سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
23. باب مَا جَاءَ فِي الْمُشْرِكِ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ
23. باب: مشرک مسجد میں داخل ہو اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: An Idolater Entering The Masajid.
حدیث نمبر: 486
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عيسى بن حماد، حدثنا الليث، عن سعيد المقبري، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر، انه سمع انس بن مالك، يقول: دخل رجل على جمل فاناخه في المسجد ثم عقله، ثم قال:" ايكم محمد؟ ورسول الله صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم، فقلنا له: هذا الابيض المتكئ، فقال له الرجل: يا ابن عبد المطلب، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: قد اجبتك، فقال له الرجل: يا محمد، إني سائلك وساق الحديث".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْنَا لَهُ: هَذَا الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَبْتُكَ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي سَائِلُكَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اس نے اسے مسجد میں بٹھایا پھر اسے باندھا، پھر پوچھا: تم میں محمد کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ان (لوگوں) کے بیچ ٹیک لگائے بیٹھے تھے، ہم نے اس سے کہا: یہ گورے شخص ہیں جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں، پھر اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: میں نے تمہاری بات سن لی، (کہو کیا کہنا چاہتے ہو)، تو اس شخص نے کہا: محمد! میں آپ سے پوچھتا ہوں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: مسجد میں داخل ہونے والا شخص مشرک تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العلم 6 (63)، سنن النسائی/الصیام 1 (2094)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 194 (1402)، (تحفة الأشراف: 907)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 3 (10)، سنن الترمذی/الزکاة 2 (619)، مسند احمد (3/143، 193)، سنن الدارمی/الصلاة 140 (1470) (صحیح)» ‏‏‏‏

Anas bin Malik reported: A man entered the mosque on camel and made it kneel down, and then tied his leg with rope. He then asked: Who among you is Muhammad? The Messenger of Allah ﷺ was sitting leaning upon something among them. We said to him: This white (man) who is leaning. The man said: O son of Abd al-Muttalib. The Prophet ﷺ said; I already responded to you. The man (again) said: O Muhammad. I am asking you. The narrator then narrated the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 486


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (63)

   سنن أبي داود486إني سائلك وساق الحديث

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 486 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 486  
486۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح بخاری میں یہ روایت مفصل آئی ہے۔ اس نے کہا: میرے پوچھنے میں کچھ کرختگی ہو تو محسوس نہ فرمائیے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پوچھو کیا پوچھتے ہو؟ اس نے کہا: میں تمہیں تمہارے اور تم سے پہلوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کوطرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، بلاشبہ کہنے لگا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے تمہیں دن اور رات میں پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، بلاشبہ کہنے لگا: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا اللہ نے تم کو ہر سال اس مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں بلاشبہ۔ کہنے لگا: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے کہ ہمارے اغنیاء سے آپ زکوۃ لیں اور ہمارے فقراء میں بانٹ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں بلاشبہ۔ تو اس نے کہا: میں ایمان لاتا ہوں، ان باتوں پر جو آپ لے کر آئے ہیں اور میں اپنے پیچھے اپنی قوم کا نمائندہ ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور قبیلہ بن سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث: 63]
➋ اس حدیث سے اور دیگر درج ذیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم یہود و نصاریٰ ہندو یا مجوسی وغیرہ کوئی بھی ہوں، کسی بھی معقول ضرورت سے مسجدوں میں آ سکتے ہیں۔ البتہ قرآن مجید کی آیت کریمہ «إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا» [تو بة: 28]
مشرکین نجس ہیں تو اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں
اس سے مراد ان کی معنوی نجاست ہے۔ یعنی ان کا عقیدہ نجس ہے۔ اور اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم ہے کہ اب تک بیت اللہ پر کفار کا جو تسلط تھا، اسے توڑ دیا گیا ہے، تو ائندہ کے لئے یہ لوگ اپنے کفریہ شعائر کے ساتھ یا ان کے اظہار کے لئے یہاں نہ آنے پائیں، تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ بیت اللہ کی ظاہری و معنوی طہارت و حفاظت کا اہتمام کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 486   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.