حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا عفان بن مسلم ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، ان عونا وسعيد بن ابي بردة حدثاه انهما شهدا ابا بردة يحدث عمر بن عبد العزيز، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يموت رجل مسلم إلا ادخل الله مكانه النار يهوديا او نصرانيا "، قال: فاستحلفه عمر بن عبد العزيز بالله الذي لا إله إلا هو ثلاث مرات، ان اباه حدثه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فحلف له، قال: فلم يحدثني سعيد انه استحلفه، ولم ينكر على عون قوله،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، أَنَّ عَوْنًا وَسَعِيدَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ حَدَّثَاهُ أَنَّهُمَا شَهِدَا أَبَا بُرْدَةَ يُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَمُوتُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا أَدْخَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ النَّارَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا "، قَالَ: فَاسْتَحْلَفَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحَلَفَ لَهُ، قَالَ: فَلَمْ يُحَدِّثْنِي سَعِيدٌ أَنَّهُ اسْتَحْلَفَهُ، وَلَمْ يُنْكِرْ عَلَى عَوْنٍ قَوْلَهُ،
عفان بن مسلم نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ہمام نے قتادہ سے حدیث بیان کی کہ عون (بن عبداللہ) اور سعید بن ابی بردہ نے انہیں حدیث بیان کی، وہ دونوں ابو بردہ کے سامنے موجود تھے جب وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اپنے والد سے حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "جو مسلمان بھی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ پر ایک یہودی یا ایک نصرانی کو دوزخ میں داخل کر دیتا ہے۔" کہا: عمر بن عبدالعزیز نے حضرت ابوبُردہ کو تین بار اس اللہ کی قسم دی جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں کہواقعی ان کے والد نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کی تھی۔ انہوں نے ان (عمر بن عبدالعزیز) کے سامنے قسم کھائی۔ (قتادہ نے) کہا: سعید نے مجھ سے یہ بیان نہیں کیا کہ انہوں نے ان سے قسم لی اور نہ انہوں نے عون کی (بتائی ہوئی) بات پر کوئی اعتراض کیا۔
عون اور سعید بن ابی بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہماری موجودگی میں ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر بن عبد العز یز کو اپنے باپ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی کہ آپ نے فرمایا:"جو مسلمان بھی فوت ہوتا ہے، اللہ اس کی جگہ،دوزخ میں کسی یہودی یا نصرانی کو بھیج دیتا ہے۔"تو حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان سے (ابو بردہ سے) تین دفعہ یہ قسم لی کہ اس اللہ کی قسم!جس کے سوا کوئی لائق بندگی نہیں ہے، مجھے میرے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنائی ہے، ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں قسم دے دی قتادہ کہتے ہیں سعید نے قسم لینے کا تذکرہ نہیں کیا لیکن عون کے اس قول کا انکار بھی نہیں کیا۔
عبدالصمد بن عبدالوارث سے روایت ہے، کہا: ہمیں ہمام نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں قتادہ نے اسی سند کے ساتھ عفان کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی اور (عون بن عبداللہ کی نسبت اس کے دادا کی طرف کرتے ہوئے) کہا: عون بن عتبہ۔
امام صاحب دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
(ابوروح) حرمی بن عمارہ نے کہا: ہمیں شداد ابو طلحہ راسبی نے غیلان بن جریر سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو بردہ سے، انہوں نے اپنے والد (حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ) سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن مسلمانوں میں سے کچھ لوگ پہاڑوں جیسے (بڑے بڑے) گناہ لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے لیے وہ گناہ بخش دے گا، اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں، وہ ان (گناہوں) کو یہود اور نصاری پر ڈال دے گا۔" ابو روح نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ یہ شک کس (راوی) کی طرف سے ہے۔ حضرت ابو بردہ نے کہا: میں نے یہ حدیث عمر بن عبدالعزیز کو بیان کی، انہوں نے کہا: کیا تمہارے والد نے تمہیں یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تھی؟ میں نے کہا: ہاں۔
حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" قیامت کے دن کچھ مسلمان پہاڑوں جتنے گناہ لے کر آئیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا اور انہیں یہودو نصاریٰ پر رکھ دے گا۔"میرے خیال میں انھوں نے یہی کہا:ابو روح نے کہا مجھے معلوم نہیں، یہ شک کس کو ہے ابو بردہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث عمر بن عبد العزیز کو سنائی تو انھوں نے کہا، کیا تیرے باپ نے تجھے یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنائی تھی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن هشام الدستوائي ، عن قتادة ، عن صفوان بن محرز ، قال: قال رجل لابن عمر : كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في النجوى؟، قال: سمعته، يقول: " يدنى المؤمن يوم القيامة من ربه عز وجل حتى يضع عليه كنفه، فيقرره بذنوبه، فيقول: هل تعرف؟، فيقول: اي رب اعرف، قال: فإني قد سترتها عليك في الدنيا، وإني اغفرها لك اليوم، فيعطى صحيفة حسناته، واما الكفار والمنافقون، فينادى بهم على رءوس الخلائق هؤلاء الذين كذبوا على الله ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ : كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟، قَالَ: سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: " يُدْنَى الْمُؤْمِنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ؟، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَعْرِفُ، قَالَ: فَإِنِّي قَدْ سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَإِنِّي أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، فَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْكُفَّارُ وَالْمُنَافِقُونَ، فَيُنَادَى بِهِمْ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ ".
قتادہ نے صفوان بن محرز سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نجویٰ (مومن سے اللہ کی سرگوشی) کے متعلق کس طرح سنا تھا؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: " مومن کو قیامت کے دن اس کے رب عزوجل کے قریب کیا جائے گا، حتی کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا (تاکہ کوئی اور اس کے راز پر مطلع نہ ہو)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور فرمائے گا: کیا تو (ان سب گناہوں کو) پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا: میرے رب! میں (ان سب گناہوں کو) پہچانتا ہوں۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: میں نے دنیا میں تم پر (رحم کرتے ہوئے) ان گناہوں کو چھپا لیا تھا اور آج (تم پر رحم کرتے ہوئے) تمہارے لیے ان سب کو معاف کرتا ہوں، پھر اسے (محض) اس کی نیکیوں کا صحیفہ پکڑا دیا جائے گا اور رہے کفار اور منافقین تو ساری مخلوقات کے سامنے بلند آواز سے انہیں کہا جائے گا: یہی ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔"
صفوان بن محرز رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا نجوی (سر گوشی) کے بارے میں،آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انھوں نے کہا میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے۔"قیامت کے دن مومن کو اپنے رب عزوجل کے قریب کیا جائے گا حتی کہ وہ اس پر اپنا پہلو جو اس کے شایان شان ہے رکھے گا، یعنی دوسروں سے اوٹ میں کر لے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائے گا، سو فرمائے گا، کیا پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا۔ ہاں میرے رب! میں پہچانتا ہوں اللہ فرمائے گا، دنیا میں میں تیری پردہ پوشی کر چکا ہوں اور آج میں تمھیں یہ گناہ بخش دیتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دے دیا جائے گا، رہے کافر اور منافق تو ان کے بارے میں تمام لوگوں کے سامنے اعلان کر دیا جائے گا، یہی لوگ ہیں۔ جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔"
حدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح مولى بني امية، اخبرني ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال:" ثم غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك وهو يريد الروم ونصارى العرب بالشام، قال ابن شهاب: فاخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك ، ان عبد الله بن كعب كان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: سمعت كعب بن مالك يحدث حديثه حين تخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، قال كعب بن مالك: لم اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها قط، إلا في غزوة تبوك، غير اني قد تخلفت في غزوة بدر، ولم يعاتب احدا تخلف عنه، إنما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون يريدون عير قريش، حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد، ولقد شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة العقبة حين تواثقنا على الإسلام، وما احب ان لي بها مشهد بدر، وإن كانت بدر اذكر في الناس منها، وكان من خبري حين تخلفت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك اني لم اكن قط اقوى ولا ايسر مني حين تخلفت عنه في تلك الغزوة، والله ما جمعت قبلها راحلتين قط حتى جمعتهما في تلك الغزوة، فغزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في حر شديد واستقبل سفرا بعيدا ومفازا واستقبل عدوا كثيرا، فجلا للمسلمين امرهم ليتاهبوا اهبة غزوهم، فاخبرهم بوجههم الذي يريد والمسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم كثير ولا يجمعهم كتاب حافظ يريد بذلك الديوان، قال كعب: فقل رجل يريد ان يتغيب يظن ان ذلك سيخفى له ما لم ينزل فيه وحي من الله عز وجل وغزا رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الغزوة حين طابت الثمار والظلال، فانا إليها اصعر فتجهز رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون معه، وطفقت اغدو لكي اتجهز معهم، فارجع ولم اقض شيئا واقول في: نفسي انا قادر على ذلك إذا اردت، فلم يزل ذلك يتمادى بي حتى استمر بالناس الجد، فاصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم غاديا والمسلمون معه ولم اقض من جهازي شيئا ثم غدوت، فرجعت ولم اقض شيئا فلم يزل ذلك يتمادى بي حتى اسرعوا وتفارط الغزو، فهممت ان ارتحل فادركهم فيا ليتني فعلت، ثم لم يقدر ذلك لي، فطفقت إذا خرجت في الناس بعد خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم يحزنني اني لا ارى لي اسوة إلا رجلا مغموصا عليه في النفاق او رجلا ممن عذر الله من الضعفاء، ولم يذكرني رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بلغ تبوك، فقال وهو جالس في القوم بتبوك: ما فعل كعب بن مالك؟، قال رجل من بني سلمة: يا رسول الله، حبسه برداه والنظر في عطفيه، فقال له معاذ بن جبل: بئس ما قلت والله يا رسول الله ما علمنا عليه إلا خيرا، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبينما هو على ذلك راى رجلا مبيضا يزول به السراب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كن ابا خيثمة، فإذا هو ابو خيثمة الانصاري وهو الذي تصدق بصاع التمر حين لمزه المنافقون، فقال كعب بن مالك: فلما بلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد توجه قافلا من تبوك حضرني بثي، فطفقت اتذكر الكذب واقول: بم اخرج من سخطه غدا واستعين على ذلك كل ذي راي من اهلي، فلما قيل لي إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اظل قادما زاح عني الباطل، حتى عرفت اني لن انجو منه بشيء ابدا، فاجمعت صدقه وصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم قادما، وكان إذا قدم من سفر بدا بالمسجد فركع فيه ركعتين ثم جلس للناس، فلما فعل ذلك جاءه المخلفون، فطفقوا يعتذرون إليه ويحلفون له وكانوا بضعة وثمانين رجلا، فقبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم علانيتهم وبايعهم واستغفر لهم ووكل سرائرهم إلى الله حتى جئت، فلما سلمت تبسم تبسم المغضب، ثم قال: تعال، فجئت امشي حتى جلست بين يديه، فقال لي: ما خلفك الم تكن قد ابتعت ظهرك؟، قال: قلت: يا رسول الله، إني والله لو جلست عند غيرك من اهل الدنيا لرايت اني ساخرج من سخطه بعذر، ولقد اعطيت جدلا، ولكني والله لقد علمت لئن حدثتك اليوم حديث كذب ترضى به عني ليوشكن الله ان يسخطك علي، ولئن حدثتك حديث صدق تجد علي فيه إني لارجو فيه عقبى الله والله ما كان لي عذر، والله ما كنت قط اقوى ولا ايسر مني حين تخلفت عنك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما هذا فقد صدق، فقم حتى يقضي الله فيك، فقمت وثار رجال من بني سلمة، فاتبعوني، فقالوا لي: والله ما علمناك اذنبت ذنبا قبل هذا، لقد عجزت في ان لا تكون اعتذرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بما اعتذر به إليه المخلفون، فقد كان كافيك ذنبك استغفار رسول الله صلى الله عليه وسلم لك، قال: فوالله ما زالوا يؤنبونني حتى اردت ان ارجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاكذب نفسي قال: ثم قلت لهم: هل لقي هذا معي من احد؟، قالوا: نعم لقيه معك رجلان، قالا: مثل ما قلت؟ فقيل لهما مثل ما قيل لك، قال: قلت: من هما؟، قالوا: مرارة بن الربيعة العامري، وهلال بن امية الواقفي، قال: فذكروا لي رجلين صالحين قد شهدا بدرا فيهما اسوة، قال: فمضيت حين ذكروهما لي، قال: ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا ايها الثلاثة من بين من تخلف عنه، قال: فاجتنبنا الناس، وقال: تغيروا لنا حتى تنكرت لي في نفسي الارض، فما هي بالارض التي اعرف، فلبثنا على ذلك خمسين ليلة، فاما صاحباي، فاستكانا وقعدا في بيوتهما يبكيان، واما انا فكنت اشب القوم واجلدهم، فكنت اخرج فاشهد الصلاة واطوف في الاسواق، ولا يكلمني احد، وآتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاسلم عليه وهو في مجلسه بعد الصلاة، فاقول في نفسي هل حرك شفتيه برد السلام ام لا، ثم اصلي قريبا منه واسارقه النظر، فإذا اقبلت على صلاتي نظر إلي، وإذا التفت نحوه اعرض عني حتى إذا طال ذلك علي من جفوة المسلمين مشيت حتى تسورت جدار حائط ابي قتادة وهو ابن عمي واحب الناس إلي، فسلمت عليه فوالله ما رد علي السلام، فقلت له: يا ابا قتادة انشدك بالله هل تعلمن اني احب الله ورسوله؟، قال: فسكت فعدت فناشدته فسكت فعدت فناشدته، فقال: الله ورسوله اعلم، ففاضت عيناي وتوليت حتى تسورت الجدار، فبينا انا امشي في سوق المدينة إذا نبطي من نبط اهل الشام ممن قدم بالطعام يبيعه بالمدينة، يقول: من يدل على كعب بن مالك؟، قال: فطفق الناس يشيرون له إلي حتى جاءني، فدفع إلي كتابا من ملك غسان، وكنت كاتبا فقراته، فإذا فيه اما بعد: فإنه قد بلغنا ان صاحبك قد جفاك ولم يجعلك الله بدار هوان ولا مضيعة، فالحق بنا نواسك، قال: فقلت: حين قراتها وهذه ايضا من البلاء، فتياممت بها التنور، فسجرتها بها حتى إذا مضت اربعون من الخمسين واستلبث الوحي إذا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم ياتيني، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرك ان تعتزل امراتك، قال: فقلت: اطلقها ام ماذا افعل؟، قال: لا بل اعتزلها، فلا تقربنها، قال: فارسل إلى صاحبي بمثل ذلك، قال: فقلت لامراتي: الحقي باهلك فكوني عندهم حتى يقضي الله في هذا الامر، قال: فجاءت امراة هلال بن امية رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت له: يا رسول الله، إن هلال بن امية شيخ ضائع ليس له خادم، فهل تكره ان اخدمه؟، قال: لا، ولكن لا يقربنك، فقالت: إنه والله ما به حركة إلى شيء ووالله ما زال يبكي منذ كان من امره ما كان إلى يومه هذا، قال: فقال لي بعض اهلي: لو استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في امراتك، فقد اذن لامراة هلال بن امية ان تخدمه، قال: فقلت: لا استاذن فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما يدريني ماذا يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استاذنته فيها وانا رجل شاب، قال: فلبثت بذلك عشر ليال، فكمل لنا خمسون ليلة من حين نهي عن كلامنا، قال: ثم صليت صلاة الفجر صباح خمسين ليلة على ظهر بيت من بيوتنا، فبينا انا جالس على الحال التي ذكر الله عز وجل منا قد ضاقت علي نفسي، وضاقت علي الارض بما رحبت سمعت صوت صارخ اوفي على سلع، يقول باعلى صوته: يا كعب بن مالك ابشر، قال: فخررت ساجدا، وعرفت ان قد جاء فرج، قال: فآذن رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر، فذهب الناس يبشروننا، فذهب قبل صاحبي مبشرون وركض رجل إلي فرسا وسعى ساع من اسلم قبلي، واوفى الجبل، فكان الصوت اسرع من الفرس، فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشرني، فنزعت له ثوبي فكسوتهما إياه ببشارته والله ما املك غيرهما يومئذ، واستعرت ثوبين فلبستهما، فانطلقت اتامم رسول الله صلى الله عليه وسلم يتلقاني الناس فوجا فوجا يهنئوني بالتوبة، ويقولون: لتهنئك توبة الله عليك حتى دخلت المسجد، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس في المسجد وحوله الناس، فقام طلحة بن عبيد الله يهرول حتى صافحني وهناني، والله ما قام رجل من المهاجرين غيره، قال: فكان كعب لا ينساها لطلحة، قال كعب: فلما سلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وهو يبرق وجهه من السرور، ويقول: ابشر بخير يوم مر عليك منذ ولدتك امك، قال: فقلت: امن عندك يا رسول الله ام من عند الله؟