہی رکھنے والے علماء ختم ہو جائیں گے تو کتاب و سنت کا علم لوگوں میں نہ رہے گا، لوگ نام و نہاد علماء اور مفتیان سے مسائل پوچھیں گے، اور یہ جاہل اور ہوا پرست اپنی رائے یا اور لوگوں کی رائے سے ان سوالات کے جوابات دیں گے، اس طرح سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے، اور لوگوں میں ہزاروں مسائل خلاف کتاب و سنت پھیل جائیں گے، اس لئے اس حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کے علم کے حاصل کرنے میں پوری جدوجہد کریں، اور علم اور علماء کی سرپرستی قبول کریں، اور کتاب و سنت کے ماہرین سے رجوع ہوں، ورنہ دنیا و آخرت میں خسارے کا بڑا امکان ہے، اس لئے کہ جہالت کی بیماری کی وجہ سے امت مختلف قسم کے امراض میں مبتلا رہتی ہے، جس کا علاج وحی ہے، جیسے آنکھ بغیر روشنی کے بے نور رہتی ہے، ایسے ہی انسانی عقل بغیر وحی کی روشنی کے گمراہ، پس نور ہدایت کتاب و سنت میں ہے، جس کے لئے ہم سب کو سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔
It was narrated from 'Abdullah bin 'Amr bin 'As that:
the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Allah will not take away knowledge by removing it from people (from their hearts). Rather He will take away knowledge by taking away the scholars, then when there are no scholars left, the people will take the ignorant as their leaders. They will be asked questions and they will issue verdicts without knowledge, thus they will go astray and lead others astray.'"
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے (بغیر تحقیق کے) کوئی غلط فتویٰ دیا گیا (اور اس نے اس پر عمل کیا) تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا“۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Whoever is given a Fatwa (verdict) that has no basis, then his sin will be upon the one who issued that Fatwa.'"
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم تین طرح کا ہے، اور جو اس کے علاوہ ہے وہ زائد قسم کا ہے: محکم آیات ۱؎، صحیح ثابت سنت ۲؎، اور منصفانہ وراثت ۳؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 1 (2885)، (تحفة الأشراف: 8876) (ضعیف)» (سند میں تین راوی: رشدین بن سعد، عبدالرحمن بن زیاد بن أنعم الإفریقی اور عبد الرحمن بن رافع ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی غیر منسوخ قرآن کا علم۔ ۲؎: یعنی صحیح احادیث کا علم۔ ۳؎: فرائض کا علم جس سے ترکے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے۔
It was narrated that 'Abdullah bin 'Amr said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Knowledge is based on three things, and anything beyond that is superfluous: a clear Verse, an established Sunnah, or the rulings by which the inheritance is divided fairly.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2885) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 376
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ”جن امور و مسائل کا تمہیں علم ہو انہیں کے بارے میں فیصلے کرنا، اگر کوئی معاملہ تمہارے اوپر مشتبہ ہو جائے تو ٹھہرنا انتظار کرنا یہاں تک کہ تم اس کی حقیقت معلوم کر لو، یا اس سلسلہ میں میرے پاس لکھو“۔
تخریج الحدیث: «تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11339)، (مصباح الزجاجة: 20) (موضوع)» (سند میں محمد بن سعید بن حسان المصلوب وضاع اور متروک الحدیث راوی ہے)
Mu'adh bin Jabal said:
"When the Messenger of Allah (ﷺ) sent me to Yemen, he said: 'Do not pass any judgment or make any decision except on the basis of what you know. If you are uncertain about a matter, wait until you understand it fully, or write to me concerning it.'" (Maudu')
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده موضوع محمد بن سعيد المصلوب:كذاب (ترمذي: 3549) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 376
