حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں کو غبار کی رنگت ملی، سفید زمین پر اکٹھا کیا جا ئے گا، جیسے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی ہو تی ہے اور اس کسی شخص کے لیے کوئی علامت موجود نہیں ہو گی۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت کے دن لوگ سفید زمین پر جو سرخی مائل ہو گی۔ جیسا کہ میدہ کی روٹی ہوتی ہے جمع کیے جائیں گے۔ اور اس زمین میں کسی شخص کے لیے کوئی نشان نہیں ہو گا، یعنی کوئی گھر، عمارت اور نشان نہ ہو گا،صاف چٹیل میدان ہو گی۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا علي بن مسهر ، عن داود ، عن الشعبي ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قوله عز وجل يوم تبدل الارض غير الارض والسموات سورة إبراهيم آية 48، فاين يكون الناس يومئذ يا رسول الله؟، فقال: على الصراط ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ سورة إبراهيم آية 48، فَأَيْنَ يَكُونُ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، فَقَالَ: عَلَى الصِّرَاطِ ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ عزوجل کے اس قول کے متعلق سوال کیا: " جس دن زمین دوسری زمین سے بدل دی جا ئے گی اور آسمان (بھی بدل دیا جائےگا) تو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (پل صراط پر۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ عزوجل کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا،"جس دن زمین کو دوسری زمین سے بدل دیا جائے گا اور آسمانوں کو بھی۔"ابراہیم نمبر48تو اس وقت لوگ کہا ں ہوں گے؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا:" پل صراط پر۔"
حدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث ، حدثني ابي ، عن جدي ، حدثني خالد بن يزيد ، عن سعيد بن ابي هلال ، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد الخدري ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " تكون الارض يوم القيامة خبزة واحدة يكفؤها الجبار بيده، كما يكفا احدكم خبزته في السفر نزلا لاهل الجنة "، قال: فاتى رجل من اليهود، فقال: بارك الرحمن عليك ابا القاسم، الا اخبرك بنزل اهل الجنة يوم القيامة؟ قال بلى، قال: تكون الارض خبزة واحدة، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فنظر إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ضحك حتى بدت نواجذه، قال: " الا اخبرك بإدامهم؟، قال: بلى، قال: " إدامهم بالام ونون، قالوا: وما هذا؟، قال: ثور ونون ياكل من زائدة كبدهما سبعون الفا ".حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَكُونُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُبْزَةً وَاحِدَةً يَكْفَؤُهَا الْجَبَّارُ بِيَدِهِ، كَمَا يَكْفَأُ أَحَدُكُمْ خُبْزَتَهُ فِي السَّفَرِ نُزُلًا لِأَهْلِ الْجَنَّةِ "، قَالَ: فَأَتَى رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَال: بَارَكَ الرَّحْمَنُ عَلَيْكَ أَبَا الْقَاسِمِ، أَلَا أُخْبِرُكَ بِنُزُلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ بَلَى، قَالَ: تَكُونُ الْأَرْضُ خُبْزَةً وَاحِدَةً، كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكَ بِإِدَامِهِمْ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: " إِدَامُهُمْ بَالَامُ وَنُونٌ، قَالُوا: وَمَا هَذَا؟، قَالَ: ثَوْرٌ وَنُونٌ يَأْكُلُ مِنْ زَائِدَةِ كَبِدِهِمَا سَبْعُونَ أَلْفًا ".
