ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اللہ کی! میں آج کے بعد سے مہاجر، قریشی، انصاری، دوسی اور ثقفی کے سوا کسی اور کا ہدیہ قبول نہ کروں گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اس کی وجہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی سنن ترمذی کی کتاب المناقب کی آخری حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹ تحفہ میں دیا تو آپ نے اس کے بدلے میں اسے چھ اونٹ دئیے، پھر بھی وہ ناراض رہا، اس کا منہ پھولا رہا، جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو اس وقت آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور اس حدیث کو بیان فرمایا۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: I swear by Allah, I shall not accept gift from anyone after this day except from an immigrant Qarashi, an Ansari a Dawsi or a Thaqafi.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3530
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3022) وللحديث طرق عند ابن حبان (1145 وسنده حسن) وله شاھد عند الترمذي (3945 وسنده حسن)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے لینے والا قے کر کے اسے پیٹ میں واپس لوٹا لینے والے کے مانند ہے“۔ ہمام کہتے ہیں: اور قتادہ نے (یہ بھی) کہا: ہم قے کو حرام ہی سمجھتے ہیں (تو گویا ہدیہ دے کر واپس لے لینا بھی حرام ہی ہوا)۔
Narrated Ibn Abbas: The Prophet ﷺ as saying: One who seeks to take back a gift like the one who returns to it vomit. Hammam said: "And Qatadah said: We regard vomiting as unlawful. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3531
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2621) صحيح مسلم (1622)
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يزيد يعني ابن زريع، حدثنا حسين المعلم، عن عمرو بن شعيب، عن طاوس، عن ابن عمر، وابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يحل لرجل ان يعطي عطية او يهب هبة فيرجع فيها، إلا الوالد فيما يعطي ولده، ومثل الذي يعطي العطية، ثم يرجع فيها كمثل الكلب ياكل فإذا شبع قاء ثم عاد في قيئه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً أَوْ يَهَبَ هِبَةً فَيَرْجِعَ فِيهَا، إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ، وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ، ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَأْكُلُ فَإِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ".
عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی عطیہ دے، یا کسی کو کوئی چیز ہبہ کرے اور پھر اسے واپس لوٹا لے، سوائے والد کے کہ وہ بیٹے کو دے کر اس سے لے سکتا ہے ۱؎، اس شخص کی مثال جو عطیہ دے کر (یا ہبہ کر کے) واپس لے لیتا ہے کتے کی مثال ہے، کتا پیٹ بھر کر کھا لیتا ہے، پھر قے کرتا ہے، اور اپنے قے کئے ہوئے کو دوبارہ کھا لیتا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: چونکہ باپ اور بیٹے کا مال ایک ہی ہے اور اس میں دونوں حقدار ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اپنا مال ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دے اس لئے واپس لینے میں کوئی قباحت نہیں۔
Narrated Abdullah Ibn Umar ; Abdullah Ibn Abbas: The Prophet ﷺ said: It is not lawful for a man to make a donation or give a gift and then take it back, except a father regarding what he gives his child. One who gives a gift and then takes it back is like a dog which eats and vomits when it is full, then returns to its vomit.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3532
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (3021) رواه النسائي (3720 وسنده صحيح) وابن ماجه (2377 وسنده صحيح)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہدیہ دے کر واپس لے لینے والے کی مثال کتے کی ہے جو قے کر کے اپنی قے کھا لیتا ہے، تو جب ہدیہ دینے والا واپس مانگے تو پانے والے کو ٹھہر کر پوچھنا چاہیئے کہ وہ واپس کیوں مانگ رہا ہے، (اگر بدل نہ ملنا سبب ہو تو بدل دیدے یا اور کوئی وجہ ہو تو) پھر اس کا دیا ہوا اسے لوٹا دے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الھبات2 (2378)، سنن النسائی/الہبة 2 (3719)، (تحفة الأشراف: 8722، 8660)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/75) (حسن صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Prophet ﷺ said: The similitude of the one who takes back what he gifted is like that of a dog which vomits and then it eats vomit. When a donor seeks to take back (his gift), it should be made known and he informed why he sought to take it back. Then whatever he donated should be returned to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3533
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی سفارش کی اور کی اس نے اس سفارش کے بدلے میں سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ میں دی اور اس نے اسے قبول کر لیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہو گیا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4902)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/261) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ کسی کے حق میں اچھی سفارش یہ مندوب اور مستحسن چیز ہے، اور بسا اوقات سفارش ضروری اور لازمی ہو جاتی ہے ایسی صورت میں اس کا بدل لینا مستحسن چیز کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے جس طرح سود سے حلال چیز ضائع ہو جاتی ہے۔
Narrated Abu Umamah: The Prophet ﷺ said: If anyone intercedes for his brother and he presents a gift to him for it and he accepts it, he approaches a great door of the doors of usury.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3534
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه بن وھب عنعن و للحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 125