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بنی اسرائیل کا معاملہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا یہاں تک کہ ان میں وہ لوگ پیدا ہو گئے جو جنگ میں حاصل شدہ عورتوں کی اولاد تھے، انہوں نے رائے (قیاس) سے فتوی دینا شروع کیا، تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے، اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8882)، (مصباح الزجاجة: 21) (ضعیف)» (سند میں سوید بن سعید ضعیف اور مدلس ہیں، اور کثرت سے تدلیس کرتے ہیں، ابن ابی الرجال کے بارے میں بوصیری نے کہا ہے کہ وہ حارثہ بن محمد عبد الرحمن ہیں، اور وہ ضعیف راوی ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الرجال محمد بن عبدالرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن النعمان الانصاری المدنی ہیں، جو صدوق ہیں لیکن کبھی خطا ٔ کا بھی صدور ہوا ہے، ابن حجر فرماتے ہیں: «صدوق ربما أخطأ» ، نیز ملاحظہ ہو ''مصباح الزجاجة'' بتحقیق د؍عوض الشہری: 1/ 117- 118)
وضاحت: ۱؎: یعنی بنی اسرائیل میں ساری برائی رائے کے پھیلنے سے اور وحی سے اعراض کرنے سے ہوئی، اور ہر امت کی بربادی اسی طرح ہوتی ہے کہ جب وہ اپنی رائے کو وحی الٰہی پر مقدم کرتے ہیں تو برباد ہو جاتے ہیں، اس امت میں بھی جب سے کتاب و سنت سے اعراض پیدا ہوا، اور لوگوں نے باطل آراء اور فاسد قیاس سے فتوی دینا شروع کیا، اور پچھلوں نے ان کی آراء اور قیاس کو وحی الٰہی اور ارشاد رسالت پر ترجیح دی، جب ہی سے ایک صورت انتشار اور پھوٹ کی پیدا ہوئی اور مختلف مذاہب وجود میں آ گئے، اور امت میں اتحاد و اتفاق کم ہوتا گیا، اور ہر ایک نے کتاب و سنت سے اعراض کر کے کسی ایک کو اپنا امام و پیشوا مقرر کر کے اسی کو معیار کتاب و سنت ٹھہرایا، جب کہ اصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسائل میں مرجع اور مآخذ کتاب و سنت اور سلف صالحین کا فہم و منہج ہے، اور اس کی طرف رجوع ہونے میں امت کے اتحاد کی ضمانت ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ” «تركت فيكم أمرين لن تضلّوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله وسنتي»”میں تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب و سنت چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں (عملاً) پکڑے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے“۔
It was narrated that 'Abdullah bin 'Amr bin 'As said:
"I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'The affairs of the Children of Israel remained fair until Muwalladun emerged among them - the children of female slaves from other nations. They spoke of their own opinions (in religious matters) and so they went astray and led others astray.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حارثة بن أبي الرجال: ضعيف (تقريب: 1062) عبدة بن أبي لبابة لم يلق عبد اللّٰه بن عمرو بن العاص رضي اللّٰه عنه (انظر تحفة الأشراف 360/6) وللحديث شاهد ضعيف عند البزار(كشف الأستار: 166) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 376
(مرفوع) حدثنا محمد ابن ابي عمر العدنى عن سفيان بن عيينة قال: لم يزل امر الناس معتدلا حتى نشا فلان بالكوفة وربيعة الراي بالمدينة وعثمان البتي بالبصرة فوجدناهم من ابنائ سبايا الامم. (مرفوع) حدثنا محمد ابن أبي عمر العدنى عن سفيان بن عيينة قال: لم يزل أمر الناس معتدلا حتى نشأ فلان بالكوفة وربيعة الرأي بالمدينة وعثمان البتي بالبصرة فوجدناهم من أبنائ سبايا الأمم.
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں لوگوں کا معاملہ برابر ٹھیک رہا یہاں تک کہ کوفہ میں فلاں شخص، مدینہ میں ربیعۃ الرای، اور بصرہ میں عثمان البتی پیدا ہوئے، ہم نے انہیں جنگ میں قید کی جانے والی عورتوں کی اولاد میں سے پایا ۱؎۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کے ساٹھ یا ستر سے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں سے ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ۱؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلیٰ اور بہتر شعبہ «لا إله إلا الله»”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں“ کہنا ہے، اور شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: «شعبةٌ» میں تنوین تعظیم کے لئے ہے۔ ۲؎: حیاء ایمان کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ یہ نفس انسانی کی اصلاح و تربیت میں نہایت مؤثر کردار ادا کرتی ہے، نیز وہ انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کے عمل کے اعتبار سے بہت سے مراتب و اجزاء ہیں، اور اس میں کمی اور بیشی بھی ہوتی ہے، اور یہی اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Faith has sixty-some or seventy parts, the least of which is to remove a harmful thing from the road and the greatest of which is to say La ilaha illalah (none has the right to be worshipped but Allah). And modesty is a branch of faith.'" Another chain from Abu Hurairah, from the Prophet (ﷺ) with similar wording.