عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کر دیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 12 (1875)، (تحفة الأشراف: 6001، 19103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/273) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کہ چاہے تو نکاح باقی رکھے اور چاہے تو فسخ کر لے۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: A virgin came to the Prophet ﷺ and mentioned that her father had married her against her will, so the Prophet ﷺ allowed her to exercise her choice.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2091
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (3136) أخرجه ابن ماجه (1875 وسنده حسن) وللحديث شواھد
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن عكرمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بهذا الحديث. قال ابو داود: لم يذكر ابن عباس، وكذلك رواه الناس مرسلا معروف. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ النَّاسُ مُرْسَلًا مَعْرُوفٌ.
اس سند سے عکرمہ سے یہ حدیث مرسلاً مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں: اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں ہے، اس روایت کا اسی طرح لوگوں کا مرسلاً روایت کرنا ہی معروف ہے۔
The above tradition has been transmitted by Ikrimah from the Prophet ﷺ. Abu Dawud said “He (Muhammad bin Ubaid) did not mention the name of Ibn Abbas in the chain of this tradition. The people have also narrated it mursal (without the mention of the name of Ibn Abbas) in a similar way. Its transmission in the mursal form is well known.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2092
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (2096)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثیبہ ۱؎ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے“۔
وضاحت: ۱؎: «ایّم» سے مراد ثیبہ عورت ہے اس کی تائید صحیح مسلم کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے، ترجمۃ الباب سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف بعض لوگوں نے «ایّم» سے مراد بیوہ عورت لیا ہے۔
Ibn Abbas reported the Messenger of Allah ﷺ as saying “A woman without a husband has more right to her person than her guardian and a virgin’s permission must be asked, her permission being her silence. These are the words of Al Qanabi.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2093
عبداللہ بن فضل سے بھی اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کا باپ پوچھے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «أبوها» کا لفظ محفوظ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6517) (صحیح)» ( «تستأمر» کے لفظ سے صحیح ہے، اس روایت کا لفظ شاذ ہے)»
The above tradition has been transmitted by Abd Allaah bin Al Fadl through his chain of narrators and with different meaning. The version goes “A woman without a husband has more right to her person than her guardian and the father of a virgin should ask her permission about herself. ” Abu Dawud said “ The word “her father” is not guarded.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2094
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ تستأمر دون ذكر أبوها
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے“۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Prophet ﷺ said: A guardian has no concern with a woman previously married and has no husband, and an orphan girl (i. e. virgin) must be consulted, her silence being her acceptance.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2095
خنسا بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا اور وہ ثیبہ تھیں تو انہوں نے اسے ناپسند کیا چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے ان کا نکاح رد کر دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 42 (5138)، الإکراہ 3 (6945)، الحیل 11 (6969)، سنن النسائی/النکاح 35 (3270)، سنن ابن ماجہ/النکاح 12 (1873)، (تحفة الأشراف: 15824)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/النکاح 14(25)، مسند احمد (6/328)، سنن الدارمی/النکاح 14 (2238) (صحیح)»
Khansa daughter of Khidham al-Ansariyyah reports that when her father married her when she had previously been married and she disapproved of that she went to the Messenger of Allah ﷺ and mentioned it to him. He (the Prophet) revoked her marriage.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2096
