(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني عمرو، عن بكر بن سوادة الجذامي، عن صالح بن خيوان، عن ابي سهلة السائب بن خلاد، قال احمد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم:" ان رجلا ام قوما فبصق في القبلة ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين فرغ: لا يصلي لكم، فاراد بعد ذلك ان يصلي لهم فمنعوه واخبروه بقول رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: نعم، وحسبت انه، قال: إنك آذيت الله ورسوله". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ الْجُذَامِيِّ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَيْوَانَ، عَنْ أَبِي سَهْلَةَ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ، قَالَ أَحْمَدُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ رَجُلًا أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِي الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ: لَا يُصَلِّي لَكُمْ، فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّيَ لَهُمْ فَمَنَعُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَعَمْ، وَحَسِبْتُ أَنَّهُ، قَالَ: إِنَّكَ آذَيْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
ابو سہلہ سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (احمد کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں) کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کی تو قبلہ کی جانب تھوک دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ رہے تھے، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص اب تمہاری امامت نہ کرے“، اس کے بعد اس نے نماز پڑھانی چاہی تو لوگوں نے اسے امامت سے روک دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، (میں نے منع کیا ہے)“، صحابی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”تم نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3789)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/56) (حسن)»
Narrated Abu Sahlah as-Saib ibn Khallad: A man led the people in prayer. He spat towards qiblah while the Messenger of Allah ﷺ was looking at him. The Messenger of Allah said to the people when he finished his prayer: He should not lead you in prayer (henceforth). Thenceforth he intended to lead them in prayer, but they forbade him and informed him of the prohibition of the Messenger of Allah ﷺ. He mentioned it to the Messenger of Allah ﷺ who said to him: Yes. The narrator said: I think he (the Prophet) said: You did harm to Allah and His Messenger.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 482
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (747)
عبداللہ بن شخیر بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوکا۔
اس سند سے ابوالعلاء یزید بن عبداللہ بن الشخیر نے اپنے والد عبداللہ بن الشخیر رضی اللہ عنہ سے اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے، اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جوتے سے مل دیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5348) (صحیح)»
Abu al-Ala reported this tradition on the authority of his father to the same effect with a different chain of narrators. This version adds: “He then rubbed it with his shoe. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 484
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الفرج بن فضالة، عن ابي سعيد، قال: رايت واثلة بن الاسقع في مسجد دمشق بصق على البوري، ثم مسحه برجله، فقيل له: لم فعلت هذا؟ قال:" لاني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ بَصَقَ عَلَى الْبُورِيِّ، ثُمَّ مَسَحَهُ بِرِجْلِهِ، فَقِيلَ لَهُ: لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ:" لِأَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".
ابوسعید حمیری کہتے ہیں کہ میں نے دمشق کی مسجد میں واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے بوریے پر تھوکا، پھر اپنے پاؤں سے اسے مل دیا، ان سے پوچھا گیا: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11754)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/490) (ضعیف)» (اس کے راوی ”فَرَج“ ضعیف اور ”ابوسعید حمیری“ مجہول ہیں)
Narrated Wathilah ibn al-Asqa: Abu Saeed said: I saw Wathilah ibn al-Asqa in the mosque of Damascus. He spat at the mat and then rubbed it with his foot. He was asked: Why did you do so? He said: Because I saw the Messenger of Allah ﷺ doing so.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 485
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الفرج بن فضالة: ضعيف،وشيخه أبو سعيد الحميري الشامي: مجهول (تقريب: 5383،8118) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 31