عطاءبن یسار نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن یہ زمین ایک ہی روئی بن جائے گی۔جبار (اللہ تعالیٰ) اہل جنت کی مہمانی کے لیے اسے اپنے ہاتھ سے الٹ پلٹ کرروئی کی طرح بنا دے گا جس طرح تم میں سے کوئی شخص سفر میں روئی کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ (حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے) کہا: اتنے میں یہودیوں میں سے ایک شخص آگیا اس نے کہا: ابو القاسم الرحمٰن آپ پر برکت نازل فرمائے!کیا میں آپ کو قیامت کے روز اہل جنت کی ضیافت کے بارے میں نہ بتاؤں؟آپ نے ارشاد فرمایا: " کیوں نہیں! (بتاؤ) اس نے کہا: زمین ایک (بڑی سی) روئی بن جا ئے گی۔جس طرح (اس کی آمد سے قبل خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ (ابو سعید رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا پھر آپ ہنسے حتی کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک نظر آنے لگے۔اس نے (پھر) کہا: کیامیں آپ کو ان کے سالن کے بارے میں نہ بتاؤں؟آپ نے فرمایا: "کیوں نہیں (بتاؤ) "اس نے کہا" ان کا سالن بالام اور نون ہو گا یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا وہ کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیل اور مچھلی یہ اس کے جگر کے چھوٹے سے اضافی حصے کو (جوا صل جگر کے ساتھ ایک طرف موجود ہو تا ہے) ستر ہزار لوگ کھائیں۔"
حضرت خدری ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت کے دن زمین ایک روٹی ہو گی جبار(کنٹرولر)اہل جنت کی مہمانی کے لیے، اپنے ہاتھ میں اس طرح الٹ پلٹ کرے گا۔ جس طرح تم میں سے کوئی شخص سفر میں اپنی روٹی الٹتا پلٹتا ہے۔"ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اتنے میں ایک یہودی آدمی آگیا اور کہنے لگا اے ابو القاسم!رحمان آپ پر برکتیں نازل فرمائے، کیا میں آپ کو قیامت کے دن اہل جنت کی ابتدائی ضیافت کے بارے میں نہ بتاؤں؟آپ نے فرمایا:" کیوں نہیں۔"اس نے کہا زمین ایک روٹی ہو گی، (جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بتا چکے تھے) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے طرف دیکھا پھر ہنس پڑے حتی کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں اس نے کہا، کیا میں آپ کو ان کے سالن کی خبر نہ دوں؟ آپ نے فرمایا:" کیوں نہیں۔"اس نے کہا ان کا سالن بالام اور نون ہوگئے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا یہ کیا ہیں۔"اس نے کہا، بیل اور مچھلی ان کے جگر کے بڑھے ہوئے ٹکڑے سے ستر ہزار افراد کھائیں گے۔
محمد بن سیرین نے ہمیں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر دس (بڑے) یہودی (عالم) میری پیروی کر لیتے تو روئے زمین پر کوئی یہودی باقی نہ رہتا مگر مسلمان ہو جا تا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر مجھ پر یہود کے دس (بڑے علماء) ایمان لے آئیں تو مدینہ کے تمام یہودی مسلمان ہو جائیں۔"یہود میں رسل ایمان لے آئیں اس سے مراد یہود کے دس رؤسا اور لیڈر ہیں جن کی یہودپیروی کرتے تھے یہودی عوام میں میں سے تو بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے تھے جیسا کہ بنو نضیر کا سردار ابو یاسر بن اخطب حی بن اخطب، کعب بن اشرف اور رافع بن ابی الحقیق تھا ان میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا تھا اسی طرح بنو قیقناع اور بنو قریظہ کے سردار بھی ایمان نہیں لائے۔
حدثنا عمر بن حفص بن غياث ، حدثنا ابي ، حدثنا الاعمش ، حدثني إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: بينما انا امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث وهو متكئ على عسيب، " إذ مر بنفر من اليهود، فقال بعضهم لبعض: سلوه عن الروح، فقالوا: ما رابكم إليه لا يستقبلكم بشيء تكرهونه، فقالوا: سلوه، فقام إليه بعضهم، فساله عن الروح، قال: فاسكت النبي صلى الله عليه وسلم فلم يرد عليه شيئا، فعلمت انه يوحى إليه، قال: فقمت مكاني فلما نزل الوحي، قال: ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85 "،حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، " إِذْ مَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَقَالُوا: مَا رَابَكُمْ إِلَيْهِ لَا يَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالُوا: سَلُوهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ بَعْضُهُمْ، فَسَأَلَهُ عَنِ الرُّوحِ، قَالَ: فَأَسْكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، قَالَ: فَقُمْتُ مَكَانِي فَلَمَّا نَزَلَ الْوَحْيُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85 "،