(مرفوع) حدثنا عبد الواحد بن غياث، حدثنا حماد، حدثنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان ابا هند حجم النبي صلى الله عليه وسلم في اليافوخ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا بني بياضة، انكحوا ابا هند وانكحوا إليه"، وقال:" وإن كان في شيء مما تداوون به خير، فالحجامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَبَا هِنْدٍ حَجَمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْيَافُوخِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا بَنِي بَيَاضَةَ، أَنْكِحُوا أَبَا هِنْدٍ وَأَنْكِحُوا إِلَيْهِ"، وَقَالَ:" وَإِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِمَّا تَدَاوُونَ بِهِ خَيْرٌ، فَالْحِجَامَةُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوہند نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چندیا میں پچھنا لگایا تو آپ نے فرمایا: ”بنی بیاضہ کے لوگو! ابوہند سے تم (اپنی بچیوں کی) شادی کرو اور (ان کی بچیوں سے شادی کرنے کے لیے) تم انہیں نکاح کا پیغام دو ۱؎“، اور فرمایا: ”تین چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں کسی چیز میں خیر ہے تو وہ پچھنا لگانا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15019)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطب 20 (3476)، مسند احمد (2/342، 423) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفو میں اعتبار دین کا ہو گا نہ کہ نسب اور پیشہ وغیرہ کا۔
Narrated Abu Hurairah: Abu Hind cupped the Prophet ﷺ in the middle of his head. The Prophet ﷺ said: Banu Bayadah, marry Abu Hind (to your daughter), and ask him to marry (his daughter) to you. He said: The best thing by which you treat yourself is cupping.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2097
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، ومحمد بن المثنى المعنى، قالا: حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا عبد الله بن يزيد بن مقسم الثقفي من اهل الطائف، حدثتني سارة بنت مقسم، انها سمعت ميمونة بنت كردم، قالت: خرجت مع ابي في حجة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدنا إليه ابي وهو على ناقة له، فوقف له واستمع منه ومعه درة كدرة الكتاب، فسمعت الاعراب والناس وهم يقولون: الطبطبية الطبطبية الطبطبية، فدنا إليه ابي فاخذ بقدمه فاقر له ووقف عليه واستمع منه، فقال: إني حضرت جيش عثران، قال ابن المثنى: جيش غثران، فقال طارق بن المرقع: من يعطيني رمحا بثوابه؟ قلت: وما ثوابه؟ قال: ازوجه اول بنت تكون لي، فاعطيته رمحي ثم غبت عنه حتى علمت انه قد ولد له جارية وبلغت ثم جئته، فقلت له: اهلي جهزهن إلي، فحلف ان لا يفعل حتى اصدقه صداقا جديدا غير الذي كان بيني وبينه، وحلفت لا اصدق غير الذي اعطيته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وبقرن اي النساء هي اليوم؟" قال: قد رات القتير، قال: ارى ان تتركها، قال: فراعني ذلك ونظرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما راى ذلك مني، قال:" لا تاثم ولا ياثم صاحبك". قال ابو داود: القتير الشيب. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ مِقْسَمٍ الثَّقَفِيُّ مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ، حَدَّثَتْنِي سَارَةُ بِنْتُ مِقْسَمٍ، أَنَّهَا سَمِعَتْ مَيْمُونَةَ بِنْتَ كَرْدَمٍ، قَالَتْ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي فِي حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ، فَوَقَفَ لَهُ وَاسْتَمَعَ مِنْهُ وَمَعَهُ دِرَّةٌ كَدِرَّةِ الْكُتَّابِ، فَسَمِعْتُ الْأَعْرَابَ وَالنَّاسَ وَهُمْ يَقُولُونَ: الطَّبْطَبِيَّةَ الطَّبْطَبِيَّةَ الطَّبْطَبِيَّةَ، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي فَأَخَذَ بِقَدَمِهِ فَأَقَرَّ لَهُ وَوَقَفَ عَلَيْهِ وَاسْتَمَعَ مِنْهُ، فَقَالَ: إِنِّي حَضَرْتُ جَيْشَ عِثْرَانَ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: جَيْشَ غِثْرَانَ، فَقَالَ طَارِقُ بْنُ الْمُرَقَّعِ: مَنْ يُعْطِينِي رُمْحًا بِثَوَابِهِ؟ قُلْتُ: وَمَا ثَوَابُهُ؟ قَالَ: أُزَوِّجُهُ أَوَّلَ بِنْتٍ تَكُونُ لِي، فَأَعْطَيْتُهُ رُمْحِي ثُمَّ غِبْتُ عَنْهُ حَتَّى عَلِمْتُ أَنَّهُ قَدْ وُلِدَ لَهُ جَارِيَةٌ وَبَلَغَتْ ثُمَّ جِئْتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَهْلِي جَهِّزْهُنَّ إِلَيَّ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَفْعَلَ حَتَّى أُصْدِقَهُ صَدَاقًا جَدِيدًا غَيْرَ الَّذِي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَحَلَفْتُ لَا أُصْدِقُ غَيْرَ الَّذِي أَعْطَيْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَبِقَرْنِ أَيِّ النِّسَاءِ هِيَ الْيَوْمَ؟" قَالَ: قَدْ رَأَتِ الْقَتِيرَ، قَالَ: أَرَى أَنْ تَتْرُكَهَا، قَالَ: فَرَاعَنِي ذَلِكَ وَنَظَرْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ مِنِّي، قَالَ:" لَا تَأْثَمُ وَلَا يَأْثَمُ صَاحِبُكَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: الْقَتِيرُ الشَّيْبُ.