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا هشيم، اخبرنا سيار، واخبرنا مغيرة، واخبرنا داود، عن الشعبي، واخبرنا مجالد، وإسماعيل بن سالم،عن الشعبي، عن النعمان بن بشير، قال:" انحلني ابي نحلا، قال إسماعيل بن سالم، من بين القوم نحلة غلاما له، قال: فقالت له امي عمرة بنت رواحة: إيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشهده، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاشهده، فذكر ذلك له، فقال: إني نحلت ابني النعمان نحلا، وإن عمرة، سالتني ان اشهدك على ذلك، قال: فقال: الك ولد سواه؟ قال: قلت: نعم، قال: فكلهم اعطيت مثل ما اعطيت النعمان؟ قال: لا، قال: فقال بعض هؤلاء المحدثين: هذا جور، وقال بعضهم: هذا تلجئة، فاشهد على هذا غيري"، قال مغيرة في حديثه: اليس يسرك ان يكونوا لك في البر واللطف سواء؟ قال: نعم، قال: فاشهد على هذا غيري". وذكر مجالد في حديثه:" إن لهم عليك من الحق ان تعدل بينهم، كما ان لك عليهم من الحق ان يبروك". قال ابو داود: في حديث الزهري، قال بعضهم:" اكل بنيك"، وقال بعضهم:" ولدك"، وقال ابن ابي خالد، عن الشعبي فيه:" الك بنون سواه"، وقال ابو الضحى، عن النعمان بن بشير:" الك ولد غيره". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، وَأَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ، وَأَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَأَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ سَالِمٍ،عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:" أَنْحَلَنِي أَبِي نُحْلًا، قَالَ إِسْمَاعِيل بْنُ سَالِمٍ، مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ نِحْلَةً غُلَامًا لَهُ، قَالَ: فَقَالَتْ لَهُ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: إِيتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشْهِدْهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشْهَدَهُ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي النُّعْمَانَ نُحْلًا، وَإِنَّ عَمْرَةَ، سَأَلَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَقَالَ: أَلَكَ وَلَدٌ سِوَاهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَ النُّعْمَانَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ هَؤُلَاءِ الْمُحَدِّثِينَ: هَذَا جَوْرٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: هَذَا تَلْجِئَةٌ، فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي"، قَالَ مُغِيرَةُ فِي حَدِيثِهِ: أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ وَاللُّطْفِ سَوَاءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي". وَذَكَرَ مُجَالِدٌ فِي حَدِيثِهِ:" إِنَّ لَهُمْ عَلَيْكَ مِنَ الْحَقِّ أَنْ تَعْدِلَ بَيْنَهُمْ، كَمَا أَنَّ لَكَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحَقِّ أَنْ يَبَرُّوكَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ بَعْضُهُمْ:" أَكُلَّ بَنِيكَ"، وَقَالَ بَعْضُهُمْ:" وَلَدِكَ"، وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ فِيهِ:" أَلَكَ بَنُونَ سِوَاهُ"، وَقَالَ أَبُو الضُّحَى، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ:" أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز (بطور عطیہ) دی، (اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جایئے (اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گواہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لیے) حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس بات کا گواہ بنا لوں (اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ہوں) آپ نے ان سے پوچھا: ”کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے اور کوئی لڑکا ہے؟“ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے سب کو اسی جیسی چیز دی ہے جو نعمان کو دی ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ظلم ہے“ اور بعض کی روایت میں ہے: ”یہ جانب داری ہے، جاؤ تم میرے سوا کسی اور کو اس کا گواہ بنا لو (میں ایسے کاموں کی شہادت نہیں دیتا)“۔ مغیرہ کی روایت میں ہے: کیا تمہیں اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ تمہارے سارے لڑکے تمہارے ساتھ بھلائی اور لطف و عنایت کرنے میں برابر ہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں (مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو (مجھے یہ امتیاز اور ناانصافی پسند نہیں)“۔ اور مجالد نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے: ”ان (بیٹوں) کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم ان سب کے درمیان عدل و انصاف کرو جیسا کہ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: زہری کی روایت میں ۱؎ بعض نے: «أكل بنيك» کے الفاظ روایت کئے ہیں اور بعض نے «بنيك» کے بجائے «ولدك» کہا ہے، اور ابن ابی خالد نے شعبی کے واسطہ سے «ألك بنون سواه» اور ابوالضحٰی نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے «ألك ولد غيره» روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الھبة 12 (2587)، الشھادات 9 (2650)، صحیح مسلم/الھبات 3 (1623)، سنن النسائی/النحل 1 (3709)، سنن ابن ماجہ/الھبات 1 (2375)، (تحفة الأشراف: 11625)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/268، 269، 270، 273، 276) (صحیح)» إلا زیادة مجالد مجالد نے حدیث میں جو زیادتی ذکر کی ہے، وہ صحیح نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ لفظ ولد مذکر اور مؤنث دونوں کو شامل ہے اور لفظ «بنین» اگر وہ سب مذکر تھے تو وہ اپنے ظاہر پر ہے اور اگر ان میں مذکر اور مؤنث دونوں تھے تو یہ «علی سبیل التغلیب» استعمال ہوا ہے۔
Narrated Al-Numan bin Bashir: My father gave me a gift. The narrator Ismail bin Salim said: (He gave me) his slave as a gift. My mother Umrah daughter of Rawahah said: Go to the Messenger of Allah and call him as witness. He then came to the Prophet ﷺ and mentioned it to him. He said him: I have given my son al-Numan a gift, and Umrah has asked me to call you as witness to it. He asked him: Have you children other than him? He said: I replied: Yes. He again asked: Have you given the rest of them the same as you have given al-Numan ? He said: No. Some of these narrators said in their version (that the Prophet said: ) This in injustice. The others said in their version (that the Prophet said: ) This is under force. So call some other person than me as witness to it. Mughirah said in his version: (The Prophet asked): Are you not pleased with the fact that all of them may be equal in virtue and grace ? He replied: Yes. He said: Then call some other person than me as witness to it. Mujahid mentioned in his version: They have right to you that you should do justice to them, as you have right to them that they should do good to you. Abu Dawud said: In the version of al-Zuhri some (narrators) said: (Have you given) to all your sons ? and some (narrators) said: Your children. Ibn Abi Khalid narrated from al-Shabi in his version: Have your sons other than him ? Abu al-Duha narrated on the authority of al-Numan bin Bashir: Have you children other than him ?
