جریر نے اعمش سے اور انھوں نے ابو وائل سے روایت کی کہا: ہم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ایک آدمی نے کہا: آپ کو کیا چیز اس سے مانع ہے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں اور جووہ کررہے ہیں اس کے بارے میں ان سے بات کریں؟اس کے بعد اسی (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی۔
ابووائل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتےہیں،ہم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرتھے،تو ایک آدمی نے کہا،کون سی چیز تمہیں اس بات سے روکتی ہے کہ آپ عثمان کے پاس جائیں اور ان کے رویہ،طرزعمل کے بارے میں ان سے گفتگو کریں،"آگے مذکورہ بالاحدیث ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7484
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں گفتنی اور نا گفتنی باتیں کی جاتی تھیں اور خصوصی طور پر ان کے اقربا پروری کو اچھالا جاتا تھا، چونکہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ان سے خوش گوار تعلقات و مراسم تھے، اس لیے ان سے یہ کہا گیا کہ آپ ان سے گفتگو کریں اور دوسروں کی باتوں سے آگاہ کریں، تو انہوں نے کہا، میں نے اسلامی اصولوں اور آداب کے مطابق قابل گفتگو معاملات میں ان سے علیحدگی میں گفتگو کی ہے اور امراوحکام سے گفتگو کاصحیح طریقہ یہی ہے کہ دینی خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبہ کے تحت صورت حال سے آگاہ کرکےنصیحت کی جائے، ان پر کھلم کھلا ناشائستہ اور نازیبا الفاظ میں طعن وتشنیع کرنا اور کیچڑ اچھالنا تو فتنہ کا دروازہ کھولنا ہے، جس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے اور ایک امیر سب لوگوں سے بہتر نہیں ہوجاتا کہ اس کونصیحت و خیرخواہی کی ضرورت ہی نہ رہے، بلکہ وہ تو بعض دفعہ اس حدیث کا بھی مصداق بن سکتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس کا فرض منصبی ہے، اس کی ادائیگی کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کو نیکی کا حکم دے اور خود وہ نیکی نہ کرسکے، دوسروں کو کسی برائی سے روکے، جبکہ خود اس کا مرتکب ہو رہا ہو أقتاب، قِتب کی جمع ہے، انتڑیاں، جس طرح نیکی کا حکم دینا نیک کام ہے اس طرح نیکی نہ کرنا، جبکہ وہ نیکی اسے کرنی چاہیے، گناہ ہے، اس طرح جس طرح برائی سے روکنا نیکی ہے، اس طرح برائی کا ارتکاب کرنا جرم وگناہ ہے، طاقت و قدرت کی صورت میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے قوت استعمال کرنا ضروری ہے اور یہ بات امراء وحکام کو حاصل ہے اور اگر طاقت وقوت کا استعمال ممکن نہ ہو، کیونکہ اختیارو اقتدارحاصل نہیں ہے، تو پھر یہ کام زبان کے ذریعہ کیا جائے گا اور علماء کا یہی فریضہ ہے اور اگر زبان سے یہ کام ممکن نہ رہے، تو دل میں اس کی ادائیگی کےلیے کوئی تدبیر اور حیلہ سوچنا چاہیے، جس کو کام میں لاکر یہ فریضہ اداہو سکے۔