(مرفوع) حدثنا ابن السرح، حدثنا ابن وهب، اخبرني يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، قال: بلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افتتح خيبر عنوة بعد القتال، ونزل من نزل من اهلها على الجلاء بعد القتال. (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ عَنْوَةً بَعْدَ الْقِتَالِ، وَنَزَلَ مَنْ نَزَلَ مِنْ أَهْلِهَا عَلَى الْجَلَاءِ بَعْدَ الْقِتَالِ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو طاقت کے ذریعہ لڑ کر فتح کیا اور خیبر کے جو لوگ قلعہ سے نکل کر جلا وطن ہوئے وہ بھی جنگ کے بعد ہی جلا وطنی کی شرط پر قلعہ سے باہر نکلے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19402) (ضعیف)» (اس سند میں انقطاع ہے، زہری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطے کا پتہ نہیں ہے مگر بات یہی صحیح ہے کہ خبیر بزور طاقت (جنگ سے) فتح کیا گیا تھا جیساکہ صحیح اور متصل مرفوع روایات میں وارد ہے)
وضاحت: ۱؎: پھر انہوں نے منت سماجت کی اور کہنے لگے کہ ہمیں یہاں رہنے دو، ہم زراعت (کھیتی باڑی) کریں گے، اور نصف پیداوار آپ کو دیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رکھ لیا، اس شرط کے ساتھ کہ جب ہم چاہیں گے، نکال دیں گے۔
Ibn Shihab said “It has reached me that the Messenger of Allah ﷺ conquered Khaibar by force. Its inhabitants who came down (from their fortress) for expulsion came down after fighting. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3012
قال الشيخ الألباني: صحيح ق أنس الشطر الأول والشطر الآخر تقدم في حديث ابن عمر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف السند مرسل،سعيد بن المسيب وابن شهاب الزهري من التابعين والحديث السابق (الأصل: 3005) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 110
(مرفوع) حدثنا ابن السرح، حدثنا ابن وهب، اخبرني يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، قال: خمس رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر، ثم قسم سائرها على من شهدها ومن غاب عنها من اهل الحديبية. (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: خَمَّسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، ثُمَّ قَسَمَ سَائِرَهَا عَلَى مَنْ شَهِدَهَا وَمَنْ غَابَ عَنْهَا مِنْ أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ.
ابن شہاب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے مال میں سے (جو غنیمت میں آیا) خمس (پانچواں حصہ) نکال لیا اور جو باقی بچ رہا اسے ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جو جنگ میں موجود تھے اور جو موجود نہیں تھے لیکن صلح حدیبیہ میں حاضر تھے۔
Narrated Ibn Shihab: The Messenger of Allah ﷺ took out his fifth from the booty of Khaybar, and divided the rest of it among those who attended the battle and among those who were away from it but attend the expedition of al-Hudaybiyyah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3013
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (3018) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 110
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا (یعنی ان کی محتاجی کا) خیال نہ ہوتا تو جو بھی گاؤں و شہر فتح کیا جاتا اسے میں اسی طرح تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا۔
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا ابن إدريس، عن محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح جاءه العباس بن عبد المطلب بابي سفيان بن حرب، فاسلم بمر الظهران، فقال له العباس: يا رسول الله إن ابا سفيان رجل يحب هذا الفخر فلو جعلت له شيئا، قال:" نعم من دخل دار ابي سفيان فهو آمن، ومن اغلق عليه بابه فهو آمن".. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ، فَأَسْلَمَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرِ فَلَوْ جَعَلْتَ لَهُ شَيْئًا، قَالَ:" نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ"..