سارہ بنت مقسم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے میمونہ بنت کردم رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج میں اپنے والد کے ساتھ نکلی، میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے، آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے تو وہ آپ کے پاس کھڑے ہو گئے، اور آپ کی باتیں سننے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معلموں کے درے کی طرح ایک درہ تھا، میں نے بدوؤں نیز دیگر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ تھپتھپانے سے بچو، تھپتھپانے سے بچو تھپتھپانے سے بچو ۱؎۔ میرے والد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب جا کر آپ کا پیر پکڑ لیا اور آپ کے رسول ہونے کا اقرار کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرے رہے اور آپ کی بات کو غور سے سنا، پھر کہا کہ میں لشکر عثران (یہ جاہلیت کی جنگ ہے) میں حاضر تھا، (ابن مثنی کی روایت میں جیش عثران کے بجائے جیش غثران ہے) تو طارق بن مرقع نے کہا: مجھے اس کے عوض میں نیزہ کون دیتا ہے؟ میں نے پوچھا: اس کا عوض کیا ہو گا؟ کہا: میری جو پہلی بیٹی ہو گی اس کے ساتھ اس کا نکاح کر دوں گا، چنانچہ میں نے اپنا نیزہ اسے دے دیا اور غائب ہو گیا، جب مجھے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی ہو گئی اور جوان ہو گئی ہے تو میں اس کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا کہ میری بیوی کو میرے ساتھ رخصت کرو تو وہ قسم کھا کر کہنے لگا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا، جب تک کہ میں اسے مہر جدید ادا نہ کر دوں اس عہد و پیمان کے علاوہ جو میرے اور اس کے درمیان ہوا تھا، میں نے بھی قسم کھا لی کہ جو میں اسے دے چکا ہوں اس کے علاوہ کوئی اور مہر نہیں دے سکتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اب وہ کن عورتوں کی عمر میں ہے (یعنی اس کی عمر اس وقت کیا ہے)“، اس نے کہا: وہ بڑھاپے کو پہنچ گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری رائے ہے کہ تم اسے جانے دو“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات نے مجھے گھبرا دیا میں آپ کی جانب دیکھنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری جب یہ حالت دیکھی تو فرمایا: ”(گھبراؤ مت) نہ تم گنہگار ہو گے اور نہ ہی تمہارا ساتھی ۲؎ گنہگار ہو گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: روایت میں وارد لفظ «قتیر» کا مطلب بڑھاپا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18091)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/366)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان (3314) (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اپنے پیروں کو زمین پر تھپتھپانے سے بچو یا تھپتھپانے سے کنایہ درہ مارنے کی طرف ہے یعنی درے مارنے سے بچو۔ ۲؎: ساتھی سے مراد طارق بن مرقع ہیں یعنی قسم کھانے کی وجہ سے تم دونوں گنہگار نہیں ہو گے۔
Narrated Maymunah, daughter of Kardam: I went out along with my father during the hajj performed by the Messenger of Allah ﷺ. I saw the Messenger of Allah ﷺ. My father came near him; he was riding his she-camel. He stopped there and listened to him. He had a whip like the whip of the teachers. I heard the Bedouin and the people saying: Keep away from the whip. My father came up to him. He caught hold of his foot and acknowledged him (his Prophethood). He stopped and listened to him. He then said: I participated in the army of Athran (in the pre-Islamic days). The narrator, Ibn al-Muthanna, said: Army of Gathran. Tariq ibn al-Muraqqa' said: Who will give me a lance and get a reward? I asked: What is its reward? He replied: I shall marry him to my first daughter born to me. So I gave him my lance and then disappeared from him till I knew that a daughter was born to him and she came of age. I then came to him and said: Send my wife to me. He swore that he would not do that until I fixed a dower afresh other than that agreed between me and him, and I swore that I should not give him the dower other than that I had given him before. The Messenger of Allah ﷺ said: How old is she now? He said: She has grown old. He said: I think you should leave her. He said: This put awe and fear into me, and I looked at the Messenger of Allah ﷺ. When he felt this in me, he said: You will not be sinful, nor will your companion be sinful. Abu Dawud said: Qatir means old age.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2098
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يأتي طرفه (3314) سارة: لا تعرف (تق: 8602) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 79
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، اخبرني إبراهيم بن ميسرة، ان خالته اخبرته، عن امراة، قالت: هي مصدقة امراة صدق، قالت: بينا ابي في غزاة في الجاهلية إذ رمضوا، فقال رجل: من يعطيني نعليه وانكحه اول بنت تولد لي؟ فخلع ابي نعليه، فالقاهما إليه، فولدت له جارية فبلغت، وذكر نحوه، لم يذكر قصة القتير. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ، أَنَّ خَالَتَهُ أَخْبَرَتْهُ، عَنِ امْرَأَةٍ، قَالَتْ: هِيَ مُصَدَّقَةٌ امْرَأَةُ صِدْقٍ، قَالَتْ: بَيْنَا أَبِي فِي غَزَاةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذْ رَمِضُوا، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ يُعْطِينِي نَعْلَيْهِ وَأُنْكِحُهُ أَوَّلَ بِنْتٍ تُولَدُ لِي؟ فَخَلَعَ أَبِي نَعْلَيْهِ، فَأَلْقَاهُمَا إِلَيْهِ، فَوُلِدَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَبَلَغَتْ، وَذَكَرَ نَحْوَهُ، لَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ الْقَتِيرِ.
ابراہیم بن میسرہ کی روایت ہے کہ ایک عورت جو نہایت سچی تھی، کہتی ہے: میرے والد زمانہ جاہلیت میں ایک غزوہ میں تھے کہ (تپتی زمین سے) لوگوں کے پیر جلنے لگے، ایک شخص بولا: کوئی ہے جو مجھے اپنی جوتیاں دیدے؟ اس کے عوض میں پہلی لڑکی جو میرے یہاں ہو گی اس سے اس کا نکاح کر دوں گا، میرے والد نے جوتیاں نکالیں اور اس کے سامنے ڈال دیں، اس کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی اور پھر وہ بالغ ہو گئی، پھر اسی جیسا قصہ بیان کیا لیکن اس میں «قتیر» کا واقعہ مذکور نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 18091) (ضعیف)» (اس کی سند میں ایک مجہول راویہ ہے)
Ibrahim bin Maisarah reported from his maternal aunt who reported on the authority of a woman called Mussaddaqah (a truthful woman). She said “In pre Islamic days, when my father participated in a battle the feet of the people burnt due to intense heat. Thereupon a man said “Who gives me his shoes, I shall marry him to my first daughter born to me. My father took off his shoes and there them before him. A girl was thereafter born to him and came of age. ” The narrator then mentioned a similar story. But he did not mention that she had grown old.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2099
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خالة إبراهيم بن ميسرة،لم أقف علي من وثقھا:”وھي مجهولة“ كما في التقريب (8787) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 79