، فقال: لا بل من عند الله، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سر استنار وجهه كان وجهه قطعة قمر، قال: وكنا نعرف ذلك، قال: فلما جلست بين يديه، قلت: يا رسول الله، إن من توبتي ان انخلع من مالي صدقة إلى الله وإلى رسوله صلى الله عليه وسلم؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: امسك بعض مالك فهو خير لك، قال: فقلت: فإني امسك سهمي الذي بخيبر، قال: وقلت: يا رسول الله، إن الله إنما انجاني بالصدق، وإن من توبتي ان لا احدث إلا صدقا ما بقيت، قال: فوالله ما علمت ان احدا من المسلمين ابلاه الله في صدق الحديث منذ ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا، احسن مما ابلاني الله به، والله ما تعمدت كذبة منذ قلت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا، وإني لارجو ان يحفظني الله فيما بقي، قال: فانزل الله عز وجل لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والانصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه بهم رءوف رحيم {117} وعلى الثلاثة الذين خلفوا حتى إذا ضاقت عليهم الارض بما رحبت وضاقت عليهم انفسهم سورة التوبة آية 116-117 حتى بلغ يايها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين سورة التوبة آية 119، قال كعب: والله ما انعم الله علي من نعمة قط بعد إذ هداني الله للإسلام، اعظم في نفسي من صدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان لا اكون كذبته، فاهلك كما هلك الذين كذبوا، إن الله قال للذين كذبوا حين انزل الوحي شر ما قال لاحد: وقال الله: سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم إليهم لتعرضوا عنهم فاعرضوا عنهم إنهم رجس وماواهم جهنم جزاء بما كانوا يكسبون {95} يحلفون لكم لترضوا عنهم فإن ترضوا عنهم فإن الله لا يرضى عن القوم الفاسقين {96} سورة التوبة آية 95-96، قال كعب: كنا خلفنا ايها الثلاثة عن امر اولئك الذين قبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حلفوا له، فبايعهم واستغفر لهم وارجا رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا حتى قضى فيه، فبذلك قال الله عز وجل: وعلى الثلاثة الذين خلفوا سورة التوبة آية 118 وليس الذي ذكر الله مما خلفنا تخلفنا عن الغزو، وإنما هو تخليفه إيانا وإرجاؤه امرنا عمن حلف له واعتذر إليه فقبل منه"، حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ مَوْلَى بَنِي أُمَيَّةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ:" ثُمَّ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ وَهُوَ يُرِيدُ الرُّومَ وَنَصَارَى الْعَرَبِ بِالشَّامِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ كَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ، إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَيْرَ أَنِّي قَدْ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهُ، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ يُرِيدُونَ عِيرَ قُرَيْشٍ، حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ، وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا، وَكَانَ مِنْ خَبَرِي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُ قَبْلَهَا رَاحِلَتَيْنِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، فَغَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا وَاسْتَقْبَلَ عَدُوًّا كَثِيرًا، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ، فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِمُ الَّذِي يُرِيدُ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ وَلَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابُ حَافِظٍ يُرِيدُ بِذَلِكَ الدِّيوَانَ، قَالَ كَعْبٌ: فَقَلَّ رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ يَظُنُّ أَنَّ ذَلِكَ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلَالُ، فَأَنَا إِلَيْهَا أَصْعَرُ فَتَجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ، وَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ، فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا وَأَقُولُ فِي: نَفْسِي أَنَا قَادِرٌ عَلَى ذَلِكَ إِذَا أَرَدْتُ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اسْتَمَرَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَادِيًا وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا ثُمَّ غَدَوْتُ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ، فَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ فَيَا لَيْتَنِي فَعَلْتُ، ثُمَّ لَمْ يُقَدَّرْ ذَلِكَ لِي، فَطَفِقْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْزُنُنِي أَنِّي لَا أَرَى لِي أُسْوَةً إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَيْهِ فِي النِّفَاقِ أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ، فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبُوكَ: مَا فَعَلَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ؟، قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَالنَّظَرُ فِي عِطْفَيْهِ، فَقَالَ لَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: بِئْسَ مَا قُلْتَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ رَأَى رَجُلًا مُبَيِّضًا يَزُولُ بِهِ السَّرَابُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْ أَبَا خَيْثَمَةَ، فَإِذَا هُوَ أَبُو خَيْثَمَةَ الْأَنْصَارِيُّ وَهُوَ الَّذِي تَصَدَّقَ بِصَاعِ التَّمْرِ حِينَ لَمَزَهُ الْمُنَافِقُونَ، فَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَوَجَّهَ قَافِلًا مِنْ تَبُوكَ حَضَرَنِي بَثِّي، فَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَأَقُولُ: بِمَ أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا وَأَسْتَعِينُ عَلَى ذَلِكَ كُلَّ ذِي رَأْيٍ مِنْ أَهْلِي، فَلَمَّا قِيلَ لِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ، حَتَّى عَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْهُ بِشَيْءٍ أَبَدًا، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلًا، فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ حَتَّى جِئْتُ، فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ: تَعَالَ، فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي: مَا خَلَّفَكَ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ، وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا، وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَيَّ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عُقْبَى اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَانَ لِي عُذْرٌ، وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ، فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ، فَاتَّبَعُونِي، فَقَالُوا لِي: وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا، لَقَدْ عَجَزْتَ فِي أَنْ لَا تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ بِهِ إِلَيْهِ الْمُخَلَّفُونَ، فَقَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونَنِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُكَذِّبَ نَفْسِي قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ: هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي مِنْ أَحَدٍ؟، قَالُوا: نَعَمْ لَقِيَهُ مَعَكَ رَجُلَانِ، قَالَا: مِثْلَ مَا قُلْتَ؟ فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلَ مَا قِيلَ لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمَا؟، قَالُوا: مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعَةَ الْعَامِرِيُّ، وَهِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ، قَالَ: فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا أُسْوَةٌ، قَالَ: فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي، قَالَ: وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ، قَالَ: فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ، وَقَالَ: تَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ لِي فِي نَفْسِيَ الْأَرْضُ، فَمَا هِيَ بِالْأَرْضِ الَّتِي أَعْرِفُ، فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، فَأَمَّا صَاحِبَايَ، فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ، وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ، فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلَاةَ وَأَطُوفُ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ، وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ أَمْ لَا، ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ وَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي نَظَرَ إِلَيَّ، وَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي حَتَّى إِذَا طَالَ ذَلِكَ عَلَيَّ مِنْ جَفْوَةِ الْمُسْلِمِينَ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا قَتَادَةَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَنَّ أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ؟، قَالَ: فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ، فَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَفَاضَتْ عَيْنَايَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ، فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي فِي سُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ نَبَطِ أَهْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ، يَقُولُ: مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ؟، قَالَ: فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ إِلَيَّ حَتَّى جَاءَنِي، فَدَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ، وَكُنْتُ كَاتِبًا فَقَرَأْتُهُ، فَإِذَا فِيهِ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلَا مَضْيَعَةٍ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: حِينَ قَرَأْتُهَا وَهَذِهِ أَيْضَا مِنَ الْبَلَاءِ، فَتَيَامَمْتُ بِهَا التَّنُّورَ، فَسَجَرْتُهَا بِهَا حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِينَ وَاسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟، قَالَ: لَا بَلِ اعْتَزِلْهَا، فَلَا تَقْرَبَنَّهَا، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ: فَجَاءَتْ امْرَأَةُ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ؟، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ لَا يَقْرَبَنَّكِ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَيْءٍ وَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا، قَالَ: فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي: لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَتِكَ، فَقَدْ أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا يُدْرِينِي مَاذَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ، قَالَ: فَلَبِثْتُ بِذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ، فَكَمُلَ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينَ نُهِيَ عَنْ كَلَامِنَا، قَالَ: ثُمَّ صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَّا قَدْ ضَاقَتْ عَلَيَّ نَفْسِي، وَضَاقَتْ عَلَيَّ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَي عَلَى سَلْعٍ، يَقُولُ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرْ، قَالَ: فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ، قَالَ: فَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا، فَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَيَّ مُبَشِّرُونَ وَرَكَضَ رَجُلٌ إِلَيَّ فَرَسًا وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ قِبَلِي، وَأَوْفَى الْجَبَلَ، فَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي، فَنَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ بِبِشَارَتِهِ وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ، وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا، فَانْطَلَقْتُ أَتَأَمَّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنِّئُونِي بِالتَّوْبَةِ، وَيَقُولُونَ: لِتَهْنِئْكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ النَّاسُ، فَقَامَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي، وَاللَّهِ مَا قَامَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرُهُ، قَالَ: فَكَانَ كَعْبٌ لَا يَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ، قَالَ كَعْبٌ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ، وَيَقُولُ: أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ؟، فَقَالَ: لَا بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّ وَجْهَهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ، قَالَ: وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ، قَالَ: وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَنْجَانِي بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِيتُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلَاهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي اللَّهُ بِهِ، وَاللَّهِ مَا تَعَمَّدْتُ كَذِبَةً مُنْذُ قُلْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ {117} وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ سورة التوبة آية 116-117 حَتَّى بَلَغَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 119، قَالَ كَعْبٌ: وَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ إِذْ هَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ، فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا، إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أَنْزَلَ الْوَحْيَ شَرَّ مَا قَالَ لِأَحَدٍ: وَقَالَ اللَّهُ: سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ {95} يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ {96} سورة التوبة آية 95-96، قَالَ كَعْبٌ: كُنَّا خُلِّفْنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَلَفُوا لَهُ، فَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى فِيهِ، فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118 وَلَيْسَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِّفْنَا تَخَلُّفَنَا عَنِ الْغَزْوِ، وَإِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُ"،
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک لڑنے گئے اور آپ کا ارادہ روم اور شام کے عرب نصرانیوں کا مقابلہ کرنے کا تھا۔ ابن شہاب نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہونے کے بعد حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے بیٹوں میں سے وہی حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑنے اور انہیں (ہر ضرورت کے لیے) لانے لے جانے والے تھے۔ کہا: میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کی وہ حدیث سنی تھی جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں غزوہ تبوک کے سوا کسی جنگ میں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے نہیں رہا۔ (ہاں) مگر میں غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہا تھا (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو ساتھ لے کر تشریف نہیں لے گئے تھے اس لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص پر، جو اس جنگ میں شریک نہیں ہوا، عتاب نہیں فرمایا تھا۔ (بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان قریش کے تجارتی قافلے (کا سامنا کرنے) کے ارادے سے نکلے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے طے شدہ وقت کے بغیر ان کی اور ان کے دشمنوں کی مڈبھیڑ کروادی۔ میں بیعت عقبہ کی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھا جب ہم سب نے اسلام قبول کرنے پر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) معاہدہ کیا تھا۔ مجھے اس (اعزاز) کے عوض بدر میں شمولیت (کا اعزاز بھی) زیادہ محبوب نہیں، اگرچہ لوگوں میں بدر کا تذکرہ اس (بیعت) کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ میں جب غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہا تھا تو میرے احوال یہ تھے کہ میں اس وقت کی نسبت، جب میں اس جنگ سے پیچھے رہا تھا، کبھی (جسمانی طور پر) زیادہ قوی اور (مالی اعتبار سے) زیادہ خوش حال نہیں رہا تھا۔ اللہ کی قسم! میرے پاس اس سے پہلے کبھی دو سواریاں اکٹھی نہیں ہوئی تھیں، یہاں تک کہ اس غزوے کے موقع پر ہی میں نے دو سواریاں اکٹھی رکھی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ غزوہ سخت گرمی میں کیا تھا، آپ کو بہت دور کے چٹیل صحرا کا سفر درپیش تھا اور آپ کو بہت زیادہ دشمنوں کا سامنا کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے سامنے اس معاملے کو (جو انہیں درپیس تھا) اچھی طرح واضح فرما دیا تھا تاکہ وہ اپنی جنگ کی (پوری) تیاری کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کی سمت سے بھی آگاہ فرما دیا تھا جدھر سے آپ جانا چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کثیر تعداد میں مسلمان تھے۔ کسی محفوظ رکھنے والی کی کتاب میں ان کے نام جمع (اکٹھے لکھے ہوئے) نہیں تھے۔۔ ان کی مراد رجسٹر سے تھی۔۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسے لوگ کم تھے جو غائب رہنا چاہتے تھے، جو سمجھتے تھے کہ ان کی یہ بات اس وقت تک مخفی رہے گی جب تک ان کے بارے میں اللہ عزوجل کی وحی نازل نہیں ہوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت کیا جب پھل اور (درختوں پر پتے زیادہ ہو جانے کی بنا پر) سائے اچھے ہو گئے تھے۔ (ہر آدمی کا دل چاہتا تھا کہ آرام سے گھر میں رہے، دن کو سائے کے نیچے آرام کرے او تازہ پھل کھائے۔) میرا بھی دل اسی طرف زیادہ مائل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ مسلمان (جہاد کی) تیار میں لگ گئے۔ میں صبح کو نکلتا کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں اور واپس آتا تو میں نے کچھ بھی نہ کیا ہوتا۔ میں دل میں کہتا: میں چاہوں تو اس کی بھرپور تیاری کر سکتا ہوں، یہی کیفیت مجھے مسلسل آگے سے آگے گرتی گئی اور لوگ مسلسل سنجیدہ سے سنیدہ ہوتے گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح سویرے روانہ ہو گئے، مسلمان آپ کے ہمراہ تھے اور میں اپنی کوئی بھی تیاری مکمل نہ کر پایا تھا۔ میں پھر صبح کے وقت نکلا اور واپس آیا تو بھی کچھ نہ کر پایا تھا اور میری یہی کیفیت تسلسل سے آگے چلتی رہی، یہاں تک کہ (تیاری میں پیچھے رہ جانے والے) مسلمان جلد از جلد جانے لگے اور جنہوں نے جنگ میں حصہ لینا تھا وہ بہت آگے نکل گئے، اس پر میں نے ارادہ کیا کہ نکل پڑوں اور لوگوں سے جا ملوں۔ اے کاش! میں ایسا کر لیتا لیکن یہ (بھی) میرے مقدر میں نہ ہوا اور میری یہ حالت ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد جب میں لوگوں میں نکلتا تو میں اس بات پر سخت غمگین ہوتا کہ مجھے (اپنے لیے اپنے جیسے کسی شخص کی) کوئی مثال نہیں ملتی (جس کے نمونے پر میں نے عمل کیا ہو)، سوائے کسی ایسے انسان کے جس پر نفاق کی تہمت تھی یا ضعفاء، میں کوئی شخص جسے اللہ کی طرف سے معذور قرار دیا گیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک میرا ذکر نہیں کیا، یہاں تک کہ آپ تبوک پہنچے تو آپ نے جب آپ لوگوں کےساتھ تبوک میں بیٹھے ہوئے تھے، فرمایا: "کعب بن مالک نے کیا کیا؟" تو بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا: اسے اس کی دو (خوبصورت) چادروں اور اپنے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے (کے کام) نے روک لیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم نے بری بات کہی، اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! ہم ان کے بارے میں اچھائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرما لیا۔ آپ اسی کیفیت میں تھے کہ آپ نے سفید لباس میں ملبوس ایک شخص کو دیکھا جس کے (چلنے کے) سبب سے (صحرا میں نظر آنے والا) سراب ٹوٹتا جا رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تجھے ابوخیثمہ (انصاری) ہونا چاہئے۔" تو وہ ابوخیثمہ انصاری رضی اللہ عنہ ہی تھے اور یہ وہی ہیں جنہوں نے ایک صاع کھجور کا صدقہ دیا تھا جب منافقوں نے انہیں طعنہ دیا تھا (اور کہا تھا: اللہ اس کے ایک صاع کا محتاج نہیں۔) کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپسی کا رخ فرما لیا ہے تو مجھے میرے غم اور افسوس نے (شدت سے) آ لیا، میں جھوٹے عذر سوچنے اور (دل میں) کہنے لگا: میں کل کو آپ کی ناراضی سے کیسے نکلوں گا؟ میں اپنے گھر والوں میں سے ہر رائے رکھنے والے فرد سے (بھی) مدد لینے لگا۔ جب مجھ سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچنے والے ہیں تو باطل (بہانے تراشنے) کا خیال میرے دل سے زائل ہو گیا، یہاں تک کہ میں نے جان لیا کہ میں کسی چیز کے ذریعے سے آپ (کی ناراضی) سے نہیں بچ سکتا تو میں نے آپ کے سامنے سچ کہنے کا تہیہ کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری صبح کے وقت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو مسجد سے آغاز فرماتے، اس میں دو رکعتیں پڑھتے، پھر لوگوں (سے ملاقات) کے لیے بیٹھ جاتے۔ جب آپ نے ایسا کر لیا تو پیچھے رہ جانے والے آپ کے پاس آنے لگے۔ انہوں نے (آ کر) عذر پیش کرنا اور آپ کے سامنے قسمیں کھانا شروع کر دیں، وہ اَسی سے کچھ زائد آدمی تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہرا (کیے گئے عذروں) کو قبول فرمایا، ان سے آئندہ (اطاعت) کی بیعت لی، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا کی اور ان کے باطن کو اللہ کے حوالے کر دیا، یہاں تک کہ میں حاضر ہوا۔ جب میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ سلم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح مسکرائے جیسے آپ کو غصہ دلایا گیا ہو، پھر آپ نے فرمایا: "آؤ۔" میں چلتا ہوا آیا، یہاں تک کہ آپ کے سامنے (آکر) بیٹھ گیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: "تمہیں کس بات نے پیچھے رکھا؟ کیا تم نے اپنی سواری حاصل کر نہیں لی تھی؟" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! بے شک، اللہ کی قسم! اگر میں آپ کے سوا پوری دنیا میں سے کسی بھی اور کے سامنے بیٹھا ہوتا تو میں دیکھ لیتا (ایسا عذر تراش لیتا) کہ میں جلد ہی اس کی ناراضی سے نکل جاتا، مجھے (اپنے حق میں) دلیلیں دینے کا ملکہ ملا ہے، لیکن اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ آج اگر میں آپ سے کوئی جھوٹی بات کہہ دوں جس سے آپ مجھ پر راضی ہو جائیں تو جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ پر ناراض کر دے گا اور اگر میں آپ سے سچی بات کہہ دوں جس سے آپ مجھ پر ناراض ہو جائیں تو کل مجھے اس میں اللہ کی طرف سے اچھے انجام کی پوری امید ہے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس (پیچھے رہ جانے کا) کوئی عذر نہیں تھا۔ اللہ کی قسم! میں جب آپ کا ساتھ دینے سے پیچھے رہا ہوں تو اس سے پہلے کبھی (جسمانی طور پر) اس سے بڑھ کر قوی اور (مالی طور پر) اس سے زیادہ خوش حال نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شخص جس نے سچ کہا ہے، (اب) تم اٹھ جاؤ (اور انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ تمہارے بارے میں فیصلہ فرما دے۔" میں اٹھ گیا، بنوسلمہ کے کچھ لوگ بھی جوش میں کھڑے ہو کر میرے پیچھے آئے اور مجھ سے کہنے لگے: تمہارے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گناہ کیا ہے، کیا تم اس سے بھی عاجز رہ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر پیش کر دیتے جس طرح دوسرے پیچھے رہنے والے لوگوں کے عذر پیش کیے ہیں۔ تمہارے گناہ کے معاملے میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار فرمانا کافی ہو جاتا۔ (حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے) کہا: اللہ کی قسم! وہ مسلسل مجھ سے سخت ناراضی کا اظہار اور ملامت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس ہو جاؤں اور خود کو جھٹلا دوں۔ کہا: پھر میں نے ان سے کہا: کیا میرے ساتھ کسی اور نے بھی اس صورت حال کا سامنا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تمہارے ساتھ دو اور آدمیوں نے بھی اسی صورتِ حال کا سامنا کیا ہے، ان سے بھی وہی کہا گیا ہے جو تم سے کہا گیا ہے۔ کہا: میں نے پوچھا: وہ دونوں کون ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ مرارہ بن ربیعہ عامری اور ہلال بن امیہ واقفی ہیں۔ انہوں نے میرے سامنے دو نیک انسانوں کا نام لیا جو بدر میں شریک ہوئے تھے۔ ان (دونوں کی صورت) میں ایک قابل عمل نمونہ موجود تھا۔ کہا: جب انہوں نے میرے سامنے ان دونوں کا ذکر کیا تو میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس جانے کے بجائے اسی پر ڈٹا رہا۔) کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے رہ جانے والوں میں سے صرف ہم تینوں کو مخاطب کرتے ہوئے سب مسلمانوں کو ہم سے بات کرنے سے منع فرما دیا۔ کہا: لوگ ہم سے اجتناب برتنے لگے، یا کہا: وہ ہمارے لیے (بالکل ہی) بدل گئے، یہاں تک کہ میرے دل (کے خیال) میں یہ زمین میرے لیے اجنبی بن گئی، یہ اب وہ زمین نہ رہی تھی جسے میں پہچانتا تھا۔ ہم پچاس راتیں اسی حالت میں رہے۔ جہاں تک میرے دونوں ساتھیوں کا تعلق ہے تو وہ دونوں بے بس ہو کر روتے ہوئے گھروں میں بیٹھ گئے۔ میں ان دونوں کی نسبت زیادہ جوان اور دلیر تھا، اس لیے میں (گھر سے) نکلتا، نماز میں شامل ہوتا اور بازاروں میں گھومتا اور مجھ سے بات کوئی نہ کرتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی، جب آپ نماز کے بعد مجلس میں ہوتے، آتا اور سلام کرتا۔ میں اپنے دل میں سوچتا: کیا آپ نے سلام کے جواب میں لب مبارک ہلائے تھے یا نہیں؟ پھر میں آپ کے قریب (کھڑے ہو کر) نماز پڑھتا اور چور نظروں سے آپ کی طرف دیکھتا، جب میں اپنی نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب آپ کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ مجھ سے رخ مبارک پھیر لیتے، یہاں تک کہ جب میرے ساتھ مسلمانوں کی بے اعتنائی (کی مدت) طویل ہو گئی تو (ایک دن) میں چل پڑا اور (جا کر) ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پھلانگی (اور باغ میں چلا گیا۔) اور وہ میرے چچا کا بیٹا اور لوگوں میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا تو اللہ کی قسم! اس نے مجھے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے اس سے کہا: ابوقتادہ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا (ہوں اور پوچھتا) ہوں: تم جانتے ہو نا کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں؟ کہا: وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ پوچھا اور اسے اللہ کا واسطہ دیا تو (پھر بھی) وہ خاموش رہے۔ میں نے (تیسری بار) پھر سے پوچھا اور اللہ کا واسطہ دیا تو انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔ اس پر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، میں واپس مڑا، یہاں تک کہ (پھر سے) دیوار پھلانگی (اور باغ سے نکل گیا۔) ایک روز میں مدینہ کے بازار میں چلا جا رہا تھا تو میں نے اہل شام کے نبطیوں میں سے ایک نبطی (سامی، زمیندار) کو جو کھانے کی اجناس لے کر پیچنے کے لیے مدینہ آیا ہوا تھا، دیکھا، وہ کہتا پھر رہا تھا: کوئی ہے جو مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتا دے۔ لوگوں نے اس کے سامنے میری طرف اشارے کرنے شروع کر دئیے۔ یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور شاہ غسان کا ایک خط میرے حوالتےے کر دیا۔ میں لکھنا (پڑھنا) جانتا تھا۔ میں نے وہ خط پڑھا تو اس میں لکھا تھا: سلام کے بعد، ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے اور اللہ نے تمہیں ذلت اٹھانے اور ضائع ہو جانے والی جگہ میں (محبوس کر کے) نہیں رکھ دیا، لہذا تم ہمارے ساتھ آ ملو، ہم تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں گے، کہا: جب میں نے وہ خط پڑھا تو (دل میں) کہا: یہ ایک اور آزمائش ہے۔ میں نے اسے لے کر ایک تندور کا رخ کیا اور اس خط کو اس میں جلا دیا، یہاں تک کہ پچاس میں سے چالیس راتیں گزر گئیں اور وحی موخر ہو گئی تو اچانک میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے بھی الگ ہو جاؤ۔ کہا: میں نے پوچھا: کیا اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، بس الگ رہو۔ اس کے قریب نہ جاؤ، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی یہی پیغام بھیجا۔ کہا: میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور اس وقت تک انہی کے ساتھ رہو۔ جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملے کا فیصلہ نہ فرما دے۔ کہا: ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہلال بن امیہ اپنا خیال نہ رکھ سکنے والا بوڑھا انسان ہے، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں، کیا آپ اس بات کو بھی ناپسند کرتے ہیں کہ میں ان کی خدمت کروں؟ فرمایا: "نہیں، لیکن وہ تمہارے ساتھ قربت ہرگز اختیار نہ کرے۔" انہوں نے کہا: اللہ جانتا ہے وہ تو کسی چیز کی طرف حرکت بھی نہیں کر سکتے۔ جب سے ان کا یہ معاملہ ہوا ہے اس روز سے آج تک مسلسل روتے ہی رہتے ہیں۔ کہا: میرے گھر والوں میں سے بعض نے مجھ سے کہا: (اچھا ہوا) اگر تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اجازت دے دی ہے کہ وہ ان کی خدمت کرتی رہیں۔ کہا: میں نے جواب دیا: میں اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں مانگوں گا، مجھے معلوم نہیں کہ جب میں اس کے بارے میں آپ سے اجازت کی درخواست کروں تو آپ کیا فرمائیں، میں ایک جواب آدمی ہوں، (اپنا خیال خود رکھ سکتا ہوں) کہا: میں دس راتیں اسی عالم میں رہا اور جب سے ہمارے ساتھ بات چیت کو ممنوع قرار دیا گیا اس وقت سے پچاس راتیں پوری ہو گئیں۔کہا: پھر میں نے پچاسویں رات کی صبح اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر فجر کی نماز ادا کی اور میں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہماری جس حالت کا ذکر فرمایا، اسی حالت میں کہ مجھ پر زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ تھی اور میرا دل بھی مجھ پر تنگ پڑ چکا تھا، بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو وہ سلع پر چڑھ کر اپنی بلند ترین آواز میں کہہ رہا تھا: کعب بن مالک! خوش ہو جاؤ۔ کہا: میں (اسی وقت) سجدے میں گر گیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ (تنگی کے بعد) کشادگی (کی نوید) آ گئی ہے۔ کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صبح کی نماز پڑھی تو آپ نے لوگوں میں ہم پر اللہ کی توجہ اور عنایت (توبہ قبول کرنے) کا اعلان فرما دیا۔ لوگ ہمیں خوش خبری سنانے کے لیے چل پڑے، میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی خوش خبری سنانے والے رونہ ہو گئے اور میری طرف (آنے کے لیے) ایک شخص نے گھوڑا دوڑایا اور (میرے قبیلے) اسلم میں سے ایک شخص نے خود میری طرف دوڑ لگائی اور پہاڑ پر چڑھ گیا، تو آواز گھوڑے سے زیادہ تیز رفتار تھی (پہلے پہنچ گئی) جب وہ شخص میرے پاس پہنچا جس کی خوش خبری دینے کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کی خوش خبری کے بدلے اسے پہنا دیے۔ اللہ کی قسم! اس دن دو کپڑوں کے سوا میری ملکیت میں (پہننے کی) اور کوئی چیز نہ تھی۔ میں نے دو کپڑے عاریتا لے کر انہیں پہن لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سے ملاقات) کا قصد لے کر چل پڑا، لوگ گروہ در گروہ مجھ سے ملتے تھے، توبہ (قبول ہونے) پر مجھے مبارک باد دیتے تھے اور کہتے تھے: تم پر اللہ کی نظر عنایت تمہیں مبارک ہو! یہاں تک کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو (دیکھا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے، (ان میں سے) طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر میری طرف لپکے، میرے ساتھ مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی اور (میرے استقبال کے لیے اس طرح) نہ اٹھا۔ (عبداللہ بن کعب نے) کہا: کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات کبھی نہ بھولتے تھے (انہوں نے اس کو ہمیشہ یاد رکھا۔) حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا، جبکہ آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک رہا تھا اور آپ یہ فرما رہے تھے: "ماں کے پیٹ سے جنم لینے کے وقت سے جو بہترین دن تم پر گزر رہا ہے، تمہیں اس کی خوش خبری ہو!" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (یہ بشارت) آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔" اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت خوشی حاصل ہوتی تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح چمک اٹھتا تھا جیسے آپ کا چہرہ مبارک چاند کا ایک ٹکڑا ہو۔ کہا: اور ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی۔ کہا: جب میں آپ کے روبرو بیٹھ گیا تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری توبہ میں یہ بھی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صدقہ پیش کرنے کے لیے اپنے پورے مال سے دستبردار ہو جاؤں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھو، یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے۔" میں نے عرض کی: تو میں اپنا وہ حصہ جو مجھے خیبر سے ملا، اپنے پاس رکھ لیتا ہوں (حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ نے مجھے صرف اور صرف سچائی کی بنا پر نجات عطا فرمائی اور یہ بات بھی میری توبہ کا حصہ ہے کہ جب تک میری زندگی ہے، سچ کے بغیر کبھی کوئی بات نہیں کہوں گا۔ کہا: اللہ کی قسم! میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جسے اس وقت سے لے کر، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولا تھا، آج تک اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر انداز میں نوازا ہو، جس طرح مجھے نوازا۔ اللہ کی قسم! جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات عرض کی، اس وقت سے لے کر آج تک کوئی ایک جھوٹ بولنے کا ارادہ تک نہیں کیا اور میں امید رکھتا ہوں کہ میری بقیہ زندگی میں بھی اللہ مجھے (جھوٹ سے) محفوظ رکھے گا۔ کہا: اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیات) نازل فرمائیں: "اللہ تعالیٰ نے نظر عنایت فرمائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے تنگی کی گھڑی میں آپ کا اتباع کیا" حتی کہ آپ یہاں پہنچ گئے: "بےشک وہ انتہائی مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور ان تین (افراد) پر بھی جو پیچھے کر دیے گئے تھے یہاں تک کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی تھی اور خود ان کے اپنے دل ان پر تنگ پڑ گئے تھے اور انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اللہ سے پناہ ملنے کی، اس کے اپنے سوا، کہیں اور جگہ نہ تھی، پھر اس نے ان کی طرف نظر عنایت کی کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوں، یقینا اللہ ہی ہے بہت نظر عنایت کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا" سے لے کر اس ٹکڑے تک: "اے ایمان والو! اللہ کے سامنے تقویٰ اختیار کرو اور سچ بولنے والوں میں شامل ہو جاؤ۔" حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا راستہ دکھانے کے بعد، مجھ پر کبھی کوئی ایسا انعام نہیں کیا جس کی میرے دل میں اس سچ سے زیادہ قدر ہو جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بولا تھا، (یعنی) اس بات کی کہ میرے ساتھ ایسا نہ ہوا کہ میں آپ کے سامنے جھوٹ بولتا اور ان لوگوں کی طرح ہلاک ہو جاتا جنہوں نے جھوٹ بولا تھا۔ جن لوگوں نے جھوٹ بولا تھا، اللہ تعالیٰ نے جب وحی نازل فرمائی تو جتنی (کبھی) کسی شخص کی مذمت کی، ان کی اس سے کہیں زیادہ مذمت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "یہ لوگ جب تم (مدینہ میں) ان کے پاس واپس پہنچو گے تو ضرور اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صرف نظر کر لو، لہذا تم ان سے رخ پھیر لو، یہ (سرتاپا) گندگی ہیں اور جو کچھ یہ کرتے رہے اس کی جزا کے طور پر ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم لوگ ان سے راضی ہو جاؤ، اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ تعالیٰ (ان) فاسق لوگوں سے کبھی راضی نہ ہو گا۔" حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تینوں کو مخاطب کر کے، ہمیں ان لوگوں کے معاملے سے پیچھے (مؤخر) کر دیا گیا تھا جنہوں نے قسمیں کھائی تھیں اور (بظاہر) وہ قسمیں قبول کر لی گئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (تجدید) بیعت فرمائی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی کی تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا معاملہ مؤخر فرما دیا تھا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فیصلہ فرمایا، اسی کے متعلق اللہ عزوجل نے فرمایا: "اور ان تینوں پر بھی نظر عنایت فرمائی جن کو پیچھے (مؤخر) کر دیا گیا تھا۔" اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیچھے کردیے جانے کے بارے میں جو فرمایا ہے اس سے مراد ہمارا جنگ سے پیچھے رہ جانا نہ تھا بلکہ اس شخص کی نسبت ہمیں (ہمارا معاملہ) مؤخر کر دینا اور ہمارے معاملے کے فیصلے کو بعد میں کرنا مراد تھا کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسمیں کھائی، معذرت کی تو آپ نے اس سے قبول کر لی۔
