(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن معاذ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" لما وجهه إلى اليمن امره ان ياخذ من كل حالم يعني محتلما دينارا او عدله من المعافري ثياب تكون باليمن". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْيَمَنِ أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ حَالِمٍ يَعْنِي مُحْتَلِمًا دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مِنَ الْمُعَافِرِيِّ ثِيَابٌ تَكُونُ بِالْيَمَنِ".
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا، تو انہیں حکم دیا کہ ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر قیمت کا معافری کپڑا جو یمن میں تیار ہوتا ہے جزیہ لیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 8 (2455)، (تحفة الأشراف: 11312)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزکاة 5 (623)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 12 (1803)، مسند احمد (5/230، 233، 247) (صحیح)»
Narrated Muadh ibn Jabal: When the Prophet ﷺ sent him to the Yemen, he ordered to take from everyone who had reached puberty one dinar or its equivalent in Mu'afiri garment of Yemen origin.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3032
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف ترمذي (623) نسائي (2455) ابن ماجه (1803) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 111
(موقوف) حدثنا العباس بن عبد العظيم، حدثنا عبد الرحمن بن هانئ ابو نعيم النخعي، اخبرنا شريك، عن إبراهيم بن مهاجر، عن زياد بن حدير، قال: قال علي: لئن بقيت لنصارى بني تغلب لاقتلن المقاتلة ولاسبين الذرية فإني كتبت الكتاب بينهم وبين النبي صلى الله عليه وسلم على ان لا ينصروا ابناءهم، قال ابو داود: هذا حديث منكر، بلغني عن احمد انه كان ينكر هذا الحديث إنكارا شديدا، وهو عند بعض الناس شبه المتروك وانكروا هذا الحديث على عبد الرحمن بن هانئ، قال ابو علي: ولم يقراه ابو داود في العرضة الثانية. (موقوف) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هَانِئٍ أَبُو نُعَيمٍ النَّخَعِيُّ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: لَئِنْ بَقِيتُ لِنَصَارَى بَنِي تَغْلِبَ لَأَقْتُلَنَّ الْمُقَاتِلَةَ وَلَأَسْبِيَنَّ الذُّرِّيَّةَ فَإِنِّي كَتَبْتُ الْكِتَابَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنْ لَا يُنَصِّرُوا أَبْنَاءَهُمْ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، بَلَغَنِي عَنْ أَحْمَدَ أَنَّه كَانَ يُنْكِرُ هَذَا الْحَدِيثَ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَهُوَ عِنْدَ بَعْضِ الْنَّاسِ شِبْهُ الْمَتْرُوكِ وَأَنْكَرُوا هَذَا الْحَدِيثِ عَلَى عَبْدِ الْرَحْمَنِ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: وَلَمْ يَقْرَأْهُ أَبُو دَاوُدَ فِي الْعَرْضَةِ الثَّانِيَةِ.
زیاد بن حدیر کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں زندہ رہا تو بنی تغلب کے نصاریٰ کے لڑنے کے قابل لوگوں کو قتل کر دوں گا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لوں گا کیونکہ ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ عہد نامہ میں نے ہی لکھا تھا اس میں تھا کہ وہ اپنی اولاد کو نصرانی نہ بنائیں گے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ امام احمد بھی اس حدیث کا نہایت سختی سے انکار کرتے تھے۔ ابوعلی کہتے ہیں: ابوداؤد نے دوسری بار جب اس کتاب کو سنایا تو اس میں اس حدیث کو نہیں پڑھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10097) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوة عبد الرحمن، شریک اور ابراہیم حافظے کے کمزور راوی ہیں)
Ali said “If I survive for the Christians of Banu Taghlib I shall kill fighters and captivate children for I had written a document between them and the Prophet ﷺ to the effect that they would not make their children Christian. Abu Dawud said “This is rejected (munkar) tradition and it has reached me from Ahmad (bin Hanbal) that he used to reject this tradition seriously. Abu Ali said “Abu Dawud did not present this (tradition) in this second reading. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3034
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو نعيم النخعي عبد الرحمٰن بن ھانئ ضعيف من جھة حفظه ضعفه الجمهور وفي التحرير (4032): ”بل ضعيف جدًا كذّبه ابن معين‘‘! انوار الصحيفه، صفحه نمبر 111
