حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن عبد الحميد الزيادي ، انه سمع انس بن مالك ، يقول: قال ابو جهل: " اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك، فامطر علينا حجارة من السماء او ائتنا بعذاب اليم، فنزلت وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون {33} وما لهم الا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام سورة الانفال آية 33-34 إلى آخر الآية ".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ الزِّيَادِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: " اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ، فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ {33} وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة الأنفال آية 33-34 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ ".
شعبہ نے عبد الحمید زیادی سے روایت کی انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ ابو جہل نے کہا: اے اللہ!اگر (یہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں) یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔تو اس پر (آیت) نازل ہوئی: "اللہ تعالیٰ اس وقت ان پر (اس طرح کا) عذاب بھیجنے والا نہ تھا جبکہ آپ بھی ان میں موجود تھے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا نہ تھا جب وہ (علیحدگی میں) استغفار کیے جارہے تھے۔اور انھیں کیا ہے کہ اللہ انھیں عذاب نہ دےجبکہ وہ (ایمان لانے والوں کو) مسجد حرام سے روکتے ہیں۔"آیت کے آخرتک۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ ابو جہل نے دعا کی، اے اللہ!اگر یہی (قرآن)حق ہے، جو تیری طرف سے ہےتو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسادے،یا ہمیں کسی المناک عذاب سے دو چار کردے تو یہ آیت اتر،"اللہ ایسے نہیں ہے کہ آپ کی موجودگی میں ان پر عذاب بھیجے اور اللہ ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے، جبکہ استغفار کر رہے ہیں،"اور انہیں کیا تحفظ حاصل ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے،حالانکہ وہ مسجد حرام سے روک رہے ہیں، جبکہ وہ حقیقتاً اس کے متولی نہیں ہیں، اس کے متولی تو صرف متقی (حدود کے پابندی) ہی ہو سکتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر اس حقیقت کو نہیں جانتے۔"(انفال آیت33۔34)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7064
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے، آپ کا مکہ میں قیام، اہل مکہ کے لیے عذاب سے محفوظ رہنے کا باعث تھا اور ہجرت کےبعد کمزور مسلمانوں کا پیچھے رہ جانا اور استغفار کرنا حفاظت کا سبب تھا، جب وہ بھی ہجرت کر گئےتو پھر ان سے مکہ چھین لیا گیا، جو ان کے لیے عذاب تھا۔