حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہوئے سنا:"یقیناً تم اللہ کو ملوگے، ننگے جسم، غیر مختون، پیدل چل کر۔" زہیر کی حدیث میں خطبہ کا ذکر نہیں ہے۔"
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا وكيع . ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي كلاهما، عن شعبة . ح وحدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن المغيرة بن النعمان ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا بموعظة، فقال: " يا ايها الناس إنكم تحشرون إلى الله حفاة عراة غرلا، كما بدانا اول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين سورة الانبياء آية 104، الا وإن اول الخلائق يكسى يوم القيامة إبراهيم عليه السلام، الا وإنه سيجاء برجال من امتي، فيؤخذ بهم ذات الشمال، فاقول: يا رب اصحابي، فيقال: إنك لا تدري ما احدثوا بعدك، فاقول: كما قال العبد الصالح: وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم، فلما توفيتني كنت انت الرقيب عليهم وانت على كل شيء شهيد، إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك انت العزيز الحكيم سورة المائدة آية 118، قال: فيقال لي: إنهم لم يزالوا مرتدين على اعقابهم منذ فارقتهم "، وفي حديث وكيع ومعاذ، فيقال: إنك لا تدري ما احدثوا بعدك.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا بِمَوْعِظَةٍ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تُحْشَرُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104، أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام، أَلَا وَإِنَّهُ سَيُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي، فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ، إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118، قَالَ: فَيُقَالُ لِي: إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ "، وَفِي حَدِيثِ وَكِيعٍ وَمُعَاذ، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ.
وکیع اور معاذ دونوں نے ہمیں شعبہ سے حدیث بیان کی، نیز محمد بن مثنیٰ اور محمد بن بشار نے۔الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں۔کہا: ہمیں محمد بن جعفرنے شعبہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے مغیرہ بن نعمان سے، انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نصیحت آموز خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: "اے لوگو! تم کو اللہ کے سامنے ننگے پاؤں بے لباس بے ختنہ اکٹھا کیا جا ئے گا۔ (قرآن مجید میں ہے): "جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا تھا اسی کو دوبارہ لو ٹائیں گے۔ یہ ہم پر (پختہ) وعدہ ہے ہم یہی کرنے والے ہیں۔"یاد رکھو!مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنھیں لباس پہنایا جا ئے گا وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے۔اور یاد رکھو!میری امت میں سے کچھ لوگ لائے جائیں گے، پھر انھیں پکڑکر بائیں (جہنم کی) طرف لے جایا جائے گا۔ میں کہوں گا۔ میرے رب! میرے ساتھی ہیں۔تو کہا جا ئےگا۔آپ کو معلوم نہیں انھوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیانئی باتیں نکالی تھیں۔تو وہی کچھ کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) کہیں گے: " میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان کے درمیان رہا جب تونے مجھے اٹھالیا تو ان پر تو نگہبان تھا۔اگر تو انھیں عذاب دے تو بے شک یہ تیرے بندے ہیں اور اگر توانھیں بخش دے تو یقیناً تو ہی بڑا غالب اور بڑا دانا ہے۔ "فرمایا: "تومجھ سے کہا جا ئے گا جب سے آپ ان سے جدا ہوئے تھے۔یہ مسلسل اپنی ایڑیوں پر لوٹتے چلے گئے۔اور وکیع اور معاذ کی حدیث میں ہے: "تو کہا جائے گا۔