(مرفوع) حدثنا سعيد بن منصور، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، قال: اخبرني عمرو بن الحارث، عن بكير بن عبد الله بن الاشج، عن ابن تعلى، قال: غزونا مع عبد الرحمن بن خالد بن الوليد فاتي باربعة اعلاج من العدو فامر بهم فقتلوا صبرا، قال ابو داود: قال لنا غير سعيد، عن ابن وهب في هذا الحديث، قال: بالنبل صبرا فبلغ ذلك ابا ايوب الانصاري، فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ينهى عن قتل الصبر فوالذي نفسي بيده لو كانت دجاجة ما صبرتها"، فبلغ ذلك عبد الرحمن بن خالد بن الوليد فاعتق اربع رقاب. (مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ ابْنِ تِعْلَى، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ فَأُتِيَ بِأَرْبِعَةِ أَعْلَاجٍ مِنَ الْعَدُوِّ فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُتِلُوا صَبْرًا، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ لَنَا غَيْرُ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: بِالنَّبْلِ صَبْرًا فَبَلَغَ ذَلِكَ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ، فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْهَى عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَتْ دَجَاجَةٌ مَا صَبَرْتُهَا"، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ فَأَعْتَقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ.
ابن تعلی کہتے ہیں کہ ہم نے عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کے ساتھ جہاد کیا تو ان کے سامنے عجمی کافروں میں سے چار طاقتور اور ہٹے کٹے کافر لائے گئے انہوں نے ان کے متعلق حکم دیا تو وہ باندھ کر قتل کر دیئے گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہم سے سعید بن منصور کے سوا اور لوگوں نے ابن وہب سے یہی حدیث یوں روایت کی ہے کہ پکڑ کر نشانہ بنا کر تیروں سے مار ڈالے گئے، تو یہ خبر ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح مارنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مرغی بھی ہو تو میں اس کو اس طرح روک کر نہ ماروں، یہ خبر عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کو پہنچی تو انہوں نے (اپنی اس غلطی کی تلافی کے لیے) چار غلام آزاد کئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3475)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/422)، سنن الدارمی/الاضاحي 13 (2017) (حسن)»
Narrated Ibn Ti'li: We fought along with Abdur Rahman ibn Khalid ibn al-Walid. Four infidels from the enemy were brought to him. He commanded about them and they were killed in confinement. Abu Dawud said: The narrators other than Saeed reported from Ibn Wahb in this tradition: " (killed him) with arrows in confinement. " When Abu Ayyub al-Ansari was informed about it, he said: I heard the Messenger of Allah ﷺ prohibiting to kill in confinement. By Him in Whose hands my soul is, if there were a hen, I would not kill it in confinement. Abdur-Rahman bin Khalid bin al-Walid was informed about it (the Prophet's prohibition). He set four slaves free.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2681
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف بكير بن عبد اللّٰه بن الأشج رواه عن أبيه عن عبيد بن تعلي به انظر مسند أحمد (422/5ح23987) و أبوه: مجهول الحال،لم يوثقه غير ابن حبان فيما أعلم فالسند معلل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 98
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا حماد، قال: اخبرنا ثابت، عن انس، ان ثمانين رجلا من اهل مكة هبطوا على النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه من جبال التنعيم عند صلاة الفجر ليقتلوهم فاخذهم رسول الله صلى الله عليه وسلم سلما فاعتقهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل وهو الذي كف ايديهم عنكم وايديكم عنهم ببطن مكة سورة الفتح آية 24 إلى آخر الآية. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ ثَمَانِينَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَبَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مِنْ جِبَالِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ لِيَقْتُلُوهُمْ فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِلْمًا فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ سورة الفتح آية 24 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں میں سے اسی آدمی جبل تنعیم سے نماز فجر کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے لیے اترے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی مزاحمت کے بغیر گرفتار کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة» إلى آخر الآية (سورۃ الفتح: ۲۴)”اللہ ہی نے ان کا ہاتھ تم سے اور تمہارا ہاتھ ان سے وادی مکہ میں روک دیا“۔
Anas said “Eighty Makkahns came down from the mountain of Al Tan’im against the Prophet ﷺ and his Companions at the (time of the) dawn prayer to kill them. The Messenger of Allah ﷺ took them captive without fighting and the Messenger of Allah ﷺ set them free. Thereupon Allaah Most High sent down “He it is Who averted their hands from you and your hands from them in the valley of Makkah, ” till the end of the verse.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2682