حفص بن غیاث نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں اعمش نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابراہیم نے علقمہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں چلا جارہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک شاخ کا سہارا لے (کر چل) رہے تھے کہ آپ کا یہود کے چند لوگوں کے قریب سے گزر ہوا ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ان سے روح کے بارے میں سوال کرو پھر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان کے بارے میں تمھیں شک کس بات کا ہے؟ایسا نہ ہو کہ وہ آگے سے ایسی بات کہہ دیں جو تمھیں بری لگے پھر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوکر آپ کے پاس آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تھوڑی دیر کے لیے) خاموش ہو گئے اور ان کو کوئی جواب نہ دیا۔مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پروحی نازل ہو رہی ہے۔ کہا میں بھی اپنی جگہ پر (رک کر) کھڑا ہو گیا۔جب وحی نازل ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ پڑھتے ہوئے) فرمایا: "یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تم (انسانوں) کو بہت کم علم دیا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، ایک کھیت میں چل رہا تھا اور آپ نے کھجور کی چھڑی کا سہارا لیا ہوا تھا تو آپ یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے ایک دوسرے سے کہا، ان سے روح کے بارے میں سوال کرو، دوسروں نے کہا:" تمھیں ان سے یہ سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔؟وہ تمھیں ایسا جواب نہ دے دیں، جو تمھیں ناپسندہو، دوسروں نے کہا، ان سے سوال کرو تو ان میں بعض نے آپ کے پاس آکر، آپ سے روح کے بارے میں سوال کیا، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے اور اسے کوئی جواب نہ دیا تو میں جان گیا کہ آپ کی وحی نازل کی جارہی ہے تو اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا، چنانچہ جب وحی اتر چکی، آپ نے فرمایا:"وہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرماد یجیے روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم بہت ہی کم علم دئیے گئے ہو۔"(اسراء آیت نمبر85۔)
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو اشج نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی، نیز ہمیں اسحٰق بن ابراہیم حنظلی اور علی بن خشرم نے بھی حدیث بیان کی دونوں نے کہا: ہمیں عیسیٰ بن یونس نے خبر دی۔ان دونوں (وکیع اور عیسیٰ) نےاعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک (اجزائے ہوئے) کھیت میں جارہاتھا۔حفص کی حدیث کے مانند مکروکیع کی حدیث میں ہے: "وَمَا أُوتِیتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا " "اور تم لوگوں کو علم کا تھوڑا حصہ ہی دیا گیا ہے۔ " (جس طرح قرآن کی مشہور متواتر قرآءت ہے۔ اور عیسیٰ بن یو نس کی اس روایت میں جوان سے (علی) بن خشرم نے بیان کی ہے وما اوتوا"انھیں نہیں دیا گیا "کے الفاظ ہیں۔
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں، اس میں عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی کھیتی میں چل رہا تھا وکیع کی روایت میں ہے۔ "و اُوتِيتُم مِنَ العِلمِ " اور ابن خشرم کی روایت میں "وَمَا اُوتُوا" ان کو نہیں دیا گیا۔
ابو سعید اشج نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے عبد اللہ بن ادریس سے سنا وہ کہہ رہے تھے، میں نے اعمش سے سنا وہ اس روایت کو عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مرہ سے اور وہ مسروق سے اور وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں میں (کھجور کی) ایک شاخ کا سہارا لیے ہوئے (چلے جارہے) تھے پھر اعمش سے ان سب کی حدیث کے مطابق بیان کیا اور انھوں نے (بھی) اپنی روایت میں مشہور اور متواتر قرآءت کے مطابق "وَمَا أُوتِیتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا "بیان کیا۔ ان روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرث (کھیت) اور نخل (کھجورکے درختوں) کے درمیان جارہے تھے۔صحیح بخاری کی ایک روایت میں حرث ہے۔ (حدیث 4721۔) جبکہ دوسری روایت میں"خرب" (اجازجگہ) ہے۔ (حدیث: 125) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھیت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جارہے تھے۔مدینہ کے عام کھیتوں کی طرح کھجور کے باغ میں تھا اور اب اس میں کچھ کاشت نہیں ہو رہاتھا اجڑاہوا اور ناہموار ہونے کی وجہ سے آپ اس کے اندرکھجور کی شاخ کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔جامع ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ روح کے متعلق یہودیوں سے پوچھ کر قریش مکہ نے بھی سوال کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی یہی جواب دیا تھا (جمع المومنین حدیث 3140) مدینہ میں جب یہود نے خود سوال کیا تو چونکہ وہ اہل کتاب تھے اس لیے یہ امکان تھا کہ ان کی کتاب میں یہی بات کسی اور رنگ میں کہی گئی ہو اور وہ انداز کے اس اختلاف کو اپنے لیےدلیل بنانے کی کو شش کریں اس لیے جواب دینے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف کیا اور اللہ تعالیٰ نے دوبارہ وہی جواب وحی فرمادیا جو تورات کےعین مطابق تھا اور یہود کو اپنے لیے آپ کی رسالت سے انکار کا کوئی عذر نہ مل سکا۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نخلستان میں کھجور کی چھڑی کا سہارا لیے ہوئےتھے۔آگے مذکورہ بالا روایت ہے، اور اس روایت میں ہے۔"و اُوتِيتُم مِنَ العِلمِ الَا قَلَيلاً"تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
