یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک لڑنے گئے اور آپ کا ارادہ روم اور شام کے عرب نصرانیوں کا مقابلہ کرنے کا تھا۔ ابن شہاب نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہونے کے بعد حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے بیٹوں میں سے وہی حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑنے اور انہیں (ہر ضرورت کے لیے) لانے لے جانے والے تھے۔ کہا: میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کی وہ حدیث سنی تھی جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں غزوہ تبوک کے سوا کسی جنگ میں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے نہیں رہا۔ (ہاں) مگر میں غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہا تھا (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو ساتھ لے کر تشریف نہیں لے گئے تھے اس لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص پر، جو اس جنگ میں شریک نہیں ہوا، عتاب نہیں فرمایا تھا۔ (بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان قریش کے تجارتی قافلے (کا سامنا کرنے) کے ارادے سے نکلے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے طے شدہ وقت کے بغیر ان کی اور ان کے دشمنوں کی مڈبھیڑ کروادی۔ میں بیعت عقبہ کی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھا جب ہم سب نے اسلام قبول کرنے پر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) معاہدہ کیا تھا۔ مجھے اس (اعزاز) کے عوض بدر میں شمولیت (کا اعزاز بھی) زیادہ محبوب نہیں، اگرچہ لوگوں میں بدر کا تذکرہ اس (بیعت) کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ میں جب غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہا تھا تو میرے احوال یہ تھے کہ میں اس وقت کی نسبت، جب میں اس جنگ سے پیچھے رہا تھا، کبھی (جسمانی طور پر) زیادہ قوی اور (مالی اعتبار سے) زیادہ خوش حال نہیں رہا تھا۔ اللہ کی قسم! میرے پاس اس سے پہلے کبھی دو سواریاں اکٹھی نہیں ہوئی تھیں، یہاں تک کہ اس غزوے کے موقع پر ہی میں نے دو سواریاں اکٹھی رکھی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ غزوہ سخت گرمی میں کیا تھا، آپ کو بہت دور کے چٹیل صحرا کا سفر درپیش تھا اور آپ کو بہت زیادہ دشمنوں کا سامنا کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے سامنے اس معاملے کو (جو انہیں درپیس تھا) اچھی طرح واضح فرما دیا تھا تاکہ وہ اپنی جنگ کی (پوری) تیاری کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کی سمت سے بھی آگاہ فرما دیا تھا جدھر سے آپ جانا چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کثیر تعداد میں مسلمان تھے۔ کسی محفوظ رکھنے والی کی کتاب میں ان کے نام جمع (اکٹھے لکھے ہوئے) نہیں تھے۔۔ ان کی مراد رجسٹر سے تھی۔۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسے لوگ کم تھے جو غائب رہنا چاہتے تھے، جو سمجھتے تھے کہ ان کی یہ بات اس وقت تک مخفی رہے گی جب تک ان کے بارے میں اللہ عزوجل کی وحی نازل نہیں ہوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت کیا جب پھل اور (درختوں پر پتے زیادہ ہو جانے کی بنا پر) سائے اچھے ہو گئے تھے۔ (ہر آدمی کا دل چاہتا تھا کہ آرام سے گھر میں رہے، دن کو سائے کے نیچے آرام کرے او تازہ پھل کھائے۔) میرا بھی دل اسی طرف زیادہ مائل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ مسلمان (جہاد کی) تیار میں لگ گئے۔ میں صبح کو نکلتا کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں اور واپس آتا تو میں نے کچھ بھی نہ کیا ہوتا۔ میں دل میں کہتا: میں چاہوں تو اس کی بھرپور تیاری کر سکتا ہوں، یہی کیفیت مجھے مسلسل آگے سے آگے گرتی گئی اور لوگ مسلسل سنجیدہ سے سنیدہ ہوتے گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح سویرے روانہ ہو گئے، مسلمان آپ کے ہمراہ تھے اور میں اپنی کوئی بھی تیاری مکمل نہ کر پایا تھا۔ میں پھر صبح کے وقت نکلا اور واپس آیا تو بھی کچھ نہ کر پایا تھا اور میری یہی کیفیت تسلسل سے آگے چلتی رہی، یہاں تک کہ (تیاری میں پیچھے رہ جانے والے) مسلمان جلد از جلد جانے لگے اور جنہوں نے جنگ میں حصہ لینا تھا وہ بہت آگے نکل گئے، اس پر میں نے ارادہ کیا کہ نکل پڑوں اور لوگوں سے جا ملوں۔ اے کاش! میں ایسا کر لیتا لیکن یہ (بھی) میرے مقدر میں نہ ہوا اور میری یہ حالت ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد جب میں لوگوں میں نکلتا تو میں اس بات پر سخت غمگین ہوتا کہ مجھے (اپنے لیے اپنے جیسے کسی شخص کی) کوئی مثال نہیں ملتی (جس کے نمونے پر میں نے عمل کیا ہو)، سوائے کسی ایسے انسان کے جس پر نفاق کی تہمت تھی یا ضعفاء، میں کوئی شخص جسے اللہ کی طرف سے معذور قرار دیا گیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک میرا ذکر نہیں کیا، یہاں تک کہ آپ تبوک پہنچے تو آپ نے جب آپ لوگوں کےساتھ تبوک میں بیٹھے ہوئے تھے، فرمایا: "کعب بن مالک نے کیا کیا؟" تو بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا: اسے اس کی دو (خوبصورت) چادروں اور اپنے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے (کے کام) نے روک لیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم نے بری بات کہی، اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! ہم ان کے بارے میں اچھائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرما لیا۔ آپ اسی کیفیت میں تھے کہ آپ نے سفید لباس میں ملبوس ایک شخص کو دیکھا جس کے (چلنے کے) سبب سے (صحرا میں نظر آنے والا) سراب ٹوٹتا جا رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تجھے ابوخیثمہ (انصاری) ہونا چاہئے۔" تو وہ ابوخیثمہ انصاری رضی اللہ عنہ ہی تھے اور یہ وہی ہیں جنہوں نے ایک صاع کھجور کا صدقہ دیا تھا جب منافقوں نے انہیں طعنہ دیا تھا (اور کہا تھا: اللہ اس کے ایک صاع کا محتاج نہیں۔) کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپسی کا رخ فرما لیا ہے تو مجھے میرے غم اور افسوس نے (شدت سے) آ لیا، میں جھوٹے عذر سوچنے اور (دل میں) کہنے لگا: میں کل کو آپ کی ناراضی سے کیسے نکلوں گا؟ میں اپنے گھر والوں میں سے ہر رائے رکھنے والے فرد سے (بھی) مدد لینے لگا۔ جب مجھ سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچنے والے ہیں تو باطل (بہانے تراشنے) کا خیال میرے دل سے زائل ہو گیا، یہاں تک کہ میں نے جان لیا کہ میں کسی چیز کے ذریعے سے آپ (کی ناراضی) سے نہیں بچ سکتا تو میں نے آپ کے سامنے سچ کہنے کا تہیہ کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری صبح کے وقت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو مسجد سے آغاز فرماتے، اس میں دو رکعتیں پڑھتے، پھر لوگوں (سے ملاقات) کے لیے بیٹھ جاتے۔ جب آپ نے ایسا کر لیا تو پیچھے رہ جانے والے آپ کے پاس آنے لگے۔ انہوں نے (آ کر) عذر پیش کرنا اور آپ کے سامنے قسمیں کھانا شروع کر دیں، وہ اَسی سے کچھ زائد آدمی تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہرا (کیے گئے عذروں) کو قبول فرمایا، ان سے آئندہ (اطاعت) کی بیعت لی، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا کی اور ان کے باطن کو اللہ کے حوالے کر دیا، یہاں تک کہ میں حاضر ہوا۔ جب میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ سلم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح مسکرائے جیسے آپ کو غصہ دلایا گیا ہو، پھر آپ نے فرمایا: "آؤ۔" میں چلتا ہوا آیا، یہاں تک کہ آپ کے سامنے (آکر) بیٹھ گیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: "تمہیں کس بات نے پیچھے رکھا؟ کیا تم نے اپنی سواری حاصل کر نہیں لی تھی؟" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! بے شک، اللہ کی قسم! اگر میں آپ کے سوا پوری دنیا میں سے کسی بھی اور کے سامنے بیٹھا ہوتا تو میں دیکھ لیتا (ایسا عذر تراش لیتا) کہ میں جلد ہی اس کی ناراضی سے نکل جاتا، مجھے (اپنے حق میں) دلیلیں دینے کا ملکہ ملا ہے، لیکن اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ آج اگر میں آپ سے کوئی جھوٹی بات کہہ دوں جس سے آپ مجھ پر راضی ہو جائیں تو جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ پر ناراض کر دے گا اور اگر میں آپ سے سچی بات کہہ دوں جس سے آپ مجھ پر ناراض ہو جائیں تو کل مجھے اس میں اللہ کی طرف سے اچھے انجام کی پوری امید ہے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس (پیچھے رہ جانے کا) کوئی عذر نہیں تھا۔ اللہ کی قسم! میں جب آپ کا ساتھ دینے سے پیچھے رہا ہوں تو اس سے پہلے کبھی (جسمانی طور پر) اس سے بڑھ کر قوی اور (مالی طور پر) اس سے زیادہ خوش حال نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شخص جس نے سچ کہا ہے، (اب) تم اٹھ جاؤ (اور انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ تمہارے بارے میں فیصلہ فرما دے۔" میں اٹھ گیا، بنوسلمہ کے کچھ لوگ بھی جوش میں کھڑے ہو کر میرے پیچھے آئے اور مجھ سے کہنے لگے: تمہارے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گناہ کیا ہے، کیا تم اس سے بھی عاجز رہ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر پیش کر دیتے جس طرح دوسرے پیچھے رہنے والے لوگوں کے عذر پیش کیے ہیں۔ تمہارے گناہ کے معاملے میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار فرمانا کافی ہو جاتا۔ (حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے) کہا: اللہ کی قسم! وہ مسلسل مجھ سے سخت ناراضی کا اظہار اور ملامت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس ہو جاؤں اور خود کو جھٹلا دوں۔ کہا: پھر میں نے ان سے کہا: کیا میرے ساتھ کسی اور نے بھی اس صورت حال کا سامنا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تمہارے ساتھ دو اور آدمیوں نے بھی اسی صورتِ حال کا سامنا کیا ہے، ان سے بھی وہی کہا گیا ہے جو تم سے کہا گیا ہے۔ کہا: میں نے پوچھا: وہ دونوں کون ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ مرارہ بن ربیعہ عامری اور ہلال بن امیہ واقفی ہیں۔ انہوں نے میرے سامنے دو نیک انسانوں کا نام لیا جو بدر میں شریک ہوئے تھے۔ ان (دونوں کی صورت) میں ایک قابل عمل نمونہ موجود تھا۔ کہا: جب انہوں نے میرے سامنے ان دونوں کا ذکر کیا تو میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس جانے کے بجائے اسی پر ڈٹا رہا۔) کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے رہ جانے والوں میں سے صرف ہم تینوں کو مخاطب کرتے ہوئے سب مسلمانوں کو ہم سے بات کرنے سے منع فرما دیا۔ کہا: لوگ ہم سے اجتناب برتنے لگے، یا کہا: وہ ہمارے لیے (بالکل ہی) بدل گئے، یہاں تک کہ میرے دل (کے خیال) میں یہ زمین میرے لیے اجنبی بن گئی، یہ اب وہ زمین نہ رہی تھی جسے میں پہچانتا تھا۔ ہم پچاس راتیں اسی حالت میں رہے۔ جہاں تک میرے دونوں ساتھیوں کا تعلق ہے تو وہ دونوں بے بس ہو کر روتے ہوئے گھروں میں بیٹھ گئے۔ میں ان دونوں کی نسبت زیادہ جوان اور دلیر تھا، اس لیے میں (گھر سے) نکلتا، نماز میں شامل ہوتا اور بازاروں میں گھومتا اور مجھ سے بات کوئی نہ کرتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی، جب آپ نماز کے بعد مجلس میں ہوتے، آتا اور سلام کرتا۔ میں اپنے دل میں سوچتا: کیا آپ نے سلام کے جواب میں لب مبارک ہلائے تھے یا نہیں؟ پھر میں آپ کے قریب (کھڑے ہو کر) نماز پڑھتا اور چور نظروں سے آپ کی طرف دیکھتا، جب میں اپنی نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب آپ کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ مجھ سے رخ مبارک پھیر لیتے، یہاں تک کہ جب میرے ساتھ مسلمانوں کی بے اعتنائی (کی مدت) طویل ہو گئی تو (ایک دن) میں چل پڑا اور (جا کر) ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پھلانگی (اور باغ میں چلا گیا۔) اور وہ میرے چچا کا بیٹا اور لوگوں میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا تو اللہ کی قسم! اس نے مجھے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے اس سے کہا: ابوقتادہ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا (ہوں اور پوچھتا) ہوں: تم جانتے ہو نا کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں؟ کہا: وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ پوچھا اور اسے اللہ کا واسطہ دیا تو (پھر بھی) وہ خاموش رہے۔ میں نے (تیسری بار) پھر سے پوچھا اور اللہ کا واسطہ دیا تو انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔ اس پر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، میں واپس مڑا، یہاں تک کہ (پھر سے) دیوار پھلانگی (اور باغ سے نکل گیا۔) ایک روز میں مدینہ کے بازار میں چلا جا رہا تھا تو میں نے اہل شام کے نبطیوں میں سے ایک نبطی (سامی، زمیندار) کو جو کھانے کی اجناس لے کر پیچنے کے لیے مدینہ آیا ہوا تھا، دیکھا، وہ کہتا پھر رہا تھا: کوئی ہے جو مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتا دے۔ لوگوں نے اس کے سامنے میری طرف اشارے کرنے شروع کر دئیے۔ یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور شاہ غسان کا ایک خط میرے حوالتےے کر دیا۔ میں لکھنا (پڑھنا) جانتا تھا۔ میں نے وہ خط پڑھا تو اس میں لکھا تھا: سلام کے بعد، ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے اور اللہ نے تمہیں ذلت اٹھانے اور ضائع ہو جانے والی جگہ میں (محبوس کر کے) نہیں رکھ دیا، لہذا تم ہمارے ساتھ آ ملو، ہم تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں گے، کہا: جب میں نے وہ خط پڑھا تو (دل میں) کہا: یہ ایک اور آزمائش ہے۔ میں نے اسے لے کر ایک تندور کا رخ کیا اور اس خط کو اس میں جلا دیا، یہاں تک کہ پچاس میں سے چالیس راتیں گزر گئیں اور وحی موخر ہو گئی تو اچانک میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے بھی الگ ہو جاؤ۔ کہا: میں نے پوچھا: کیا اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، بس الگ رہو۔ اس کے قریب نہ جاؤ، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی یہی پیغام بھیجا۔ کہا: میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور اس وقت تک انہی کے ساتھ رہو۔ جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملے کا فیصلہ نہ فرما دے۔ کہا: ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہلال بن امیہ اپنا خیال نہ رکھ سکنے والا بوڑھا انسان ہے، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں، کیا آپ اس بات کو بھی ناپسند کرتے ہیں کہ میں ان کی خدمت کروں؟ فرمایا: "نہیں، لیکن وہ تمہارے ساتھ قربت ہرگز اختیار نہ کرے۔" انہوں نے کہا: اللہ جانتا ہے وہ تو کسی چیز کی طرف حرکت بھی نہیں کر سکتے۔ جب سے ان کا یہ معاملہ ہوا ہے اس روز سے آج تک مسلسل روتے ہی رہتے ہیں۔ کہا: میرے گھر والوں میں سے بعض نے مجھ سے کہا: (اچھا ہوا) اگر تم بھی اپنی بیوی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اجازت دے دی ہے کہ وہ ان کی خدمت کرتی رہیں۔ کہا: میں نے جواب دیا: میں اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں مانگوں گا، مجھے معلوم نہیں کہ جب میں اس کے بارے میں آپ سے اجازت کی درخواست کروں تو آپ کیا فرمائیں، میں ایک جواب آدمی ہوں، (اپنا خیال خود رکھ سکتا ہوں) کہا: میں دس راتیں اسی عالم میں رہا اور جب سے ہمارے ساتھ بات چیت کو ممنوع قرار دیا گیا اس وقت سے پچاس راتیں پوری ہو گئیں۔کہا: پھر میں نے پچاسویں رات کی صبح اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر فجر کی نماز ادا کی اور میں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہماری جس حالت کا ذکر فرمایا، اسی حالت میں کہ مجھ پر زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ تھی اور میرا دل بھی مجھ پر تنگ پڑ چکا تھا، بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو وہ سلع پر چڑھ کر اپنی بلند ترین آواز میں کہہ رہا تھا: کعب بن مالک! خوش ہو جاؤ۔ کہا: میں (اسی وقت) سجدے میں گر گیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ (تنگی کے بعد) کشادگی (کی نوید) آ گئی ہے۔ کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صبح کی نماز پڑھی تو آپ نے لوگوں میں ہم پر اللہ کی توجہ اور عنایت (توبہ قبول کرنے) کا اعلان فرما دیا۔ لوگ ہمیں خوش خبری سنانے کے لیے چل پڑے، میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی خوش خبری سنانے والے رونہ ہو گئے اور میری طرف (آنے کے لیے) ایک شخص نے گھوڑا دوڑایا اور (میرے قبیلے) اسلم میں سے ایک شخص نے خود میری طرف دوڑ لگائی اور پہاڑ پر چڑھ گیا، تو آواز گھوڑے سے زیادہ تیز رفتار تھی (پہلے پہنچ گئی) جب وہ شخص میرے پاس پہنچا جس کی خوش خبری دینے کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کی خوش خبری کے بدلے اسے پہنا دیے۔ اللہ کی قسم! اس دن دو کپڑوں کے سوا میری ملکیت میں (پہننے کی) اور کوئی چیز نہ تھی۔ میں نے دو کپڑے عاریتا لے کر انہیں پہن لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سے ملاقات) کا قصد لے کر چل پڑا، لوگ گروہ در گروہ مجھ سے ملتے تھے، توبہ (قبول ہونے) پر مجھے مبارک باد دیتے تھے اور کہتے تھے: تم پر اللہ کی نظر عنایت تمہیں مبارک ہو! یہاں تک کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو (دیکھا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے، (ان میں سے) طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر میری طرف لپکے، میرے ساتھ مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی اور (میرے استقبال کے لیے اس طرح) نہ اٹھا۔ (عبداللہ بن کعب نے) کہا: کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات کبھی نہ بھولتے تھے (انہوں نے اس کو ہمیشہ یاد رکھا۔) حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا، جبکہ آپ کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک رہا تھا اور آپ یہ فرما رہے تھے: "ماں کے پیٹ سے جنم لینے کے وقت سے جو بہترین دن تم پر گزر رہا ہے، تمہیں اس کی خوش خبری ہو!" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (یہ بشارت) آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔" اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت خوشی حاصل ہوتی تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح چمک اٹھتا تھا جیسے آپ کا چہرہ مبارک چاند کا ایک ٹکڑا ہو۔ کہا: اور ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی۔ کہا: جب میں آپ کے روبرو بیٹھ گیا تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری توبہ میں یہ بھی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صدقہ پیش کرنے کے لیے اپنے پورے مال سے دستبردار ہو جاؤں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھو، یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے۔" میں نے عرض کی: تو میں اپنا وہ حصہ جو مجھے خیبر سے ملا، اپنے پاس رکھ لیتا ہوں (حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ نے مجھے صرف اور صرف سچائی کی بنا پر نجات عطا فرمائی اور یہ بات بھی میری توبہ کا حصہ ہے کہ جب تک میری زندگی ہے، سچ کے بغیر کبھی کوئی بات نہیں کہوں گا۔ کہا: اللہ کی قسم! میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جسے اس وقت سے لے کر، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولا تھا، آج تک اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر انداز میں نوازا ہو، جس طرح مجھے نوازا۔ اللہ کی قسم! جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات عرض کی، اس وقت سے لے کر آج تک کوئی ایک جھوٹ بولنے کا ارادہ تک نہیں کیا اور میں امید رکھتا ہوں کہ میری بقیہ زندگی میں بھی اللہ مجھے (جھوٹ سے) محفوظ رکھے گا۔ کہا: اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیات) نازل فرمائیں: "اللہ تعالیٰ نے نظر عنایت فرمائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے تنگی کی گھڑی میں آپ کا اتباع کیا" حتی کہ آپ یہاں پہنچ گئے: "بےشک وہ انتہائی مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور ان تین (افراد) پر بھی جو پیچھے کر دیے گئے تھے یہاں تک کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی تھی اور خود ان کے اپنے دل ان پر تنگ پڑ گئے تھے اور انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اللہ سے پناہ ملنے کی، اس کے اپنے سوا، کہیں اور جگہ نہ تھی، پھر اس نے ان کی طرف نظر عنایت کی کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوں، یقینا اللہ ہی ہے بہت نظر عنایت کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا" سے لے کر اس ٹکڑے تک: "اے ایمان والو! اللہ کے سامنے تقویٰ اختیار کرو اور سچ بولنے والوں میں شامل ہو جاؤ۔" حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا راستہ دکھانے کے بعد، مجھ پر کبھی کوئی ایسا انعام نہیں کیا جس کی میرے دل میں اس سچ سے زیادہ قدر ہو جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بولا تھا، (یعنی) اس بات کی کہ میرے ساتھ ایسا نہ ہوا کہ میں آپ کے سامنے جھوٹ بولتا اور ان لوگوں کی طرح ہلاک ہو جاتا جنہوں نے جھوٹ بولا تھا۔ جن لوگوں نے جھوٹ بولا تھا، اللہ تعالیٰ نے جب وحی نازل فرمائی تو جتنی (کبھی) کسی شخص کی مذمت کی، ان کی اس سے کہیں زیادہ مذمت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "یہ لوگ جب تم (مدینہ میں) ان کے پاس واپس پہنچو گے تو ضرور اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صرف نظر کر لو، لہذا تم ان سے رخ پھیر لو، یہ (سرتاپا) گندگی ہیں اور جو کچھ یہ کرتے رہے اس کی جزا کے طور پر ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم لوگ ان سے راضی ہو جاؤ، اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ تعالیٰ (ان) فاسق لوگوں سے کبھی راضی نہ ہو گا۔" حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تینوں کو مخاطب کر کے، ہمیں ان لوگوں کے معاملے سے پیچھے (مؤخر) کر دیا گیا تھا جنہوں نے قسمیں کھائی تھیں اور (بظاہر) وہ قسمیں قبول کر لی گئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (تجدید) بیعت فرمائی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی کی تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا معاملہ مؤخر فرما دیا تھا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فیصلہ فرمایا، اسی کے متعلق اللہ عزوجل نے فرمایا: "اور ان تینوں پر بھی نظر عنایت فرمائی جن کو پیچھے (مؤخر) کر دیا گیا تھا۔" اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیچھے کردیے جانے کے بارے میں جو فرمایا ہے اس سے مراد ہمارا جنگ سے پیچھے رہ جانا نہ تھا بلکہ اس شخص کی نسبت ہمیں (ہمارا معاملہ) مؤخر کر دینا اور ہمارے معاملے کے فیصلے کو بعد میں کرنا مراد تھا کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسمیں کھائی، معذرت کی تو آپ نے اس سے قبول کر لی۔
امام ابن شہاب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کا جہاد کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ روم اور شام کے عرب نصرانیوں کے خلاف جہاد کا تھا۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب، جو کہ سیدنا کعب بن مالک ؓ کی نابینا ہو جانے کی بناء پر راہنمائی کیا کرتے تھے، نے کہا کہ سیدنا کعب بن مالک ؓ کو میں نے اپنے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا۔ سیدنا کعب بن مالک ؓ نے کہا کہ میں غزوہ تبوک کے علاوہ کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا، البتہ غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پیچھے رہ جانے والے پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ اور بدر میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے نکلے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ساتھ اچانک لڑا دیا (اور قافلہ نکل گیا)۔ اور میں رسول اللہ کے ساتھ لیلۃالعقبہ میں بھی موجود تھا (لیلۃالعقبہ وہ رات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے اسلام پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے پر بیعت لی تھی اور یہ بیعت جمرۃالعقبہ کے پاس جو منیٰ میں ہے دوبار ہوئی۔ پہلی بار میں بارہ انصاری تھے اور دوسری بار میں ستر انصاری تھے) اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے بدلے میں جنگ بدر میں شریک ہوتا، اگرچہ جنگ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ مشہور ہے (یعنی لوگ اس کو افضل کہتے ہیں)۔ اور غزوہ تبوک میں میرا پیچھے رہ جانے کا قصہ یہ ہے کہ اس غزوہ کے وقت میں میں جتنا قوی جوان اور خوشحال تھا، اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹنیاں کبھی جمع نہیں ہوئیں تھیں اور اس لڑائی کے وقت میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑائی کے لئے سخت گرمی کے دنوں میں چلے اور سفر بھی لمبا تھا اور راہ میں جنگل تھے (دور دراز جن میں پانی کم ملتا اور ہلاکت کا خوف ہوتا ہے) اور بہت سارے دشمنوں سے مقابلہ تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے صاف صاف فرمایا دیا کہ میں اس لڑائی کے لئے جا رہا ہوں (حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ اور لڑائیوں میں اپنا ارادہ مصلحت کے تحت صاف صاف نہ فرماتے تھے تاکہ خبر مشہور نہ ہو) تاکہ وہ اپنی تیاری کر لیں۔ ان سے کہہ دیا کہ فلاں طرف کو جانا ہے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے مسلمان تھے اور کوئی رجسٹر نہ تھا جس میں ان کے نام لکھے جا سکتے۔ سیدنا کعب نے کہا کہ بہت کم کوئی ایسا شخص ہو گا جو یہ گمان کر کے اس غزوہ سے غائب ہونے کا ارادہ کرے کہ اس کا معاملہ جب تک وحی نہ آئے گی، مخفی رہے گا۔ اور یہ جہاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا جب پھل پک گئے تھے اور سایہ خوب تھا اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیاری کی۔ میں نے بھی ہر صبح کو اس ارادہ سے نکلنا شروع کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں، لیکن میں ہر روز لوٹ آتا اور کچھ فیصلہ نہ کرتا اور اپنے دل میں کہتا کہ میں جب چاہوں جا سکتا ہوں (کیونکہ سفر کا سامان میرے پاس موجود تھا) میں یہی سوچتا رہا حتیٰ کہ مسلمانوں نے سامان سفر تیار کر لیا اور ایک صبح رسول اللہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر نکل پڑے۔ اور میں نے کوئی تیاری نہ کی۔ پھر میں صبح کو نکلا اور لوٹ کر آ گیا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔ میرا یہی حال رہا، یہاں تک کہ لوگوں نے جلدی کی اور سب مجاہدین آگے نکل گئے۔ اس وقت میں نے بھی کوچ کا قصد کیا کہ ان سے مل جاؤں۔ اے کاش میں ایسا کرتا، لیکن میری تقدیر میں نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے رنج ہوتا، کیونکہ میں کوئی پیروی کے لائق نہ پاتا مگر ایسا شخص جس پر منافق ہونے کا گمان تھا یا معذور ضعیف اور ناتواں لوگوں میں سے۔ خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (راہ میں) میری یاد کہیں نہ کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس وقت فرمایا کعب بن مالک کہاں گیا؟ بنی سلمہ میں سے ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ! اس کو اس کی چادروں نے روک لیا ہے، وہ اپنے دونوں کناروں کو دیکھتا ہے (یعنی اپنے لباس اور نفس میں مشغول اور مصروف ہے)۔ سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے یہ سن کر کہا کہ تو نے بری بات کہی، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! ہم تو کعب بن مالک کو اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے آ رہا تھا اور (چلنے کی وجہ سے) ریت کو اڑا رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ابوخیثمہ ہے۔ پھر وہ ابوخیثمہ ہی تھا اور ابوخیثمہ وہ شخص تھا جس نے ایک صاع کھجور صدقہ دی تھی اور منافقوں نے اس پر طعن کیا تھا۔ سیدنا کعب بن مالک ؓ نے کہا کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، تو میرا رنج بڑھ گیا۔ میں نے جھوٹ باتیں بنانا شروع کیں کہ کوئی بات ایسی کہوں جس سے کل (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچ جاؤں اور اس معاملہ کے لئے میں نے اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک عقلمند شخص سے مدد لینا شروع کی یعنی ان سے بھی صلاح لی (کہ کیا بات بناؤں)۔ جب لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب آ پہنچے تو اس وقت سارا جھوٹ کافور ہو گیا اور میں سمجھ گیا کہ اب میں کوئی جھوٹ بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات نہیں پا سکتا۔ آخر میں نے سچ بولنے کی نیت کر لی اور صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لئے بیٹھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کر چکے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے عذر بیان کرنے شروع کئے اور قسمیں کھانے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زیادہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ظاہر بات کو مان لیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی اور ان کی نیت (یعنی دل کی بات کو) اللہ کے سپرد کر دیا۔ جب میں آیا، پس میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے لیکن اس طرح جیسے کوئی غصہ کی حالت میں مسکراتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آؤ۔ میں چلتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو پیچھے کیوں رہ گیا؟ تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا کے شخصوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں یہ خیال کرتا کہ کوئی عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے نکل جاؤں گا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے زبان کی قوت دی ہے (یعنی میں عمدہ تقریر کر سکتا ہوں اور خوب بات بنا سکتا ہوں)، لیکن اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ اگر میں کوئی جھوٹ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خوش ہو جائیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے اوپر غصہ کر دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائے گا کہ میرا عذر جھوٹ اور غلط تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں گے) اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ کہوں گا تو بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے گا۔ اللہ کی قسم! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گیا اس وقت مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ کی قسم میں کبھی نہ اتنا قوی اور اتنا مالدار نہ تھا جتنا اس وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کعب نے سچ کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں فیصلہ کر دے۔ میں کھڑا ہو گیا اور بنی سلمہ کے چند لوگ دوڑ کر میرے پیچھے ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو، پس تم عاجز کیوں ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا جس طرح اور پیچھے رہ جانے والوں نے عذر بیان کئے؟ اور تیرا گناہ بخشوانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی ہوتا۔ اللہ کی قسم وہ لوگ مجھے ملامت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر جاؤں اور اپنے آپ کو جھوٹا کروں (اور کوئی عذر بیان کروں)۔ پھر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کسی اور کا بھی ایسا حال ہوا ہے جو میرا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! دو شخص ایسے اور ہیں انہوں نے بھی وہی کہا جو تو نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا۔ میں نے پوچھا کہ وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ واقفی۔ ان لوگوں نے ایسے دو شخصوں کے نام لئے جو نیک تھے، بدر کی لڑائی میں موجود تھے اور پیروی کے قابل تھے۔ جب ان لوگوں نے ان دونوں کا نام لیا تو میں اپنے پہلے حال پر قائم رہا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پیچھے رہ جانے والے ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا، تو لوگوں نے ہم سے پرہیز شروع کیا اور ان کا حال ہمارے ساتھ بالکل بدل گیا، یہاں تک کہ زمین بھی گویا بدل گئی، وہ زمین ہی نہ رہی جس کو میں پہچانتا تھا۔ پچاس راتوں تک ہمارا یہی حال رہا۔ میرے دونوں ساتھی تو عاجز ہو گئے اور اپنے گھروں میں روتے ہوئے بیٹھ رہے لیکن میں تو سب لوگوں میں نوجوان اور طاقتور تھا۔ میں نکلا کرتا تھا اور نماز کے لئے بھی آتا اور بازاروں میں بھی پھرتا لیکن کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تو آ کر ان کو سلام کرتا اور دل میں یہ کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لبوں کو سلام کا جواب دینے کے لئے ہلایا یا نہیں ہلایا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھتا اور چور نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو جب میں نماز میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پھیر لیتے۔ حتیٰ کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر لمبی ہوئی تو میں چلا اور ابوقتادہ ؓ کے باغ کی دیوار پر چڑھا، اور ابوقتادہ میرے چچازاد بھائی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ مجھے ان سے محبت تھی۔ ان کو سلام کیا تو اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا (سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ایسے ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سامنے بھائی بیٹے کی پرواہ بھی نہیں کرتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت نہ ہو تو ایمان کس کام کا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جب معلوم ہو جائے کہ صحیح ہے تو مجتہد اور مولویوں کا قول جو اس کے خلاف ہو دیوار پر مارنا چاہئے اور حدیث پر چلنا چاہئے)۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابوقتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول اسے محبت رکھتا ہوں؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، وہ پھر خاموش رہے۔ میں نے پھر تیسری بار قسم دی تو بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں (یہ بھی کعب سے نہیں بولے بلکہ خود اپنے میں بات کی)۔ آخر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر چلا اور دیوار پر چڑھا۔ میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ ملک شام کے کسانوں میں سے ایک کسان جو مدینہ میں اناج بیچنے کے لئے آیا تھا، کہہ رہا تھا کہ کعب بن مالک کا گھر مجھے کون بتائے گا؟ لوگوں نے اس کو میری طرف اشارہ شروع کیا، یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا۔ میں چونکہ پڑھ سکتا تھا، میں نے اس کو پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ امابعد! ”ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر ناراض ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت کے گھر میں نہیں کیا، نہ اس جگہ جہاں تمہارا حق ضائع ہو، تو تم ہم سے مل جاؤ، ہم تمہاری خاطر داری کریں گے“۔ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے اور اس خط کو میں نے تنور میں جلا دیا۔ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی نہ آئی تو یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم کرتے ہیں کہ اپنی بی بی سے علیحدہ رہو۔ میں نے کہا کہ اس کو طلاق دیدوں یا کیا کروں؟ وہ بولا کہ نہیں طلاق مت دو، صرف الگ رہو اور اس سے صحبت مت کرو۔میرے دونوں ساتھیوں (جو پیچھے رہ گئے تھے) کو بھی یہی پیغام ملا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے عزیزوں میں چلی جا اور وہیں رہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے۔ سیدنا ہلال بن امیہ ؓ کی بیوی یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ ایک بوڑھا کمزور شخص ہے، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم برا سمجھتے ہیں کہ اگر میں اس کی خدمت کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خدمت کو برا نہیں سمجھتا لیکن وہ تجھ سے صحبت نہ کرے۔ وہ بولی کہ اللہ کی قسم! اس کو کسی کام کا خیال نہیں اور اللہ کی قسم! وہ اس دن سے اب تک رو رہا ہے۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ کاش تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت لے لو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ کی عورت کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دے دی تو میں نے کہا کہ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے لئے اجازت نہ لوں گا اور معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں گے اگر میں اپنی بیوی کے لئے اجازت لوں اور میں جوان آدمی ہوں۔ پھر میں دس راتیں اسی حال میں رہا، یہاں تک کہ اس تاریخ سے پچاس راتیں پوری ہوئیں جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے سب لوگوں کو بات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ پھر پچاسویں رات کو صبح کے وقت میں نے اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز پڑھی میں اسی حال میں بیٹھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارا حال بیان کیا کہ میرا جی تنگ ہو گیا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی تھی۔ اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جو سلع (نامی) پہاڑ پر سے بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کعب بن مالک! خوش ہو جا۔ یہ سن کر میں سجدہ میں گرا اور میں نے پہچانا کہ اب کشادگی آ گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ لوگ ہمیں خوشخبری دینے کو چلے، میرے دونوں ساتھیوں کے پاس چند خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص نے میرے پاس گھوڑا دوڑایا اور ایک دوڑنے والا اسلم قبیلہ سے میری طرف آیا اور اس کی آواز گھوڑے سے جلدی مجھ کو پہنچی۔ جب وہ شخص آیا جس کی خوشخبری کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس خوشخبری کے صلہ میں اس کو پہنا دئیے۔ اللہ کی قسم! اس وقت میرے پاس وہی دو کپڑے تھے۔ میں نے دو کپڑے عاریۃً لئے اور ان کو پہن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی نیت سے چلا۔ لوگ مجھ سے گروہ گروہ ملتے جاتے تھے اور مجھے معافی کی مبارکباد دیتے جاتے تھے اور کہتے تھے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی معافی کی قبولیت مبارک ہو۔ یہاں تک کہ میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ تھے۔ اور طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے مجھے دیکھتے ہی دوڑ کر آ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا تو سیدنا کعب ؓ سیدنا طلحہ ؓ کے اس احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ سیدنا کعب بن مالک ؓ نے کہا کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک دمک رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوش ہو جا، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا آج کا دن، تیرے لئے بہتر دن ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمک جاتا تھا گویا کہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم اس بات (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی) کو پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اپنی معافی کی خوشی میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا تھوڑا مال رکھ لو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیتا ہوں۔ اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آخر کار سچائی نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمیشہ سچ کہوں گا جب تک زندہ رہوں۔ سیدنا کعب ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان پر سچ بولنے پر ایسا احسان کیا ہو جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا جیسا عمدہ طرح سے مجھ پر احسان کیا۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اس وقت سے آج کے دن تک کوئی جھوٹ قصداً نہیں بولا۔ آج کے دن تک اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے بچائے گا۔ سیدنا کعب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں ”بیشک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مہاجرین اور انصار کو معاف کیا جنہوں نے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مفلسی کے وقت ساتھ دیا“ یہاں تک کہ فرمایا ”وہ مہربان ہے اور رحم والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان تین شخصوں کو بھی معاف کیا جو پیچھے چھوڑے گئے، یہاں تک کہ زمین ان پر باوجود اپنی کشادگی کے تنگ ہو گئی اور ان کے نفس بھی تنگ ہو گئے اور سمجھے کہ اب اللہ تعالیٰ سے کوئی بچاؤ نہیں مگر اسی کی طرف، پھر اللہ نے ان کو معاف کیا تاکہ وہ توبہ کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈور اور سچوں کے ساتھ رہو“ (سورۃ: التوبہ: 117تا119) سیدنا کعب ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب سے مجھے اسلام کی ہدایت دی ہے، اس سے بڑھ کوئی احسان مجھ پر نہیں کیا جو میرے نزدیک اتنا بڑا ہو، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بول دیا اور جھوٹ نہیں بولا، ورنہ تباہ ہوتا جیسے جھوٹے تباہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کی جب وحی اتاری تو ایسی برائی بیان کی کہ کسی (اور) کی نہ کی ہو گی۔ فرمایا کہ ”جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو عنقریب وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے کوئی تعرض نہ کرو، سو تم ان سے اعراض کر لو، بیشک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یہ بدلہ ہے ان کی کمائی کا۔ وہ تم سے اس لئے قسمیں کھاتے ہیں کہ تم ان سے خوش ہو جاؤ۔ پس اگر تم ان سے خوش بھی ہو جاؤ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے خوش نہیں ہو گا“۔ سیدنا کعب ؓ نے کہا کہ ہم تینوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر کیا گیا جن کا عذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی تو ان سے بیعت کی اور ان کے لئے استغفار کیا اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے ڈال رکھا (یعنی ہمارا مقدمہ، فیصلہ پیچھے رکھا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔ اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”معاف کیا ان تینوں کو جو پیچھے ڈالے گئے تھے، یہاں تک کہ ان پر زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہو گئی“ اور اس لفظ (یعنی خلّفوا) سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے، بلکہ وہی مراد ہے ہمارے مقدمہ کا پیچھے رہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھے ڈال رکھنا بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے قسم کھائی اور عذر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