عمرو ناقد اور ابن ابی عمر نے حدیث بیان کی۔الفاظ عمرو کے ہیں۔دونوں نے کہا: ہمیں سفیان نے آل طلحہ کے آزاد کردہ غلام محمد بن عبدالرحمان سے حدیث بیان کی، انھوں نے کریب سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: (پہلے ام المومنین حضرت) جویریہ رضی اللہ عنہا کا نام"برہ"تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر جویریہ رکھ دیا۔آپ کو پسند نہ تھا۔کہ اس طرح کہا جائے کہ آپ برہ (نیکیوں و الی) کے ہاں سے نکل گئے۔ابن ابی عمر کی حدیث میں ہے: کریب سے روایت ہے، کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جویریہ کا نام بره تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام بدل کر جویریہ رکھا اور آپ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کہا جائے، آپ کے پاس سے برہ چلی گئی، ابن ابی عمرہ کی روایت میں عن كريب عن ابن عباس
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنیٰ اورمحمد بن بشار نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی، محمد بن جعفر اورعبیداللہ کے والد معاذ نے شعبہ سے، انھوں نے عطاء بن ابی میمونہ سے، انھوں نے ابو رافع سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت زینب (بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا) کا نام برہ تھا تو کہا گیا کہ وہ (نام بتاتے وقت خود) اپنی پارسائی بیان کرتی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام زینب رکھ دیا۔حدیث کے الفاظ ابن بشار کے علاوہ باقی سب کے (بیان کردہ) ہیں۔ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے شعبہ سے حدیث بیان کی۔
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی دو سندوں سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
ولید بن کثیر نے کہا: مجھے محمد بن عمرو بن عطاء نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا، کہا: میرا نام برہ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام زینب رکھ دیا۔ انھوں نے کہا: جب زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا آپ کے حبالہ عقد میں داخل ہوئیں تو ان کا نام بھی برہ تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بھی زینب رکھا۔
حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میرا نام بره تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام زینب رکھا اور بیان کرتی ہیں، آپ کے نکاح میں حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالی عنہا آئیں، ان کا نام بره تھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام زینب رکھا۔
یزید بن ابی حبیب نے محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت کی، کہا: میں نے اپنی بیٹی کانام برہ رکھا تو حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام رکھنے سے منع فرمایا ہے۔اور (بتایا کہ) میرا نام بھی پہلے برہ رکھا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ اپنی پارسائی بیان کرو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ تم میں سے نیکو کار کون ہے۔" (گھرکے) لوگوں نے کہا: پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کا نام زینب رکھ دو۔" یزید بن ابی حبیب نے محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت کی، کہا: میں نے اپنی بیٹی کانام برہ رکھا تو حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام رکھنے سے منع فرمایا ہے۔اور (بتایا کہ) میرا نام بھی پہلے برہ رکھا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ اپنی پارسائی بیان کرو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ تم میں سے نیکو کار کون ہے۔" (گھرکے) لوگوں نے کہا: پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کا نام زینب رکھ دو۔"
محمد بن عمرو بن عطاء بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی بیٹی کا نام بره رکھا تو مجھے حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کے رکھنے سے روکا ہے، میرا نام بره رکھا گیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خود اپنا تزکیہ نہ کرو، اللہ تعالیٰ تم میں سے وفاداروں اور نیکوکاروں کو خوب جانتا ہے“ تو میرے ورثاء نے پوچھا، ہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا نام زینب رکھو۔“
سعید بن عمرو اشعشی، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اورابو بکر بن ابی شیبہ نے ہمیں حدیث بیان کی۔الفاظ امام احمد کے ہیں، اشعشی نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے خبر دی جبکہ دیگر نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی۔ابوزناد سے، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا؛"اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے قابل تحقیر نام اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے۔"اور ابن ابی شیبہ نے اپنی روایت میں اضافہ کیا: "اللہ عزوجل کے سوا کوئی (بادشاہت کا) مالک نہیں ہے۔" اشعشی کا قول ہے: سفیان نے کہا: جیسے شاہان شاہ (شہنشاہ) ہے۔ اور احمد بن حنبل نے کہا: میں نے ابو عمرو (اسحاق بن مرار شیبانی، نحوی، کوفی) سے"اخنع" کے بارے میں پوچھا توانھوں نے کہا: (اس کے معنی ہیں) اوضع (انتہائی حقیر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے برا نام اس آدمی کا ہے جو اپنا نام شاہ شاہاں رکھتا ہے“ ابن ابی شیبہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ بیان کیا ہے ”اللہ عزوجل کے سوا کوئی مالک نہیں ہے۔“ سفیان نے کہا، جیسے شاہان شاہ ہے، امام احمد بن حنبل کہتے ہیں، میں نے ابو عمرو سے اخنع کا معنی دریافت کیا تو اس نے کہا، سب سے زیادہ پست و ذلیل۔
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر احاديث منها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اغيظ رجل على الله يوم القيامة، واخبثه واغيظه عليه، رجل كان يسمى ملك الاملاك لا ملك إلا الله ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قال: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَغْيَظُ رَجُلٍ عَلَى اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَخْبَثُهُ وَأَغْيَظُهُ عَلَيْهِ، رَجُلٍ كَانَ يُسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ لَا مَلِكَ إِلَّا اللَّهُ ".