(موقوف) حدثنا مصرف بن عمرو اليامي، حدثنا يونس يعني ابن بكير، حدثنا اسباط بن نصر الهمداني، عن إسماعيل بن عبد الرحمن القرشي،عن ابن عباس، قال صالح: رسول الله صلى الله عليه وسلم اهل نجران على الفي حلة النصف في صفر والبقية في رجب يؤدونها إلى المسلمين وعارية ثلاثين درعا وثلاثين فرسا وثلاثين بعيرا وثلاثين من كل صنف من اصناف السلاح يغزون بها، والمسلمون ضامنون لها حتى يردوها عليهم إن كان باليمن كيد او غدرة على ان لا تهدم لهم بيعة، ولا يخرج لهم قس، ولا يفتنوا عن دينهم ما لم يحدثوا حدثا او ياكلوا الربا، قال إسماعيل: فقد اكلوا الربا، قال ابو داود: إذا نقضوا بعض ما اشترط عليهم فقد احدثوا. (موقوف) حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو الْيَامِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيِّ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ صَالَحَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ نَجْرَانَ عَلَى أَلْفَيْ حُلَّةٍ النِّصْفُ فِي صَفَرٍ وَالْبَقِيَّةُ فِي رَجَبٍ يُؤَدُّونَهَا إِلَى الْمُسْلِمِينَ وَعَارِيَةِ ثَلَاثِينَ دِرْعًا وَثَلَاثِينَ فَرَسًا وَثَلَاثِينَ بَعِيرًا وَثَلَاثِينَ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْ أَصْنَافِ السِّلَاحِ يَغْزُونَ بِهَا، وَالْمُسْلِمُونَ ضَامِنُونَ لَهَا حَتَّى يَرُدُّوهَا عَلَيْهِمْ إِنْ كَانَ بِالْيَمَنِ كَيْدٌ أَوْ غَدْرَةٌ عَلَى أَنْ لَا تُهْدَمَ لَهُمْ بَيْعَةٌ، وَلَا يُخْرَجَ لَهُمْ قَسٌّ، وَلَا يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا، قَالَ إِسْمَاعِيل: فَقَدْ أَكَلُوا الرِّبَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِذَا نَقَضُوا بَعْضَ مَا اشْتُرِطَ عَلَيْهِمْ فَقَدْ أَحْدَثُوا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے، آدھا صفر میں دیں، اور باقی ماہ رجب میں، اور تیس زرہیں، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے بطور عاریت دیں گے، اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور (ضرورت پوری ہو جانے پر) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عاریۃً دینا اس وقت ہو گا جب یمن میں کوئی فریب کرے (یعنی سازش کر کے نقصان پہنچانا چاہے) یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے (اور وہاں جنگ در پیش ہو) اس شرط پر کہ ان کا کوئی گرجا نہ گرایا جائے گا، اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا، اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تک کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔ اسماعیل سدی کہتے ہیں: پھر وہ سود کھانے لگے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جب انہوں نے اپنے اوپر لاگو بعض شرائط توڑ دیں تو نئی بات پیدا کر لی (اور وہ ملک عرب سے نکال دئیے گئے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5361) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی اسماعیل سدی کا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں)
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ concluded peace with the people of Najran on condition that they would pay to Muslims two thousand suits of garments, half of Safar, and the rest in Rajab, and they would lend (Muslims) thirty coats of mail, thirty horses, thirty camels, and thirty weapons of each type used in battle. Muslims will stand surely for them until they return them in case there is any plot or treachery in the Yemen. No church of theirs will be demolished and no clergyman of theirs will be turned out. There will be no interruption in their religion until they bring something new or take usury. Ismail said: They took usury. Abu Dawud said: If they violate any provision of the treaty, they will be deemed as bringing something new.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3035
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف وفي سماع إسماعيل السدي من ابن عباس نظر كما قال المنذري (عون المعبود 133/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 111
(مرفوع) حدثنا مسدد بن مسرهد، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، سمع بجالة، يحدث عمرو بن اوس، وابا الشعثاء، قال: كنت كاتبا لجزء بن معاوية عم الاحنف بن قيس إذ جاءنا كتاب عمر قبل موته بسنة اقتلوا كل ساحر وفرقوا بين كل ذي محرم من المجوس وانهوهم عن الزمزمة، فقتلنا في يوم ثلاثة سواحر، وفرقنا بين كل رجل من المجوس وحريمه في كتاب الله وصنع طعاما كثيرا فدعاهم، فعرض السيف على فخذه فاكلوا ولم يزمزموا والقوا وقر بغل او بغلين من الورق، ولم يكن عمر اخذ الجزية من المجوس حتى شهد عبد الرحمن بن عوف، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذها من مجوس هجر. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ بَجَالَةَ، يُحَدِّثُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ، وَأَبَا الشَّعْثَاءِ، قَالَ: كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ إِذْ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنْ الْمَجُوسِ وَانْهَوْهُمْ عَنِ الزَّمْزَمَةِ، فَقَتَلْنَا فِي يَوْمٍ ثَلَاثَةَ سَوَاحِرَ، وَفَرَّقْنَا بَيْنَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْ الْمَجُوسِ وَحَرِيمِهِ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَصَنَعَ طَعَامًا كَثِيرًا فَدَعَاهُمْ، فَعَرَضَ السَّيْفَ عَلَى فَخْذِهِ فَأَكَلُوا وَلَمْ يُزَمْزِمُوا وَأَلْقَوْا وِقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَيْنِ مِنَ الْوَرِقِ، وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ.
