سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
25. باب مَا جَاءَ فِي خَبَرِ مَكَّةَ
باب: فتح مکہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3024
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ مَكَّةَ سَرَّحَ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَأَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، وَخَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْخَيْلِ، وَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ اهْتِفْ بِالأَنْصَارِ قَالَ: اسْلُكُوا هَذَا الطَّرِيقَ فَلَا يَشْرُفَنَّ لَكُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَنَمْتُمُوهُ فَنَادَى مُنَادٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ دَخَلَ دَارًا فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ". وَعَمَدَ صَنَادِيدُ قُرَيْشٍ فَدَخَلُوا الْكَعْبَةَ فَغَصَّ بِهِمْ وَطَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ثُمَّ أَخَذَ بِجَنْبَتَيِ الْبَابِ فَخَرَجُوا فَبَايَعُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الإِسْلَامِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ سَأَلَهُ رَجُلٌ قَالَ: مَكَّةُ عَنْوَةً هِيَ، قَالَ: إِيشْ يَضُرُّكَ مَا كَانَتْ؟ قَالَ: فَصُلْحٌ قَالَ: لَا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے زبیر بن عوام، ابوعبیدہ ابن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو گھوڑوں پر سوار رہنے دیا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ”تم انصار کو پکار کر کہہ دو کہ اس راہ سے جائیں، اور تمہارے سامنے جو بھی آئے اسے (موت کی نیند) سلا دیں“، اتنے میں ایک منادی نے آواز دی: آج کے دن کے بعد قریش نہیں رہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو گھر میں رہے اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے“، قریش کے سردار خانہ کعبہ کے اندر چلے گئے تو خانہ کعبہ ان سے بھر گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی پھر خانہ کعبہ کے دروازے کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر (کھڑے ہوئے) تو خانہ کعبہ کے اندر سے لوگ نکلے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ کسی شخص نے احمد بن حنبل سے پوچھا: کیا مکہ طاقت سے فتح ہوا ہے؟ تو احمد بن حنبل نے کہا: اگر ایسا ہوا ہو تو تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: تو کیا صلح (معاہدہ) کے ذریعہ ہوا ہے؟ کہا: نہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 31 (1780)، (تحفة الأشراف: 13563)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/292، 538) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
انظر الحديث السابق (1872)
َدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3024 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3024
فوائد ومسائل:
صلح پر نہ کوئی گفتگو ہوئی اور نہ شرائط طے ہویئں۔
آپ نے مکہ آمد کو خفیہ رکھا تھا۔
تاکہ مقابلہ اور حرمت والی اس سرزمین میں خونریزی نہ ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اقدام کیا اس سے بڑی خونریزی کا امکان یکسر ختم ہوگیا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کا مال یا جایئداد لینے کی بجائے فتح مکہ کے بعد حاصل ہونے والے سارے غنائم انہی میں تقسیم کر دیے اور کمال رحمت اور حکمت سے ان کو بدل وجان اسلام میں داخل کر دیا۔
ان کے علاوہ سارے عرب میں جس قبیلے نے خود آکر اسلام قبول کیا۔
ان میں سے کسی کے مال کو فے قرار نہیں دیا گیا۔
اہل مکہ سمیت ان سب پر زکواۃ وعشر ہی فرض کیا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3024
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4622
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں بہت سے وفد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ٹھکانے پر ساتھیوں کو بکثرت بلاتے تھے، عبداللہ بن رباح کہتے ہیں، میں نے دل میں کہا، میں کھانا کیوں نہ تیار کروں اور ساتھیوں کو اپنے ٹھکانہ پر بلاؤں، تم مجھ سے سبقت لے گئے ہو، میں نے کہا، جی ہاں، میں نے ساتھیوں کو بلایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے، اے گروہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4622]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس،
شام میں بہت سے وفد پہنچے اور مسافر ہونے کی بنا پر،
اپنے ٹھکانہ پر ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے اور اس میں ایک دوسرے سے منافست و مسابقت کرتے۔
(2)
أَلَا أُعْلِمُكُمْ:
(کیا میں تمہیں آگاہ نہ کروں)
کھانا ابھی تیار نہیں ہوا تھا،
اس کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ عبداللہ بن رباح رضی اللہ عنہ کی درخواست پر،
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انصار کے ایک کارنامے کا ذکر چھیڑ دیا۔
(3)
إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ:
لشکر کے دو جانب۔
(4)
ميمنة وميسرة (دایاں،
بایاں)
جن کے درمیان قلب ہوتا ہے۔
عَلَى الْحُسَّرِ:
جن کے پاس زرعہ نہ تھی،
مراد پیدل دستہ ہے۔
(5)
اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار پر اعتماد کرتے ہوئے،
ان کے مقام و مرتبہ کی رفعت و بلندی کا اظہار کرنے کے لیے،
ان کو آواز دلوائی۔
وبشت:
جمع کر لیا،
اکٹھا کر لیا۔
(6)
الأوْبَاشِ:
وبش کی جمع ہے،
مختلف قبائل کی ٹولیاں۔
(7)
نقدم هؤلاء:
ہم مسلمانوں سے جنگ کے لیے مختلف قبائل کے ان دستوں کو آگے کریں تاکہ اگر یہ مسلمانوں کے سامنے ڈٹ جائیں تو ہم آگے بڑھ کر ان کو کامیاب کریں اور اگر یہ لوگ شکست کھا جائیں تو ہم مسلمانوں کا مطالبہ قبول کر لیں،
