Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
27. باب فِي الأَكْفَاءِ
باب: میاں بیوی کے کفو ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2102
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَبَا هِنْدٍ حَجَمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْيَافُوخِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا بَنِي بَيَاضَةَ، أَنْكِحُوا أَبَا هِنْدٍ وَأَنْكِحُوا إِلَيْهِ"، وَقَالَ:" وَإِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِمَّا تَدَاوُونَ بِهِ خَيْرٌ، فَالْحِجَامَةُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوہند نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چندیا میں پچھنا لگایا تو آپ نے فرمایا: بنی بیاضہ کے لوگو! ابوہند سے تم (اپنی بچیوں کی) شادی کرو اور (ان کی بچیوں سے شادی کرنے کے لیے) تم انہیں نکاح کا پیغام دو ۱؎، اور فرمایا: تین چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں کسی چیز میں خیر ہے تو وہ پچھنا لگانا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15019)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطب 20 (3476)، مسند احمد (2/342، 423) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفو میں اعتبار دین کا ہو گا نہ کہ نسب اور پیشہ وغیرہ کا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2102 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2102  
فوائد ومسائل:
1: اکثر علما ء کے بیانات میں زوجین (میاں، بیوی) کے آپس میں کفو (ہم پلہ) ہونے کا ذکر آیا ہے اور ان امور کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
دین، آزادی، نسب، کسب وصناعت، عیوب سے سلامتی اور غنا وفراخی۔
مگر امام مالک ؒ سے منقول ہے کہ بنیادی طور پر دین واسلام میں ہم پلہ ہونا ہی معتبر ہے اور یہی بات حضرت ابن عمر اور ابن مسعود رضی اللہ اور تابعین سے محمد عبدالعزیز ؒ سے منقول ہے۔
قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں فرمایا کہ (إِنَّمَا المؤمِنونَ إِخوَةٌ) (الحجرات:10) مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور (وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ) (الحجرات:13) ہم نے تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے، تمہارے تعارف کے لئے۔
اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو تم میں تقو میں بڑھ کر ہے بعض افراد یا خاندانوں میں کچھ خاص عادات یا خصائل معروف ہوتے ہیں وی اگر قابل قبول ہوں اور گھریلو زندگی میں اطمینان وسکنیت میں رکاوٹ کا باعث نہ ہو ں تو انہیں باہم ازدواجی تعلق کے قیام میں کسی طرح رکاوٹ نہیں بنا نا چاہیے۔

2: ابو ہند (یسار رضی اللہ) غلام تھے۔
نبی ﷺ نے بنی بیاضہ جیسے عربی خاندان والوں کو فرمایا کہ اس کو رشتہ لے بھی لو اس واقعہ میں یہی ثابت ہوا کہ اصل کفاء ت دین کی کفاءت ہے دین کو پس پشت ڈال کر خاندانی اونچ نیچ کی کوئی حیثیت نہیں۔
 
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2102   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 857  
´کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنی بیاضہ! ابوہند کا نکاح کر دو اور اس کی لڑکیوں سے نکاح کرو۔ ابوہند حجام تھے۔ اسے ابوداؤد اور حاکم نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 857»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الأكفاء، حديث:2102، والحاكم:2 /164 وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي.»
تشریح:
1. ابوہند بنو بیاضہ‘ جو قبائل عرب میں ایک قبیلہ تھا‘ کے آزاد کردہ غلام تھے۔
2. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو بیاضہ سے فرمایا کہ ابوہند کا نکاح اپنے قبیلے کی کسی عورت سے کر دو۔
اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نسب کے بت کو پاش پاش کر دیا۔
3.صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جلیل القدر غنی صحابی (جن کا تعلق عرب کے سب سے معزز قبیلے قریش سے تھا) نے اپنی ہمشیرہ ہالہ کو بلال حبشی کے نکاح میں دے کر نسب کے فخر کو توڑا اور خلیفۂثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہونے سے پہلے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو ان سے نکاح کے لیے پیشکش کی تھی۔
4.ان مثالوں سے ثابت ہو رہا ہے کہ حسب و نسب اور حسن و جمال اہمیت کے حامل ضرور ہیں مگر دینداری کے مقابلے میں ان کی حیثیت ثانوی ہے۔
وضاحت: «ابوہند رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا نام یسار تھا۔
اور ایک قول کے مطابق ان کا نام سالم بن ابی سالم اور ایک قول کے مطابق عبداللہ بن ہند تھا۔
یہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سینگی لگائی تھی۔
بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔
حضرت ابن عباس‘ ابوہریرہ‘ جابر اور خالد رضی اللہ عنہم نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 857   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3857  
´سینگی (پچھنا) لگوانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن دواؤں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں سے کسی میں خیر (بھلائی) ہے تو وہ سینگی (پچھنے) لگوانا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3857]
فوائد ومسائل:
جسم کے کسی حصے میں خون کا دباﺅ بڑھ جانے اس میں جوش آجانے کی صورت میں جلد کو نشتر کے ساتھ گود کر خاص انداز سے خون کھینچا جاتا تھا اور یہ عرب میں ایک معروف طریقہ علاج تھا جو طبِ قدیم میں خصوصاََ عربوں کے ہاں ہمیشہ سے مستعمل رہا۔
اب مغرب میں بھی بعض ہسپتالوں اس طریقہ علاج سے استفادہ کیا جا رہا ہے اور اس کی تعلیم و تربیت کا نظام بھی قائم کیا جا رہا ہے۔
اس طریقِ علاج سے خون کی گردش انسان کے جسم کے اندرقائم برقی مقناطیسی سسٹم کی خرابیاں درست ہوجاتی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3857   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3476  
´حجامت (پچھنا لگوانے) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں سے کسی میں خیر ہے تو پچھنے میں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3476]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سینگی ایک پیالے جیسی چیز سے لگائی جاتی ہے۔
اسے ہوا سے خالی کرکے جلد پر رکھا جاتا ہے۔
اس سے جسم کے ایک حصے میں دباؤ پیدا ہوتاہے۔
جس کی وجہ سے خون اور فاسد مادہ زور سے کھینچ آتا ہے۔

(2)
سینگی تقریبا ہرمرض کا علاج ہے۔
لیکن معالج سمجھ دار ہوناچاہیے۔
جو یہ جانتا ہو کہ کس مرض کےلئے جسم کے کس حصے پرسینگی لگانی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3476