آپ نہیں جا نتے کہ انھوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا نئی باتیں نکالی تھیں۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے ا بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتےہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نصیحت آموز خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:"اے لوگو! تم کو اللہ کے سامنے ننگے پاؤں بے لباس بے ختنہ اکٹھا کیا جا ئے گا۔(قرآن مجید میں ہے):"جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا تھا اسی کو دوبارہ لو ٹائیں گے۔ یہ ہم پر (پختہ)وعدہ ہے ہم یہی کرنے والے ہیں۔"یاد رکھو!مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنھیں لباس پہنایا جا ئے گا وہ ابراہیم ؑ ہوں گے۔اور یاد رکھو!میری امت میں سے کچھ لوگ لائے جائیں گے،پھر انھیں پکڑکر بائیں (جہنم کی)طرف لے جایا جائے گا۔ میں کہوں گا۔ میرے رب! میرے ساتھی ہیں۔تو کہا جا ئےگا۔آپ کو معلوم نہیں انھوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیانئی باتیں نکالی تھیں۔تو وہی کچھ کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ ؑ) کہیں گے:" میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان کے درمیان رہا جب تونے مجھے اٹھالیا تو ان پر تو نگہبان تھا۔اگر تو انھیں عذاب دے تو بے شک یہ تیرے بندے ہیں اور اگر توانھیں بخش دے تو یقیناً تو ہی بڑا غالب اور بڑا دانا ہے۔ (المائدہ آیت نمبر 170 اور 118) آپ نےفرمایا:"مجھے جواب دیا جائےگا، جب سے آپ ان سے جدا ہوئے تھے۔یہ مسلسل اپنی ایڑیوں پر لوٹتے چلے گئے۔اور وکیع اور معاذ کی حدیث میں ہے:"تو کہا جائے گا۔آپ نہیں جا نتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا نئی باتیں نکالی تھیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: " (قیامت کے دن) لوگوں کو تین طریقوں سے (اللہ کے سامنے) اکٹھا کیا جائے گا۔ (کچھ لوگ) خوف ورجا کے عالم میں ہوں گے اور (وہ لوگ جنھیں حاضری کے وقت بھی عزت نصیب ہوگی۔حسب مراتب) وہ (افراد) ایک اونٹ پر (سوار) ہوں گے اور تین ایک اونٹ پر اور چار ایک اونٹ پر اور دس ایک اونٹ پر (سوارہوکر میدان حشر میں آئیں گے) اور باقی سب لوگوں کو آگ (اپنے گھیرے میں) اکٹھا کر کے لائے گی۔ جہاں ان پر رات آئے گی، وہ (آگ) رات کو بھی ان کے ساتھ ہو گی، جہاں انھیں دوپہر ہوگی وہ دوپہر کو بھی ان کو ساتھ رکے گی، وہ جہاں صبح کریں گےوہ صبح کے وقت بھی ان کے ساتھ ہوگی۔ اور جہاں وہ لوگ شام کریں گے وہ شام کو بھی ان کے ساتھ ہوگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لوگوں کا حشر تین گروہوں یا تین جماعتوں کی شکل میں ہو گا، ایک قسم، رغبت رکھنے والے (اللہ کی رحمت کی)ڈرنے والے (اپنے گناہوں کے مواخذہ سے) دوسری قسم، دو ایک اونٹ پر تین ایک اونٹ پر، چار ایک اونٹ پر حتی کہ دس ایک اونٹ پر، تیسری قسم، باقی لوگ جن کو آگ جمع کرے گی، جہاں وہ رات بسر کریں گے،وہ بھی ان کے ساتھ رات گزارے فی، جہاں وہ قیلولہ کریں گے، وہیں وہ آرام کرے گی، جہاں وہ صبح کریں گے، ان کے ساتھ ہی وہ صبح کرے گی اور جہاں وہ شام کریں گے ان کے ساتھ وہیں آگ شام کرے گی۔"
زہیر بن حرب محمد بن مثنیٰ اور عبید اللہ بن سعید نے ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس آیت کی تفسیر) روایت کی: "اس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہاں تک کہ ان میں سے کوئی اس طرح کھڑا ہو گا کہ اس کا پسینہ اس کے کانوں کے درمیان تک ہو گا۔"اور ابن مثنیٰ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ("ان میں سے کوئی "کے بجائے) فرمایا: " لوگ کھڑے ہوں گے۔ انھوں نے (ابن مثنیٰ) نے (آیت میں) یوم (اس دن) کا ذکرنہیں کیا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، جس دن لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں، گے، (المطففین آیت نمبر6)آپ نے فرمایا:"ان میں سے بعض نصف کانوں تک پسینہ میں کھڑے ہوں گے۔"ابن المثنیٰ کی روایت میں یقوم الناس سے پہلے یوم کا لفظ نہیں ہے۔