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں سے فرمایا: ”اگر مطعم بن عدی ۱؎ زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے سلسلے میں مجھ سے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فرض الخمس 16 (3139)، والمغازي 12 (4024)، (تحفة الأشراف: 3194)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/80) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف سے پہنچنے والی ایذاء اور تکلیف سے بچنے کے لئے طائف سے لوٹتے وقت مطعم بن عدی کے یہاں پہنچے، تو انہوں نے مشرکین کو دفع کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بچایا، اسی احسان کا بدلہ چکانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے متعلق یہ فرمایا تھا کہ مطعم کی سفارش پر میں ان سب کو چھوڑ دیتا، یعنی فدیہ وغیرہ نہیں لیتا۔
Jubair bin Mutim reported the Prophet ﷺ as saying about the prisoners taken at Badr. If Mutim bin Adi had been alive and spoken to me about these filthy ones, I would have left them for him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2683
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن حنبل، قال: حدثنا ابو نوح، قال: اخبرنا عكرمة بن عمار، قال: حدثنا سماك الحنفي قال: حدثني ابن عباس، قال: حدثني عمر بن الخطاب، قال: لما كان يوم بدر فاخذ يعني النبي صلى الله عليه وسلم الفداء انزل الله عز وجل ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض إلى قوله لمسكم فيما اخذتم سورة الانفال آية 67 ـ 68 من الفداء، ثم احل لهم الله الغنائم، قال ابو داود: سمعت احمد بن حنبل يسال عن اسم ابي نوح فقال: إيش تصنع باسمه اسمه اسم شنيع، قال ابو داود: اسم ابي نوح قراد، والصحيح عبد الرحمن بن غزوان. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ فَأَخَذَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفِدَاءَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ سورة الأنفال آية 67 ـ 68 مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أَحَلَّ لَهُمُ اللَّهُ الْغَنَائِمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُسْأَلُ عَنِ اسْمِ أَبِي نُوحٍ فَقَالَ: إِيشْ تَصْنَعُ بِاسْمِهِ اسْمُهُ اسْمٌ شَنِيعٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: اسْمُ أَبِي نُوحٍ قُرَادٌ، وَالصَّحِيحُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب غزوہ بدر ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے فدیہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» سے «مسكم فيما أخذتم» تک ”نبی کے لیے مناسب نہیں کہ ان کے قیدی باقی اور زندہ رہیں جب تک کہ زمین میں ان (کافروں کا) اچھی طرح خون نہ بہا لیں، تم دنیا کے مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے سبب سے تمہیں بڑی سزا پہنچتی“(سورۃ الأنفال: ۶۷-۶۸) پھر اللہ نے ان کے لیے غنائم کو حلال کر دیا۔
Umar bin Al Khattab said “During the battle of Badr, the Prophet ﷺ took ransom”. Thereupon Allaah Most High sent down “It is not fitting for an Messenger that he should have prisoners of war until he hath thoroughly subdued the land. You look on the temporal goods of this world, but Allaah looketh to the Hereafter”. And Allaah is exalted in might and Wise. Had it not been for a previous ordainment from Allaah, a severe penalty would have reached you for the (ransom) that you took. Allaah then made the spoils of war lawful. Abu Dawud said “I heard that Ahmad bin Hanbal was asked about the name of Abu Nuh”. He said “What will you do with his name? His name is a bad one. Abu Dawud said “the name of Abu Nuh is Qurad. What is correct is that his name is Abd Al Rahman bin Ghazwan.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2684
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن جاہلیت کے لوگوں کا فدیہ فی آدمی چار سو مقرر کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5382) (صحیح)» (لیکن چار سو کی بات صحیح نہیں ہے، بلکہ ابن عباس ہی سے دوسری بہتر سند سے چار ہزار مروی ہے، اس سند میں ابوالعنبس لین الحدیث ہیں)
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Prophet ﷺ fixed the ransom of the people of pre-Islamic Arabia at four hundred dirhams per head on the day of the battle of Badr.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2685
قال الشيخ الألباني: صحيح دون الأربعمائة
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أبو العنبس حسن الحديث
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن يحيى بن عباد، عن ابيه عباد بن عبد الله بن الزبير، عن عائشة، قالت: لما بعث اهل مكة في فداء اسراهم بعثت زينب في فداء ابي العاص بمال وبعثت فيه بقلادة لها كانت عند خديجة ادخلتها بها على ابي العاص، قالت: فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم رق لها رقة شديدة وقال:" إن رايتم ان تطلقوا لها اسيرها وتردوا عليها الذي لها، فقالوا: نعم، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ عليه او وعده ان يخلي سبيل زينب إليه، وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة ورجلا من الانصار فقال:" كونا ببطن ياجج حتى تمر بكما زينب فتصحباها حتى تاتيا بها". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أَسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا كَانَتْ عِنْدَ خَدِيجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً وَقَالَ:" إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا، فَقَالُوا: نَعَمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ عَلَيْهِ أَوْ وَعَدَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ:" كُونَا بِبَطْنِ يَأْجَجَ حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِيَا بِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے تو اس وقت زینب رضی اللہ عنہا نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ ۱؎ کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اور اس مال میں اپنا ایک ہار بھیجا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا، انہوں نے یہ ہار زینب کو ابوالعاص سے نکاح کے موقع پر رخصتی کے وقت دیا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر سخت رقت طاری ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم مناسب سمجھو تو ان کی خاطر و دلداری میں ان کا قیدی چھوڑ دو، اور ان کا مال انہیں لوٹا دو“، لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑتے وقت یہ عہد لے لیا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو میرے پاس آنے سے نہ روکیں گے، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور انصار میں سے ایک شخص کو بھیجا، اور فرمایا: ”تم دونوں ”بطن یأجج“ میں رہنا یہاں تک کہ زینب تم دونوں کے پاس سے گزریں تو ان کو ساتھ لے کر آنا ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16179)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/276) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: زینب رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صاحب زادی تھیں، اور ابو العاص رضی اللہ عنہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے اور زینب کے شوہر تھے۔ ۲؎: شاید یہ نامحرم کے ساتھ سفر کرنے کی ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہو، زینب رضی اللہ عنہا کے مدینہ آجانے کے بعد ابو العاص رضی اللہ عنہ کفر کی حالت میں مکہ ہی میں مقیم رہے، پھر تجارت کے لئے شام گئے، وہاں سے لوٹتے وقت انھیں اسلام پیش کیا گیا، تو وہ مکہ واپس گئے اور وہ مال جس جس کا تھا اس کو واپس کیا اور سب کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے، پھر ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور مسلمان ہو جانے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کو ان کی زوجیت میں لوٹا دیا تھا۔
Narrated Aishah, Ummul Muminin: When the people of Makkah sent about ransoming their prisoners Zaynab sent some property to ransom Abul As, sending among it a necklace of hers which Khadijah had had, and (which she) had given to her when she married Abul As. When the Messenger of Allah ﷺ saw it, he felt great tenderness about it and said: If you consider that you should free her prisoner for her and return to her what belongs to her, (it will be well). They said: Yes. The Messenger of Allah ﷺ made an agreement with him that he should let Zaynab come to him, and the Messenger of Allah ﷺ sent Zayd ibn Harithah and a man of the Ansar (the Helpers) and said: Wait in the valley of Yajij till Zaynab passes you, then you should accompany her and bring her back.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2686
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (3970) محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند أحمد (6/276) وھو في السيرة لابن ھشام (ص653 بتحقيقي)
(مرفوع) حدثنا احمد بن ابي مريم، حدثنا عمي يعني سعيد بن الحكم قال: اخبرنا الليث بن سعد، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: وذكر عروة بن الزبير ان مروان، والمسور بن مخرمة اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال حين جاءه وفد هوازن مسلمين فسالوه ان يرد إليهم اموالهم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:" معي من ترون واحب الحديث إلي اصدقه فاختاروا إما السبي وإما المال، فقالوا: نختار سبينا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فاثنى على الله ثم قال: اما بعد فإن إخوانكم هؤلاء جاءوا تائبين وإني قد رايت ان ارد إليهم سبيهم فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب منكم ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل، فقال: الناس قد طيبنا ذلك لهم يا رسول الله، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا لا ندري من اذن منكم ممن لم ياذن فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم"، فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم فاخبروهم انهم قد طيبوا واذنوا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي يَعْنِي سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: وَذَكَرَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَعِي مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ، فَقَالُوا: نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلَاءِ جَاءُوا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ، فَقَالَ: النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ"، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ فَأَخْبَرُوهُمْ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے ذکر کیا کہ انہیں مروان اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد ہوازن مسلمان ہو کر آیا اور اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے مال انہیں واپس لوٹا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”میرے ساتھ جو ہیں انہیں تم دیکھ رہے ہو، اور میرے نزدیک سب سے عمدہ بات سچی بات ہے تم یا تو قیدیوں (کی واپسی) اختیار کر لو یا مال“، انہوں نے کہا: ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کریں گے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اس کے بعد فرمایا: ”تمہارے یہ بھائی (شرک سے) توبہ کر کے آئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدیوں کو واپس لوٹا دوں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اپنی خوشی سے واپس لوٹا سکتا ہو تو وہ واپس لوٹا دے، اور جو شخص اپنا حصہ لینے پر مصر ہے تو پہلا مال غنیمت جو اللہ ہم کو دے ہم اس میں سے اس کا عوض دیں تو وہ ایسا ہی کر لے“، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے انہیں بخوشی واپس لوٹا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی، اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم واپس جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار معاملہ کی تفصیل ہمارے پاس لے کر آئیں“، لوگ لوٹ گئے، اور ان سے ان کے سرداروں نے بات کی تو انہوں نے اپنے سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے خوشی خوشی اجازت دی ہے۔
