صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
حدیث نمبر: 6389
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه : " ان حسان بن ثابت كان ممن كثر على عائشة فسببته، فقالت: يا ابن اختي دعه، فإنه كان ينافح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنَّ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ كَانَ مِمَّنْ كَثَّرَ عَلَى عَائِشَةَ فَسَبَبْتُهُ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي دَعْهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
ابو اسامہ نے ہشام (بن عروہ) سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بہت کچھ کہا تھا (تہمت لگانے والوں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے)، میں نے ان کو برا بھلا کہا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بھتیجے!ان کو کچھ نہ کہو، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کو جواب دیتے تھے۔
حضرت ہشام رحمۃ ا للہ علیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق بہت کچھ کہا تھا،میں نے ان کو برا بھلا کہا توحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:بھتیجے!ان کو کچھ نہ کہو،کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کو جواب دیتے تھے۔
حدیث نمبر: 6390
Save to word اعراب
حدثناه عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا عبدة ، عن هشام ، بهذا الإسناد.حَدَّثَنَاه عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
عبدہ نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 6391
Save to word اعراب
حدثني بشر بن خالد ، اخبرنا محمد يعني ابن جعفر ، عن شعبة ، عن سليمان ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، قال: " دخلت على عائشة وعندها حسان بن ثابت، ينشدها شعرا يشبب بابيات له، فقال: حصان رزان ما تزن بريبة وتصبح غرثى من لحوم الغوافل فقالت له عائشة : لكنك لست كذلك، قال مسروق: فقلت لها: لم تاذنين له يدخل عليك وقد، قال الله: والذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم سورة النور آية 11، فقالت: فاي عذاب اشد من العمى؟ إنه كان ينافح او عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: " دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ وَعِنْدَهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، يُنْشِدُهَا شِعْرًا يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ، فَقَالَ: حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ : لَكِنَّكَ لَسْتَ كَذَلِكَ، قَالَ مَسْرُوقٌ: فَقُلْتُ لَهَا: لِمَ تَأْذَنِينَ لَهُ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ، قَالَ اللَّهُ: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة النور آية 11، فَقَالَتْ: فَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى؟ إِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ أَوْ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
محمد بن جعفر نے شعبہ سے، انھوں نے سلیمان سے، انھوں نے ابو ضحیٰ سے، انھوں نے مسروق سے روایت کی کہا: کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو ان کے پاس سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیٹھے اپنی غزل میں سے ایک شعر سنا رہے تھے جو چند بیتوں کی انہوں نے کہی تھی۔ وہ شعر یہ ہے کہ: پاک ہیں اور عقل والی ان پہ کچھ تہمت نہیں۔ صبح کو اٹھتی ہیں بھوکی غافلوں کے گوشت سے (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں کیونکہ غیبت کرنا گویا اس کا گوشت کھانا ہے)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لیکن تو ایسا نہیں ہے (یعنی تو لوگوں کی غیبت کرتا ہے)۔ مسروق نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ حسان رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس کیوں آنے دیتی ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ وہ شخص جس نے ان میں سے بڑی بات (یعنی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے) کا بیڑا اٹھایا اس کے واسطے بڑا عذاب ہے۔ (حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شریک تھے جنہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حد لگائی) ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس سے زیادہ عذاب کیا ہو گا کہ وہ نابینا ہو گیا ہے اور کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کی جوابدہی کرتا تھا یا ہجو کرتا تھا۔ (اس لئے اس کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتی ہوں)۔
امام مسروق رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں اپنا شعر سنارہے تھے،اپنے شعروں کےآغاز میں انہوں نے شعر کہا،پاکدامن،عقلمند اورمتین ہیں،ان پر کسی عیب کی الزام تراشی نہیں کی جاسکتی،وہ غافل عورتوں کی گوشت خوری سے بھوکی رہتی ہیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں کہا،لیکن آپ تو ایسے نہیں ہیں،(غیبت کرتے ہیں) مسروق کہتے ہیں،میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا،آپ اسے اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں؟حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،ان میں سے جس نے اس میں(افک میں) زیادہ حصہ لیا،اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا،اندھے ہونے سے بڑھ کرعذاب کون سا ہے؟یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے تھے،یا آپ کی طرف سے کافروں کی ہجوکرتے تھے۔
حدیث نمبر: 6392
Save to word اعراب
حدثناه ابن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن شعبة ، في هذا الإسناد، وقال: قالت: كان يذب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يذكر حصان رزان.حَدَّثَنَاه ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: قَالَتْ: كَانَ يَذُبُّ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ حَصَانٌ رَزَانٌ.