ہمیں معمر ہمام بن منبہ سے خبر دی، کہا: یہ احادیث ہمیں حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیں، پھر انھوں نے کچھ احادیث بیان کیں، ان میں سے یہ حدیث (بھی) ہے: اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کےدن سب سےزیادہ گندا اورغضب کامستحق شخص وہ ہوگا جوشہنشاہ کہلاتا ہوگا، اللہ کے سوا کوئی اور بادشاہ نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیان کردہ روایات میں سے ایک یہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے مبغوض آدمی اور سب سے خبیث فرد، جس پر وہ سب سے زیادہ ناراض ہو گا، وہ آدمی ہے جا کا نام شہنشاہ رکھا گیا، اللہ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔“
5. باب: بچہ کے منہ میں کچھ چبا کر ڈالنے کا اور دوسری چیزوں کا بیان۔
Chapter: It Is Recommended To Perform Tahnik For The Newborn When He Is Born And To Take Him To A Righteous Man To Perform Tahnik For Him; It Is Permissible To Name Him On The Day He Is Born, And It Is Recommended To Use The Names 'Abdullah, Ibrahim, And The Names Of All Other Prophets, Peace Be Upon Them
حدثنا عبد الاعلى بن حماد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، قال: ذهبت بعبد الله بن ابي طلحة الانصاري إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين ولد، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في عباءة يهنا بعيرا له، فقال: " هل معك تمر؟ "، فقلت: نعم، فناولته تمرات، فالقاهن في فيه، فلاكهن ثم فغر فا الصبي، فمجه في فيه، فجعل الصبي يتلمظه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حب الانصار التمر وسماه عبد الله ".حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قال: ذَهَبْتُ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وُلِدَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَبَاءَةٍ يَهْنَأُ بَعِيرًا لَهُ، فَقَالَ: " هَلْ مَعَكَ تَمْرٌ؟ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِي فِيهِ، فَلَاكَهُنَّ ثُمَّ فَغَرَ فَا الصَّبِيِّ، فَمَجَّهُ فِي فِيهِ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ ".
ثابت بنانی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب عبداللہ بن ابی طلہ پیدا ہوئے تو میں انھیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دھاری دارعبا (چادر) زیب تن فرمائے اپنے ایک اونٹ کو (خارش سے نجات دلانے کے لئے) گندھک (یاکول تار) لگارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کچھ کھجور ساتھ ہے؟میں نے عرض کی: جی ہاں، پھر میں نے آپ کو کچھ کھجوریں پیش کیں، آپ نے ان کو اپنے منہ میں ڈالا، انھیں چبایا، پھر بچے کامنہ کھول کر ان کو اپنے دہن مبارک سے براہ راست اس کے منہ میں ڈال دیا۔بچے نے زبان ہلاکر اس کاذائقہ لینا شروع کردیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ انصار کی کھجوروں سے محبت ہے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں عبداللہ بن ابی طلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو جب وہ پیدا ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر میں اپنے اونٹ کو گندھک مل رہے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کھجوریں ہیں؟“ میں نے کہا، جی ہاں تو میں نے آپ کو چند خشک کھجوریں پکڑائیں اور آپ نے انہیں منہ میں ڈال لیا اور انہیں چبایا، پھر بچے کا منہ کھولا اور انہیں اس کے منہ میں ڈال دیا تو بچہ انہیں چوسنے لگا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار کی محبوب چیز کھجوریں ہیں۔“ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا ابن عون ، عن ابن سيرين ، عن انس بن مالك ، قال: كان ابن لابي طلحة يشتكي، فخرج ابو طلحة فقبض الصبي، فلما رجع ابو طلحة، قال: ما فعل ابني؟ قالت ام سليم: هو اسكن مما كان، فقربت إليه العشاء، فتعشى ثم اصاب منها، فلما فرغ، قالت: واروا الصبي، فلما اصبح ابو طلحة اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره، فقال: " اعرستم الليلة؟ "، قال: نعم، قال: " اللهم بارك لهما "، فولدت غلاما، فقال لي ابو طلحة: احمله حتى تاتي به النبي صلى الله عليه وسلم، فاتى به النبي صلى الله عليه وسلم، وبعثت معه بتمرات، فاخذه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " امعه شيء؟ "، قالوا: نعم تمرات، فاخذها النبي صلى الله عليه وسلم، فمضغها ثم اخذها من فيه، فجعلها في في الصبي ثم حنكه وسماه عبد الله.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قال: كَانَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ يَشْتَكِي، فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُبِضَ الصَّبِيُّ، فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو طَلْحَةَ، قَالَ: مَا فَعَلَ ابْنِي؟ قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: هُوَ أَسْكَنُ مِمَّا كَانَ، فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ الْعَشَاءَ، فَتَعَشَّى ثُمَّ أَصَابَ مِنْهَا، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَتْ: وَارُوا الصَّبِيَّ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَبُو طَلْحَةَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: " أَعْرَسْتُمُ اللَّيْلَةَ؟ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمَا "، فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ: احْمِلْهُ حَتَّى تَأْتِيَ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَعَثَتْ مَعَهُ بِتَمَرَاتٍ، فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَمَعَهُ شَيْءٌ؟ "، قَالُوا: نَعَمْ تَمَرَاتٌ، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَضَغَهَا ثُمَّ أَخَذَهَا مِنْ فِيهِ، فَجَعَلَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ ثُمَّ حَنَّكَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ.
یزید بن ہارون نے کہا: ہمیں ابن عون نے ابن سیرین سے خبر دی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا؛ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا بیمار تھا، وہ باہر گئے ہوئے تھے کہ وہ لڑکا فوت ہو گیا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے پوچھا کہ میرا بچہ کیسا ہے؟ (ان کی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اب پہلے کی نسبت اس کو آرام ہے (یہ موت کی طرف اشارہ ہے اور کچھ جھوٹ بھی نہیں)۔ پھر ام سلیم شام کا کھانا ان کے پاس لائیں تو انہوں نے کھایا۔ اس کے بعد ام سلیم سے صحبت کی۔ جب فارغ ہوئے تو ام سلیم نے کہا کہ جاؤ بچہ کو دفن کر دو۔ پھر صبح کو ابوطلحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے رات کو اپنی بیوی سے صحبت کی تھی؟ ابوطلحہ نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ ان دونوں کو برکت دے۔ پھر ام سلیم کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو ابوطلحہ نے مجھ سے کہا کہ اس بچہ کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جا اور ام سلیم نے بچے کے ساتھ تھوڑی کھجوریں بھی بھیجیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے لیا اور پوچھا کہ اس کے ساتھ کچھ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ کھجوریں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کو لے کر چبایا، پھر اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال کر اسے گٹھی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بچہ بیمار تھا، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے باہر گئے تو بچہ کی روح قبض کر لی گئی، جب ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آئے تو انہوں نے پوچھا، میرے بیٹے کا کیا بنا؟ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، وہ پہلے سے زیادہ پرسکون ہے اور انہیں شام کا کھانا پیش کیا، انہوں نے وہ کھا لیا، پھر اس سے تعلقات قائم کیے، جب وہ فارغ ہو گئے تو انہیں کہا، بچے کو دفن کر دیجئے، جب صبح ہوئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا، آپ نے پوچھا ”آج رات تم تعلقات قائم کر چکے ہو؟“ اس نے کہا، جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت سے نواز۔“ تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بچہ جنا اور مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اسے اٹھا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ تو وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے ساتھ خشک کھجوریں بھیجیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو پکڑ کر پوچھا ”کیا اس کے ساتھ کوئی اور چیز ہے؟“ حاضرین نے کہا، جی ہاں، چھوہارے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لے کر چبایا، پھر انہیں اپنے منہ سے نکالا اور انہیں بچے کے منہ میں ڈال دیا، پھر اسے گھٹی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حماد بن مسعدہ نے کہا: ہمیں ابن عون نے محمد (ابن سیرین) سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اسی قصے کے ساتھ یزید کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
امام صاحب کو یہی روایت، واقعہ سمیت ایک اور استاد نے سنائی۔
حضرت ابوموسیٰ علیہ السلام سے روایت ہے، کہا: میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، میں اس کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اس کو ایک کھجور (کے دانے) سے گھٹی دی۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو میں اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور کی گھٹی دی۔