وکیع نے کہا: ہمیں اعمش نے ابو ضحیٰ سے حدیث بیان کی، انھوں نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت خباب (بن ارت رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا میرا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمے تھا۔میں اس سے قرض کا تقاضا کرنے کے لیے اس کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے کہا: میں اس وقت تک تمھیں ادائیگی نہیں کروں گا۔یہاں تک کہ تم نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کرو۔ کہا: میں نے اس سے کہا: تم مر کردوبارہ زندہ ہو جاؤ گے۔ پھر بھی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر نہیں کروں گا۔ اس نے کہا: اور میں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا؟تو (اس وقت) جب میں دوبارہ مال اور اولاد کے پاس پہنچ جاؤں گاتو تمھیں ادائیگی کردوں گا۔ وکیع نے کہا: اعمش نے اسی طرح کہا: انھوں نے کہا: اس پریہ آیت نازل ہوئی: "کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیات سے کفر کیا اور کہا: مجھے (اپنا) مال اور (اپنی) اولاد ضروری دی جائے گی"سے لے کر اس (اللہ) کے فرمان "اور وہ ہمارے پاس اکیلا آئے گا "تک۔
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میرا عاص بن وائل کے ذمہ قرض تھا، اس کے پاس اس کا مطالبہ کرنے کے لیے گیا تو اس نے مجھے کہا، میں اس وقت تک ہر گز تیرا قرض ادا نہیں کروں گا، جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کروتو میں نے اسے کہا، میں ہر گز محمد کا انکار نہیں کروں گا، حتی کہ تو مرجائے اور پھر دوبارہ اٹھایا جائے، اس نے کہا، کیا مجھے موت کے بعد اٹھایاجائے گا؟تو اس وقت تیرا قرض چکا دوں گا، جب میں مال اور اولاد کی طرف لوٹ آؤں گا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی،کیا آپ نے اس کے بارے میں جانا، جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہتا ہے مجھے مال اور اولاد سے نوازا جائے گا، کیا وہ غیب سے آگا ہو گیا ہے، یا اس نے رحمان سے کوئی عہد کر لیا ہے، ہر گز نہیں جو کچھ وہ کہتا ہے ہم اس کو لکھ لیں گے اور اس کا عذاب بڑھا دیں گے اور جس کی یہ بات کرتا ہے، اس کے وارث تو ہم ہوں گے اور یہ اکیلا ہمارے پاس آئے گا۔"(مریم آیت 77تا 80)
ابو معاویہ عبد اللہ بن نمیر جریر اور سفیان سب نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ وکیع کی حدیث کی طرح بیان کیا اور جریر کی حدیث میں ہے۔ (حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں زمانہ جاہلیت میں لوہار تھا تو میں نے عاص بن وائل کے لیے کام کیا پھر میں اس سے (اجرت کا) تقاضا کرنے کے لیے آیا۔
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، جریر رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث میں ہے۔ میں جاہلیت کے دور میں لوہارتھا تومیں نے عاص بن وائل کے لیے کام کیا(تلوار بنا کردی) تو میں اس کی مزدوری کے مطالبہ کے لیے اس کے پاس آیا۔
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن عبد الحميد الزيادي ، انه سمع انس بن مالك ، يقول: قال ابو جهل: " اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك، فامطر علينا حجارة من السماء او ائتنا بعذاب اليم، فنزلت وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون {33} وما لهم الا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام سورة الانفال آية 33-34 إلى آخر الآية ".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ الزِّيَادِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: " اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ، فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ {33} وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة الأنفال آية 33-34 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ ".
شعبہ نے عبد الحمید زیادی سے روایت کی انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ ابو جہل نے کہا: اے اللہ!اگر (یہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں) یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔تو اس پر (آیت) نازل ہوئی: "اللہ تعالیٰ اس وقت ان پر (اس طرح کا) عذاب بھیجنے والا نہ تھا جبکہ آپ بھی ان میں موجود تھے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا نہ تھا جب وہ (علیحدگی میں) استغفار کیے جارہے تھے۔اور انھیں کیا ہے کہ اللہ انھیں عذاب نہ دےجبکہ وہ (ایمان لانے والوں کو) مسجد حرام سے روکتے ہیں۔"آیت کے آخرتک۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ ابو جہل نے دعا کی، اے اللہ!اگر یہی (قرآن)حق ہے، جو تیری طرف سے ہےتو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسادے،یا ہمیں کسی المناک عذاب سے دو چار کردے تو یہ آیت اتر،"اللہ ایسے نہیں ہے کہ آپ کی موجودگی میں ان پر عذاب بھیجے اور اللہ ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے، جبکہ استغفار کر رہے ہیں،"اور انہیں کیا تحفظ حاصل ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے،حالانکہ وہ مسجد حرام سے روک رہے ہیں، جبکہ وہ حقیقتاً اس کے متولی نہیں ہیں، اس کے متولی تو صرف متقی (حدود کے پابندی) ہی ہو سکتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر اس حقیقت کو نہیں جانتے۔"(انفال آیت33۔34)