(مرفوع) حدثنا يحيى بن الفضل السجستاني، وهشام بن عمار، وسليمان بن عبد الرحمن الدمشقيان، بهذا الحديث وهذا لفظ يحيى بن الفضل السجستاني، قالوا: حدثنا حاتم بن إسماعيل، حدثنا يعقوب بن مجاهد ابو حزرة، عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت، اتينا جابرا يعني ابن عبد الله وهو في مسجده، فقال: اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجدنا هذا وفي يده عرجون ابن طاب، فنظر فراى في قبلة المسجد نخامة فاقبل عليها فحتها بالعرجون، ثم قال:" ايكم يحب ان يعرض الله عنه بوجهه؟ ثم قال: إن احدكم إذا قام يصلي فإن الله قبل وجهه، فلا يبصقن قبل وجهه ولا عن يمينه، وليبزق عن يساره تحت رجله اليسرى، فإن عجلت به بادرة فليقل بثوبه هكذا، ووضعه على فيه، ثم دلكه، ثم قال: اروني عبيرا، فقام فتى من الحي يشتد إلى اهله فجاء بخلوق في راحته، فاخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعله على راس العرجون ثم لطخ به على اثر النخامة"، قال جابر: فمن هناك جعلتم الخلوق في مساجدكم. (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْفَضْلِ السِّجِسْتَانِيُّ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيَّانِ، بهذا الحديث وهذا لفظ يحيى بن الفضل السجستاني، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ مُجَاهِدٍ أَبُو حَزْرَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَتَيْنَا جَابِرًا يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ فِي مَسْجِدِهِ، فَقَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِنَا هَذَا وَفِي يَدِهِ عُرْجُونُ ابْنِ طَابٍ، فَنَظَرَ فَرَأَى فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ نُخَامَةً فَأَقْبَلَ عَلَيْهَا فَحَتَّهَا بِالْعُرْجُونِ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللَّهُ عَنْهُ بِوَجْهِهِ؟ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ يُصَلِّي فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ، فَلَا يَبْصُقَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَبْزُقْ عَنْ يَسَارِهِ تَحْتَ رِجْلِهِ الْيُسْرَى، فَإِنْ عَجِلَتْ بِهِ بَادِرَةٌ فَلْيَقُلْ بِثَوْبِهِ هَكَذَا، وَوَضَعَهُ عَلَى فِيهِ، ثُمَّ دَلَكَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَرُونِي عَبِيرًا، فَقَامَ فَتًى مِنَ الْحَيِّ يَشْتَدُّ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِخَلُوقٍ فِي رَاحَتِهِ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَهُ عَلَى رَأْسِ الْعُرْجُونِ ثُمَّ لَطَخَ بِهِ عَلَى أَثَرِ النُّخَامَةِ"، قَالَ جَابِرٌ: فَمِنْ هُنَاكَ جَعَلْتُمُ الْخَلُوقَ فِي مَسَاجِدِكُمْ.
عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، وہ اپنی مسجد میں تھے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ابن طاب ۱؎ کی ایک ٹہنی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو اس کی طرف بڑھے اور اسے ٹہنی سے کھرچا، پھر فرمایا: ”تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اس سے اپنا چہرہ پھیر لے؟“، پھر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا اپنے سامنے اور اپنے داہنی طرف ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف اپنے بائیں پیر کے نیچے تھوکے اور اگر جلدی میں کوئی چیز (بلغم) آ جائے تو اپنے کپڑے سے اس طرح کرے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے کو اپنے منہ پر رکھا (اور اس میں تھوکا) پھر اسے مل دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے «عبير»۲؎ لا کر دو“، چنانچہ محلے کا ایک نوجوان اٹھا، دوڑتا ہوا اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور اپنی ہتھیلی میں «خلوق»۳؎ لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے کر لکڑی کی نوک میں لگایا اور جہاں بلغم لگا تھا وہاں اسے پوت دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اسی وجہ سے تم لوگ اپنی مسجدوں میں «خلوق» لگایا کرتے ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2359)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/324) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابن طاب ایک قسم کی کھجور کا نام ہے۔ ۲؎: ایک قسم کی خوشبو ہے۔ ۳؎: ایک قسم کی خوشبو ہے۔
Narrated Ubadah ibn as-Samit: We came to Jabir ibn Abdullah who was sitting in his mosque. He said: The Messenger of Allah ﷺ came to us in this mosque and he had a twig of date-palm of the kind of Ibn Tab. He looked and saw phlegm on the wall towards qiblah. He turned to it and scraped it with the twig. He then said: Who of you likes that Allah turns His face from him? He further said: When any of you stands for praying, Allah faces him. So he should not spit before him, nor on his right side. He should spit on his left side under his left foot. If he is in a hurry (i. e. forced to spit immediately), he should do with his cloth in this manner. He then placed the cloth on his mouth and rubbed it off. He then said: Bring perfume. A young man of the tribe stood and hurried to his house and returned with perfume in his palm. The Messenger of Allah ﷺ took it and put it at the end of the twig. He then stained the mark of phlegm with it. Jabir said: This is the reason you use perfume in your mosques.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 481