موسیٰ بن عقبہ ابن عون امام مالک ایوب اور صالح سب نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کے ہم معنی روایت بیان کی جو عبید اللہ نے نافع سے بیان کی ہے البتہ موسیٰ بن عقبہ اور صالح کی روایت ہے: " یہاں تک کہ ان میں سے کوئی شخص آدھے کانوں تک اپنے پسینے میں ڈوبا ہو گا۔"
امام صاحب مذکورہ بالا روایت، اپنے بہت سے اساتذہ کی سندوں سے نافع رحمۃ اللہ علیہ کے واسطہ ہی سے بیان کرتے ہیں،موسیٰ بن عقبہ اور صالح کے الفاظ یہ ہیں۔"ان میں بعض اپنے نصف کانوں تک پسینہ میں غائب ہو جائے گا۔"
عبد العزیز بن محمد نے ثور سے انھوں نے ابو الغیث سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناًپسینہ۔قیامت کے دن زمین میں دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤکے ستر گنا فاصلے تک چلا جائے گا اور لوگوں کے منہ یا ان کے کانوں تک پہنچاہو گا۔ "ثور کو شک ہے کہ انھوں (ابو الغیث) نے دونوں میں سے کون سے الفاظ کہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت کے دن پسینہ (70)باغ تک زمین میں چلایا جائے گااور وہ لوگوں کے مونہوں یا ان کے کانوں تک پہنچے گا۔" ثور کو شک ہے کہ استاد نے کون سا لفظ کہا۔
حدثنا الحكم بن موسى ابو صالح ، حدثنا يحيى بن حمزة ، عن عبد الرحمن بن جابر ، حدثني سليم بن عامر ، حدثني المقداد بن الاسود ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " تدنى الشمس يوم القيامة من الخلق حتى تكون منهم كمقدار ميل "، قال سليم بن عامر: فوالله ما ادري ما يعني بالميل امسافة الارض ام الميل الذي تكتحل به العين، قال: " فيكون الناس على قدر اعمالهم في العرق، فمنهم من يكون إلى كعبيه، ومنهم من يكون إلى ركبتيه، ومنهم من يكون إلى حقويه، ومنهم من يلجمه العرق إلجاما "، قال: واشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى فيه.حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنِي الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تُدْنَى الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ حَتَّى تَكُونَ مِنْهُمْ كَمِقْدَارِ مِيلٍ "، قَالَ سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ: فَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا يَعْنِي بِالْمِيلِ أَمَسَافَةَ الْأَرْضِ أَمْ الْمِيلَ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَيْنُ، قَالَ: " فَيَكُونُ النَّاسُ عَلَى قَدْرِ أَعْمَالِهِمْ فِي الْعَرَقِ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى كَعْبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى حَقْوَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا "، قَالَ: وَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ.
عبد الرحمٰن بن جابر سے روایت ہے کہا مجھے نیلم بن عامر نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت مقدادبن اسود رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "قیامت کے دن سورج مخلوقات کے بہت نزدیک آجائے گا حتی کہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہو گا۔ نیلم بن عامر نے کہا: اللہ کی قسم!مجھے معلوم نہیں کہ میل سے ان (مقداد رضی اللہ عنہ) کی مراد مسافت ہے یا وہ سلائی جس سے آنکھ میں سرمہ ڈالاجاتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں (ڈوبے) ہوں گےان میں سے کوئی اپنے دونوں ٹخنوں تک کوئی اپنے دونوں گھٹنوں تک کوئی اپنے دونوں کولہوں تک اور کوئی ایسا ہو گا جسے پسینے نے لگام ڈال رکی ہو گی۔" (مقداد رضی اللہ عنہ) کہا: اور (ایسا فرماتےہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"قیامت کے دن سورج مخلوق سے قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل کے بقدر جائے گا۔"سلیم بن عامر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا میل سے ان کی مراد کیا تھی کیا زمین کی مسافت یا وہ میل جس سے آنکھوں میں سرمہ ڈالا جاتا ہے آپ نے فرمایا:"لوگ اپنے اعمال کے بقدرپسینہ میں شرابورہوں گے(یعنی جس قدر اعمال زیادہ برے ہوں گے، اس قدر پسینہ زیادہ چھوٹے گا) ان میں بعض ٹخنوں تک پسینہ میں ہوں گے اور ان میں سے بعض کا پسینہ ان کے گھٹنوں تک ہو گا اور بعض کا ان کے کولہوں کے اوپر تک (یعنی کمر تک)اور بعض وہ ہوں گے جن کا پسینہ ان کے منہ کا اچھی طرح لگام بن رہا ہو گا۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کر کے دکھایا۔