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3535
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا زيادة مجالد إن لهم
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مجالد ضعيف وللحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 125
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن هشام بن عروة، عن ابيه، حدثني النعمان بن بشير، قال:" اعطاه ابوه غلاما، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما هذا الغلام؟، قال: غلامي، اعطانيه ابي، قال: فكل إخوتك اعطى كما اعطاك؟، قال: لا، قال: فاردده". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ، قَالَ:" أَعْطَاهُ أَبُوهُ غُلَامًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا هَذَا الْغُلَامُ؟، قَالَ: غُلَامِي، أَعْطَانِيهِ أَبِي، قَالَ: فَكُلَّ إِخْوَتِكَ أَعْطَى كَمَا أَعْطَاكَ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْدُدْهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیسا غلام ہے؟“ انہوں نے کہا: میرا غلام ہے، اسے مجھے میرے والد نے دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”جیسے تمہیں دیا ہے کیا تمہارے سب بھائیوں کو دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے لوٹا دو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الھبات 3 (1623)، (تحفة الأشراف: 11635)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الھبة 12 (5286)، سنن الترمذی/الأحکام 30 (1367)، سنن ابن ماجہ/الھبات 1 (2375)، موطا امام مالک/الأقضیة 33 (39)، مسند احمد (4/268) (صحیح)»
Narrated Al-Numan bin Bashir: That his father had given him a slave. The Messenger of Allah ﷺ said: What is this slave ? He replied: This is my slave which my father has given me. He asked: Has he given all your brothers the same as he has given you? He replied: No. He then said: Return it, then.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3536
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو“(کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہ ہو)۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النحل (3717)، (تحفة الأشراف: 11640)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/275، 278) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن رافع، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا زهير، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قالت امراة بشير: انحل ابني غلامك، واشهد لي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابنة فلان، سالتني ان انحل ابنها غلاما؟، وقالت لي: اشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: له إخوة؟، فقال: نعم، قال: فكلهم اعطيت مثل ما اعطيته؟، قال: لا، قال: فليس يصلح هذا، وإني لا اشهد إلا على حق". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَتِ امْرَأَةُ بَشِيرٍ: انْحَلِ ابْنِي غُلَامَكَ، وَأَشْهِدْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنَةَ فُلَانٍ، سَأَلَتْنِي أَنْ أَنْحَلَ ابْنَهَا غُلَامًا؟، وَقَالَتْ لِي: أَشْهِدْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَهُ إِخْوَةٌ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَهُ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَيْسَ يَصْلُحُ هَذَا، وَإِنِّي لَا أَشْهَدُ إِلَّا عَلَى حَقٍّ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے (بشیر رضی اللہ عنہ سے) کہا: اپنا غلام میرے بیٹے کو دے دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر میرے لیے گواہ بنا دیں، تو بشیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: فلاں کی بیٹی (یعنی میری بیوی) نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو غلام ہبہ کروں (اس پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے اور بھی بھائی ہیں؟“ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان سب کو بھی تم نے ایسے ہی دیا ہے جیسے اسے دیا ہے“ کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ درست نہیں، اور میں تو صرف حق بات ہی کی گواہی دے سکتا ہوں“(اس لیے اس ناحق بات کے لیے گواہ نہ بنوں گا)۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الھبات 3 (1624)، (تحفة الأشراف: 2720)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/326) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے واضح ہوا کہ اولاد کے مابین عدل و انصاف واجب ہے اور بلا کسی شرعی عذر کے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دینا یا خاص کرنا حرام و ناجائز ہے۔
Narrated Jabir: Bashir's wife said (to her husband): Give my son your slave, and call the Messenger of Allah ﷺ as witness for me. So he came to the Messenger of Allah ﷺ and said: The daughter of so-and-so has asked me to give her som my slave and said to me: Call the Messenger of Allah ﷺ as witness for her. He asked: Has he brothers? He replied: Yes. He again asked: Has he given them all the same as you have given him? He replied: No. He said: This is not good, and I will be a witness to what it right.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3538