ابن ابی عدی نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اورکہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدافعت کرتے تھے، انھوں نے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مدح والاحصہ) "وہ پاکیزہ ہیں، عقل مند ہیں"بیان نہیں کیا۔
امام صاحب یہ روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں،اس میں "يُنافعُ" کی جگہ"يذُبُ"(دفاع کرنا ہے) اور ‘حصان رزان‘ پاکدامن،عقلمند کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث نمبر: 6393
Save to word اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، اخبرنا يحيي بن زكرياء ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قال حسان: " يا رسول الله، ائذن لي في ابي سفيان، قال: كيف بقرابتي منه؟ قال: والذي اكرمك لاسلنك منهم كما تسل الشعرة من الخمير، فقال حسان: وإن سنام المجد من آل هاشم بنو بنت مخزوم ووالدك العبد، قصيدته هذه.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا يَحْيَي بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ حَسَّانُ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِي أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: كَيْفَ بِقَرَابَتِي مِنْهُ؟ قَالَ: وَالَّذِي أَكْرَمَكَ لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنَ الْخَمِيرِ، فَقَالَ حَسَّانُ: وَإِنَّ سَنَامَ الْمَجْدِ مِنْ آلِ هَاشِمٍ بَنُو بِنْتِ مَخْزُومٍ وَوَالِدُكَ الْعَبْدُ، قَصِيدَتَهُ هَذِهِ.
یحییٰ بن زکریا نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے ابو سفیان (مغیرہ بن حارث بن عبدالمطلب) کی ہجو کرنے کی اجازت دیجئے، آپ نے فرمایا: "اس کے ساتھ میری جو قرابت ہے اس کا کیا ہوگا؟"حضرت حسان رضی اللہ عنہ نےکہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت عطا فرمائی!میں آپ کو ان میں سے اس طرح باہرنکال لوں گا جس طرح خمیر سے بال کو نکال لیا جاتاہے، پھر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ قصیدہ کہا: اور آل ہاشم میں سے عظمت ومجد کی چوٹی پر وہ ہیں جو بنت مخزوم (فاطمہ بنت عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم) کی اولاد ہیں (ابو طالب، عبداللہ اور زبیر) اورتیرا باپ تو غلام (کنیز کا بیٹا) تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،حضرت حسان نے کہا،اےاللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!مجھے ابوسفیان کے بارے میں اجازت دیں،آپ نے فرمایا:"اس کے ساتھ جومیری رشتہ داری ہے،اس کا کیاکروگے؟"اس نے کہا،اس ذات کی قسم،جس نےآپ کو عزت بخشی،میں آپ کو ان سے اس طرح نکال لوں گا،جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیاجاتا ہے،پھر حضرت حسان نے یہ قصیدہ کہا،جس کا آغاز یوں ہے:"بزرگی اور شرافت،آل ہاشم سے مخزوم کی اولاد کو حاصل ہے اورتیرا باپ تو غلام ہے۔"
حدیث نمبر: 6394
Save to word اعراب
حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا عبدة ، حدثنا هشام بن عروة ، بهذا الإسناد، قالت: استاذن حسان بن ثابت النبي صلى الله عليه وسلم في هجاء المشركين، ولم يذكر ابا سفيان، وقال: بدل الخمير العجين.حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هِجَاءِ الْمُشْرِكِينَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا سُفْيَانَ، وَقَالَ: بَدَلَ الْخَمِيرِ الْعَجِينِ.