ابو غسان مسمعی محمد بن مثنیٰ اور محمد بن بشار بن عثمان نے ہمیں حدیث بیان کی۔ الفاظ ابو غسان اور ابن مثنیٰ کے ہیں دونوں نے کہا: معاذ بن ہشام نے ہمیں حدیث بیان کی کہا: مجھے میرے والد نے قتادہ سے حدیث بیان کی انھوں نے مطرف بن عبد اللہ بن شخیرسے اور انھوں نے حضرت عیاض بن حمادمجاشعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: "سنو!میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ان باتوں کی تعلیم دوں جو تمھیں معلوم نہیں اور اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ان کا علم عطا کیا ہے (اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے) ہر مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا (اس کی قسمت میں لکھا) حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو (حق کے لیے) یکسو پیدا کیا پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انھیں ان کے دین سے دور کھینچ لیا اور جو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا انھوں نے اسے ان کے لیے حرام کر دیا اور ان (بندوں) کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں جس کے لیے میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تھی۔اور اللہ نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی تو اہل کتاب کے (کچھ) بچے کھچے لوگوں کے سوا باقی عرب اور عجم سب پر سخت ناراض ہوا اور (مجھ سے) فرمایا: میں نے آپ کو اس لیے مبعوث کیا کہ میں آپ کی اور آپ کے ذریعے سے دوسروں کی آزمائش کروں اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی دھو (کر مٹا) نہیں سکتا، آپ سوتے ہوئے بھی اس کی تلاوت کریں گے اور جاگتے ہوئے بھی اور اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں قریش کو (ان کے معبودوں اور ان آباء واجداد کے شرک اور گناہوں پر عار دلاتے ہوئے انھیں) جلاؤں میں نے کہا: میرے رب وہ میرے سر کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے روٹی کی طرح کر دیں گے۔تو (اللہ نے) فرمایا: آپ انھیں باہر نکالیں جس طرح انھوں نے آپ کو باہر نکالا اور ان سے لڑائی کریں ہم آپ کو لڑوائیں گےاور (اللہ کی راہ میں) خرچ کریں آپ پر خرچ کیا جائے گا اور آپ لشکر بھیجیں ہم اس جیسے پانچ لشکربھیجیں گے اور جو لوگ آپ کے فرماں بردار ہیں ان کے ذریعے سے نافرمانوں کے خلاف جنگ کریں۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: اہل جنت تین (طرح کے لوگ) ہیں ایسا سلطنت والا جو عادل ہے صدقہ کرنے والا ہے اسے اچھائی کی توفیق دی گئی ہے۔ اور ایسا مہربان شخص جو ہر قرابت دار اور ہر مسلمان کے لیے نرم دل ہے اور وہ عفت شعار (برائیوں سے بچ کر چلنے والا) جو عیال دارہے، (پھر بھی) سوال سے بچتاہے۔فرمایا: "اور اہل جہنم پانچ (طرح کے لوگ) ہیں وہ کمزور جس کے پاس (برائی سے) روکنے والی (عقل عفت، حیا، غیرت) کوئی چیز نہیں جوتم میں سے (برے کاموں میں دوسروں کے) پیچھے لگنے والے لوگ ہیں (حتیٰ کہ) گھر والوں اور مال کے پیچھے بھی نہیں جاتے (ان کی بھی پروا نہیں کرتے) اور ایسا خائن جس کا کوئی بھی مفاد چاہے بہت معمولی ہو۔ (دوسروں کی نظروں سے) اوجھل ہوتا ہےتووہ اس میں (ضرور) خیانت کرتاہے۔ اور ایسا شخص جو صبح شام تمھارے اہل وعیال اور مال کے بارے میں تمھیں دھوکادیتا ہے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخل یا جھوٹ کا بھی ذکر فرمایا۔"اور بدطینت بد خلق۔"اور ابو غسان نے اپنی حدیث میں یہ ذکر نہیں کیا: "آپ خرچ کریں تو عنقریب آپ پر خرچ کیا جا ئے گا۔"