(مرفوع) حدثنا عيسى بن حماد، حدثنا الليث، عن سعيد المقبري، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر، انه سمع انس بن مالك، يقول: دخل رجل على جمل فاناخه في المسجد ثم عقله، ثم قال:" ايكم محمد؟ ورسول الله صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم، فقلنا له: هذا الابيض المتكئ، فقال له الرجل: يا ابن عبد المطلب، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: قد اجبتك، فقال له الرجل: يا محمد، إني سائلك وساق الحديث". (مرفوع) حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْنَا لَهُ: هَذَا الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَبْتُكَ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي سَائِلُكَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اس نے اسے مسجد میں بٹھایا پھر اسے باندھا، پھر پوچھا: تم میں محمد کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ان (لوگوں) کے بیچ ٹیک لگائے بیٹھے تھے، ہم نے اس سے کہا: یہ گورے شخص ہیں جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں، پھر اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”میں نے تمہاری بات سن لی، (کہو کیا کہنا چاہتے ہو)“، تو اس شخص نے کہا: محمد! میں آپ سے پوچھتا ہوں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 6 (63)، سنن النسائی/الصیام 1 (2094)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 194 (1402)، (تحفة الأشراف: 907)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 3 (10)، سنن الترمذی/الزکاة 2 (619)، مسند احمد (3/143، 193)، سنن الدارمی/الصلاة 140 (1470) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مسجد میں داخل ہونے والا شخص مشرک تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا۔
Anas bin Malik reported: A man entered the mosque on camel and made it kneel down, and then tied his leg with rope. He then asked: Who among you is Muhammad? The Messenger of Allah ﷺ was sitting leaning upon something among them. We said to him: This white (man) who is leaning. The man said: O son of Abd al-Muttalib. The Prophet ﷺ said; I already responded to you. The man (again) said: O Muhammad. I am asking you. The narrator then narrated the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 486
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمرو، حدثنا سلمة، حدثني محمد بن إسحاق، حدثني سلمة بن كهيل، ومحمد بن الوليد بن نويفع، عن كريب، عن ابن عباس، قال: بعث بنو سعد بن بكر ضمام بن ثعلبة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقدم عليه فاناخ بعيره على باب المسجد ثم عقله ثم دخل المسجد، فذكر نحوه، قال: فقال: ايكم ابن عبد المطلب؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انا ابن عبد المطلب، قال: يا ابن عبد المطلب، وساق الحديث. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ نُوَيْفِعٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَعَثَ بَنُو سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ ضِمَامَ بْنَ ثَعْلَبَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ عَلَيْهِ فَأَنَاخَ بَعِيرَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ عَقَلَهُ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ: فَقَالَ: أَيُّكُمْ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنی سعد بن بکرنے ضمام بن ثعلبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، وہ آپ کے پاس آئے انہوں نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر بٹھایا اور اسے باندھ دیا پھر مسجد میں داخل ہوئے، پھر محمد بن عمرو نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے اس نے کہا: تم میں عبدالمطلب کا بیٹا کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبدالمطلب کا بیٹا میں ہوں“، تو اس نے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! اور راوی نے پوری حدیث اخیر تک بیان کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6353)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/250، 264، 265) (حسن)»
وضاحت: صحیح بخاری میں یہ روایت مفصل آئی ہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوالات پوچھے آپ نے ان سوالات کے جوابات دئیے پھر یہ ایمان لے آئے تھے (صحیح بخاری حدیث ۶۳) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم یہود، نصاریٰ، ہندو یا مجوسی وغیرہ کوئی بھی ہوں کسی بھی معقول ضرورت سے مسجدوں میں آ سکتے ہیں۔
Ibn Abbas reported: Banu Saad bin Bakr sent Qamam bin Thalabah to the Messenger of Allah ﷺ. He came to him and made his camel kneel down near the gate of the mosque. He then tied its leg and entered the mosque. The narrator then reported in a similar way. He then said: Who among you is the son of Abd al-Muttalib? The Messenger of Allah ﷺ replied: I am the son of Ibn Abd al-Muttalib. He said: O son of Abd al-Muttalib. The narrator then reported the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 487