عبدہ نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت مانگی۔اور (عبدہ نے) ابو سفیان کا ذکر نہیں کیا اور۔۔۔خمیر کے بجائے۔گندھا ہوا آٹا کہا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے نقل کرتے ہیں،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کی ہجو کی اجازت مانگی،ابوسفیان کانام نہیں لیا اور خمیر کی جگہ"عجين"کہا،(معنی دونوں کاایک ہی ہے)
حدیث نمبر: 6395
Save to word اعراب
حدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث ، حدثني ابي ، عن جدي ، حدثني خالد بن يزيد ، حدثني سعيد بن ابي هلال ، عن عمارة بن غزية ، عن محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اهجوا قريشا، فإنه اشد عليها من رشق بالنبل، فارسل إلى ابن رواحة، فقال: اهجهم فهجاهم، فلم يرض، فارسل إلى كعب بن مالك، ثم ارسل إلى حسان بن ثابت، فلما دخل عليه، قال حسان: قد آن لكم ان ترسلوا إلى هذا الاسد الضارب بذنبه، ثم ادلع لسانه، فجعل يحركه، فقال: والذي بعثك بالحق لافرينهم بلساني فري الاديم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تعجل فإن ابا بكر اعلم قريش بانسابها، وإن لي فيهم نسبا حتى يلخص لك نسبي، فاتاه حسان، ثم رجع، فقال: يا رسول الله، قد لخص لي نسبك والذي بعثك بالحق لاسلنك منهم كما تسل الشعرة من العجين، قالت عائشة: فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول لحسان: إن روح القدس لا يزال يؤيدك ما نافحت عن الله ورسوله، وقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: هجاهم حسان فشفى واشتفى، قال حسان: هجوت محمدا فاجبت عنه، وعند الله في ذاك الجزاء ": هجوت محمدا برا تقيا رسول الله شيمته الوفاء فإن ابي ووالده وعرضي لعرض محمد منكم وقاء ثكلت بنيتي إن لم تروها تثير النقع من كنفي كداء يبارين الاعنة مصعدات على اكتافها الاسل الظماء تظل جيادنا متمطرات تلطمهن بالخمر النساء فإن اعرضتمو عنا اعتمرنا وكان الفتح وانكشف الغطاء وإلا فاصبروا لضراب يوم يعز الله فيه من يشاء وقال الله قد ارسلت عبدا يقول الحق ليس به خفاء وقال الله قد يسرت جندا هم الانصار عرضتها اللقاء لنا في كل يوم من معد سباب او قتال او هجاء فمن يهجو رسول الله منكم ويمدحه وينصره سواء وجبريل رسول الله فينا وروح القدس ليس له كفاء.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اهْجُوا قُرَيْشًا، فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ، فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنِ رَوَاحَةَ، فَقَالَ: اهْجُهُمْ فَهَجَاهُمْ، فَلَمْ يُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ: قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تُرْسِلُوا إِلَى هَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنَبِهِ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ، فَجَعَلَ يُحَرِّكُهُ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَعْجَلْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا، وَإِنَّ لِي فِيهِمْ نَسَبًا حَتَّى يُلَخِّصَ لَكَ نَسَبِي، فَأَتَاهُ حَسَّانُ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَكَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنَ الْعَجِينِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لِحَسَّانَ: إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُكَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: هَجَاهُمْ حَسَّانُ فَشَفَى وَاشْتَفَى، قَالَ حَسَّانُ: هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ، وَعِنْدَ اللَّهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ ": هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا تَقِيًا رَسُولَ اللَّهِ شِيمَتُهُ الْوَفَاءُ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ ثَكِلْتُ بُنَيَّتِي إِنْ لَمْ تَرَوْهَا تُثِيرُ النَّقْعَ مِنْ كَنَفَيْ كَدَاءِ يُبَارِينَ الْأَعِنَّةَ مُصْعِدَاتٍ عَلَى أَكْتَافِهَا الْأَسَلُ الظِّمَاءُ تَظَلُّ جِيَادُنَا مُتَمَطِّرَاتٍ تُلَطِّمُهُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ فَإِنْ أَعْرَضْتُمُو عَنَّا اعْتَمَرْنَا وَكَانَ الْفَتْحُ وَانْكَشَفَ الْغِطَاءُ وَإِلَّا فَاصْبِرُوا لِضِرَابِ يَوْمٍ يُعِزُّ اللَّهُ فِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَقَالَ اللَّهُ قَدْ أَرْسَلْتُ عَبْدًا يَقُولُ الْحَقَّ لَيْسَ بِهِ خَفَاءُ وَقَالَ اللَّهُ قَدْ يَسَّرْتُ جُنْدًا هُمُ الْأَنْصَارُ عُرْضَتُهَا اللِّقَاءُ لَنَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ مَعَدٍّ سِبَابٌ أَوْ قِتَالٌ أَوْ هِجَاءُ فَمَنْ يَهْجُو رَسُولَ اللَّهِ مِنْكُمْ وَيَمْدَحُهُ وَيَنْصُرُهُ سَوَاءُ وَجِبْرِيلٌ رَسُولُ اللَّهِ فِينَا وَرُوح الْقُدُسِ لَيْسَ لَهُ كِفَاءُ.
ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آ گیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے (یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حسان! جلدی مت کر! کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی ہیں، تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے۔ پھر حسان سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، پھر اس کے بعد لوٹے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ہے، قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش میں سے ایسا نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسان سے فرماتے تھے کہ روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جواب دیتا رہے گا۔ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ حسان نے قریش کی ہجو کی تو مومنوں کے دلوں کو شفاء دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کر دیا۔ حسان نے کہا کہ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کی تو میں نے اس کا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا۔ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کی جو نیک اور پرہیزگار ہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وفاداری ان کی خصلت ہے۔ میرے باپ دادا اور میری آبرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو بچانے کے لئے قربان ہیں۔ اگر کداء (مکہ کے دروازہ پر گھاٹی) کے دونوں جانب سے غبار اڑتا ہو نہ دیکھو تو میں اپنی جان کو کھوؤں۔ ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اور اپنی قوت اور طاقت سے اوپر چڑھتی ہوئیں، ان کے کندھوں پر وہ برچھے ہیں جو باریک ہیں یا خون کی پیاسی ہیں اور ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئیں گے، ان کے منہ عورتیں اپنے دوپٹوں سے پونچھتی ہیں۔ اگر تم ہم سے نہ بولو تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہو جائے گی اور پردہ اٹھ جائے گا۔ نہیں تو اس دن کی مار کے لئے صبر کرو جس دن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا عزت دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے جو انصار کا لشکر ہے، جس کا کھیل کافروں سے مقابلہ کرنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک بندہ بھیجا جو سچ کہتا ہے اس کی بات میں کچھ شبہہ نہیں ہے۔ ہم تو ہر روز ایک نہ ایک تیاری میں ہیں، گالی گلوچ ہے کافروں سے یا لڑائی ہے یا کافروں کی ہجو ہے۔ تم میں سے جو کوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے اور ان کی تعریف کرے یا مدد کرے وہ سب برابر ہیں۔ اور (روح القدس) جبریل علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے ہم میں بھیجاگیا ہے اور روح القدس کا (کائنات میں) کوئی مد مقابل نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ ؓ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالک ؓ کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت ؓ کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آ گیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے (یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حسان! جلدی مت کر! کیونکہ ابوبکر ؓ قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی ہیں، تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے۔ پھر حسان سیدنا ابوبکر ؓ کے پاس آئے، پھر اس کے بعد لوٹے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! سیدنا ابوبکر ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ہے، قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش میں سے ایسا نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسان سے فرماتے تھے کہ روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جواب دیتا رہے گا۔ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا،"حسان نے ان کی ہجو کی،مسلمانوں کی تشفی کردی اور اپنی بھی تسلی کرلی۔"حضرت حسان نے کہا:1۔تو نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی تو میں نے ان کی طرف سے جواب دیا اور اس کابدلہ اللہ ہی کے پاس ہے۔2۔تو نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی جو اطاعت شعار اور پرہیز گار ہیں،اللہ کے رسول ہیں اور ان کی عادت وفا کرناہے۔3۔بلاشبہ،میرا باپ اور اس کا باپ اور میری آبرو،تم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے لیے ڈھال ہے۔4۔میں اپنے آپ کوگم پاؤں،اگر تم گھوڑوں کو کداء کے دونوں اطراف سے گردوغبار اڑاتے نہ پاؤ۔5۔وہ گھوڑے جو قوت وصلابت میں مضبوط لگاموں کامقابلہ کرتے ہیں،تمہاری طرف چڑھ رہے ہوں گے،ان کے کندھوں پر پیاسے باریک نیزے ہوں گے۔6۔ہمارے گھوڑے تیزی سے دوڑرہے ہوں گے،ان کی عزت ومحبت سے عورتیں اپنے دوپٹوں سے ان سےگردوغبار صاف کریں گی،یادشمن کی عورتیں اپنے دوپٹوں سے ان کو موڑنے کی کوشش کریں گی۔7۔سواگر تم ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ،ہم عمرہ کرلیں گے،فتح حاصل ہوجائےگی اور پردہ اٹھ جائےگا۔8۔وگرنہ اس دن کی مار کاانتظار کرو،جس دن اللہ جس کو چاہے گا،عزت بخشے گا۔9۔اللہ کا فرمان ہے،میں نے ایک بندہ بھیجاہے،جوحق کہتا ہے اور اس میں کوئی پوشیدگی نہیں ہے۔10۔اللہ فرماتا ہے،میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے،وہ انصار ہیں،ان کا مقصد ٹکرانا ہے۔11۔ہم انصار کے لیےہردن دورقریش کی طرف سے،گالی گلوچ،لڑائی کا ہجو کا ہے۔12۔سوتم میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوکرے اور آپ کی تعریف کرے اور آپ کی مدد کرے،سب برابر ہیں۔13۔جبریل اللہ کے رسول،ہم میں ہیں اورروح القدس کاکوئی ہم پلہ نہیں ہے۔
35. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي هُرَيْرَةَ الدَّوْسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
35. باب: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
Chapter: The Virtues Of Abu Hurairah [Ad-Dawsi] (RA)
حدیث نمبر: 6396
Save to word اعراب
حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا عمر بن يونس اليمامي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، عن ابي كثير يزيد بن عبد الرحمن ، حدثني ابو هريرة ، قال: " كنت ادعو امي إلى الإسلام وهي مشركة، فدعوتها يوما فاسمعتني في رسول الله صلى الله عليه وسلم ما اكره، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، قلت: يا رسول الله، إني كنت ادعو امي إلى الإسلام، فتابى علي، فدعوتها اليوم فاسمعتني فيك ما اكره، فادع الله ان يهدي ام ابي هريرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم اهد ام ابي هريرة، فخرجت مستبشرا بدعوة نبي الله صلى الله عليه وسلم، فلما جئت فصرت إلى الباب، فإذا هو مجاف، فسمعت امي خشف قدمي، فقالت: مكانك يا ابا هريرة، وسمعت خضخضة الماء، قال: فاغتسلت ولبست درعها وعجلت عن خمارها، ففتحت الباب، ثم قالت يا ابا هريرة: اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله، قال: فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتيته وانا ابكي من الفرح، قال: قلت: يا رسول الله، ابشر قد استجاب الله دعوتك وهدى ام ابي هريرة، فحمد الله واثنى عليه، وقال: خيرا، قال: قلت: يا رسول الله، ادع الله ان يحببني انا وامي إلى عباده المؤمنين ويحببهم إلينا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم حبب عبيدك هذا يعني ابا هريرة وامه إلى عبادك المؤمنين، وحبب إليهم المؤمنين، فما خلق مؤمن يسمع بي ولا يراني إلا احبني ".حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ، فَتَأْبَى عَلَيَّ، فَدَعَوْتُهَا الْيَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِي فِيكَ مَا أَكْرَهُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَى الْبَابِ، فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ، فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ، فَقَالَتْ: مَكَانَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَسَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَاءِ، قَالَ: فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا، فَفَتَحَتِ الْبَابَ، ثُمَّ قَالَتْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ وَأَنَا أَبْكِي مِنَ الْفَرَحِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللَّهُ دَعْوَتَكَ وَهَدَى أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: خَيْرًا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِينَ، فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرک تھی۔ ایک دن میں نے اس کو مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار گزری۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی، آج اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مجھے وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دیدے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کر دے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خوش ہو کر نکلا۔ جب گھر پر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی۔ اور بولی کہ ذرا ٹھہرا رہ۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابوہریرہ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خوشی سے روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت کی اور بہتر بات کہی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ عزوجل سے دعا کیجئے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے۔ اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابوہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔ پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرے بارے میں سنایا مجھے دیکھا ہواور میرےساتھ محبت نہ کی ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرک تھی۔ ایک دن میں نے اس کو مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار گزری۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی، آج اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مجھے وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دیدے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کر دے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خوش ہو کر نکلا۔ جب گھر پر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی۔ اور بولی کہ ذرا ٹھہرا رہ۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابوہریرہ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خوشی سے روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت کی اور بہتر بات کہی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ عزوجل سے دعا کیجئے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے۔ اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابوہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔ پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرے بارے میں سنایا مجھے دیکھا ہواور میرےساتھ محبت نہ کی ہو۔
حدیث نمبر: 6397
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب جميعا، عن سفيان ، قال زهير: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري ، عن الاعرج ، قال: سمعت ابا هريرة ، يقول: " إنكم تزعمون ان ابا هريرة يكثر الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله الموعد كنت رجلا مسكينا اخدم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني، وكان المهاجرون يشغلهم الصفق بالاسواق، وكانت الانصار يشغلهم القيام على اموالهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من يبسط ثوبه فلن ينسى شيئا سمعه مني، فبسطت ثوبي حتى قضى حديثه ثم ضممته إلي، فما نسيت شيئا سمعته منه ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: " إِنَّكُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ كُنْتُ رَجُلًا مِسْكِينًا أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ يَشْغَلُهُمُ الْقِيَامُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يَبْسُطْ ثَوْبَهُ فَلَنْ يَنْسَى شَيْئًا سَمِعَهُ مِنِّي، فَبَسَطْتُ ثَوْبِي حَتَّى قَضَى حَدِيثَهُ ثُمَّ ضَمَمْتُهُ إِلَيَّ، فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْهُ ".