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ۱؎ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ابوسفیان بن حرب کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ مرالظہران ۲؎ میں مسلمان ہو گئے، اس وقت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک ایسے شخص ہیں جو فخر اور نمود و نمائش کو پسند کرتے ہیں، تو آپ اگر ان کے لیے کوئی چیز کر دیتے (جس سے ان کے اس جذبہ کو تسکین ہوتی تو اچھا ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (یعنی ٹھیک ہے میں ایسا کر دیتا ہوں) جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے تو وہ مامون ہے، اور جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے وہ بھی مامون ہے“(ہم اسے نہیں ماریں گے)۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: Al-Abbas ibn Abdul Muttalib brought Abu Sufyan ibn Harb to the Messenger of Allah ﷺ in the year of the conquest (of Makkah). So he embraced Islam at Marr az-Zahran. Al-Abbas said to him: Messenger of Allah, Abu Sufyan is a man who likes taking this pride, if you may do something for him. He said: Yes, he who enters the house of Abu Sufyan is safe, and he who closes his door is safe.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3015
قال الشيخ الألباني: حسن م الجملة الأخيرة أبي هريرة
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح وللحديث شاھد عند مسلم (1780)
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمرو الرازي، حدثنا سلمة يعني ابن الفضل، عن محمد بن إسحاق، عن العباس بن عبد الله بن معبد، عن بعض اهله، عن ابن عباس، قال: لما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم مر الظهران، قال العباس: قلت: والله لئن دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة عنوة قبل ان ياتوه فيستامنوه إنه لهلاك قريش، فجلست على بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: لعلي اجد ذا حاجة ياتي اهل مكة فيخبرهم بمكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخرجوا إليه فيستامنوه فإني لاسير إذ سمعت كلام ابي سفيان وبديل بن ورقاء، فقلت: يا ابا حنظلة، فعرف صوتي، فقال ابو الفضل: قلت: نعم قال: ما لك فداك ابي وامي، قلت: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، قال: فما الحيلة؟، قال: فركب خلفي ورجع صاحبه فلما اصبح غدوت به على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاسلم، قلت: يا رسول الله إن ابا سفيان رجل يحب هذا الفخر فاجعل له شيئا، قال:" نعم من دخل دار ابي سفيان فهو آمن ومن اغلق عليه داره فهو آمن ومن دخل المسجد فهو آمن"، قال: فتفرق الناس إلى دورهم وإلى المسجد. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظَّهْرَانِ، قَالَ الْعَبَّاسُ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَنْوَةً قَبْلَ أَنْ يَأْتُوهُ فَيَسْتَأْمِنُوهُ إِنَّهُ لَهَلَاكُ قُرَيْشٍ، فَجَلَسْتُ عَلَى بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: لَعَلِّي أَجِدُ ذَا حَاجَةٍ يَأْتِي أَهْلَ مَكَّةَ فَيُخْبِرُهُمْ بِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجُوا إِلَيْهِ فَيَسْتَأْمِنُوهُ فَإِنِّي لَأَسِيرُ إِذْ سَمِعْتُ كَلَامَ أَبِي سُفْيَانَ وَبُدَيْلِ بْنِ وَرْقَاءَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنْظَلَةَ، فَعَرَفَ صَوْتِي، فَقَالَ أَبُو الْفَضْلِ: قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: مَا لَكَ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قُلْتُ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ، قَالَ: فَمَا الْحِيلَةُ؟، قَالَ: فَرَكِبَ خَلْفِي وَرَجَعَ صَاحِبُهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَوْتُ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرَ فَاجْعَلْ لَهُ شَيْئًا، قَالَ:" نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ دَارَهُ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ"، قَالَ: فَتَفَرَّقَ النَّاسُ إِلَى دُورِهِمْ وَإِلَى الْمَسْجِدِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرالظہران میں (فتح مکہ کے لیے آنے والے مبارک لشکر کے ساتھ) پڑاؤ کیا، عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزور مکہ میں داخل ہوئے اور قریش نے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حاضر ہو کر امان حاصل نہ کر لی تو قریش تباہ ہو جائیں گے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہو کر نکلا، میں نے (اپنے جی) میں کہا: شاید کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت سے مکہ جاتا ہوا مل جائے (تو میں اسے بتا دوں) اور وہ جا کر اہل مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر کر دے (کہ آپ مع لشکر جرار تمہارے سر پر آ پہنچے ہیں) تاکہ وہ آپ کے حضور میں پہنچ کر آپ سے امان حاصل کر لیں۔ میں اسی خیال میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک ابوسفیان اور بدیل بن ورقاء کی آواز سنی، میں نے پکار کر کہا: اے ابوحنظلہ (ابوسفیان کی کنیت ہے) اس نے میری آواز پہچان لی، اس نے کہا: ابوفضل؟ (عباس کی کنیت ہے) میں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: کیا بات ہے، تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، میں نے کہا: دیکھ! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے ساتھ کے لوگ ہیں (سوچ لے) ابوسفیان نے کہا: پھر کیا تدبیر کروں؟ وہ کہتے ہیں: ابوسفیان میرے پیچھے (خچر پر) سوار ہوا، اور اس کا ساتھی (بدیل بن ورقاء) لوٹ گیا۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا (وہ مسلمان ہو گیا) میں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان فخر کو پسند کرتا ہے، تو آپ اس کے لیے (اس طرح کی) کوئی چیز کر دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”ہاں (ایسی کیا بات ہے، لو کر دیا میں نے)، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لیے امن ہے (وہ قتل نہیں کیا جائے گا) اور جو اپنے گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے اس کے لیے امن ہے، اور جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے اس کو امن ہے“، یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں میں اور مسجد میں بٹ گئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5132) (حسن)» (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم (بعض أہلہ) راوی ہے)
Narrated Abdullah Ibn Abbas: When the Prophet ﷺ alighted at Marr az-Zahran, al-Abbas said: I thought, I swear by Allah, if the Messenger of Allah ﷺ enters Makkah with the army by force before the Quraysh come to him and seek protection from him, it will be their total ruin. So I rode on the mule of the Messenger of Allah ﷺ and thought, Perhaps I may find a man coming for his needs who will to the people of Makkah and inform them of the position of the Messenger of Allah ﷺ, so that they may come to him and seek protection from him. While I was on my way, I heard Abu Sufyan and Budayl ibn Warqa' speaking. I said: O AbuHanzalah! He recognized my voice and said: AbulFadl? I replied: Yes. He said: who is with you, may my parents be a sacrifice for you? I said: Here are the Messenger of Allah ﷺ and his people (with him). He asked: Which is the way out? He said: He rode behind me, and his companion returned. When the morning came, I brought him to the Messenger of Allah ﷺ and he embraced Islam. I said: Messenger of Allah, Abu Sufyan is a man who likes this pride, do something for him. He said: Yes, he who enters the house of Abu Sufyan is safe; he who closes the door upon him is safe; and he who enters the mosque is safe. The people scattered to their houses and in the mosque.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3016
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف بعض أھله مجھول والحديث السابق (الأصل: 3021) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 110
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا سلام بن مسكين، حدثنا ثابت البناني، عن عبد الله بن رباح الانصاري، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل مكة سرح الزبير بن العوام، وابا عبيدة بن الجراح، وخالد بن الوليد على الخيل، وقال: يا ابا هريرة اهتف بالانصار قال: اسلكوا هذا الطريق فلا يشرفن لكم احد إلا انمتموه فنادى مناد لا قريش بعد اليوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من دخل دارا فهو آمن ومن القى السلاح فهو آمن". وعمد صناديد قريش فدخلوا الكعبة فغص بهم وطاف النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلف المقام، ثم اخذ بجنبتي الباب فخرجوا فبايعوا النبي صلى الله عليه وسلم على الإسلام، قال ابو داود: سمعت احمد بن حنبل ساله رجل قال: مكة عنوة هي، قال: إيش يضرك ما كانت؟ قال: فصلح قال: لا. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ مَكَّةَ سَرَّحَ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَأَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، وَخَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْخَيْلِ، وَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ اهْتِفْ بِالأَنْصَارِ قَالَ: اسْلُكُوا هَذَا الطَّرِيقَ فَلَا يَشْرُفَنَّ لَكُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَنَمْتُمُوهُ فَنَادَى مُنَادٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ دَخَلَ دَارًا فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ". وَعَمَدَ صَنَادِيدُ قُرَيْشٍ فَدَخَلُوا الْكَعْبَةَ فَغَصَّ بِهِمْ وَطَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ثُمَّ أَخَذَ بِجَنْبَتَيِ الْبَابِ فَخَرَجُوا فَبَايَعُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الإِسْلَامِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ سَأَلَهُ رَجُلٌ قَالَ: مَكَّةُ عَنْوَةً هِيَ، قَالَ: إِيشْ يَضُرُّكَ مَا كَانَتْ؟ قَالَ: فَصُلْحٌ قَالَ: لَا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے زبیر بن عوام، ابوعبیدہ ابن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو گھوڑوں پر سوار رہنے دیا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ”تم انصار کو پکار کر کہہ دو کہ اس راہ سے جائیں، اور تمہارے سامنے جو بھی آئے اسے (موت کی نیند) سلا دیں“، اتنے میں ایک منادی نے آواز دی: آج کے دن کے بعد قریش نہیں رہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو گھر میں رہے اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے“، قریش کے سردار خانہ کعبہ کے اندر چلے گئے تو خانہ کعبہ ان سے بھر گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی پھر خانہ کعبہ کے دروازے کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر (کھڑے ہوئے) تو خانہ کعبہ کے اندر سے لوگ نکلے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ کسی شخص نے احمد بن حنبل سے پوچھا: کیا مکہ طاقت سے فتح ہوا ہے؟ تو احمد بن حنبل نے کہا: اگر ایسا ہوا ہو تو تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: تو کیا صلح (معاہدہ) کے ذریعہ ہوا ہے؟ کہا: نہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 31 (1780)، (تحفة الأشراف: 13563)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/292، 538) (صحیح)»
