حدثني زهير بن حرب ، حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، اخبرنا ثابت ، قال: سمعت انسا ، يقول: عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يبقى من الجنة ما شاء الله ان يبقى، ثم ينشئ الله تعالى لها خلقا مما يشاء ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا ، يَقُولُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَبْقَى مِنَ الْجَنَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَبْقَى، ثُمَّ يُنْشِئُ اللَّهُ تَعَالَى لَهَا خَلْقًا مِمَّا يَشَاءُ ".
ثابت نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں سے جس حصے کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ باقی بچ جائے وہ باقی بچ جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے، جہاں سے چاہے گا، مخلوق پیدا کردے گا۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جنت کا جس قدر حصہ منظور ہو گا، بچا رہے گا پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے جیسی مخلوق چاہے گا پیدا کرے گا۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي سعيد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجاء بالموت يوم القيامة كانه كبش املح " زاد ابو كريب " فيوقف بين الجنة والنار " واتفقا في باقي الحديث، فيقال يا اهل الجنة: هل تعرفون هذا؟ فيشرئبون وينظرون، ويقولون: نعم هذا الموت، قال: ويقال يا اهل النار: هل تعرفون هذا؟، قال: فيشرئبون وينظرون، ويقولون: نعم هذا الموت، قال: فيؤمر به فيذبح، قال: ثم يقال: يا اهل الجنة خلود فلا موت، ويا اهل النار خلود فلا موت، قال: ثم قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم وانذرهم يوم الحسرة إذ قضي الامر وهم في غفلة وهم لا يؤمنون سورة مريم آية 39 واشار بيده إلى الدنيا "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُجَاءُ بِالْمَوْتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ كَبْشٌ أَمْلَحُ " زَادَ أَبُو كُرَيْبٍ " فَيُوقَفُ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ " وَاتَّفَقَا فِي بَاقِي الْحَدِيثِ، فَيُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، وَيَقُولُونَ: نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ: وَيُقَالُ يَا أَهْلَ النَّارِ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟، قَالَ: فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ، وَيَقُولُونَ: نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ: فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُذْبَحُ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لا يُؤْمِنُونَ سورة مريم آية 39 وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الدُّنْيَا "،
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے ہمیں حدیث بیان کی۔دونوں کے الفاظ ملتے جلتے ہیں۔دونوں نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث بیان کی۔انھوں نے ابوصالح سے اور انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن موت کو اس طرح لایاجائے گا جیسے وہ سیاہ وسفید مینڈھا ہو۔ابو کریب نے مزید یہ کہا۔ چنانچہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان میں کھڑا کردیا جائے گا۔باقی ماندہ حدیث (کے الفاظ) میں دونوں متفق ہیں۔تو (اعلان کرنے والا پکار کر) کہے گا: اے جنت والو! کیا اسے پہچانتے ہو؟تو وہ جھانکیں گے، دیکھیں گے اور کہیں گے: ہاں۔یہ موت ہے۔فرمایا: پھر کہا جائے گا: اے جہنم والو! کیا اسے پہچانتے ہو؟تو وہ جھانکیں گے، دیکھیں گے اور کہیں گے، ہاں، یہ موت ہے۔فرمایا: پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے ذبح کردیا جائے گا۔فرمایا: پھر کہاجائے گا: اے جنت والو! (اب) دوام ہی دوام ہے موت نہیں ہےاور اے جہنم والو! (اب) دوام ہی دوام ہے، موت نہیں ہے۔"کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ آیت) پڑھی: "ان کو حسرت کے دن سے ڈرائیے جب معاملہ نپٹا دیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے۔"اور آپ نے اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ فرمایا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا، گویا کہ وہ سر می مینڈھا ہے، ابو کریب نے یہ اضاٖفہ کیا، چنانچہ اسے جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائےگا۔ (باقی حدیث میں ابن ابی شیبہ اور ابو کریب متفق ہیں) تو کہا جائے گا، اے جنتیو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟چنانچہ وہ سراوپر اٹھائیں گے اور دیکھ کر کہیں گے،ہاں یہ موت ہے اور کہا جائے گا، اے دوزخیو!کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے۔ ہاں یہ موت ہے تو اس کے ذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر کہا جائے گا۔اے اہل جنت!ہمیشگی ہے، موت نہیں آئے گی۔اور اے اہل دوزخ!ہمیشگی ہے موت نہیں ہے۔"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی،"انہیں حسرت کے دن سے ڈرائیے، جب ہر کام کا فیصلہ کیا جائےگا، جبکہ اب یہ لوگ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لارہے۔"(مریم آیت 39) اور اپنے،اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ کیا۔
حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي سعيد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا ادخل اهل الجنة الجنة واهل النار النار قيل يا اهل الجنة، ثم ذكر بمعنى حديث ابي معاوية، غير انه قال: فذلك قوله عز وجل ولم يقل ثم قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يذكر ايضا واشار بيده إلى الدنيا.حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أُدْخِلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ قِيلَ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَمْ يَقُلْ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَيْضًا وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الدُّنْيَا.
ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو صالح سے، اور انھوں نے ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں داخل کردیے جائیں گے۔تو کہا جائے گا اے اہل جنت!"اس کے بعد ابو معاویہ کی حدیث کے ہم معنی بیان کیا، مگر انھوں نے کہا: "یہی (اسی کے مطابق) ہے اس (اللہ) عزوجل کا فرمان۔"اورانھوں نے نہیں کہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ آیت) پڑھی اور (اسی طرح) انھوں نے یہ بھی ذکر نہیں کیا کہ آپ کے اپنے ہاتھ سے د نیا کی طرف اشارہ فرمایا۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب اہل جنت کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور اہل دوزخ کو آگ میں کہا جائےگا، اے اہل جنت!"پھر مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کی ہاں اتنا فرق ہے کہ آپ نے فرمایا:"اللہ عزوجل کے اس قول میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔"یہ نہیں کہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اور اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ کرنا بھی بیان نہیں کیا۔
نافع نے ہمیں حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ (ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اہل جنت کو جنت میں داخل کرے گا اور اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرے گا۔پھر ان کےدرمیان ایک اعلان کرنے والا کھڑا ہوکر اعلان کرے گا: اے اہل جنت!اب موت نہیں ہے، اور اے اہل دوزخ!اب موت نہیں ہے ہر شخص جہاں ہے وہیں ہمیشہ رہنے والا ہے۔"
حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اللہ اہل جنت کو جنت میں داخل کرے گا اور اہل دوزخ کو دوزخ میں داخل کردے گا، پھر ان کے درمیان ایک اعلان کرنے والا کھڑا ہو گا اور کہے گا، اے اہل جنت!موت نہیں ہے اور اے اہل دوزخ!موت نہیں آئے گی، جو شخص جہاں ہے وہیں ہمیشہ رہے گا۔
ابن وہب نے کہا: مجھے عمر بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر بن خطاب نےحدیث بیان کی کہ انھیں ان کے والد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو ذبح کیا جائے گا اور اس کو جنت اوردوزخ کے درمیان کھڑا کیاجائے گا پھر اسے ذبح کردیا جائے گا، پھر اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: اے جنت والو! (اب) موت نہیں ہے (اور) اے جہنم والو! (اب) موت نہیں ہے۔اہل جنت کو اپنی خوشی پر مزید خوشی حاصل ہوجائے گی اور جہنم و الوں کو اپنے غم پر مزید غم لاحق ہوگا۔"
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب جنتی،جنت میں چلے جائیں گے اور دوزخی،دوزخ میں پہنچ جائیں گے، موت کو لایا جائے گاحتی کہ اسے جنت اور دوزخ کے درمیان رکھ کر ذبح کر دیا جائے گا،پھر اعلان کرنے والا،پکارے گا۔ اے اہل جنت!اب موت نہیں آئے گی اور اے دوزخیو!اب موت نہیں ہے، چنانچہ اہل جنت کی مسرت میں مسرت کا اضافہ ہو گا اور اہل دوزخ کے غم و حزن میں،غم و حزن کا اضافہ ہو گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کافر کی داڑھ یا (فرمایا:) کافر کا کچلی دانت اُحد پہاڑ جتنا ہوجائے گا اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن چلنے کی مسافت کے برابر ہوگی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کافرکی ڈاڑھ یا کافر کی کچلی،احد پہاڑ کی مانند ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت کے برابر ہو گی۔"
ابو کریب اور احمد بن عمر وکیعی نےہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں ابن فضیل نے اپنے والد سے، انھوں نے ابوحازم سے اور انھوں نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے اسے مرفوع بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم میں کافر کے دو کندھوں کے درمیان تیز رفتار سوار کی تین دن کی مسافت کےبرابر فاصلہ ہوگا۔" وکیعی نے"جہنم میں"کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: "آگ میں کافر کے دو کندھوں کا درمیانی فاصلہ،تین دن کی مسافت کے بقدر ہو گا،جبکہ اس کو تیز رفتار سوار طے کرے۔"وکیع نے فی النار،آگ میں بیان نہیں کیا۔
معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے معبد بن خالد نے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمھیں اہل جنت کے بارے میں خبر نہ دوں؟انھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی: کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"ہر کمزور جسے کمزور سمجھا جاتاہے۔ (مگر ایسا کہ) اگر (کسی معاملے میں) اللہ پر قسم کھا لے تو وہ اس کی قسم پوری کردے۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!"کیا میں تمھیں اہل جہنم کے بارے میں خبر نہ دوں؟"لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہراجذ، مال اکھٹا کرنے والا اسے خرچ نہ کرنے والا اور تکبر اختیار کرنے والا۔"
حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"کیا میں تمھیں اہل جنت کے بارے میں نہ بتاؤں؟" صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا،ضرور،آپ نے فرمایا:"یہ کمزور شخص جس کو ضعیف خیال کیا جاتا ہو۔اگر وہ اللہ کے اعتماد پر قسم کھالےتو وہ اس کو پورا کردے۔" پھر فرمایا:" کیا میں تمھیں اہل دوزخ کے بارے میں نہ بتاؤں؟"انھوں نے عرض کیا، کیوں نہیں، آپ نے فرمایا:"ہر وہ شخص جو بدخو،بھاری بھر کم،پیٹو اور متکبر ہو۔"
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی مگر اس میں کہا: "کیا میں تمہاری رہنمائی نہ کروں؟"
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے، بیان کرتے ہیں، صرف اتنا فرق ہے کہ یہاں "اَلا اُخبِرُكُم" کی جگہ "اَلااَدُلُكُم"ہے کیا میں تمھاری راہنمائی نہ کروں۔"
سفیان نے ہمیں معبد بن خالد سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمھیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ہر کمزور جسے کمزور اور لاچار سمجھا جاتا ہے۔ (لیکن ایساکہ) اگر اللہ پر (اعتماد کرتے ہوئے) قسم کھالے تو وہ اسے پوری کردے۔کیا میں تمھیں اہل جہنم کے بارے میں خبر نہ دوں؟ہر مال سمیٹنے والا اور اسے خرچ نہ کرنے والا، بد اصل، متکبر۔"
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمھیں اہل جنت کے بارے میں خبر نہ دوں؟ہر کم حیثیت،جس کو حقیر خیال کیا جاتا ہے،،اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھادے تو اللہ اس کو پورا کردے،کیا میں تمھیں،اہل دوزخ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر بسیار خور،بداصل اور متکبر۔