Marwan and Al Miswar bin Makhramah told that when the deputation of the Hawazin came to the Muslims and asked the Messenger of Allah ﷺ to return to them their property, the Messenger of Allah ﷺ said to them “with me are those whom you see”. The speech dearest to me is the one which is true, so choose (one of the two) either the captives or the property. They said “We choose our captives. The Messenger of Allah ﷺ stood up, extolled Allaah and then said “To proceed, your brethren have come repentant I have considered that I should return their captives to them, so let those of you who are willing to release the captives act accordingly, but those who wish to hold on to what they have till we give them some of the first booty Allaah gives us may do so. The people said “We are willing for that (to release their captives), Messenger of Allah. The Messenger of Allah ﷺ said “We cannot distinguish between those of you who have granted that and those who have not, so return till your headmen may tell us about your affair. The people then returned and their headmen spoke to them, then they informed that they were agreeable and had given their permission.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2687
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا حماد، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، في هذه القصة، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ردوا عليهم نساءهم وابناءهم فمن مسك بشيء من هذا الفيء فإن له به علينا ست فرائض من اول شيء يفيئه الله علينا، ثم دنا يعني النبي صلى الله عليه وسلم من بعير فاخذ وبرة من سنامه ثم قال: يا ايها الناس إنه ليس لي من هذا الفيء شيء ولا هذا، ورفع اصبعيه إلا الخمس والخمس مردود عليكم فادوا الخياط والمخيط. فقام رجل في يده كبة من شعر فقال: اخذت هذه لاصلح بها برذعة لي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما ما كان لي و لبني عبد المطلب فهو لك، فقال: اما إذ بلغت ما ارى فلا ارب لي فيها ونبذها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ فَمَنْ مَسَكَ بِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَإِنَّ لَهُ بِهِ عَلَيْنَا سِتَّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا، ثُمَّ دَنَا يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعِيرٍ فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ هَذَا الْفَيْءِ شَيْءٌ وَلَا هَذَا، وَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ إِلَّا الْخُمُسَ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ فَأَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمِخْيَطَ. فَقَامَ رَجُلٌ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ شَعْرٍ فَقَالَ: أَخَذْتُ هَذِهِ لِأُصْلِحَ بِهَا بَرْذَعَةً لِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا مَا كَانَ لِي وَ لِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ، فَقَالَ: أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلَا أَرَبَ لِي فِيهَا وَنَبَذَهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اسی قصہ کی روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس لوٹا دو، اور جو کوئی اس مال غنیمت سے اپنا حصہ باقی رکھنا چاہے تو ہم اس کو اس پہلے مال غنیمت سے جو اللہ ہمیں دے گا چھ اونٹ دیں گے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب آئے اور اس کی کوہان سے ایک بال لیا پھر فرمایا: ”لوگو! میرے لیے اس مال غنیمت سے کچھ بھی حلال نہیں ہے“، اور اپنی دونوں انگلیاں اٹھا کر کہا: ”یہاں تک کہ یہ (بال) بھی حلال نہیں سوائے خمس (پانچواں حصہ) کے، اور خمس بھی تمہارے ہی اوپر لوٹا دیا جاتا ہے، لہٰذا تم سوئی اور دھاگا بھی ادا کر دو“(یعنی بیت المال میں جمع کر دو)، ایک شخص کھڑا ہو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا، اس نے کہا: میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لیے لیا تھا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہا میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تو وہ تمہارے لیے ہے“، تو اس نے کہا: جب معاملہ اتنا اہم ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اس نے اسے (غنیمت کے مال میں) پھینک دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الھبة 1 (3690)، (تحفة الأشراف: 8782)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/184، 218) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غنیمت کے مال میں سے چوری کرنا گناہ عظیم ہے، جو کچھ ملے سب امام کے پاس جمع کر دیا جائے پھر وہ تقسیم کرے۔
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: The Messenger of Allah ﷺ then said: Return to them (Hawazin) their women and their sons. If any of you withholds anything from this booty, we have six camels for him from the first booty which Allah gives us. The Prophet ﷺ then approached a camel, and taking a hair from its hump said: O people, I get nothing of this booty, not even this (meanwhile raising his two fingers) but the fifth, and the fifth is returned to you, so hand over threads and needles. A man got up with a ball of hair in his hand and said: I took this to repair the cloth under a pack-saddle. The Messenger of Allah ﷺ said: You can have what belongs to me and to the Banu al-Muttalib. He said: If it produces the result that I now realise, I have no desire for it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2688
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (4025) أخرجه النسائي (3718 وسنده حسن) وھو في السيرة لابن ھشام (203بتحقيقي) محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند ابن الجارود (1080) وغيره
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا معاذ بن معاذ. ح وحدثنا هارون بن عبد الله، قال: حدثنا روح، قالا: حدثنا سعيد، عن قتادة،عن انس، عن ابي طلحة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا غلب على قوم اقام بالعرصة ثلاثا، قال ابن المثنى: إذا غلب قوما احب ان يقيم بعرصتهم ثلاثا"، قال ابو داود: كان يحيى بن سعيد يطعن في هذا الحديث لانه ليس من قديم حديث سعيد لانه تغير سنة خمس واربعين ولم يخرج هذا الحديث إلا باخرة، قال ابو داود: يقال إن وكيعا حمل عنه في تغيره. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ. ح وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا غَلَبَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلَاثًا، قَالَ ابْنُ المُثَنَّى: إِذَا غَلَبَ قَوْمًا أَحَبَّ أَنْ يُقِيمَ بِعَرْصَتِهِمْ ثَلَاثًا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يَطْعَنُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ لِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَدِيمِ حَدِيثِ سَعِيدٍ لِأَنَّهُ تَغَيَّرَ سَنَةَ خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ وَلَمْ يُخْرِجْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا بِأَخَرَةٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: يُقَالُ إِنَّ وَكِيعًا حَمَلَ عَنْهُ فِي تَغَيُّرِهِ.
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں تین رات قیام کرتے۔ ابن مثنیٰ کا بیان ہے: جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں جو ان کی سر زمین میں پڑتا تین رات قیام کرنا پسند فرماتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کہ یحییٰ بن سعید اس حدیث میں طعن کرتے تھے کیونکہ یہ سعید (سعید ابن ابی عروبہ) کی پہلے کی حدیثوں میں سے نہیں ہے، اس لیے کہ ۱۴۵ ہجری میں ان کے حافظہ میں تغیر پیدا ہو گیا تھا، اور یہ حدیث بھی آخری عمر کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وکیع نے ان سے ان کے زمانہ تغیر میں ہی حدیث حاصل کی ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بخاری اورمسلم نے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کو روح بن عبادہ کی روایت سے صحیحین میں داخل کیا ہے، یہ روایت بھی روح ہی کے واسطے سے ہے، اس لئے اس کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے، وکیع نے ابن ابی عروبہ سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے یہ بات مسلَّم ہے، مگر یہاں اس کا کوئی عمل دخل نہیں یہ بات مؤلف نے برسبیل تذکرہ لکھ دی ہے۔
Abu Talhah said “When the Messenger of Allah ﷺ prevailed on any people, he stayed three nights in the field. Ibn Al Muthanna said “When he prevailed over people, he liked to stay three nights in the field. ” Abu Dawud said “Yahya bin Saeed used to object to this tradition for this is not from his early traditions because his memory was spoiled at the age of forty five. He narrated this tradition in the last days of his age. ” Abu Dawud said “ It is said that Waki ‘ recived this tradition from him when his memory was spoiled. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2689
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان جدائی کرا دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، اور بیع کو رد کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میمون نے علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے، میمون جنگ جماجم میں قتل کئے گئے، اور جماجم ۸۳ ہجری میں ہوئی ہے، نیز واقعہ حرہ (۶۳ ہجری) میں پیش آیا، اور ابن زبیر (۷۳ ہجری) میں قتل ہوئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10286) (حسن)» (بعض لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے میمون کا سماع ثابت مانا ہے اسی بنیاد پر البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے)
Narrated Ali ibn Abu Talib: Ali separated between a slave-girl and her child. The Prophet ﷺ prohibited it and made the sale transactions withdrawn. Abu Dawud said: The narrator Maimun (b. Abi Shaib) did not meet Ali. He (Maimun) was killed in the battle of Jamajim in 83 A. H. Abu Dawud said: The battle of Harrah took place in 63 A. H., and Ibn al-Zubair was killed in 73 A. H.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2690
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنده منقطع كما بينه أبو داود رحمه اللّٰه وحديث الترمذي (1283،1566) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 98