Abu Hurairah said “When the Prophet ﷺ entered Makkah he left Al Zubair bin Al Awwam, Abu Ubaidah bin Al Jarrah and Khalid bin Al Walid on the horses and he said “Abu Hurairah call the helpers. ” He said”Go this way. Whoever appears before you kill him”. A man called “the Quraish will be no more after today. ” The Messenger of Allah ﷺ said “he who entered house is safe, he who throws the weapon is safe. The chiefs of the Quraish intended (to have a resort in the Kaabah), they entered the Kaabah and it was full of them. The Prophet ﷺ took rounds of Kaabah and prayed behind the station. He then held the sides of the gate (of the Kaabah). They (the people) came out and took the oath of allegiance (at the hands) of the Prophet ﷺ on Islam. Abu Dawud said “I heard Ahmad bin Hanbal (say) when he was asked by a man “Was Makkah captured by force?” He said “What harms you whatever it was? He said “Then by peace?” He said, No.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3018
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح انظر الحديث السابق (1872) َدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ
وہب کہتے ہیں میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے بنو ثقیف کی بیعت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ثقیف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرط رکھی کہ نہ وہ زکاۃ دیں گے اور نہ وہ جہاد میں حصہ لیں گے۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب وہ مسلمان ہو جائیں گے تو وہ زکاۃ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3134)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/341) (صحیح)»
Narrated Jabir ibn Abdullah: Wahb said: I asked Jabir about the condition of Thaqif when they took the oath of allegiance. He said: They stipulated to the Prophet ﷺ that there would be no sadaqah (i. e. zakat) on them nor Jihad (striving in the way of Allah). He then heard the Prophet ﷺ say: Later on they will give sadaqah (zakat) and will strive in the way of Allah when they embrace Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3019
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن وللحديث شاھد عند أحمد (3/343)
(مرفوع) حدثنا احمد بن علي بن سويد يعني ابن منجوف، حدثنا ابو داود، عن حماد بن سلمة، عن حميد، عن الحسن، عن عثمان بن ابي العاص، ان وفد ثقيف لما قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم انزلهم المسجد ليكون ارق لقلوبهم فاشترطوا عليه ان لا يحشروا ولا يعشروا ولا يجبوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لكم ان لا تحشروا ولا تعشروا ولا خير في دين ليس فيه ركوع". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سُوَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ مَنْجُوفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، أَنَّ وَفْدَ ثَقِيفٍ لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْزَلَهُمُ الْمَسْجِدَ لِيَكُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِهِمْ فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لَا يُحْشَرُوا وَلَا يُعْشَرُوا وَلَا يُجَبَّوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا وَلَا تُعْشَرُوا وَلَا خَيْرَ فِي دِينٍ لَيْسَ فِيهِ رُكُوعٌ".
عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اہل وفد کو مسجد میں ٹھہرایا تاکہ ان کے دل نرم ہوں، انہوں نے شرط رکھی کہ وہ جہاد کے لیے نہ اکٹھے کئے جائیں نہ ان سے عشر (زکاۃ) لی جائے اور نہ ان سے نماز پڑھوائی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر تمہارے لیے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ تم جہاد کے لیے نہ نکالے جاؤ (کیونکہ اور لوگ جہاد کے لیے موجود ہیں) اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم سے زکاۃ نہ لی جائے (کیونکہ بالفعل سال بھر نہیں گزرا) لیکن اس دین میں اچھائی نہیں جس میں رکوع (نماز) نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 9764)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/218) (ضعیف)» (حسن بصری کا عثمان ابن أبی العاص رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
Narrated Uthman ibn Abul As: When the deputation of Thaqif came to the Messenger of Allah ﷺ, he made them stay in the mosque, so that it might soften their hearts. They stipulated to him that they would not be called to participate in Jihad, to pay zakat and to offer prayer. The Messenger of Allah ﷺ said: You may have the concession that you will not be called to participate in jihad and pay zakat, but there is no good in a religion which has no bowing (i. e. prayer).