امام ابن شہاب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کا جہاد کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ روم اور شام کے عرب نصرانیوں کے خلاف جہاد کا تھا۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب، جو کہ سیدنا کعب بن مالک ؓ کی نابینا ہو جانے کی بناء پر راہنمائی کیا کرتے تھے، نے کہا کہ سیدنا کعب بن مالک ؓ کو میں نے اپنے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا۔ سیدنا کعب بن مالک ؓ نے کہا کہ میں غزوہ تبوک کے علاوہ کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا، البتہ غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پیچھے رہ جانے والے پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ اور بدر میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے نکلے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ساتھ اچانک لڑا دیا (اور قافلہ نکل گیا)۔ اور میں رسول اللہ کے ساتھ لیلۃالعقبہ میں بھی موجود تھا (لیلۃالعقبہ وہ رات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے اسلام پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے پر بیعت لی تھی اور یہ بیعت جمرۃالعقبہ کے پاس جو منیٰ میں ہے دوبار ہوئی۔ پہلی بار میں بارہ انصاری تھے اور دوسری بار میں ستر انصاری تھے) اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے بدلے میں جنگ بدر میں شریک ہوتا، اگرچہ جنگ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ مشہور ہے (یعنی لوگ اس کو افضل کہتے ہیں)۔ اور غزوہ تبوک میں میرا پیچھے رہ جانے کا قصہ یہ ہے کہ اس غزوہ کے وقت میں میں جتنا قوی جوان اور خوشحال تھا، اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹنیاں کبھی جمع نہیں ہوئیں تھیں اور اس لڑائی کے وقت میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑائی کے لئے سخت گرمی کے دنوں میں چلے اور سفر بھی لمبا تھا اور راہ میں جنگل تھے (دور دراز جن میں پانی کم ملتا اور ہلاکت کا خوف ہوتا ہے) اور بہت سارے دشمنوں سے مقابلہ تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے صاف صاف فرمایا دیا کہ میں اس لڑائی کے لئے جا رہا ہوں (حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ اور لڑائیوں میں اپنا ارادہ مصلحت کے تحت صاف صاف نہ فرماتے تھے تاکہ خبر مشہور نہ ہو) تاکہ وہ اپنی تیاری کر لیں۔ ان سے کہہ دیا کہ فلاں طرف کو جانا ہے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے مسلمان تھے اور کوئی رجسٹر نہ تھا جس میں ان کے نام لکھے جا سکتے۔ سیدنا کعب نے کہا کہ بہت کم کوئی ایسا شخص ہو گا جو یہ گمان کر کے اس غزوہ سے غائب ہونے کا ارادہ کرے کہ اس کا معاملہ جب تک وحی نہ آئے گی، مخفی رہے گا۔ اور یہ جہاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا جب پھل پک گئے تھے اور سایہ خوب تھا اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیاری کی۔ میں نے بھی ہر صبح کو اس ارادہ سے نکلنا شروع کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں، لیکن میں ہر روز لوٹ آتا اور کچھ فیصلہ نہ کرتا اور اپنے دل میں کہتا کہ میں جب چاہوں جا سکتا ہوں (کیونکہ سفر کا سامان میرے پاس موجود تھا) میں یہی سوچتا رہا حتیٰ کہ مسلمانوں نے سامان سفر تیار کر لیا اور ایک صبح رسول اللہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر نکل پڑے۔ اور میں نے کوئی تیاری نہ کی۔ پھر میں صبح کو نکلا اور لوٹ کر آ گیا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔ میرا یہی حال رہا، یہاں تک کہ لوگوں نے جلدی کی اور سب مجاہدین آگے نکل گئے۔ اس وقت میں نے بھی کوچ کا قصد کیا کہ ان سے مل جاؤں۔ اے کاش میں ایسا کرتا، لیکن میری تقدیر میں نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے رنج ہوتا، کیونکہ میں کوئی پیروی کے لائق نہ پاتا مگر ایسا شخص جس پر منافق ہونے کا گمان تھا یا معذور ضعیف اور ناتواں لوگوں میں سے۔ خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (راہ میں) میری یاد کہیں نہ کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس وقت فرمایا کعب بن مالک کہاں گیا؟ بنی سلمہ میں سے ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ! اس کو اس کی چادروں نے روک لیا ہے، وہ اپنے دونوں کناروں کو دیکھتا ہے (یعنی اپنے لباس اور نفس میں مشغول اور مصروف ہے)۔ سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے یہ سن کر کہا کہ تو نے بری بات کہی، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! ہم تو کعب بن مالک کو اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے آ رہا تھا اور (چلنے کی وجہ سے) ریت کو اڑا رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ابوخیثمہ ہے۔ پھر وہ ابوخیثمہ ہی تھا اور ابوخیثمہ وہ شخص تھا جس نے ایک صاع کھجور صدقہ دی تھی اور منافقوں نے اس پر طعن کیا تھا۔ سیدنا کعب بن مالک ؓ نے کہا کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، تو میرا رنج بڑھ گیا۔ میں نے جھوٹ باتیں بنانا شروع کیں کہ کوئی بات ایسی کہوں جس سے کل (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچ جاؤں اور اس معاملہ کے لئے میں نے اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک عقلمند شخص سے مدد لینا شروع کی یعنی ان سے بھی صلاح لی (کہ کیا بات بناؤں)۔ جب لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب آ پہنچے تو اس وقت سارا جھوٹ کافور ہو گیا اور میں سمجھ گیا کہ اب میں کوئی جھوٹ بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات نہیں پا سکتا۔ آخر میں نے سچ بولنے کی نیت کر لی اور صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لئے بیٹھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کر چکے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے عذر بیان کرنے شروع کئے اور قسمیں کھانے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زیادہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ظاہر بات کو مان لیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی اور ان کی نیت (یعنی دل کی بات کو) اللہ کے سپرد کر دیا۔ جب میں آیا، پس میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے لیکن اس طرح جیسے کوئی غصہ کی حالت میں مسکراتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آؤ۔ میں چلتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو پیچھے کیوں رہ گیا؟ تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا کے شخصوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں یہ خیال کرتا کہ کوئی عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے نکل جاؤں گا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے زبان کی قوت دی ہے (یعنی میں عمدہ تقریر کر سکتا ہوں اور خوب بات بنا سکتا ہوں)، لیکن اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ اگر میں کوئی جھوٹ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خوش ہو جائیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے اوپر غصہ کر دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائے گا کہ میرا عذر جھوٹ اور غلط تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں گے) اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ کہوں گا تو بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے گا۔ اللہ کی قسم! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گیا اس وقت مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ کی قسم میں کبھی نہ اتنا قوی اور اتنا مالدار نہ تھا جتنا اس وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کعب نے سچ کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں فیصلہ کر دے۔ میں کھڑا ہو گیا اور بنی سلمہ کے چند لوگ دوڑ کر میرے پیچھے ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو، پس تم عاجز کیوں ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا جس طرح اور پیچھے رہ جانے والوں نے عذر بیان کئے؟ اور تیرا گناہ بخشوانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی ہوتا۔ اللہ کی قسم وہ لوگ مجھے ملامت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر جاؤں اور اپنے آپ کو جھوٹا کروں (اور کوئی عذر بیان کروں)۔ پھر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کسی اور کا بھی ایسا حال ہوا ہے جو میرا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! دو شخص ایسے اور ہیں انہوں نے بھی وہی کہا جو تو نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا۔ میں نے پوچھا کہ وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ واقفی۔ ان لوگوں نے ایسے دو شخصوں کے نام لئے جو نیک تھے، بدر کی لڑائی میں موجود تھے اور پیروی کے قابل تھے۔ جب ان لوگوں نے ان دونوں کا نام لیا تو میں اپنے پہلے حال پر قائم رہا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پیچھے رہ جانے والے ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا، تو لوگوں نے ہم سے پرہیز شروع کیا اور ان کا حال ہمارے ساتھ بالکل بدل گیا، یہاں تک کہ زمین بھی گویا بدل گئی، وہ زمین ہی نہ رہی جس کو میں پہچانتا تھا۔ پچاس راتوں تک ہمارا یہی حال رہا۔ میرے دونوں ساتھی تو عاجز ہو گئے اور اپنے گھروں میں روتے ہوئے بیٹھ رہے لیکن میں تو سب لوگوں میں نوجوان اور طاقتور تھا۔ میں نکلا کرتا تھا اور نماز کے لئے بھی آتا اور بازاروں میں بھی پھرتا لیکن کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تو آ کر ان کو سلام کرتا اور دل میں یہ کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لبوں کو سلام کا جواب دینے کے لئے ہلایا یا نہیں ہلایا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھتا اور چور نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو جب میں نماز میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پھیر لیتے۔ حتیٰ کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر لمبی ہوئی تو میں چلا اور ابوقتادہ ؓ کے باغ کی دیوار پر چڑھا، اور ابوقتادہ میرے چچازاد بھائی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ مجھے ان سے محبت تھی۔ ان کو سلام کیا تو اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا (سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ایسے ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سامنے بھائی بیٹے کی پرواہ بھی نہیں کرتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت نہ ہو تو ایمان کس کام کا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جب معلوم ہو جائے کہ صحیح ہے تو مجتہد اور مولویوں کا قول جو اس کے خلاف ہو دیوار پر مارنا چاہئے اور حدیث پر چلنا چاہئے)۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابوقتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول اسے محبت رکھتا ہوں؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، وہ پھر خاموش رہے۔ میں نے پھر تیسری بار قسم دی تو بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں (یہ بھی کعب سے نہیں بولے بلکہ خود اپنے میں بات کی)۔ آخر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر چلا اور دیوار پر چڑھا۔ میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ ملک شام کے کسانوں میں سے ایک کسان جو مدینہ میں اناج بیچنے کے لئے آیا تھا، کہہ رہا تھا کہ کعب بن مالک کا گھر مجھے کون بتائے گا؟ لوگوں نے اس کو میری طرف اشارہ شروع کیا، یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا۔ میں چونکہ پڑھ سکتا تھا، میں نے اس کو پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ امابعد! ”ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر ناراض ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت کے گھر میں نہیں کیا، نہ اس جگہ جہاں تمہارا حق ضائع ہو، تو تم ہم سے مل جاؤ، ہم تمہاری خاطر داری کریں گے“۔ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے اور اس خط کو میں نے تنور میں جلا دیا۔ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی نہ آئی تو یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم کرتے ہیں کہ اپنی بی بی سے علیحدہ رہو۔ میں نے کہا کہ اس کو طلاق دیدوں یا کیا کروں؟ وہ بولا کہ نہیں طلاق مت دو، صرف الگ رہو اور اس سے صحبت مت کرو۔میرے دونوں ساتھیوں (جو پیچھے رہ گئے تھے) کو بھی یہی پیغام ملا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے عزیزوں میں چلی جا اور وہیں رہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے۔ سیدنا ہلال بن امیہ ؓ کی بیوی یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ ایک بوڑھا کمزور شخص ہے، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم برا سمجھتے ہیں کہ اگر میں اس کی خدمت کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خدمت کو برا نہیں سمجھتا لیکن وہ تجھ سے صحبت نہ کرے۔ وہ بولی کہ اللہ کی قسم! اس کو کسی کام کا خیال نہیں اور اللہ کی قسم! وہ اس دن سے اب تک رو رہا ہے۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ کاش تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت لے لو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ کی عورت کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دے دی تو میں نے کہا کہ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے لئے اجازت نہ لوں گا اور معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں گے اگر میں اپنی بیوی کے لئے اجازت لوں اور میں جوان آدمی ہوں۔ پھر میں دس راتیں اسی حال میں رہا، یہاں تک کہ اس تاریخ سے پچاس راتیں پوری ہوئیں جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے سب لوگوں کو بات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ پھر پچاسویں رات کو صبح کے وقت میں نے اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز پڑھی میں اسی حال میں بیٹھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارا حال بیان کیا کہ میرا جی تنگ ہو گیا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی تھی۔ اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جو سلع (نامی) پہاڑ پر سے بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کعب بن مالک! خوش ہو جا۔ یہ سن کر میں سجدہ میں گرا اور میں نے پہچانا کہ اب کشادگی آ گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ لوگ ہمیں خوشخبری دینے کو چلے، میرے دونوں ساتھیوں کے پاس چند خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص نے میرے پاس گھوڑا دوڑایا اور ایک دوڑنے والا اسلم قبیلہ سے میری طرف آیا اور اس کی آواز گھوڑے سے جلدی مجھ کو پہنچی۔ جب وہ شخص آیا جس کی خوشخبری کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس خوشخبری کے صلہ میں اس کو پہنا دئیے۔ اللہ کی قسم! اس وقت میرے پاس وہی دو کپڑے تھے۔ میں نے دو کپڑے عاریۃً لئے اور ان کو پہن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی نیت سے چلا۔ لوگ مجھ سے گروہ گروہ ملتے جاتے تھے اور مجھے معافی کی مبارکباد دیتے جاتے تھے اور کہتے تھے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی معافی کی قبولیت مبارک ہو۔ یہاں تک کہ میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ تھے۔ اور طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے مجھے دیکھتے ہی دوڑ کر آ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا تو سیدنا کعب ؓ سیدنا طلحہ ؓ کے اس احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ سیدنا کعب بن مالک ؓ نے کہا کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک دمک رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوش ہو جا، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا آج کا دن، تیرے لئے بہتر دن ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمک جاتا تھا گویا کہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم اس بات (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی) کو پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اپنی معافی کی خوشی میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا تھوڑا مال رکھ لو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیتا ہوں۔ اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آخر کار سچائی نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمیشہ سچ کہوں گا جب تک زندہ رہوں۔ سیدنا کعب ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان پر سچ بولنے پر ایسا احسان کیا ہو جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا جیسا عمدہ طرح سے مجھ پر احسان کیا۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اس وقت سے آج کے دن تک کوئی جھوٹ قصداً نہیں بولا۔ آج کے دن تک اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے بچائے گا۔ سیدنا کعب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں ”بیشک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مہاجرین اور انصار کو معاف کیا جنہوں نے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مفلسی کے وقت ساتھ دیا“ یہاں تک کہ فرمایا ”وہ مہربان ہے اور رحم والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان تین شخصوں کو بھی معاف کیا جو پیچھے چھوڑے گئے، یہاں تک کہ زمین ان پر باوجود اپنی کشادگی کے تنگ ہو گئی اور ان کے نفس بھی تنگ ہو گئے اور سمجھے کہ اب اللہ تعالیٰ سے کوئی بچاؤ نہیں مگر اسی کی طرف، پھر اللہ نے ان کو معاف کیا تاکہ وہ توبہ کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈور اور سچوں کے ساتھ رہو“(سورۃ: التوبہ: 117تا119) سیدنا کعب ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب سے مجھے اسلام کی ہدایت دی ہے، اس سے بڑھ کوئی احسان مجھ پر نہیں کیا جو میرے نزدیک اتنا بڑا ہو، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بول دیا اور جھوٹ نہیں بولا، ورنہ تباہ ہوتا جیسے جھوٹے تباہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کی جب وحی اتاری تو ایسی برائی بیان کی کہ کسی (اور) کی نہ کی ہو گی۔ فرمایا کہ ”جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو عنقریب وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے کوئی تعرض نہ کرو، سو تم ان سے اعراض کر لو، بیشک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یہ بدلہ ہے ان کی کمائی کا۔ وہ تم سے اس لئے قسمیں کھاتے ہیں کہ تم ان سے خوش ہو جاؤ۔ پس اگر تم ان سے خوش بھی ہو جاؤ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے خوش نہیں ہو گا“۔ سیدنا کعب ؓ نے کہا کہ ہم تینوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر کیا گیا جن کا عذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی تو ان سے بیعت کی اور ان کے لئے استغفار کیا اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے ڈال رکھا (یعنی ہمارا مقدمہ، فیصلہ پیچھے رکھا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔ اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”معاف کیا ان تینوں کو جو پیچھے ڈالے گئے تھے، یہاں تک کہ ان پر زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہو گئی“ اور اس لفظ (یعنی خلّفوا) سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے، بلکہ وہی مراد ہے ہمارے مقدمہ کا پیچھے رہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھے ڈال رکھنا بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے قسم کھائی اور عذر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔
زہری کے بھتیجے محمد بن عبداللہ بن مسلم نے ہمیں اپنے چچا محمد بن مسلم زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب بن مالک نے، اور وہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہونے کے بعد ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کی رہنمائی کرتے تھے، کہا: میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنی حدیث (اپنا واقعہ) بیان کرتے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے، پھر انہوں نے (سابقہ حدیث کی طرح) حدیث بیان کی اور اس میں یونس کی روایت پر مزید یہ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم ہی کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تھے مگر عملا اس جنگ کے ہونے تک، کسی اور (مہم) کی جہت ظاہر فرماتے حتی کہ یہ غزوہ (بھی اسی نہج پر) ہوا۔ اور انہوں نے زہری کے بھتیجے کی حدیث میں ابوخیثمہ کا اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملنے کا ذکر نہیں لیا۔
عبید اللہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نابینا ہوجانے کے بعد ان کی راہنمائی کرتے تھے،بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت کعب بن مالک سے ان کے غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ ان کی اپنی زبان سے سنا، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، جس میں یہ اضافہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ کے لیے نکلنا چاہتے تھے تو عام طور پر توریہ سے کام لیتے ہوئے اور جہت کا ذکرکرتے، حتی کہ یہ غزوہ آگیا (توآپ نے اس کا تذکرہ صراحتاًفرمایا:فرمایا)اور زہری کی بھتیجے نے اپنی اس حدیث میں،حضرت ابو خیثمہ اور ان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاملنے کا ذکر نہیں کیا۔
معقل بن عبیداللہ نے زہری سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے اپنے چچا عبیداللہ بن کعب سے روایت کی اور جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی آنکھیں جاتی رہیں تو وہی ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کی رہنما کرتے تھے۔ وہ اپنی قوم میں سب سے بڑے عالم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی احادیث کے سب سے بڑے حافظ تھے، انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ان تین لوگوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول کی گئی، وہ حدیث بیان کرتے تھے کہ وہ دو غزووں کو چھوڑ کر کبھی کسی غزوے میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا، آپ سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے (سابقہ حدیث کی طرح) حدیث بیان کی اور اس میں کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ، جو دس ہزار سے زیادہ تھے اور کسی محفوظ رکھنے والے کے دیوان (رجسٹر) میں ان سب کے نام درج نہ تھے، اس جنگ کے لیے نکلے۔
عبید اللہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نابینا ہوجانے کے بعد ان کے رہبر تھے اور اپنی قوم میں سے سب سے بڑے عالم تھے اور اپنی قوم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی احادیث کو یاد رکھتے تھے، وہ بیان کرتے ہیں، میں نے اپنے باپ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک سے جو ان تین میں ایک ہیں جن کی توبہ قبول کی گئی، بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کسی غزوہ سے جو آپ نے کیا کبھی پیچھے نہیں رہے۔سوائے دو غزؤں (بدر، تبوک) کے اور آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی، اس میں یہ بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کی معیت میں جو اس دس ہزار سے زائد تھے،جہاد کیا اور کسی محفوظ رکھنے والے دفتر یا رجسٹرمیں ان کا نام درج نہ تھا۔
حدثنا حبان بن موسى ، اخبرنا عبد الله بن المبارك ، اخبرنا يونس بن يزيد الايلي . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال ابن رافع: حدثنا، وقال الآخران: اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، والسياق حديث معمر من رواية عبد وابن رافع، قال يونس ومعمر جميعا عن الزهري ، اخبرني سعيد بن المسيب ، وعروة بن الزبير ، وعلقمة بن وقاص ، وعبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن حديث عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، حين قال لها: " اهل الإفك ما قالوا فبراها الله مما قالوا، وكلهم حدثني طائفة من حديثها وبعضهم كان اوعى لحديثها من بعض، واثبت اقتصاصا وقد وعيت عن كل واحد منهم الحديث الذي حدثني، وبعض حديثهم يصدق بعضا ذكروا، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يخرج سفرا اقرع بين نسائه، فايتهن خرج سهمها خرج بها رسول الله صلى الله عليه وسلم معه، قالت عائشة: فاقرع بيننا في غزوة غزاها، فخرج فيها سهمي، فخرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وذلك بعد ما انزل الحجاب، فانا احمل في هودجي وانزل فيه مسيرنا، حتى إذا فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوه وقفل ودنونا من المدينة آذن ليلة بالرحيل، فقمت حين آذنوا بالرحيل، فمشيت حتى جاوزت الجيش، فلما قضيت من شاني اقبلت إلى الرحل، فلمست صدري فإذا عقدي من جزع ظفار قد انقطع، فرجعت فالتمست عقدي، فحبسني ابتغاؤه واقبل الرهط الذين كانوا يرحلون لي فحملوا هودجي، فرحلوه على بعيري الذي كنت اركب وهم يحسبون اني فيه، قالت: وكانت النساء إذ ذاك خفافا لم يهبلن ولم يغشهن اللحم إنما ياكلن العلقة من الطعام، فلم يستنكر القوم ثقل الهودج حين رحلوه ورفعوه، وكنت جارية حديثة السن، فبعثوا الجمل وساروا ووجدت عقدي بعد ما استمر الجيش، فجئت منازلهم وليس بها داع ولا مجيب، فتيممت منزلي الذي كنت فيه وظننت ان القوم سيفقدوني فيرجعون إلي، فبينا انا جالسة في منزلي غلبتني عيني، فنمت وكان صفوان بن المعطل السلمي ثم الذكواني قد عرس من وراء الجيش، فادلج فاصبح عند منزلي فراى سواد إنسان نائم، فاتاني فعرفني حين رآني، وقد كان يراني قبل ان يضرب الحجاب علي، فاستيقظت باسترجاعه حين عرفني، فخمرت وجهي بجلبابي والله ما يكلمني كلمة ولا سمعت منه كلمة غير استرجاعه حتى اناخ راحلته، فوطئ على يدها، فركبتها فانطلق يقود بي الراحلة حتى اتينا الجيش بعد ما نزلوا موغرين في نحر الظهيرة، فهلك من هلك في شاني وكان الذي تولى كبره عبد الله بن ابي ابن سلول، فقدمنا المدينة فاشتكيت حين قدمنا المدينة شهرا والناس يفيضون في قول اهل الإفك ولا اشعر بشيء من ذلك، وهو يريبني في وجعي اني لا اعرف من رسول الله صلى الله عليه وسلم اللطف الذي كنت ارى منه حين اشتكي، إنما يدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيسلم، ثم يقول: كيف تيكم، فذاك يريبني ولا اشعر بالشر حتى خرجت بعد ما نقهت وخرجت معي ام مسطح قبل المناصع وهو متبرزنا ولا نخرج إلا ليلا إلى ليل، وذلك قبل ان نتخذ الكنف قريبا من بيوتنا وامرنا امر العرب الاول في التنزه، وكنا نتاذى بالكنف ان نتخذها عند بيوتنا، فانطلقت انا وام مسطح وهي بنت ابي رهم بن المطلب بن عبد مناف وامها ابنة صخر بن عامر خالة ابي بكر الصديق، وابنها مسطح بن اثاثة بن عباد بن المطلب، فاقبلت انا وبنت ابي رهم قبل بيتي حين، فرغنا من شاننا فعثرت ام مسطح في مرطها، فقالت: تعس مسطح، فقلت لها: بئس ما قلت اتسبين رجلا قد شهد بدرا، قالت: اي هنتاه او لم تسمعي ما قال؟، قلت: وماذا قال؟، قالت: فاخبرتني بقول اهل الإفك فازددت مرضا إلى مرضي، فلما رجعت إلى بيتي فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم، ثم قال: كيف تيكم، قلت: اتاذن لي ان آتي ابوي، قالت: وانا حينئذ اريد ان اتيقن الخبر من قبلهما، فاذن لي رسول الله صلى الله عليه وسلم فجئت ابوي، فقلت لامي يا امتاه: ما يتحدث الناس؟، فقالت يا بنية: هوني عليك فوالله لقلما كانت امراة قط وضيئة عند رجل يحبها ولها ضرائر إلا كثرن عليها، قالت: قلت: سبحان الله وقد تحدث الناس بهذا، قالت: فبكيت تلك الليلة حتى اصبحت لا يرقا لي دمع ولا اكتحل بنوم ثم اصبحت ابكي، ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب واسامة بن زيد حين استلبث الوحي يستشيرهما في فراق اهله، قالت: فاما اسامة بن زيد، فاشار على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالذي يعلم من براءة اهله وبالذي يعلم في نفسه لهم من الود، فقال: يا رسول الله، هم اهلك ولا نعلم إلا خيرا، واما علي بن ابي طالب، فقال: لم يضيق الله عليك والنساء سواها كثير، وإن تسال الجارية تصدقك، قالت: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بريرة، فقال اي بريرة: هل رايت من شيء يريبك من عائشة؟، قالت له بريرة: والذي بعثك بالحق إن رايت عليها امرا قط اغمصه عليها اكثر من انها جارية حديثة السن تنام عن عجين اهلها، فتاتي الداجن، فتاكله، قالت: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر فاستعذر من عبد الله بن ابي ابن سلول، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر: يا معشر المسلمين من يعذرني من رجل قد بلغ اذاه في اهل بيتي، فوالله ما علمت على اهلي إلا خيرا، ولقد ذكروا رجلا ما علمت عليه إلا خيرا، وما كان يدخل على اهلي إلا معي، فقام سعد بن معاذ الانصاري، فقال: انا اعذرك منه يا رسول الله، إن كان من الاوس ضربنا عنقه، وإن كان من إخواننا الخزرج امرتنا، ففعلنا امرك، قالت: فقام سعد بن عبادة وهو سيد الخزرج، وكان رجلا صالحا، ولكن اجتهلته الحمية، فقال لسعد بن معاذ: كذبت لعمر الله لا تقتله ولا تقدر على قتله، فقام اسيد بن حضير وهو ابن عم سعد بن معاذ، فقال لسعد بن عبادة: كذبت لعمر الله لنقتلنه، فإنك منافق تجادل عن المنافقين، فثار الحيان الاوس والخزرج حتى هموا ان يقتتلوا ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم على المنبر، فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يخفضهم حتى سكتوا وسكت، قالت: وبكيت يومي ذلك لا يرقا لي دمع ولا اكتحل بنوم، ثم بكيت ليلتي المقبلة لا يرقا لي دمع ولا اكتحل بنوم وابواي يظنان ان البكاء، فالق كبدي فبينما هما جالسان عندي وانا ابكي استاذنت علي امراة من الانصار، فاذنت لها فجلست تبكي، قالت: فبينا نحن على ذلك دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسلم ثم جلس، قالت: ولم يجلس عندي منذ قيل لي ما قيل، وقد لبث شهرا لا يوحى إليه في شاني بشيء، قالت: فتشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين جلس، ثم قال اما بعد يا عائشة: فإنه قد بلغني عنك كذا وكذا، فإن كنت بريئة فسيبرئك الله، وإن كنت الممت بذنب فاستغفري الله وتوبي إليه، فإن العبد إذا اعترف بذنب ثم تاب تاب الله عليه، قالت: فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم مقالته قلص دمعي حتى ما احس منه قطرة، فقلت لابي: اجب عني رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما، قال، فقال: والله ما ادري ما اقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت لامي: اجيبي عني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: والله ما ادري ما اقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت وانا جارية حديثة السن: لا اقرا كثيرا من القرآن إني والله لقد عرفت انكم قد سمعتم بهذا حتى استقر في نفوسكم وصدقتم به، فإن قلت لكم إني بريئة والله يعلم اني بريئة لا تصدقوني بذلك، ولئن اعترفت لكم بامر والله يعلم اني بريئة لتصدقونني، وإني والله ما اجد لي ولكم مثلا إلا كما، قال ابو يوسف: فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون سورة يوسف آية 18، قالت: ثم تحولت فاضطجعت على فراشي، قالت: وانا والله حينئذ اعلم اني بريئة، وان الله مبرئي ببراءتي، ولكن والله ما كنت اظن ان ينزل في شاني وحي يتلى، ولشاني كان احقر في نفسي من ان يتكلم الله عز وجل في بامر يتلى، ولكني كنت ارجو ان يرى رسول الله صلى الله عليه وسلم في النوم رؤيا يبرئني الله بها، قالت: فوالله ما رام رسول الله صلى الله عليه وسلم مجلسه ولا خرج من اهل البيت احد حتى انزل الله عز وجل على نبيه صلى الله عليه وسلم، فاخذه ما كان ياخذه من البرحاء عند الوحي حتى إنه ليتحدر منه مثل الجمان من العرق في اليوم الشات من ثقل، القول الذي انزل عليه، قالت: فلما سري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يضحك، فكان اول كلمة تكلم بها ان، قال: ابشري يا عائشة اما الله، فقد براك، فقالت لي امي: قومي إليه، فقلت: والله لا اقوم إليه ولا احمد إلا الله هو الذي انزل براءتي، قالت: فانزل الله عز وجل إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم سورة النور آية 11 عشر آيات، فانزل الله عز وجل هؤلاء الآيات براءتي، قالت: فقال ابو بكر وكان ينفق على مسطح لقرابته منه وفقره: والله لا انفق عليه شيئا ابدا بعد الذي، قال لعائشة: فانزل الله عز وجل ولا ياتل اولو الفضل منكم والسعة ان يؤتوا اولي القربى إلى قوله الا تحبون ان يغفر الله لكم سورة النور آية 22، قال حبان بن موسى: قال عبد الله بن المبارك: هذه ارجى آية في كتاب الله، فقال ابو بكر: والله إني لاحب ان يغفر الله لي، فرجع إلى مسطح النفقة التي كان ينفق عليه، وقال: لا انزعها منه ابدا، قالت عائشة: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم سال زينب بنت جحش زوج النبي صلى الله عليه وسلم عن امري ما علمت او ما رايت؟