وکیع نے سفیان سے اور انھوں نے سلمہ بن کُہیل روایت کی۔انھوں نے کہا: میں نے حضرت جندب علقی رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص (لوگوں کو) سناتاہے اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں (سب کو) سنوائےگا اور جو (اپناعمل) لوگوں کو دکھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں لوگوں کو دکھائےگا۔"
حضرت جندب علقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو لوگوں کو سنائے گا اللہ اس کی حرکت سنادے گا اور جوریاکاری کرےگا اللہ اس کی ریاکاری دکھلادےگا۔"
ملائی نے کہا: ہمیں سفیان نے اسی سند کے ساتھ حدیث کی، اور مزید کہا: اور میں (سلمہ بن کُہیل) نے (اس حدیث میں) ان کے سواکسی کو (صراحت سے) یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
امام صاحب یہ روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں،اس میں سلمہ بن کہیل کے اس قول کا اضافہ ہے،میں نے ان کے سوا یعنی جندب کے سوا کسی کو یہ کہتے نہیں سنا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،یعنی سلمہ بن کہیل کو صرف جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی حدیث سننے کا موقع ملا ہے اور کسی صحابی سے حدیث نہیں سنی۔
حدثنا سعيد بن عمرو الاشعثي ، اخبرنا سفيان ، عن الوليد بن حرب ، قال سعيد: اظنه، قال: ابن الحارث بن ابي موسى، قال: سمعت سلمة بن كهيل ، قال: سمعت جندبا ولم اسمع احدا، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم غيره، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: بمثل حديث الثوري،حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ حَرْبٍ ، قَالَ سَعِيدٌ: أَظُنُّهُ، قَالَ: ابْنُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبًا وَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: بِمِثْلِ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ،
سعید بن عمر واشعشی نے کہا: ہمیں سفیان نے ولید بن حرب۔سعیدنے کہا: میراخیال ہے انھوں (سفیان) نے کہا: (ولید) ابن حارث بن ابی موسیٰ۔سے روایت کی انھوں نے کہا: میں نے سلمہ بن کُہیل سے سنا انھوں نے کہا: میں نے حضرت جندب رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے، وہ کہتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا (آگے) جس طرح (سفیان) ثوری کی حدیث (7478) میں ہے۔
امام صاحب اپنے اُستاد،سعید بن عمرو ثقفی سے بیان کرتے ہیں کہ میرے خیال میں،میرے استاد،سفیان نے کہا،ولید بن حارث بن ابی موسیٰ نے سلمہ بن کہیل سے سنا کہ میں نے جندب سے سنا اور ان کےسوا کسی کو میں نے یہ کہتےنہیں سنا،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
بکر بن مضر نے ابن باد سے انھوں نے محمد بن ابرا ہیم سے انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: " (بعض اوقات) بندہ کوئی کلمہ کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے دوزخ میں اس سے بھی زیادہ دور اتر جاتا ہےجتنی دوری مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا،"انسان بعض دفعہ ایساکلمہ بولتاہے،جس سے دوزخ میں اتنا نیچے اترجاتاہے،جس کافاصلہ مشرق ومغرب کادرمیانی فاصلہ سے زیادہ ہے۔"
عبد العزیز دراوردی نے یزید بن رضی اللہ عنہ سے انھو ں نے محمد بن ابرا ہیم سے انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندہ کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے کہ اس کو واضح طور پر پتہ نہیں ہو تا کہ اس میں کیا ہے، اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اس سے زیادہ دور جاگرتا ہے جتنی دوری مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بندہ ایک ایساکلمہ بول دیتا ہے،جس کی حقیقت وگہرائی احاطہ پر غور نہیں کرتا،اس کے سبب وہ دوزخ میں اتنا نیچے گرجاتاہے کہ وہ فاصلہ مشرق ومغرب کے درمیان سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔"
حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن عبد الله بن نمير ، وإسحاق بن إبراهيم ، وابو كريب واللفظ لابي كريب، قال يحيى، وإسحاق: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن اسامة بن زيد ، قال: قيل له: الا تدخل على عثمان فتكلمه، فقال: اترون اني لا اكلمه إلا اسمعكم، والله لقد كلمته فيما بيني وبينه، ما دون ان افتتح امرا لا احب ان اكون اول من فتحه، ولا اقول لاحد يكون علي اميرا، إنه خير الناس بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " يؤتى بالرجل يوم القيامة، فيلقى في النار، فتندلق اقتاب بطنه، فيدور بها كما يدور الحمار بالرحى، فيجتمع إليه اهل النار، فيقولون يا فلان: ما لك الم تكن تامر بالمعروف وتنهى عن المنكر؟، فيقول: بلى، قد كنت آمر بالمعروف ولا آتيه وانهى عن المنكر وآتيه "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ يَحْيَى، وَإِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: قِيلَ لَهُ: أَلَا تَدْخُلُ عَلَى عُثْمَانَ فَتُكَلِّمَهُ، فَقَالَ: أَتَرَوْنَ أَنِّي لَا أُكَلِّمُهُ إِلَّا أُسْمِعُكُمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ كَلَّمْتُهُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ، مَا دُونَ أَنْ أَفْتَتِحَ أَمْرًا لَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ فَتَحَهُ، وَلَا أَقُولُ لِأَحَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ أَمِيرًا، إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقَى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِهِ، فَيَدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحَى، فَيَجْتَمِعُ إِلَيْهِ أَهْلُ النَّارِ، فَيَقُولُونَ يَا فُلَانُ: مَا لَكَ أَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ؟، فَيَقُولُ: بَلَى، قَدْ كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ "،
ابو معاویہ نے کہا: ہمیں اعمش نے شقیق سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت اسامہ بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: کہ ان سے کہاگیا: تم کیوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر بات نہیں کرتے؟ (کہ وہ لوگوں کی مخالفت کا ازالہ کریں) تو انھوں نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں تمھیں نہیں سنواتا تو میں ان سے بات نہیں کرتا؟اللہ کی قسم!میں نے ان سے بات کی جو میرے اور ان کے درمیان تھی اس کے بغیرکہ میں کسی ایسی بات کا آغاز کروں جس میں سب سے پہلے دروازہ کھولنے والا میں بنوں۔میں کسی سے جو مجھ پر امیر ہویہ نہیں کہتا کہ وہ سب انسانوں میں سے بہتر ہے۔ اس بات کے بعد جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، آپ فرما رہے تھے۔"قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جا ئے گا، اس کے پیٹ کی انتڑیاں باہر نکل پڑیں گی۔وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد لگاتا ہے۔ اہل جہنم اس کے پاس جمع ہو جا ئیں گے اور اس سے کہیں گے فلاں!تمھاراے ساتھ کیاہوا؟کیا تو نیکیوں کی تلقین اور برائیوں سے منع نہیں کیا کرتا تھا؟ وہ کہے گا ایسا ہی تھا، میں نیکیوں کا حکم دیتا تھا خود (نیکی کے کام) نہیں کرتا تھا اور برائیوں سے روکتا تھا اور خود ان کا ارتکاب کرتاتھا۔"
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ان سے کہاگیا:تم کیوں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاکر بات نہیں کرتے؟تو انھوں نے کہا:کیا تم سمجھتے ہو کہ میں تمھیں نہیں سنواتا تو میں ان سے بات نہیں کرتا؟اللہ کی قسم!میں نے ان سے بات کی جو میرے اور ان کے درمیان تھی اس کے بغیرکہ میں کسی ایسی بات کا آغاز کروں جس میں سب سے پہلے دروازہ کھولنے والا میں بنوں۔میں کسی سے جو مجھ پر امیر ہویہ نہیں کہتا کہ وہ سب انسانوں میں سے بہتر ہے۔ اس بات کے بعد جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی،آپ فر رہے تھے۔"قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جا ئے گا،اس کے پیٹ کی انتڑیاں باہر نکل پڑیں گی۔وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد لگاتا ہے۔ اہل جہنم اس کے پاس جمع ہو جا ئیں گے اور اس سے کہیں گے فلاں!تمھاراے ساتھ کیاہوا؟کیا تو نیکیوں کی تلقین اور برائیوں سے منع نہیں کیا کرتا تھا؟ وہ کہے گا ایسا ہی تھا،میں نیکیوں کا حکم دیتا تھا خود نہیں کرتا تھا اور برائیوں سے روکتا تھا اور خود ان کا ارتکاب کرتاتھا۔"
