سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
31. باب فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ مِنَ الْمَجُوسِ
باب: مجوس سے جزیہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3043
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ بَجَالَةَ، يُحَدِّثُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ، وَأَبَا الشَّعْثَاءِ، قَالَ: كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ إِذْ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنْ الْمَجُوسِ وَانْهَوْهُمْ عَنِ الزَّمْزَمَةِ، فَقَتَلْنَا فِي يَوْمٍ ثَلَاثَةَ سَوَاحِرَ، وَفَرَّقْنَا بَيْنَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْ الْمَجُوسِ وَحَرِيمِهِ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَصَنَعَ طَعَامًا كَثِيرًا فَدَعَاهُمْ، فَعَرَضَ السَّيْفَ عَلَى فَخْذِهِ فَأَكَلُوا وَلَمْ يُزَمْزِمُوا وَأَلْقَوْا وِقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَيْنِ مِنَ الْوَرِقِ، وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ.
عمرو بن دینار سے روایت ہے، انہوں نے بجالہ کو عمرو بن اوس اور ابوشعثاء سے بیان کرتے سنا کہ میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا منشی (کاتب) تھا، کہ ہمارے پاس عمر رضی اللہ عنہ کا خط ان کی وفات سے ایک سال پہلے آیا (اس میں لکھا تھا کہ): ”ہر جادوگر کو قتل کر ڈالو، اور مجوس کے ہر ذی محرم کو دوسرے محرم سے جدا کر دو، ۱؎ اور انہیں زمزمہ (گنگنانے اور سر سے آواز نکالنے) سے روک دو“، تو ہم نے ایک دن میں تین جادوگر مار ڈالے، اور جس مجوسی کے بھی نکاح میں اس کی کوئی محرم عورت تھی تو اللہ کی کتاب کے مطابق ہم نے اس کو جدا کر دیا، احنف بن قیس نے بہت سارا کھانا پکوایا، اور انہیں (کھانے کے لیے) بلوا بھیجا، اور تلوار اپنی ران پر رکھ کر بیٹھ گیا تو انہوں نے کھانا کھایا اور وہ گنگنائے نہیں، اور انہوں نے ایک خچر یا دو خچروں کے بوجھ کے برابر چاندی (بطور جزیہ) لا کر ڈال دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا جب تک کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی نہ دے دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر ۲؎ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجزیة 1 (3156)، سنن الترمذی/السیر 31 (1586)، (تحفة الأشراف: 9717)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 24 (41)، مسند احمد (1/190، 194) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: غالباً مجوسی اپنی بہن، خالہ وغیرہ سے شادی کرتے رہے ہوں گے۔
۲؎: بحرین کے ایک گاؤں کا نام ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح خ بعضه مجوس هجر
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3156، 3157)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3043 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3043
فوائد ومسائل:
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گواہی کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کوذمی قرار دینے کی بات قبول فرمائی۔
علامہ ابوعبید فرماتے ہیں۔
کہ اہل کتاب سے جزیہ لینا بہ نص قرآن مجید ثابت ہے۔
اور مجوسیوں سے جزیہ لینا سنت سے ثابت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3043
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1123
´جزیہ اور صلح کا بیان`
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور موطا میں اس حدیث کی ایک اور سند ہے جس میں انقطاع ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1123»
تخریج: «أخرجه البخاري، الجزية والموادعة، باب الجزية والموادعة...، حديث:3157، ومالك في الموطأ:1 /278.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جزیہ صرف اہل کتاب پر نہیں جیسا کہ بعض اہل علم کا خیال ہے بلکہ دیگر مشرکین اور مجوس وغیرہ سے بھی جزیہ وصول کیا جائے گا۔
2.موطا کی روایت میں انقطاع اس بنا پر ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اسے امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے مرسلا ًروایت کیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1123
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3157
3157. حتیٰ کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ نے اس امر کی شہادت دی کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3157]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ پارسیوں کا بھی حکم اہل کتاب کاسا ہے۔
امام شافعی اور عبدالرزاق نے نکالا کہ پارسی اہل کتاب تھے، پھر ان کے سردار نے بدتمیزی کی، اپنی بہن سے صحبت کی اور دوسروں کو بھی یہ سمجھایا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں۔
آدم ؑ اپنی لڑکیوں کا نکاح اپنے لڑکوں سے کردیتے تھے۔
لوگوں نے اس کا کہنا مانا اور جنہوں نے انکار کیا، ان کو اس نے مار ڈالا۔
آخر ان کی کتاب مٹ گئی۔
اور مؤطا میں مرفوع حدیث ہے کہ پارسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا سلوک کرو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3157
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3157
3157. حتیٰ کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ نے اس امر کی شہادت دی کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3157]
حدیث حاشیہ:
1۔
کفار سے ان کی حفاظت کے بدلے میں لیے جانے والے ٹیکس کو جزیہ کہتے ہیں۔
جزیہ کن کافروں سے لیا جائے گا؟ اس میں اختلاف ہے۔
بعض حضرات کا موقف ہے کہ صرف یہود نصاریٰ سے جزیہ لیا جائے گا باقی کافروں سے نہیں۔
اسی طرح اور بھی اقوال ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام کافروں حتی کہ مجوسیوں سے بھی جزیہ لیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ان سے جزیہ لیا ہے، گویا یہود ونصاریٰ سے آیت کی رو سے اورمجوسیوں سے حدیث کی رو سے جزیہ لیا جائے گا۔
بعض نے کہا ہے کہ مجوسی بھی اصلاً اہل کتاب ہی ہیں، چنانچہ امام شافعی ؒ اور امام عبدالرزاق نے حضرت علی ؓکے حوالے سے بیان کیا ہے کہ مجوسی اہل کتاب تھے، پھر ان کے سردار نے بدتمیزی کی۔
اپنی بہن سے شادی رچالی اور دوسروں کوبھی دعوت دی کہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
حضرت آدم ؑ بھی اپنی بیٹیوں کانکاح اپنے لڑکوں سےکردیتے تھے۔
لوگوں نے اس کا کہنا مانا، جنھوں نے انکار کیا انھیں قتل کردیا، آخر ان کی کتاب مٹ گئی۔
(المصنف لعبد الرزاق: 327/10)
2۔
مشرکین وغیرہ سے جزیہ وصول کرنے کے بارے میں جمہور کی رائے یہ ہے کہ ان سے جزیہ وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے لڑائی کی جائے گی۔
امام مالک ؒ کہتے ہیں:
مشرکین سے بھی جزیہ وصول کیاجائے گا۔
ان کی دلیل حضرت بریدہ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
﴿إِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلاثِ خِصَالٍ﴾ ”جب تم مشرکین سے ٹکڑاؤ تو پہلے انھیں تین کاموں کی طرف بلاؤ۔
“ پھر اس میں جزیے کا بھی ذکر کیا۔
(صحیح مسلم، الجھاد والسیر، حدیث: 4522(1781)
گویا آیت قرآنی سے یہود و نصاریٰ سے جزیہ وصول کرنے کا ثبوت ہے اور سنت میں مشرکین سے وصول کرنے کا۔
اور ان میں کوئی تضاد نہیں۔
امام مالک ؒ کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3157