سفیان بن عیینہ نے زہری سے، انھوں نے اعرج سےروایت کی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: تم یہ سمجھتے ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتاہے، اللہ ہی کے پاس پیشی ہونی ہے۔میں ایک مسکین آدمی تھا، پیٹ بھرجانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگا رہتاتھا۔مہاجروں کو بازار میں گہما گہمی مشغول رکھتی تھی اور انصار کو اپنے مال (مویشی) وغیرہ کی نگہداشت مشغول رکھتی تھی، تو (جب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون اپنا کپڑا پھیلائے گا، پھر جو چیز بھی اس نے مجھ سے سنی اسے ہرگز نہیں بھولے گا۔"تو میں نے اپنا کپڑا پھیلا دیا، یہاں تک کہ آپ نے اپنی بات مکمل کی تو میں نے وہ (کپڑا سمیٹ کر) اپنے ساتھ لگا لیا، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا اس میں سے کوئی چیز کبھی نہ بھولا۔
اعرج رحمۃ ا للہ علیہ کہتے ہیں،میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،وہ کہہ رہے تھے:تم یہ سمجھتے ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتاہے،اللہ ہی کے پاس پیشی ہونی ہے۔میں ایک مسکین آدمی تھا،پیٹ بھرجانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگا رہتاتھا۔مہاجروں کو بازار میں گہ گہمی مشغول رکھتی تھی اور انصار کو اپنے مال(مویشی) وغیرہ کی نگہداشت مشغول رکھتی تھی،تو(جب)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کون اپنا کپڑا پھیلائے گا،پھر جو چیز بھی اس نے مجھ سے سنی اسے ہرگز نہیں بھولے گا۔"تو میں نے اپنا کپڑا پھیلا دیا،یہاں تک کہ آپ نے اپنی بات مکمل کی تو میں نے وہ(کپڑا سمیٹ کر) اپنے ساتھ لگا لیا،پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا اس میں سے کوئی چیز کبھی نہ بھولا۔
حدیث نمبر: 6398
Save to word اعراب
حدثني عبد الله بن جعفر بن يحيي بن خالد ، اخبرنا معن ، اخبرنا مالك . ح وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر كلاهما، عن الزهري ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، بهذا الحديث، غير ان مالكا انتهى حديثه عند انقضاء قول ابي هريرة، ولم يذكر في حديثه الرواية، عن النبي صلى الله عليه وسلم من يبسط ثوبه إلى آخره.حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَي بْنِ خَالِدٍ ، أَخْبَرَنَا مَعْنٌ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، غَيْرَ أَنَّ مَالِكًا انْتَهَى حَدِيثُهُ عِنْدَ انْقِضَاءِ قَوْلِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِهِ الرِّوَايَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَبْسُطْ ثَوْبَهُ إِلَى آخِرِهِ.
مالک بن انس اور معمر نے زہری سے، انھوں نے اعرج سے اور انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی، مگر مالک کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات پر ختم ہو گئی۔انھوں نے اپنی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ یہ بات: "کون اپنا کپڑا پھیلا ئےگا: "آخر تک بیان نہیں کی،
امام صاحب یہی روایت امام مالک اور معمر سے بیان کرتے ہیں،مگر امام مالک رحمۃ ا للہ علیہ کی روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول پر ختم ہوجاتی ہے،اس میں کپڑا بچھانے کا تذکرہ نہیں ہے۔

Previous    19    20    21    22    23    24    25    26    27    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.