(8)
ثُمَّ قَالَ بِيَدَيْهِ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں سے،
کافروں کے اتحاد و اجتماع کا اشارہ کر کے،
صبر و استقلال،
اور ثابت قدم رہنے کی تلقین کی،
یہ اشارہ کیا ان کو پیس کر رکھ دو،
تاکہ یہ آئندہ سر نہ اٹھا سکیں۔
(9)
ومَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا:
ان میں سے کوئی ایک اپنے دفاع کے لیے اپنا اسلحہ استعمال نہ کر سکا،
ان میں کوئی ایک اسلحہ کا رخ ہماری طرف نہ کر سکا۔
(10)
أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ:
قریش و عرب جماعت کو خضر اور سوار سے تعبیر کرتے ہیں،
مقصد یہ تھا کہ قریش کی جماعت کو تہ تیغ کر دیا جائے گا اور وہ بچ نہیں سکیں گے۔
(11)
أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ،
وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ:
انصار نے جب یہ دیکھا کہ آپ نے اہل مکہ کو امان دے دی ہے اور ان کو قتل کرنے سے روک دیا ہے تو انہوں نے یہ سمجھا کہ اب آپ ہمیشہ کے لیے اپنے شہر مکہ میں،
اپنے قبیلہ و خاندان قریش کے ساتھ اقامت اختیار کر لیں گے اور ہم آپ کی رفاقت کی سعادت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائیں گے،
اس لیے آپ نے فرمایا:
المحيا محياكم،
والمات مماتكم:
اب زندگی اور موت تمہارے ہاں ہی ہے۔
(12)
ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بلا احرام داخل ہوئے تھے،
جس سے ثابت ہوتا ہے،
اگر انسان کی حج یا عمرہ کی نیت نہ ہو تو وہ بلا احرام مکہ میں داخل ہو سکتا ہے،
شوافع اور حنابلہ کا یہی موقف ہے،
لیکن احناف اور مالکیہ کے نزدیک احرام باندھے بغیر مکہ میں داخل نہیں ہوا جا سکتا اور فتح مکہ کے وقت احرام کے بغیر داخلہ،
فتح مکہ سے خاص ہے،
فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف اور سعی کر کے عمرہ کیا۔
(13)
بِسِيَةِ الْقَوْسِ:
کمان کا مڑا ہوا ایک کونہ یا طرف،
اس سے آپ نے ان کے بت کی آنکھوں میں کچوکے لگائے،
تاکہ پتہ چل سکے جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا،
وہ دوسروں کے نفع و نقصان کا مالک کیسے بن سکتا ہے؟ اور اس سے ان کی تذلیل اور رسوائی بھی ہو کہ اب یہ لوگ اپنے معبود کو بھی بچا نہیں سکتے۔
فوائد ومسائل:
جب شعبان 8ھ میں بنوبکر نے بدعہدی کرتے ہوئے،
رات کی تاریکی میں بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا تو قریش نے اس حملہ میں ہتھیاروں سے ان کی مدد کی حتی کہ رات کی تاریکی کی آڑ میں ان کے کچھ آدمی جنگ میں شریک بھی ہوئے،
بنو خزاعہ کے شاعر نے انتہائی مؤثر اور فصیح و بلیغ اشعار میں آپ سے مدد کی درخواست کی،
10 رمضان المبارک 8ھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار (10000)
ساتھیوں کے ساتھ مکہ کا رخ کیا،
ذی طویٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی ترتیب و تقسیم فرمائی،
خالد بن ولید کو اپنے داہنے پہلو پر رکھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ مکہ کے زیریں حصے سے اس میں داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی سامنے آئے تو اسے کاٹ کر رکھ دیں،
یہاں تک کہ صفا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملیں اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بائیں پہلو پر رکھا اور انہیں حکم دیا کہ مکے میں بالائی حصہ سے داخل ہون اور جحون میں آپ کا جھنڈا گاڑ کر آپ کی آمد تک وہیں ٹھہرے رہیں،
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیادہ پر مقرر کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ اختیار کریں،
یہاں تک کہ مکہ میں آپ کے آگے اتریں،
ان ہدایات کے بعد تمام دستے اپنے اپنے مقررہ راستوں پر چل پڑے،
حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے سامنے جو مشرک بھی آیا،
اسے قتل کر ڈالا گیا،
خندمہ پہنچ کر ان کی مڈ بھیڑ قریش کے اوباشوں سے ہوئی،
معمولی سی جھڑپ میں بارہ (12)
مشرک کٹ گئے اور اس کے بعد مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ مکہ کے گلی کوچوں کو روندتے ہوئے،
کوہ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے،
تفصیل کے لے دیکھئے،
غزوہ فتح مکہ،
الرحیق المختوم۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4622
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4624
عبداللہ بن رباح بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہمارے ہمراہ تھے، اور ہم میں سے ہر ایک ایک دن اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا تیار کرتا تھا، جب میری باری آئی تو میں نے کہا، اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ! آج میری باری ہے تو سارے ساتھی میرے ٹھکانہ پر آ گئے، ابھی ہمارا کھانا پکا نہیں تھا تو میں نے کہا، اے ابوہریرہ! کاش ہمارا کھانا پکنے تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باتیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4624]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
البياذقه:
پیدل دستہ۔
(2)
فَمَاأَشرَفَ يَوءمَئِذٍلَّهُم إِلَّا أَنَامُوه:
جو بھی اس دن ان کے سامنے آیا،
اسے انہوں نے ڈھیر کر دیا،
اس سے جمہور ابوحنیفہ،
مالک اور احمد رحمہم اللہ نے یہ کہا ہے کہ مکہ بزور بازو فتح ہوا ہے،
لیکن امام شافعی کے نزدیک مکہ صلح کے نتیجہ میں فتح ہوا ہے۔
(3)
اَبِيْدَت خضراء قريش:
قریش کی جماعت تباہ و برباد کر دی جا رہی ہے،
ان سے کوئی بچ نہیں سکے گا،
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مکہ قوت و طاقت کے بل بوتہ پر فتح ہوا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4624