حضرت عیاض بن حمادمجاشعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا:"سنو!میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ان باتوں کی تعلیم دوں جو تمھیں معلوم نہیں اور اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ان کا علم عطا کیا ہے (اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے)ہر مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا (اس کی قسمت میں لکھا) حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو(حق کے لیے) یکسو پیدا کیا پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انھیں ان کے دین سے دور کھینچ لیا اور جو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا انھوں نے اسے ان کے لیے حرام کر دیا اور ان (بندوں)کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں جس کے لیے میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تھی۔اور اللہ نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی تو اہل کتاب کے(کچھ)بچے کھچے لوگوں کے سوا باقی عرب اور عجم سب پر سخت ناراض ہوا اور (مجھ سے)فرمایا:میں نے آپ کو اس لیے مبعوث کیا کہ میں آپ کی اور آپ کے ذریعے سے دوسروں کی آزمائش کروں اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی دھو(کر مٹا) نہیں سکتا،آپ سوتے ہوئے بھی اس کی تلاوت کریں گے اور جاگتے ہوئے بھی اور اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں قریش کو(ان کے معبودوں اور ان آباء واجداد کے شرک اور گناہوں پر عار دلاتے ہوئے انھیں)جلاؤں میں نے کہا: میرے رب وہ میرے سر کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے روٹی کی طرح کر دیں گے۔تو(اللہ نے)فرمایا:آپ انھیں باہر نکالیں جس طرح انھوں نے آپ کو باہر نکالا اور ان سے لڑائی کریں ہم آپ کو لڑوائیں گےاور (اللہ کی راہ میں)خرچ کریں آپ پر خرچ کیا جائے گا اور آپ لشکر بھیجیں ہم اس جیسے پانچ لشکربھیجیں گے اور جو لوگ آپ کے فرماں بردار ہیں ان کے ذریعے سے نافرمانوں کے خلاف جنگ کریں۔(پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا:اہل جنت تین(طرح کے لوگ)ہیں ایسا سلطنت والا جو عادل ہے صدقہ کرنے والا ہے اسے اچھائی کی توفیق دی گئی ہے۔ اور ایسا مہربان شخص جو ہر قرابت دار اور ہر مسلمان کے لیے نرم دل ہے اور وہ عفت شعار(برائیوں سے بچ کر چلنے والا)جو عیال دارہے،(پھر بھی) سوال سے بچتاہے۔فرمایا:"اور اہل جہنم پانچ (طرح کے لوگ)ہیں وہ کمزور جس کے پاس (برائی سے) روکنے والی (عقل عفت،حیا،غیرت)کوئی چیز نہیں جوتم میں سے (برے کاموں میں دوسروں کے)پیچھے لگنے والے لوگ ہیں (حتیٰ کہ)گھر والوں اور مال کے پیچھے بھی نہیں جاتے(ان کی بھی پروا نہیں کرتے) اور ایسا خائن جس کا کو ئی بھی مفاد چاہے بہت معمولی ہو۔ (دوسروں کی نظروں سے) اوجھل ہوتا ہےتووہ اس میں (ضرور)خیانت کرتاہے۔ اور ایسا شخص جو صبح شام تمھارے اہل وعیال اور مال کے بارے میں تمھیں دھوکادیتا ہے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخل یا جھوٹ کا بھی ذکر فرمایا۔"اور بدطینت بد خلق۔"اور ابو غسان نے اپنی حدیث میں یہ ذکر نہیں کیا:"آپ خرچ کریں تو عنقریب آپ پر خرچ کیا جا ئے گا۔"
ہمیں یحییٰ بن سعید نے دستوائی (کپڑے بیچنے) والے ہشام سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں قتادہ نے مطرف سے اور انھوں نے حضرت عیاض بن حماد رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا پھر حدیث بیان کی اور اس کے آخر میں کہا: یحییٰ نے کہا: شعبہ نے قتادہ سے روایت کرتے ہوئے کہا: انھوں (قتادہ) نے کہا: میں نے اس حدیث میں (جو بیان ہوا وہ خود) مطرف سے سنا۔
حضرت عیاض بن حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطاب فرمایاآگے مذکورہ بالا حدیث ہے اور قتادہ کے اس حدیث کے طرف سے سماع کی تصریح ہے۔(قتادہ مدلس راوی)ہے)