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، حدثنا رجل من مزينة ونحن عند سعيد بن المسيب،عن ابي هريرة، قال:" اليهود اتوا النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في المسجد في اصحابه، فقالوا: يا ابا القاسم، في رجل وامراة زنيا منهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ وَنَحْنُ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" الْيَهُودُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ فِي أَصْحَابِهِ، فَقَالُوا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فِي رَجُلٍ وَامْرَأَةٍ زَنَيَا مِنْهُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ مسجد میں اپنے اصحاب میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان یہودیوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم ایک مرد اور ایک عورت کے سلسلے میں جنہوں نے زنا کر لیا ہے ۱؎ آئے ہیں (تو ان کے سلسلہ میں کیا حکم ہے؟)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15492)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/279)ویأتی ہذا الحدیث فی الأقضیة برقم (3624،3625)، وفی الحدود برقم (4450، 4451) (ضعیف)» (رجل مزینہ مجہول ہے)
وضاحت: ۱؎: باب کی ان حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر بوقت ضرورت مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔
Abu Hurairah said: The Jews came to the Prophet ﷺ and he was sitting in the mosque among his Companions. They said: O Abu al-Qasim, a man and a woman have committed adultery.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 488
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف رجل من مزينة: لم أعرفه وانظر الحديث الآتي (3624،4450) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 31
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے ساری زمین ذریعہ طہارت اور مسجد بنائی گئی ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف: 11969)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/145، 147، 248، 256) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ہر پاک زمین تیمم کرنے اور نماز پڑھنے کے لائق بنا دی گئی ہے، یہ صرف امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ ہم بالعموم ہر جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں، سوائے چند مخصوص مقامات کے جن کا ذکر آگے احادیث میں آ رہا ہے۔ پہلی امتوں کو اس کے لئے بڑا اہتمام کرنا پڑتا تھا، وہ صرف عبادت خانوں ہی میں نماز پڑھ سکتی تھیں، دوسری جگہوں پر نہیں۔
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود، اخبرنا ابن وهب، قال: حدثني ابن لهيعةويحيى بن ازهر، عن عمار بن سعد المرادي، عن ابي صالح الغفاري، ان عليا رضي الله عنه مر ببابل وهو يسير فجاءه المؤذن يؤذن بصلاة العصر، فلما برز منها امر المؤذن فاقام الصلاة، فلما فرغ، قال:" إن حبيبي صلى الله عليه وسلم نهاني ان اصلي في المقبرة ونهاني ان اصلي في ارض بابل فإنها ملعونة". (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ لَهِيعَةَوَيَحْيَى بْنُ أَزْهَرَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ الْمُرَادِيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْغِفَارِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَرَّ بِبَابِلَ وَهُوَ يَسِيرُ فَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ يُؤَذِّنُ بِصَلَاةِ الْعَصْرِ، فَلَمَّا بَرَزَ مِنْهَا أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ:" إِنَّ حَبِيبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانِي أَنْ أُصَلِّيَ فِي الْمَقْبَرَةِ وَنَهَانِي أَنْ أُصَلِّيَ فِي أَرْضِ بَابِلَ فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ".
ابوصالح غفاری کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ بابل سے گزر رہے تھے کہ ان کے پاس مؤذن انہیں نماز عصر کی خبر دینے آیا، تو جب آپ بابل کی سر زمین پار کر گئے تو مؤذن کو حکم دیا اس نے عصر کے لیے تکبیر کہی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبرستان میں اور سر زمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف: 10328) (ضعیف)» (اس کے راوی ”عمار“ ضعیف ہیں اور ”ابوصالح الغفاری“ کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ روایت اس باب کی صحیح روایت کے معارض ہے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ بفرض صحت اس سے مقصود یہ ہے کہ بابل میں سکونت اختیار نہ کی جائے یا یہ ممانعت خاص علی رضی اللہ عنہ کے لئے تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ یہاں کے لوگوں سے انہیں ضرر پہنچے گا۔
Narrated Ali ibn Abu Talib: Abu Salih al-Ghifari reported: Ali (once) passed by Babylon during his travels. The muadhdhin (the person who calls for prayer) came to him to call for the afternoon prayer. When he passed by that place, he commanded to announce for the prayer. After finishing the prayer he said: My affectionate friend (i. e. the Prophet) prohibited me to say prayer in the graveyard. He also forbade me to offer prayer in Babylon because it is accursed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 490
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف رواية أبي صالح الغفاري: سعيد بن عبد الرحمٰن عن علي مرسلة،قاله ابن يونس المصري،انظر التقريب (2356) وتاريخ ابن يونس المصري (1/ 208 ت 554) وتحفة التحصيل (ص 125) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 31