5. باب: بچہ کے منہ میں کچھ چبا کر ڈالنے کا اور دوسری چیزوں کا بیان۔
Chapter: It Is Recommended To Perform Tahnik For The Newborn When He Is Born And To Take Him To A Righteous Man To Perform Tahnik For Him; It Is Permissible To Name Him On The Day He Is Born, And It Is Recommended To Use The Names 'Abdullah, Ibrahim, And The Names Of All Other Prophets, Peace Be Upon Them
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا ابن عون ، عن ابن سيرين ، عن انس بن مالك ، قال: كان ابن لابي طلحة يشتكي، فخرج ابو طلحة فقبض الصبي، فلما رجع ابو طلحة، قال: ما فعل ابني؟ قالت ام سليم: هو اسكن مما كان، فقربت إليه العشاء، فتعشى ثم اصاب منها، فلما فرغ، قالت: واروا الصبي، فلما اصبح ابو طلحة اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره، فقال: " اعرستم الليلة؟ "، قال: نعم، قال: " اللهم بارك لهما "، فولدت غلاما، فقال لي ابو طلحة: احمله حتى تاتي به النبي صلى الله عليه وسلم، فاتى به النبي صلى الله عليه وسلم، وبعثت معه بتمرات، فاخذه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " امعه شيء؟ "، قالوا: نعم تمرات، فاخذها النبي صلى الله عليه وسلم، فمضغها ثم اخذها من فيه، فجعلها في في الصبي ثم حنكه وسماه عبد الله.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قال: كَانَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ يَشْتَكِي، فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُبِضَ الصَّبِيُّ، فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو طَلْحَةَ، قَالَ: مَا فَعَلَ ابْنِي؟ قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: هُوَ أَسْكَنُ مِمَّا كَانَ، فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ الْعَشَاءَ، فَتَعَشَّى ثُمَّ أَصَابَ مِنْهَا، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَتْ: وَارُوا الصَّبِيَّ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَبُو طَلْحَةَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: " أَعْرَسْتُمُ اللَّيْلَةَ؟ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمَا "، فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ: احْمِلْهُ حَتَّى تَأْتِيَ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَعَثَتْ مَعَهُ بِتَمَرَاتٍ، فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَمَعَهُ شَيْءٌ؟ "، قَالُوا: نَعَمْ تَمَرَاتٌ، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَضَغَهَا ثُمَّ أَخَذَهَا مِنْ فِيهِ، فَجَعَلَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ ثُمَّ حَنَّكَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ.
یزید بن ہارون نے کہا: ہمیں ابن عون نے ابن سیرین سے خبر دی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا؛ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا بیمار تھا، وہ باہر گئے ہوئے تھے کہ وہ لڑکا فوت ہو گیا۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے پوچھا کہ میرا بچہ کیسا ہے؟ (ان کی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اب پہلے کی نسبت اس کو آرام ہے (یہ موت کی طرف اشارہ ہے اور کچھ جھوٹ بھی نہیں)۔ پھر ام سلیم شام کا کھانا ان کے پاس لائیں تو انہوں نے کھایا۔ اس کے بعد ام سلیم سے صحبت کی۔ جب فارغ ہوئے تو ام سلیم نے کہا کہ جاؤ بچہ کو دفن کر دو۔ پھر صبح کو ابوطلحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے رات کو اپنی بیوی سے صحبت کی تھی؟ ابوطلحہ نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ ان دونوں کو برکت دے۔ پھر ام سلیم کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو ابوطلحہ نے مجھ سے کہا کہ اس بچہ کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جا اور ام سلیم نے بچے کے ساتھ تھوڑی کھجوریں بھی بھیجیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے لیا اور پوچھا کہ اس کے ساتھ کچھ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ کھجوریں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کو لے کر چبایا، پھر اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال کر اسے گٹھی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بچہ بیمار تھا، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے باہر گئے تو بچہ کی روح قبض کر لی گئی، جب ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آئے تو انہوں نے پوچھا، میرے بیٹے کا کیا بنا؟ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، وہ پہلے سے زیادہ پرسکون ہے اور انہیں شام کا کھانا پیش کیا، انہوں نے وہ کھا لیا، پھر اس سے تعلقات قائم کیے، جب وہ فارغ ہو گئے تو انہیں کہا، بچے کو دفن کر دیجئے، جب صبح ہوئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا، آپ نے پوچھا ”آج رات تم تعلقات قائم کر چکے ہو؟“ اس نے کہا، جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت سے نواز۔“ تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بچہ جنا اور مجھے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اسے اٹھا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ تو وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے ساتھ خشک کھجوریں بھیجیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو پکڑ کر پوچھا ”کیا اس کے ساتھ کوئی اور چیز ہے؟“ حاضرین نے کہا، جی ہاں، چھوہارے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لے کر چبایا، پھر انہیں اپنے منہ سے نکالا اور انہیں بچے کے منہ میں ڈال دیا، پھر اسے گھٹی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
أعرستم الليلة قال نعم قال اللهم بارك لهما فولدت غلاما قال لي أبو طلحة احفظه حتى تأتي به النبي فأتى به النبي وأرسلت معه بتمرات فأخذه النبي فقال أمعه شيء قالوا نعم تمرات فأخذها النبي فمضغها ثم أخذ من فيه فجعلها في في الصبي وحنكه به وسماه عبد الله
أعرستم الليلة قال نعم قال اللهم بارك لهما فولدت غلاما فقال لي أبو طلحة احمله حتى تأتي به النبي فأتى به النبي وبعثت معه بتمرات فأخذه النبي فقال أمعه شيء قالوا نعم تمرات فأخذها النبي