جریر نے اعمش سے اور انھوں نے ابو وائل سے روایت کی کہا: ہم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ایک آدمی نے کہا: آپ کو کیا چیز اس سے مانع ہے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں اور جووہ کررہے ہیں اس کے بارے میں ان سے بات کریں؟اس کے بعد اسی (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی۔
ابووائل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتےہیں،ہم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرتھے،تو ایک آدمی نے کہا،کون سی چیز تمہیں اس بات سے روکتی ہے کہ آپ عثمان کے پاس جائیں اور ان کے رویہ،طرزعمل کے بارے میں ان سے گفتگو کریں،"آگے مذکورہ بالاحدیث ہے۔
حدثني زهير بن حرب ، ومحمد بن حاتم ، وعبد بن حميد ، قال وعبد بن حميد: حدثني، وقال الآخران: حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: قال سالم ، سمعت ابا هريرة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " كل امتي معافاة إلا المجاهرين، وإن من الإجهار ان يعمل العبد بالليل عملا، ثم يصبح قد ستره ربه، فيقول يا فلان: قد عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، فيبيت يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه "، قال زهير: وإن من الهجار.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ وَعَبْدُ بْنُ حميدٍ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: قَالَ سَالِمٌ ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " كُلُّ أُمَّتِي مُعَافَاةٌ إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ الْإِجْهَارِ أَنْ يَعْمَلَ الْعَبْدُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا، ثُمَّ يُصْبِحُ قَدْ سَتَرَهُ رَبُّهُ، فَيَقُولُ يَا فُلَانُ: قَدْ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، فَيَبِيتُ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ "، قَالَ زُهَيْرٌ: وَإِنَّ مِنَ الْهِجَارِ.
سالم نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے۔"میری تمام امت کو (گناہوں پر) معافی ملے گی۔سوائے ان لوگوں کے جو (اپنے گناہوں کا) اعلان کرنے والے ہیں۔ اعلان میں یہ ہے کہ بندہ رات کو ایک کام کرے پھر صبح ہو تو اللہ نے اس کا پردہرکھا ہوا ہو اور وہ خود کہے اے فلاں!میں نے پچھلی رات ایسا ایساکام کیا حالانکہ اس نے رات گزاردی اس کے رب نے اس پر پردہ ڈالے رکھا اور وہ صبح کرتا ہے تو وہ اپنے رب کا ڈالا ہوا پردہ خود اتاردیتا ہے۔"زہیر نے (اجہاریعنی اعلان کے بجائے) وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ (یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے) کہا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا،میری تمام امت کومعافی ملے گی۔سوائے ان لوگوں کے جو (اپنے گناہوں کا)اعلان کرنے والے ہیں۔ اعلان میں یہ ہے کہ بندہ رات کو ایک کام کرے پھر صبح ہو تو اللہ نے اس کا پردہرکھا ہوا ہو اور وہ خود کہے اے فلاں!میں نے پچھلی رات ایسا ایساکام کیا حالانکہ اس نے رات گزاردی اس کے رب نے اس پر پردہ ڈالے رکھا اور وہ صبح کرتا ہے تو وہ اپنے رب کا ڈالا ہوا پردہ خود اتاردیتا ہے۔"زہیر نے(اجهاریعنی اعلان کے بجائے) وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ (یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے)کہا۔
حفص بن غیاث نے سلیمان تیمی سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی تو آپ نے ایک آدمی کو چھینک کی دعانہ دی۔ آپ نے جس کو چھینک کی دعانہ دی تھی اس نے کہا: فلاں کو چھینک آئی تو آپ نے اس پر اسے دعادی اور مجھے چھینک آئی تو آپ نے مجھے اس پر دعا نہ دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس نے الحمد اللہ کہا تھا اور تم نے الحمداللہ نہیں کیا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی تو آپ نے ایک آدمی کو چھینک کی دعانہ دی۔ آپ نے جس کو چھینک کی دعانہ دی تھی اس نے کہا: فلاں کو چھینک آئی تو آپ نے اس پر اسے دعادی اور مجھے چھینک آئی تو آپ نے مجھے اس پر دعا نہ دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس نے الحمد اللہ کہا تھا اور تم نے الحمداللہ نہیں کہا۔"