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3020
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حميد الطويل والحسن البصري عنعنا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 110
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، عن ابي اسامة، عن مجالد، عن الشعبي، عن عامر بن شهر، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت لي همدان: هل انت آت هذا الرجل ومرتاد لنا فإن رضيت لنا شيئا قبلناه وإن كرهت شيئا كرهناه؟ قلت: نعم، فجئت حتى قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فرضيت امره واسلم قومي وكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا الكتاب إلى عمير ذي مران، قال: وبعث مالك بن مرارة الرهاوي إلى اليمن جميعا، فاسلم عك ذو خيوان، قال: فقيل لعك: انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فخذ منه الامان على قريتك ومالك فقدم وكتب له رسول الله صلى الله عليه وسلم: بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله لعك ذي خيوان إن كان صادقا في ارضه وماله ورقيقه فله الامان وذمة الله وذمة محمد رسول الله، وكتب خالد بن سعيد بن العاص. (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَهْرٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لِي هَمْدَانُ: هَلْ أَنْتَ آتٍ هَذَا الرَّجُلَ وَمُرْتَادٌ لَنَا فَإِنْ رَضِيتَ لَنَا شَيْئًا قَبِلْنَاهُ وَإِنْ كَرِهْتَ شَيْئًا كَرِهْنَاهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَجِئْتُ حَتَّى قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضِيتُ أَمْرَهُ وَأَسْلَمَ قَوْمِي وَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْكِتَابَ إِلَى عُمَيْرٍ ذِي مَرَّانٍ، قَالَ: وَبَعَثَ مَالِكَ بْنَ مِرَارَةَ الرَّهَاوِيَّ إِلَى الْيَمَنِ جَمِيعًا، فَأَسْلَمَ عَكٌّ ذُو خَيْوَانَ، قَالَ: فَقِيلَ لِعَكٍّ: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخُذْ مِنْهُ الأَمَانَ عَلَى قَرْيَتِكَ وَمَالِكَ فَقَدِمَ وَكَتَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ لِعَكٍّ ذِي خَيْوَانَ إِنْ كَانَ صَادِقًا فِي أَرْضِهِ وَمَالِهِ وَرَقِيقِهِ فَلَهُ الأَمَانُ وَذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ، وَكَتَبَ خَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ.
عامر بن شہر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (بحیثیت نبی) ظہور ہوا تو مجھ سے (قبیلہ) ہمدان کے لوگوں نے کہا: کیا تم اس آدمی کے پاس جاؤ گے اور ہماری طرف سے اس سے بات چیت کرو گے؟ اگر تمہیں کچھ بھی اطمینان ہوا تو ہم اسے قبول کر لیں گے، اگر تم نے اسے ناپسند کیا تو ہم بھی برا جانیں گے، میں نے کہا: ہاں (ٹھیک ہے میں جاؤں گا) پھر میں چلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ کا معاملہ ہمیں پسند آ گیا (تو میں اسلام لے آیا) اور میری قوم بھی اسلام لے آئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر ذی مران کو یہ تحریر لکھ کر دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن مرارہ رہاوی کو تمام یمن والوں کے پاس (اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے) بھیجا، تو عک ذوخیوان (ایک شخص کا نام ہے) اسلام لے آیا۔ عک ذوخیوان سے کہا گیا کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا اور آپ سے اپنی بستی اور اپنے مال کے لیے امان لے کر آ (تاکہ آئندہ کوئی تجھ پر اور تیری بستی والوں پر زیادتی نہ کرے) تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھ کر دیا آپ نے لکھا: ”بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو اللہ کے رسول ہیں عک ذوخیوان کے لیے اگر وہ سچا ہے تو اسے لکھ کر دیا جاتا ہے کہ اس کو امان ہے، اس کی زمین، اس کے مال اور اس کے غلاموں میں، اسے اللہ اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ذمہ اور امان و پناہ حاصل ہے“۔ (راوی کہتے ہیں) خالد بن سعید بن العاص نے یہ پروانہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) اسے لکھ کر دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5043) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی مجالد ضعیف ہیں)
Narrated Amir ibn Shahr: When the Messenger of Allah ﷺ appeared as a prophet, Hamdan said to me: Will you go to this man and negotiate for us (with him)? If you accept something, we shall accept it, and if you disapprove of something, we shall disapprove of it. I said: Yes. So I proceeded until I came to the Messenger of Allah ﷺ. I liked his motive and my people embraced Islam. The Messenger of Allah ﷺ wrote the document for Umayr Dhu Marran. He also sent Malik ibn Murarah ar-Rahawi to all the (people of) Yemen. So Akk Dhu Khaywan embraced Islam. Akk was told: Go to the Messenger of Allah ﷺ, and obtain his protection for your town and property. He therefore came (to him) and the Messenger of Allah ﷺ wrote a document for him: "In the name of Allah, Most Beneficent, Most Merciful. From Muhammad, the Messenger of Allah, to Akk Dhu Khaywan. If he is true his land, property and slave, he has the security and the protection of Allah, and Muhammad, the Messenger of Allah. Written by Khalid ibn Saeed ibn al-As. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3021
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مجالد ضعيف ضعفه الجمهور من جھة حفظه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 110