عمرو بن دینار سے روایت ہے، انہوں نے بجالہ کو عمرو بن اوس اور ابوشعثاء سے بیان کرتے سنا کہ میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا منشی (کاتب) تھا، کہ ہمارے پاس عمر رضی اللہ عنہ کا خط ان کی وفات سے ایک سال پہلے آیا (اس میں لکھا تھا کہ): ”ہر جادوگر کو قتل کر ڈالو، اور مجوس کے ہر ذی محرم کو دوسرے محرم سے جدا کر دو، ۱؎ اور انہیں زمزمہ (گنگنانے اور سر سے آواز نکالنے) سے روک دو“، تو ہم نے ایک دن میں تین جادوگر مار ڈالے، اور جس مجوسی کے بھی نکاح میں اس کی کوئی محرم عورت تھی تو اللہ کی کتاب کے مطابق ہم نے اس کو جدا کر دیا، احنف بن قیس نے بہت سارا کھانا پکوایا، اور انہیں (کھانے کے لیے) بلوا بھیجا، اور تلوار اپنی ران پر رکھ کر بیٹھ گیا تو انہوں نے کھانا کھایا اور وہ گنگنائے نہیں، اور انہوں نے ایک خچر یا دو خچروں کے بوجھ کے برابر چاندی (بطور جزیہ) لا کر ڈال دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا جب تک کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی نہ دے دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر ۲؎ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجزیة 1 (3156)، سنن الترمذی/السیر 31 (1586)، (تحفة الأشراف: 9717)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 24 (41)، مسند احمد (1/190، 194) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: غالباً مجوسی اپنی بہن، خالہ وغیرہ سے شادی کرتے رہے ہوں گے۔ ۲؎: بحرین کے ایک گاؤں کا نام ہے۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: Amr ibn Aws and AbulSha'tha' reported that Bujalah said: I was secretary to Jaz ibn Muawiyah, the uncle of Ahnaf ibn Qays. A letter came to us from Umar one year before his death, saying: Kill every magician, separate the relatives of prohibited degrees from the Magians, and forbid them to murmur (before eating). So we killed three magicians in one day, and separated from a Magian husband his wife of a prohibited degree according to the Book of Allah. He prepared abundant food and called them, and placed the sword on his thigh. They ate (the food) but did not murmur. They threw (on the ground) one or two mule-loads of silver. Umar did not take jizyah from Magians until Abdur Rahman ibn Awf witnessed that the Messenger of Allah ﷺ had taken jizyah from the Magians of Hajar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3037
(مرفوع) حدثنا محمد بن مسكين اليمامي، حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا هشيم، اخبرنا داود بن ابي هند، عن قشير بن عمرو، عن بجالة بن عبدة، عن ابن عباس، قال: جاء رجل من الاسبذيين من اهل البحرين وهم مجوس اهل هجر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فمكث عنده، ثم خرج فسالته ما قضى الله ورسوله فيكم؟ قال: شر قلت: مه قال: الإسلام او القتل، قال: وقال عبد الرحمن بن عوف قبل منهم الجزية، قال ابن عباس: فاخذ الناس بقول عبد الرحمن بن عوف، وتركوا ما سمعت انا من الاسبذي. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ قُشَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ بَجَالَةَ بْنِ عَبْدَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَسْبَذِيِّينَ مِنْ أَهْلِ الْبَحْرَيْنِ وَهُمْ مَجُوسُ أَهْلِ هَجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَكَثَ عِنْدَهُ، ثُمَّ خَرَجَ فَسَأَلْتُهُ مَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ فِيكُمْ؟ قَالَ: شَرٌّ قُلْتُ: مَهْ قَالَ: الْإِسْلَامُ أَوِ الْقَتْلُ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قَبِلَ مِنْهُمُ الْجِزْيَةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَتَرَكُوا مَا سَمِعْتُ أَنَا مِنْ الْأَسْبَذِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بحرین کے رہنے والے اسبذیوں ۱؎(ہجر کے مجوسیوں) میں کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرا رہا پھر نکلا تو میں نے اس سے پوچھا: اللہ اور اس کے رسول نے تم سب کے متعلق کیا فیصلہ کیا؟ وہ کہنے لگا: برا فیصلہ کیا، میں نے کہا: چپ (ایسی بات کہتا ہے) اس پر اس نے کہا: فیصلہ کیا ہے کہ یا تو اسلام لاؤ یا قتل ہو جاؤ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے جزیہ لینا قبول کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تو لوگوں نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کیا اور اسبذی سے جو میں نے سنا تھا اسے چھوڑ دیا (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مقابل میں کافر اسبذی کے قول کا کیا اعتبار)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5371، 9723، 15613) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی قشیر مجہول الحال ہیں)