، فقالت: يا رسول الله، احمي سمعي وبصري والله ما علمت إلا خيرا، قالت عائشة: وهي التي كانت تساميني من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، فعصمها الله بالورع وطفقت اختها حمنة بنت جحش تحارب لها، فهلكت فيمن هلك "، قال الزهري: فهذا ما انتهى إلينا من امر هؤلاء الرهط، وقال في حديث يونس: احتملته الحمية، حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، وَالسِّيَاقُ حَدِيثُ مَعْمَرٍ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدٍ وَابْنِ رَافِعٍ، قَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ جميعا عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَالَ لَهَا: " أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا، وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ كَانَ أَوْعَى لِحَدِيثِهَا مِنْ بَعْضٍ، وَأَثْبَتَ اقْتِصَاصًا وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا ذَكَرُوا، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا، فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِي، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ مَسِيرَنَا، حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوِهِ وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ مِنْ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى الرَّحْلِ، فَلَمَسْتُ صَدْرِي فَإِذَا عِقْدِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ، فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي، فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِي فَحَمَلُوا هَوْدَجِي، فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِيَ الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ، قَالَتْ: وَكَانَتِ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُهَبَّلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ إِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ ثِقَلَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَحَلُوهُ وَرَفَعُوهُ، وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا وَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ، فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلَا مُجِيبٌ، فَتَيَمَّمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ فِيهِ وَظَنَنْتُ أَنَّ الْقَوْمَ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي، فَنِمْتُ وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ قَدْ عَرَّسَ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ، فَادَّلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ، فَأَتَانِي فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وَقَدْ كَانَ يَرَانِي قَبْلَ أَنْ يُضْرَبَ الْحِجَابُ عَلَيَّ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي، فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي َ وَاللَّهِ مَا يُكَلِّمُنِي كَلِمَةً وَلَا سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، فَوَطِئَ عَلَى يَدِهَا، فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِيَ الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ فِي شَأْنِي وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ وَلَا أَشْعُرُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَهُوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي، إِنَّمَا يَدْخُلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُولُ: كَيْفَ تِيكُمْ، فَذَاكَ يَرِيبُنِي وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَ مَا نَقَهْتُ وَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَهُوَ مُتَبَرَّزُنَا وَلَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي التَّنَزُّهِ، وَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِيَ بِنْتُ أَبِي رُهْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا ابْنَةُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَبِنْتُ أَبِي رُهْمٍ قِبَلَ بَيْتِي حِينَ، فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلًا قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، قَالَتْ: أَيْ هَنْتَاهْ أَوْ لَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ؟، قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟، قَالَتْ: فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا إِلَى مَرَضِي، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ تِيكُمْ، قُلْتُ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ، قَالَتْ: وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَتَيَقَّنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا، فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَبَوَيَّ، فَقُلْتُ لِأُمِّي يَا أُمَّتَاهْ: مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ؟، فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ: هَوِّنِي عَلَيْكِ فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا، قَالَتْ: قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا، قَالَتْ: فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ثُمَّ أَصْبَحْتُ أَبْكِي، وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، قَالَتْ: فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَبِالَّذِي يَعْلَمُ فِي نَفْسِهِ لَهُمْ مِنَ الْوُدِّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُمْ أَهْلُكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ، وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ، قَالَتْ: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيرَةَ، فَقَالَ أَيْ بَرِيرَةُ: هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ مِنْ عَائِشَةَ؟، قَالَتْ لَهُ بَرِيرَةُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ، فَتَأْكُلُهُ، قَالَتْ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَ أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا، فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ، قَالَتْ: فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا، وَلَكِنْ اجْتَهَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ، فَثَارَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ، قَالَتْ: وَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، ثُمَّ بَكَيْتُ لَيْلَتِي الْمُقْبِلَةَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ وَأَبَوَايَ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ، فَالِقٌ كَبِدِي فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي اسْتَأْذَنَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَأَذِنْتُ لَهَا فَجَلَسَتْ تَبْكِي، قَالَتْ: فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، قَالَتْ: وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ لِي مَا قِيلَ، وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي بِشَيْءٍ، قَالَتْ: فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَلَسَ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ: فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً، فَقُلْتُ لِأَبِي: أَجِبْ عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا، قَالَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لِأُمِّي: أَجِيبِي عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ: لَا أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ بِهَذَا حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي نُفُوسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ، فَإِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ، وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُونَنِي، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا كَمَا، قَالَ أَبُو يُوسُفَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18، قَالَتْ: ثُمَّ تَحَوَّلْتُ فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي، قَالَتْ: وَأَنَا وَاللَّهِ حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ، وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنْ يُنْزَلَ فِي شَأْنِي وَحْيٌ يُتْلَى، وَلَشَأْنِي كَانَ أَحْقَرَ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى، وَلَكِنِّي كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسَهُ وَلَا خَرَجَ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ أَحَدٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ عِنْدَ الْوَحْيِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِي الْيَوْمِ الشَّاتِ مِنْ ثِقَلِ، الْقَوْلِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ، قَالَتْ: فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ، قَالَ: أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ، فَقَدْ بَرَّأَكِ، فَقَالَتْ لِي أُمِّي: قُومِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سورة النور آية 11 عَشْرَ آيَاتٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ بَرَاءَتِي، قَالَتْ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ: وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَيْهِ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي، قَالَ لِعَائِشَةَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ سورة النور آية 22، قَالَ حِبَّانُ بْنُ مُوسَى: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: هَذِهِ أَرْجَى آيَةٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرِي مَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَيْتِ؟، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَهَا، فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَهَذَا مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ أَمْرِ هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ، وقَالَ فِي حَدِيثِ يُونُسَ: احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ،
حبان بن موسیٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں یونس بن یزید ایلی نے خبر دی، نیز ہمیں اسحٰق بن ابراہیم، محمد بن رافع اور عبد بن حمید نے بھی (یہی) حدیث بیان کی۔۔ ابن رافع نے کہا: ہمیں عبدالرزاق نے حدیث بیان کی اور دیگر نے کہا: ہمیں خبر دی۔۔ انہوں نے کہا: ہمیں معمر نے خبر دی، اور (حدیث کا) پچھلا حصہ معمر کی حدیث کا ہے جو عبد (بن حمید) اور (محمد) ابن رافع سے روایت کی گئی ہے، یونس اور معمر دونوں نے زہری سے روایت کرتے ہوئے کہا: مجھے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بارے میں خبر دی جب بہتان تراشنے والوں نے اس حوالے سے جو کچھ کہا، وہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے کی گئی باتوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت فرما دی۔ ان سب نے مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا، ان میں سے بعض کو دوسرے بعض لوگوں کی نسبت ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کی حدیث زیادہ یاد تھی۔ میں نے ان میں سے ہر ایک سے اس کی بیان کی ہوئی حدیث اچھی طرح حفظ کر لی۔ ان کی حدیث کے اجزاء ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں۔ ان سب نے یہ بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کے لیے نکلنے کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے، ان میں سے جس کا قرعہ نکلتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ لے کر (سفر پر) نکلتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ میں جو آپ نے لڑی، (غزوہ بنی مصطلق مراد ہے جس کا دوسرا نام غزوہ مُریسیع ہے۔ یہ 5ھ میں لڑی گئی) قرعہ ڈالا تو میرا نام نکلا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔ پورے سفر میں مجھے ہودج (کجاوے) میں ہی اٹھایا (اور اونٹ کی پیٹھ پر بٹھایا) جاتا تھا اور ہودج ہی میں (نیچے) اتارا جاتا تھا یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غزوے سے فارغ ہو گئے اور واپس روانہ ہوئے اور ہم مدینہ سے قریب پہنچ گئے تو آپ نے (رات کا کچھ حصہ آرام کرنے کے بعد) رات ہی کو سفر کا اعلان فرما دیا۔ جب ان سب لوگوں نے سفر کا اعلان کر دیا تو میں اٹھی، (پہلے) چل کر لشکر سے باہر نکلی اور جب ضرورت سے فارغ ہو گئی تو کجاوے کی طرف آئی۔ اس وقت میں نے اپنی گردن کے نیچے ہاتھ لگایا تو (یمن کے شہر) ظفار کے (سفید و سیاہ) پتھروں کا میرا ہار ٹوٹ (کر گر) چکا تھا۔ میں واپس ہوئی اور اپنا ہار ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اس کی تلاش نے مجھے (کافی دیر کے لئے وہیں) روکے رکھا۔ (اتنے میں) وہ لوگ، جو اونٹ کی پشت پر میرا کجاوا باندھا کرتے تھے، آئے، کجاوا اٹھایا اور میرے اس اونٹ پر باندھ دیا جس پر میں سفر کیا کرتی تھی۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ میں اس (کجاوے) کے اندر موجود ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس زمانے میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، موٹی نہیں ہوتی تھیں، نہ ان پر گوشت چڑھا ہوتا تھا، وہ سانس کی ڈوری بندھی رہنے کے بقدر کھانا کھاتی تھیں۔ ان لوگوں نے جب میرے کجاوے کو اٹھایا اور اونچا کیا تو اس کے وزن میں کوئی تبدیلی محسوس نہ کی۔ میں (اس وقت) کم عمر لڑکی ہی تھی۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کیا اور چل پڑے۔ مجھے اپنا ہار لشکر روانہ ہونے کے بعد ہی ملا تھا۔ میں ان کی رات گزارنے کی جگہوں پر آئی تو وہاں نہ کوئی کسی کو بلانے والا تھا، نہ جواب دینے والا، میں نے اسی جگہ کا رخ کیا جہاں (رات کو اپنے خیمے میں) ٹھہری تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جب وہ لوگ مجھے (کجاوے میں) نہ پائیں گے تو میری طرف واپس آئیں گے، میں اپنی اسی منزل پر بیٹھی ہوئی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ بنوسلیم کے بطن بنو ذکوان سے تعلق رکھنے والے صفوان بن معطل نے رات کے وقت لشکر کے پیچھے قیام کیا تھا۔ وہ رات کے آخری حصے میں روانہ ہوئے اور صبح کے وقت میری منزل کے پاس آئے تو انہیں کسی سوئے ہوئے انسان کا سایہ سا نظر آیا، وہ میرے قریب آئے تو مجھے دیکھ کر پہچان لیا۔ انہوں نے مجھ پر حجاب فرض ہونے سے پہلے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے پہچاننے کے بعد انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں جاگ گئی۔ میں نے اپنی پردے کی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا، اللہ کی قسم! وہ مجھ سے ایک کلمہ تک نہیں کہہ رہے تھے اور نہ ہی انا للہ کے علاوہ میں نے ان کے منہ سے کوئی بات سنی یہاں تک کہ انہوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا۔ وہ اونٹنی کے اگلے پاؤں پر چڑھ کر کھڑے ہو گئے (تاکہ وہ ہل نہ سکے) تو میں اس اونٹنی پر سوار ہو گئی اور وہ مجھے اونٹنی پر بٹھا کر اس کی نکیل کی رسی پکڑ کر چل پڑے، یہاں تک کہ جب لوگ دوپہر کی شدید گرمی کے سامنے بے حال ہو کر اتر گئے تو اس کے بعد ہم لشکر میں پہنچے۔ تو میری حالت کے بارے میں جس نے ہلاکت میں پڑنا تھا، وہ ہلاکت میں پڑا اور جو شخص اس بہتان تراشی کے سب سے بڑے حصے کا ذمہ دار تھا وہ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ ہم مدینہ آ گئے۔ مدینہ آتے ہی میں ایک مہینہ بیمار رہی۔ لوگ بہتان باندھنے والوں کی باتوں میں باتیں ملاتے رہے جبکہ مجھے اپنی بیماری کی وجہ سے ان میں سے کسی بات کا شعور تک نہ تھا۔ میری بیماری کے دوران میں جو بات مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ تھی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہ لطف و کرم میسر نہ تھا جو میں اپنی بیماری کے دوران میں ہمیشہ دیکھا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آتے، سلام کہتے اور کہتے: "آپ لوگ کیسی ہو؟" بس یہی بات مجھے کھٹکتی تھی لیکن اصل (شے) کا مجھے پتہ نہ چلتا تھا۔ یہاں تک کہ میں بہت نقاہت کے بعد باہر نکلی، میں مسطح کی ماں کے ہمراہ (مدینہ سے باہر) مناصع کی طرف نکلی، وہیں ہمارا ضرورت کے لیے باہر جانے کا علاقہ تھا اور ہم ایک رات کے بعد دوسری رات ہی تو باہر نکلتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہم نے اپنے گھروں کے قریب (حوائج ضروریہ کے لیے) پردہ دار جگہیں بنا لی تھیں اور ضرورت سے فراغت کے معاملے میں ہمارا طریقہ ابتدائی عربوں کا سا تھا، ہمیں پردہ دار جگہیں اپنے گھروں (رہائشی حجروں) کے پاس بنانے سے اذیت ہوتی تھی۔ میں اور مسطح کی ماں چل پڑیں۔ وہ ابو رہم بن مطلب بن عبد مناف کی بیٹی تھیں۔ ان کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خالی تھیں۔ اور ان کا بیٹا مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب کا بیٹا تھا۔ میں اور ابورہم کی بیٹی (مسطح کی والدہ) اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر میرے گھر کی طرف آئیں تو ام مسطح رضی اللہ عنہ اپنی موٹی اونی چادر میں ا (لجھیں اور) پھسل کر گر پڑیں۔ اور کہنے لگیں: (اللہ کرے) مسطح منہ کے بل گر کر ہلاک ہو! میں نے ان سے کہا: آپ نے بہت بری بات کہی ہے۔ آپ ایسے شخص کو بددعا دے رہی ہیں جو بدر میں شامل تھا۔ وہ کہنے لگیں: اے بھولی عورت! تم نے نہیں سنا، اس نے کیا کہا ہے؟ میں نے کہا: اس نے کیا کہا ہے؟ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو انہوں نے مجھے بہتان تراشوں کی بات بتائی اور میری (پہلی) بیماری میں (دوسری سخت ترین) بیماری کا اضافہ ہو گیا۔ میں جب واپس اپنے گھر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے، سلام کہا، پھر پوچھا: "تم لوگ کیسی ہو؟" (تو) میں نے کہا: کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے والدین کے ہاں چلی جاؤں؟ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں اس وقت یہ چاہتی تھی کہ ان دونوں (والدین) کی طرف سے خبر کے بارے میں تیقن حاصل کر لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی، میں اپنے والدین کے ہاں آ گئی اور اپنی والدہ سے کہا: امی! لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: بیٹی اس معاملے کو اپنے لیے مزید تکلیف کا ذریعہ نہ بناؤ۔۔ اللہ کی قسم! ایسا نہ ہونے کے برابر ہے کہ کسی مرد کے ہاں کوئی خوبصورت بیوی ہو، وہ اس سے محبت کرتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو عورتیں اس پر بڑھا کر باتیں نہ کریں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے کہا: سبحان اللہ! تو کیا لوگ اس طرح کی باتیں (بھی) کر رہے ہیں؟ اس رات صبح ہونے تک میں مسلسل روتی رہی، نہ آنسو رکتے تھے، نہ آنکھوں میں سرمے جتنی (قلیل ترین مقدار میں) نیند محسوس کرتی تھی، پھر میں نے روتے ہوئے صبح کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وحی کی آمد میں تاخیر محسوس کی تو علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنی بیوی سے جدائی کے بارے میں مشورے کے لیے بلایا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے تو اسی طرف اشارہ کیا جو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ کی براءت اور ان کی (آپس کی) محبت کے بارے میں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! وہ آپ کی گھر والی ہیں اور ہم اچھائی کے سوا اور کوئی بات جانتے تک نہیں۔ رہے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی تنگی میں نہیں رکھا ہوا، ان کے علاوہ بھی عورتیں بہت ہیں۔ اگر آپ خادمہ سے پوچھیں تو آپ کو وہ سچ بتائے گی۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز) کو بلایا اور فرمایا: "بریرہ! تم نے (کبھی) کوئی ایسی چیز دیکھی جس سے تمہیں عائشہ کے بارے میں شک ہوا ہو؟" بریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! ان کے خلاف میں نے اس سے زیادہ کبھی کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جس کا میں ان پر عیب لگاؤں کہ وہ ایک نو عمر لڑکی ہے، اپنے گھر والوں کا آٹا گندھا چھوڑ کر سو جاتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا لیتی ہے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے (خلاف کاروائی کے) بارے میں معذرت طلب فرمائی۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: "اے مسلمانوں کی جماعت! (تم میں سے کون) کون شخص مجھے اس آدمی کے خلاف (کاروائی کے) حوالے سے معذور سمجھتا ہے جس کی اذیت رسانی کا سلسلہ میرے گھر والوں تک پہنچ گیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں اپنے گھر والوں کے بارے میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا اور جس آدمی کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کے بارے میں بھی میں خیر اور بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر آیا ہے ہمیشہ میرے ہی ساتھ آیا ہے۔" تو سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں اس کے بارے میں آپ کا عذر مانتا ہوں۔ اگر وہ اوس میں سے ہوتا تو ہم اس کی گردن مار دیتے اور اگر وہ ہمارے برادر قبیلے خزرج میں سے ہے تو آپ ہمیں حکم دیں گے اور ہم آپ کے حکم پر عمل کریں گے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، وہ خزرج کے سردار تھے اور نیک انسان تھے، لیکن انہیں (قبائلی) حمیت نے جاہلیت کے دور میں گھسیٹ لیا۔ انہوں نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: بقائے الہیٰ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا۔ نہ تم اسے قتل کرو گے، نہ ہی تم میں اس کے قتل کی ہمت ہے۔ اس پر اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے۔ وہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چچا زاد تھے۔ انہوں نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا: تم نے جھوٹ کہا ہے، بقائے الہیٰ کی قسم! ہم اسے ضرور بالضرور قتل کریں گے۔ تم منافق ہو اور منافقوں کی طرف سے جھگڑا کرتے ہو۔ اوس اور خزرج کے دونوں قبیلے جوش میں آ گئے، یہاں تک کہ آپس میں لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر ہی پر کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل انہیں دھیما کرتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں وہ سارا دن روتی رہی، نہ آنسو تھمتے تھے، نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ ہی لگا سکتی تھی۔ پھر اگلی رات بھی میں روتی رہی، نہ آنسو تھمتے تھے، نہ میں آنکھوں میں نیند کا سرمہ ہی لگا سکتی تھی (سرمے کے برابر نیند محسوس کر سکتی تھی۔) میرے ماں باپ یہ سمجھتے تھے کہ یہ رونا میرا جگر پھاڑ دے گا۔ وہ دونوں میرے پاس بیٹھے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ انصار کی ایک عورت نے میرے پاس آنے کی اجازت مانگی، میں نے اسے اجازت دی تو وہ بھی بیٹھ کر رونے لگی۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لے آئے، سلام کہا، پھر بیٹھ گئے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب سے میرے بارے جو کہا گیا تھا، اس کے بعد آپ میرے پاس (آکر بھی) نہیں بیٹھے تھے۔ اور آپ ایک مہینہ (انتظار میں رہے)، آپ کی طرف میرے بارے میں کوئی وحی بھی نہیں آئی تھی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو آپ نے شہادتین پڑھیں، پھر فرمایا: "اس کے بعد، عائشہ! مجھے تمہارے حوالے سے یہ یہ بات پہنچی ہے۔ اگر تم بَری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ خود تمہاری براءت فرما دے گا اور اگر تم سی گناہ کے قریب (بھی) ہوئی ہو تو اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب گناہ کا اعتراف کر لیتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات ختم کی تو میرے آنسو رک گئے، یہاں تک کہ مجھے اپنی آنکھ میں ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے والد سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا جواب دیں جو انہوں نے کہی ہے، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں، پھر میں نے اپنی ماں سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں۔ انہوں نے (بھی وہی) کہا: واللہ! میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں۔ تو میں نے، جبکہ اس وقت میں ایک کم عمر لڑکی تھی، زیادہ قرآن مجید یاد نہیں تھا (خود جواب دیتے ہوئے) کہا: اللہ کی قسم! میں نے یہ بات جان لی ہے کہ آپ لوگوں نے اس بات کو (بار بار) سنا ہے اور یہ آپ کے دلوں میں بیٹھ گئے ہے اور آپ اس کو سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اگر میں آپ لوگوں سے کہوں کہ میں (گناہ سے بالکل) بَری ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بَری ہوں تو آپ لوگ اس بات میں مجھے سچا نہیں مانو گے اور اگر میں آپ لوگوں کے سامنے اس معاملے کا اعتراف کر لوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرو گے۔ مجھے اپنے اور آپ لوگوں کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد (یعقوب علیہ السلام) کے قول کے علاوہ اور کوئی مثال نہیں ملتی" صبر جمیل (سے کام لینا ہے) اور جو کچھ آپ لوگ کہتے ہیں، اس پر اللہ ہے جس سے مدد مانگنی ہے۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر میں اپنا رخ پھیر کر اپنے بستر پر لیٹ گئی، انہوں نے کہا: اور میں اللہ کی قسم! اس وقت جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور (یہ بھی جانتی تھی کہ) اللہ بَری ہونے کی وجہ سے (خود) مجھے بَری فرمائے گا لیکن اللہ گواہ ہے، مجھے یہ گمان نہ تھا کہ وہ میرے بارے میں وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت ہوا کرے گی میری نظر میں میرا مقام اس سے بہت حقیر تھا کہ اللہ عزوجل میرے بارے میں خود کلام فرمائے گا جس کی تلاوت ہو گئی لیکن میں یہ امید ضرور رکھتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے ہوئے کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعے سے اللہ مجھے بَری فرما دے گا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے، نہ ابھی گھر والوں میں سے کوئی باہر نکلا تھا کہ اللہ عزوجل نے نے اپنے نبی پر وحی نازل فرما دی۔ وحی کے وقت آپ جس طرح پسینے سے شرابور ہو جاتے تھے آپ پر وہی کیفیت طاری ہو گئی، یہاں تک کہ سرد دن میں بھی نازل کی جانے والی وحی کے بوجھ سے پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے جسم سے گرا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کیفیت زائل ہوئی تو آپ ہنس رہے تھے اور پہلا جملہ جو آپ نے کہا، یہ تھا: "عائشہ! خوش ہو جاؤ، اللہ نے تمہیں بَری فرم دیا ہے۔" میری ماں نے مجھ سے کہا: کھڑی ہو کر ان کے پاس جاؤ۔ تو میں نے کہا: نہ میں کھڑی ہو کر آپ کی طرف جاؤں گی، نہ اللہ کے سوا کسی کا شکر ادا کروں گی، وہی ہے جس نے میری براءت نازل فرمائی۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا کہ اللہ عزوجل نے دس آیات نازل فرمائیں: "جو لوگ بہتان لے کر آئے وہ تمہی میں سے ایک گروہ ہے، تم اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔" اللہ عزوجل نے یہ (دس) آیات میری براءت میں نازل فرمائیں۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اور وہ مسطح پر اپنے ساتھ اس کی قرابت اور اس کے فقر کی بنا پر خرچ کیا کرتے تھے، اللہ کی قسم! اس نے عائشہ کے بارے میں جو کہا ہے، اس کے بعد میں اس پر کچھ خرچ نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری: "تم میں سے فضیلت اور استطاعت رکھنے والے یہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں کو (خرچ) نہ دیا کریں گے" اپنے فرمان: "کیا تم لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟" تک۔ حبان بن موسیٰ نے کہا: عبداللہ بن مبارک کا قول ہے: یہ اللہ کی کتاب کی سب سے زیادہ امیدا افزا آیت ہے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں یقینا یہ بات پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے، چنانچہ وہ مسطح رضی اللہ عنہ کو جو خرچ دیا کرتے تھے، دوبارہ دینے لگے اور کہا: میں یہ (خرچ) اس سے کبھی نہیں چھینوں گا (ہمیشہ دیتا رہوں گا۔) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے معاملے کے بارے میں دریافت کیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھی: "تم کیا جانتی ہو یا (فرمایا:) تم نے کیا دیکھا؟" انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتی ہوں (کہ میں اپنے کانوں کی طرف جھوٹی بات سننے کو اور اپنی آنکھوں کی طرف جھوٹ دیکھنے کو منسوب کروں) اللہ کی قسم! میں (ان کے کردار میں) بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ حضرت عائشہ نے کہا: اور یہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے (مرتبے اور قرب کے معاملے میں) میرے مدمقابل آتی تھیں، لیکن خدا خوفی کی بنا پر اللہ نے ان کو (غلط بات کہنے سے) محفوظ رکھا، جبکہ ان کی بہن حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا نے ان کے لیے لڑائی شروع کر دی اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ (قذف و بہتان کے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھیں۔) زہری نے کہا: یہ (واقعہ) ہے جو ان سب (بیان کرنے والوں) کی طرف سے ہم تک پہنچا۔ یونس کی حدیث میں (حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے) ہے: ان (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) کو (قبائلی) حمیت نے اکسا دیا۔
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ مجھ سے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ کی یہ حدیث روایت کی، جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی اور کہا جو کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تہمت سے پاک کیا۔ زہری نے کہا کہ ان سب لوگوں نے مجھ سے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا روایت کیا اور ان میں سے بعض دوسروں سے اس حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے تھے اور زیادہ حافظ اور عمدہ بیان کرنے والے تھے اور میں نے ہر ایک سے جو اس نے روایت کی یاد رکھا اور بعض کی حدیث بعض کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے تھے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے ایک سفر میں قرعہ ڈالا تو اس میں میرا نام نکلا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا۔ میں اپنے ہودج میں سوار ہوتی اور راہ میں جب پڑاؤ ہوتا تو میرا ہودج اتار لیا جاتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے فارغ ہو کر لوٹے اور مدینہ سے قریب ہو گئے تو ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو کوچ کا حکم دیا؟ جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی تو میں کھڑی ہوئی اور چلی یہاں تک کہ لشکر سے ایک طرف چلی گئی۔ جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا تو معلوم ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا ہار گم ہو گیا ہے (ظفار یمن میں ایک گاؤں کا نام ہے) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈھنے لگی، اس کے ڈھونڈنے میں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آ پہنچے جو میرا ہودہ اٹھاتے تھے، انہوں نے ہودہ اٹھایا اور اس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی اور وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودے میں ہوں۔ اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) ہوتی تھیں کیونکہ تھوڑا کھانا کھاتی تھیں۔ اس لئے جب انہوں نے ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا تو انہیں اس کا وزن ہلکا محسوس نہ ہوا میں ویسے بھی ایک کم سن لڑکی تھی۔ آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دئیے۔ میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا تھا اور میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز تھی اور نہ کوئی آواز سننے والا تھا۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں اور میں سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے تو یہیں لوٹ کر آئیں گے۔ تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو رہی۔ اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانی ؓ ایک آدمی جو کہ آرام کے لئے آخر رات میں لشکر کے پیچھے ٹھہرے تھے جب وہ روانہ ہوئے تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچے۔ ان کو ایک آدمی کا جسم معلوم ہوا جو سو رہا ہو، وہ میرے پاس آیا اور مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ پردہ کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ میں ان کی آواز سن کر جاگ اٹھی جب اس نے مجھے پہچان کر ((اناللہ وانا الیہ راجعون)) پڑھا پس میں نے اپنی اوڑھنی سے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم! اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ میں نے اس کی کوئی بات سوائے ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ کہنے کے سنی۔ پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اونٹ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں میرے سوار ہونے کے لئے رکھا۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ اونٹ کو کھینچتا ہوا پیدل چلا، یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ دوپہر کی سخت گرمی میں اتر چکے تھے۔ سو میرے اس معاملہ میں بدگمانی کی وجہ سے ہلاک ہوئے جو ہوئے، اور قرآن میں جس کے متعلق ”تولّٰی کبرہ“ آیا ہے، یعنی اس تہمت کا بانی مبانی، وہ عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافقوں کا سردار) تھا۔ آخر ہم مدینہ میں آئے اور جب میں مدینہ میں پہنچی تو بیمار ہو گئی۔ ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان لگانے والوں کی باتوں میں غور کرتے تھے اور مجھے ان کی کسی بات کی کوئی خبر نہ تھی۔ صرف مجھے اس بات سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ شفقت نہ دیکھی جو پہلے میری بیماری کی حالت میں ہوتی تھی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اندر آتے، سلام کرتے اور پھر فرماتے کہ تمہارا کیا حال ہے؟ پس اس بات سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی، یہاں تک کہ جب میں بیماری کے جانے کے بعد دبلی ہو گئی تو میں مناصع کی طرف نکلی اور میرے ساتھ ام مسطح بھی نکلی (مناصع مدینہ کے باہر جگہ تھی) لوگوں کے (پائخانے بننے سے پہلے) پائخانے تھے۔ پھر دوسری رات کو جاتے تھے۔ یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہمارے گھروں میں پائخانے نہیں بنے تھے اور ہم لوگ اگلے عربوں کی طرح (پائخانے کے لئے) جنگل میں جایا کرتے تھے اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے تھے۔ تو میں چلی اور ام مسطح بھی میرے ساتھ تھی اور وہ ابی رہم بن مطلب بن عبدمناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خالہ تھی (اس کا نام سلمیٰ تھا)۔ اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا۔ غرض میں اور ام مسطح دونوں جب قضائے حاجت سے فارغ ہو چکیں تو واپسی پر اپنے گھر کی طرف آ رہی تھیں کہ ام مسطح کا پاؤں اپنی چادر میں الجھا تو وہ بولی کہ مسطح ہلاک ہو۔ میں نے کہا کہ تو نے بری بات کہی۔ تو اس شخص کو برا کہتی ہے جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا؟ وہ بولی کہ اے نادان! تو نے کچھ نہیں سنا کہ مسطح نے کیا کہا؟ میں نے کہا کہ اس نے کیا کہا؟ اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان والوں نے کہا تھا۔ یہ سن کر میری بیماری زیادہ ہو گئی۔ میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے کہا کہ آپ مجھے اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ اور میرا اس وقت یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ کے پاس جا کر اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جان! یہ لوگ کیا بک رہے ہیں؟ وہ بولی کہ بیٹا تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ، اللہ کی قسم! ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں۔ میں نے کہا کہ سبحان اللہ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی، صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے اور نہ نیند آئی، صبح کو بھی میں رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی اور ان دونوں سے مجھے جدا کرنے (یعنی طلاق دینے) کا مشورہ لیا اور اسامہ بن زید ؓ نے تو وہی رائے دی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کے حال کو جانتے تھے اور اس کی عصمت کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کے ساتھ محبت کو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عائشہ (ؓ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور ہم تو ان کی سوائے بہتری کے اور کوئی بات نہیں جانتے۔ علی ؓ بن ابی طالب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی نہیں کی اور عائشہ ؓ کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لونڈی سے پوچھیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ کہہ دے گی (لونڈی سے مراد بریرہ ؓ ہے جو عائشہ ؓ کے پاس رہتی تھی) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے بریرہ! تو نے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھے اس کی پاکدامنی پر شک پڑے؟ بریرہ نے کہا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے، اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی تو میں عیب بیان کرتی، اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے، گھر کا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے، پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھا لیتی ہے (مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو تم پوچھتے ہو نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے، جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑکی ہے اور کم عمری کی وجہ سے گھر کا بندوبست نہیں کر سکتی)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول سے جواب طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا کہ اے مسلمان لوگو! اس شخص سے مجھے کون انصاف دلائے گا جس کی ایذا دینے والی سخت بات میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی، اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی (یعنی عائشہ صدیقہ ؓ) کو نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص پر یہ تہمت لگاتے ہیں (یعنی صفوان بن معطل) اس کو بھی میں نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر نہیں گیا مگر میرے ساتھ۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن معاذ انصاری ؓ (جو قبیلہ اوس کے سردار تھے) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدلہ لیتا ہوں اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور جو ہمارے خزرج بھائیوں میں سے ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کیجئے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کریں گے (یعنی اس کی گردن ماریں گے)۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے اور وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور نیک آدمی تھے۔ لیکن اس وقت ان کو اپنی قوم کی غیرت آ گئی اور کہنے لگے کہ اے سعد بن معاذ! اللہ کے بقا کی قسم! تو نے جھوٹ بولا ہے، تو ہماری قوم کے شخص کو قتل نہ کر سکے گا (یہ سن کر) سیدنا اسید بن حضیر جو سیدنا سعد بن معاذ ؓ کے چچازاد بھائی تھے، کھڑے ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ ؓ سے کہنے لگے کہ تو نے غلط کہا، اللہ کے بقا کی قسم! ہم اس کو قتل کریں گے اور تو منافق ہے جبھی تو منافقوں کی طرف سے لڑتا ہے۔ غرض کہ دونوں قبیلے اوس اور خزج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ خونریزی شروع ہو جاتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ان کو سمجھا رہے تھے اور ان کا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے، یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو رہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ میں اس دن بھی سارا دن روتی رہی، میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی اور میرے باپ نے یہ گمان کیا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے ماں باپ میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی۔ اتنے میں انصار کی ایک عورت نے اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ بھی آ کر رونے لگی۔ پھر ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے اور جس روز سے مجھ پر تہمت ہوئی تھی، اس روز سے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ یونہی گزر چکا تھا کہ میرے مقدمہ میں کوئی وحی نہیں اتری تھی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھتے ہی تشہد پڑھا اور فرمایا کہ امابعد! اے عائشہ مجھے تمہاری طرف سے ایسی ایسی خبر پہنچی ہے، پھر اگر تم پاکدامن ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکدامنی بیان کر دے گا اور اگر تو نے گناہ کیا ہے تو توبہ کر اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ، اس واسطے کہ بندہ جب گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات مکمل کر چکے تو میرے آنسو بالکل بند ہو گئے، یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں۔ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں (سبحان اللہ ان کے والد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے گو ان کی بیٹی کا مقدمہ تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دم نہ مارا۔ باوجودت زمن آواز نیامد کہ منم) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ تم میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دو تو وہ بولی کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں۔ آخر میں نے خود ہی کہا اور میں کمسن لڑکی تھی، میں قرآن زیادہ نہیں پڑھی تھی، اللہ کی قسم! مجھے یہ معلوم ہے کہ تم لوگوں نے اس بات کو یہاں تک سنا ہے کہ تمہارے دل میں جم گئی ہے اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے (اور یہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے غصہ سے فرمایا ورنہ سچ کسی نے نہیں سمجھا تھا سوائے تہمت کرنے والوں کے)، پھر اگر تم سے کہوں کہ میں بےگناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بےگناہ ہوں، تو بھی تم مجھے سچا نہیں سمجھو گے اور اگر میں اس گناہ کا اعتراف کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں، تو تم مجھے سچا سمجھو گے اور میں اپنی اور تمہاری مثال سوا اس کے اور کوئی نہیں پاتی جو یوسف ؑ کے والد (یعقوب ؑ) کی تھی (عائشہ صدیقہ ؓ کو رنج میں ان کا نام یاد نہ آیا تو یوسف ؑ کے والد کہا) جب انہوں نے کہا کہ ”اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی کی مدد کی ضرورت ہے“(سورۃ یوسف) پھر میں نے کروٹ موڑ لی اور میں اپنے بچھونے پر لیٹ رہی۔ اور اللہ کی قسم! میں اس وقت جانتی تھی کہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ ضرور میری برات ظاہر کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میری شان میں قرآن اترے گا جو (قیامت تک) پڑھا جائے گا، کیونکہ میری شان خود میرے گمان میں اس لائق نہ تھی کہ اللہ جل جلالہ عزت اور بزرگی والا میرے مقدمہ میں کلام کرے گا اور کلام بھی ایسا کہ جو پڑھا جائے، البتہ مجھے یہ امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں کوئی ایسا مضمون دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پاکیزگی ظاہر کر دے گا۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بھیجی اور قرآن اتارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی سختی معلوم ہونے لگی، یہاں تک کہ سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر سے اس کلام کی سختی کی وجہ سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا، موتی کی طرح پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے (اس لئے کہ بڑے شہنشاہ کا کلام تھا)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت جاتی رہی (یعنی وحی ختم ہو چکی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے اور اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ سے یہ کلمہ نکالا اور فرمایا کہ اے عائشہ! خوش ہو جا، اللہ تعالیٰ نے تجھے بےگناہ اور پاک فرمایا ہے۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کر (اور شکر کر)۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ اٹھوں گی اور نہ کسی کی تعریف کروں گی سوا اللہ تعالیٰ کے کہ اسی نے میری پاکدامنی اتاری۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اتارا کہ ”بیشک جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں، وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہیں، اس (واقعے) کو اپنے لئے شر (برا) نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے خیر (اچھا) ہی ہے“ آخر تک دس آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے میری پاکدامنی کے لئے اتارا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے جو مسطح کی قریبی رشتہ داری، غربت کی وجہ سے اس پر خرچ کیا کرتے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم! جب اس نے عائشہ (ؓ) کی نسبت ایسا کہا تو اب میں اس کو کچھ نہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”تم میں سے جو لوگ فضل اور مقدرت والے ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ کچھ (نہ) دیں گے، اپنے رشتہ داروں اور مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے“۔ حبان بن موسیٰ نے کہا کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ آیت اللہ کی کتاب میں بڑی امید کی ہے (کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بخشش کا وعدہ کیا ہے) سیدنا ابوبکر ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخشے۔ پھر مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا اور کہا کہ میں کبھی بند نہ کروں گا۔ ام المؤمنین جحش ؓ سے بھی میرے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا جانتی ہیں؟ یا انہوں نے کیا دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا (حالانکہ وہ سوکن تھیں) کہ یا رسول اللہ! میں اپنے کان اور آنکھ کی احتیاط رکھتی ہوں (یعنی بن سنے کوئی بات نہیں کہتی اور نہ بن دیکھے کو دیکھی ہوئی کہتی ہوں)، میں تو عائشہ کو نیک ہی سمجھتی ہوں۔ عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ زینب ؓ ہی ایک بیوی تھیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے میرے مقابل کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے اس تہمت سے بچایا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہن کے لئے تعصب کیا اور ان کے لئے لڑیں تو جو لوگ تباہ ہوئے ان میں وہ بھی تھیں (یعنی تہمت میں شریک تھیں)۔ زہری کہتے ہیں،یہ وہ حدیث ہے،جو اس گروہ کے لوگوں کے بارے میں ہم تک پہنچی ہے اور یونس کی حدیث میں ہے،حمنہ کو تعصب وحمیت نے تہمت لگانے پر ابھارا تھا۔
وحدثني ابو الربيع العتكي ، حدثنا فليح بن سليمان . ح وحدثنا الحسن بن علي الحلواني ، وعبد بن حميد ، قالا: حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن صالح بن كيسان كلاهما، عن الزهري بمثل حديث يونس، ومعمر بإسنادهما، وفي حديث فليح اجتهلته الحمية، كما قال معمر: وفي حديث صالح احتملته الحمية كقول يونس، وزاد في حديث صالح، قال عروة: كانت عائشة تكره ان يسب عندها حسان، وتقول: فإنه قال فإن ابي ووالده وعرضي لعرض محمد منكم وقاء، وزاد ايضا، قال عروة قالت عائشة: والله إن الرجل الذي قيل له ما قيل، ليقول سبحان الله، فوالذي نفسي بيده ما كشفت عن كنف انثى قط، قالت: ثم قتل بعد ذلك شهيدا في سبيل الله، وفي حديث يعقوب بن إبراهيم موعرين في نحر الظهيرة، وقال عبد الرزاق موغرين قال عبد بن حميد قلت لعبد الرزاق: ما قوله موغرين؟، قال: الوغرة شدة الحر، حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن العلاء ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: لما ذكر من شاني الذي ذكر، وما علمت به قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا، فتشهد فحمد الله واثنى عليه بما هو اهله، ثم قال: اما بعد: اشيروا علي في اناس ابنوا اهلي، وايم الله ما علمت على اهلي من سوء قط، وابنوهم بمن والله ما علمت عليه من سوء قط ولا دخل بيتي قط، إلا وانا حاضر ولا غبت في سفر إلا غاب معي، وساق الحديث بقصته وفيه، ولقد دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتي، فسال جاريتي، فقالت: والله ما علمت عليها عيبا إلا انها كانت ترقد حتى تدخل الشاة، فتاكل عجينها، او قالت: خميرها، شك هشام فانتهرها بعض اصحابه، فقال: اصدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اسقطوا لها به، فقالت: سبحان الله والله ما علمت عليها إلا ما يعلم الصائغ على تبر الذهب الاحمر، وقد بلغ الامر ذلك الرجل الذي قيل له، فقال: سبحان الله والله ما كشفت عن كنف انثى قط، قالت عائشة: وقتل شهيدا في سبيل الله وفيه ايضا من الزيادة، وكان الذين تكلموا به مسطح وحمنة وحسان، واما المنافق عبد الله بن ابي، فهو الذي كان يستوشيه ويجمعه وهو الذي تولى كبره وحمنة.وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ كِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ، وَمَعْمَرٍ بِإِسْنَادِهِمَا، وَفِي حَدِيثِ فُلَيْحٍ اجْتَهَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ، كَمَا قَالَ مَعْمَرٌ: وَفِي حَدِيثِ صَالِحٍ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ كَقَوْلِ يُونُسَ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ صَالِحٍ، قَالَ عُرْوَةُ: كَانَتْ عَائِشَةُ تَكْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ، وَتَقُولُ: فَإِنَّهُ قَالَ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ، وَزَادَ أَيْضًا، قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ: وَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ مَا قِيلَ، لَيَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا كَشَفْتُ عَنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ: ثُمَّ قُتِلَ بَعْدَ ذَلِكَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَفِي حَدِيثِ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مُوعِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، وقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مُوغِرِينَ قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّزَّاقِ: مَا قَوْلُهُ مُوغِرِينَ؟، قَالَ: الْوَغْرَةُ شِدَّةُ الْحَرِّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا، فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ: أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ، إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ وَفِيهِ، وَلَقَدْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ جَارِيَتِي، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ، فَتَأْكُلَ عَجِينَهَا، أَوْ قَالَتْ: خَمِيرَهَا، شَكَّ هِشَامٌ فَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، وَقَدْ بَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ عَنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفِيهِ أَيْضًا مِنَ الزِّيَادَةِ، وَكَانَ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا بِهِ مِسْطَحٌ وَحَمْنَةُ وَحَسَّانُ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، فَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ وَحَمْنَةُ.
ابو ربیع عتکی نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں فلیح بن سلیمان نے حدیث سنائی، نیز ہمیں حسن بن علی حلوانی اور عبد بن حمید نے حدیث سنائی، دونوں نے کہا: ہمیں یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں میرے والد نے صالح بن کیسان سے حدیث سنائی، ان دونوں (فلیح بن سلیمان اور صالح بن کیسان) نے زہری سے یونس اور معمر کی روایت کے مطابق انہی کی سند کے ساتھ (یہی) حدیث بیان کی۔ فلیح کی حدیث میں اسی طرح ہے جیسے معمر نے بیان کیا: انہیں (قبائلی) حمیت نے جاہلیت (کے دور) میں گھسیٹ لیا۔ اور صالح کی حدیث میں یونس کے قول کی طرح ہے: انہیں (قبائلی) حمیت نے اکسا دیا۔ اور صالح کی حدیث میں مزید یہ ہے: عروہ نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو ناپسند کرتی تھیں کہ حسان (بن ثابت رضی اللہ عنہ) کو ان کے سامنے برا بھلا کہا جائے۔ وہ فرماتی تھیں: انہوں نے یہ (عظیم شعر) کہا ہے: "بےشک میرا باپ اور اس کا باپ اور میری عزت، تم لوگوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کے لیے ڈھال ہیں۔" اور انہوں نے مزید بھی کہا: عروہ نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم! جس شخص کے بارے میں وہ ساری باتیں، جو گھڑی گئی تھیں، وہ کہتا تھا: سبحان اللہ! (یہ کیسی باتیں ہیں) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے کبھی کسی عورت کے حجلہ عروسی 0تک کا) پردہ بھی نہیں اٹھایا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: پھر بعد میں وہ اللہ کی راہ میں قتل ہو کر شہید ہو گیا۔ اور یعقوب بن ابراہیم کی حدیث میں موغرین فی نحر الظہیرۃ (لوگ دوپہر کے وقت بے سایہ بنجر راستے میں سفر سے بے حال ہو گئے تھے۔) عبدالرزاق نے موغرین (گرمی کی شدت سے بے حال ہوئے) کہا ہے۔ عبد بن حمید نے کہا: میں نے عبدالرزاق سے پوچھا: " موغرین " کا مطلب کیا ہے؟ کہا: الوغرۃ گرمی کی شدت ہوتی ہے۔
امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں فلیح کی حدیث میں معمر کی طرح "اِحتَمَلَته الحَمِيَةُ"اسے مشتعل کردیا۔ جاہلانہ کام کروایا ہے اور صالح کی حدیث میں یونس کی طرح "اِحتَمَلَتهُ" (آمادہ کیا، ابھارا) اور صالح کی حدیث میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کو پسند نہیں کرتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہا جائے اور فرماتی تھیں۔ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کہا ہے۔"بلا شبہ میرا باپ، میرا دادا اور میری عزت، تمھاری عزت کے مقابلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے لیے ڈھال ہے۔""فان ابي ووالده وعرضي لعرض محمد منكم وقاءُ"اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، واللہ!وہ آدمی جس پر الزام تراشی کی گئی تھی، اس نے کہا سبحان اللہ!اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے تو آج تک کسی عورت کا ستر نہیں کھولا،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں بعد میں اس نے اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش کیا، یعقوب بن ابراہیم کی روایت میں، "مُوغرِين فِي نَحرِ الظَھیِرۃ " ہے اور عبدالرزاق کی روایت میں "مُوغِرِين" ہے اور عبد الرزاق سے جب اس کا معنی پوچھا گیا تو اس نے کہا "الوَغر" گرمی کی شدت کو کہتے ہیں۔