وضاحت: ۱؎: اسبذی منسوب ہے «اسپ» کی طرف، «اسپ» فارسی میں گھوڑے کو کہتے ہیں، ممکن ہے وہ یا اس کے باپ دادا گھوڑے کو پوجتے رہے ہوں اسی وجہ سے انہیں اسبذی کہا جاتا ہو۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: A man belonging to Usbadhiyin of the people of Bahrayn, who were the Magians of Hajar, came to the Messenger of Allah ﷺ and remained with him (for some time), and then came out. I asked him: What have Allah and His Messenger of Allah decided for you? He replied: Evil. I said: Silent. He said: Islam or killing. Abdur Rahman ibn Awf said: He accepted jizyah from them. Ibn Abbas said: The people followed the statement of Abdur Rahman ibn Awf, and they left that which I heard from the Usbadhi.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3038
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قشير مستور (تق: 5550) يعني مجهول الحال وثقه ابن حبان وجھله أبو الحسن ابن القطان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 111
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما نے حمص کے ایک عامل (محصل) کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں (عیسائیوں) سے جزیہ وصول کرنے کے لیے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 33 (2613)، (تحفة الأشراف: 11730)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/404، 468) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ظلم کرتے ہیں، اور لوگوں کو جرم اور قصور سے زیادہ سزا دیتے ہیں۔
Urwa bin Al Zubair said “Hisham bin Halim bin Hizam found a man who was the governor of Hims making some Copts stand in the sun for the payment of jizyah. He said “What is this?” I heard the Messenger ﷺ as saying “Allaah Most High will punish those who punish the people in this world. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3039
حرب بن عبیداللہ کے نانا (جو بنی تغلب سے ہیں) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عشر (دسواں حصہ) یہود و نصاریٰ سے لیا جائے گا اور مسلمانوں پر دسواں حصہ (مال تجارت میں) نہیں ہے (بلکہ ان سے چالیسواں حصہ لیا جائے گا۔ البتہ پیداوار اور زراعت میں ان سے دسواں حصہ لیا جائے گا)“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15546، 18489)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/474، 4/322) (ضعیف)» (اس کے راوی حرب بن عبیداللہ لین الحدیث ہیں نیز ان کے شیخ کے بارے میں سخت اضطراب ہے، دیکھیں اگلی روایتوں کی سندیں)
Narrated Ubaydullah: Harb ibn Ubaydullah told on the authority of his grandfather, his mother's father, that he had it on the authority of his father that the Messenger of Allah ﷺ said: Tithes are to be levied on Jews and Christians, but not on Muslims.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3040
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حرب بن عبيداللّٰه: لين الحديث (تق: 1167) وثقه ابن حبان وحده انوار الصحيفه، صفحه نمبر 111
The tradition mentioned above has also been transmitted by Harb bin Ubaid Allah from the Prophet ﷺ to the same effect through a different chain of narrators. This version has the word kharaj (land tax) instead of ‘ushr (tithes).
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3041
قال الشيخ الألباني: ضعيف مرسل
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (3046) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 111