معمر نے ثابت بنا نی اور عاصم احول سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے جو درزی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی اور یہ اضافہ کیا کہ ثابت نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: اس کے بعد جب بھی میرے لیے کھانا بنتا ہے اور میں ایسا کرسکتا ہوں کہ اس میں کدو ڈالا جا ئے تو ڈالا جا تا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک درزی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ثابت اس واقعہ میں یہ اضافہ کرتے ہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا: اس کے بعد، جو کھانا بھی میرے لیے تیار کیا گیا اور میرے لیے اس میں کدو ڈلوانا ممکن تھا تو اس میں کدو ڈالا گیا۔
22. باب: کھجور کھاتے وقت گٹھلیاں علیحدہ رکھنا مستحب ہے۔
Chapter: It is recommended to take the stones out of dates, and it is recommended for the guest to pray for the host and to ask a righteous guest to supplicate, and he should respond to that request
حدثني محمد بن المثنى العنزي ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يزيد بن خمير ، عن عبد الله بن بسر ، قال: نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابي، قال: فقربنا إليه طعاما ووطبة فاكل منها ثم اتي بتمر، فكان ياكله ويلقي النوى بين إصبعيه ويجمع السبابة والوسطى، قال شعبة: هو ظني وهو فيه إن شاء الله إلقاء النوى بين الإصبعين ثم اتي بشراب، فشربه ثم ناوله الذي عن يمينه، قال، فقال ابي: واخذ بلجام دابته ادع الله لنا، فقال: " بارك لهم في ما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ ، قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي، قَالَ: فَقَرَّبْنَا إِلَيْهِ طَعَامًا وَوَطْبَةً فَأَكَلَ مِنْهَا ثُمَّ أُتِيَ بِتَمْرٍ، فَكَانَ يَأْكُلُهُ وَيُلْقِي النَّوَى بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ وَيَجْمَعُ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى، قَالَ شُعْبَةُ: هُوَ ظَنِّي وَهُوَ فِيهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ إِلْقَاءُ النَّوَى بَيْنَ الْإِصْبَعَيْنِ ثُمَّ أُتِيَ بِشَرَابٍ، فَشَرِبَهُ ثُمَّ نَاوَلَهُ الَّذِي عَنْ يَمِينِهِ، قَالَ، فَقَالَ أَبِي: وَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِهِ ادْعُ اللَّهَ لَنَا، فَقَالَ: " بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ ".
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے یزید بن خمیر سے، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کے ہاں مہمان ہو ئے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجور پنیر اور گھی سے تیار کیا ہوا حلوہ پیش کیا، آپ نے اس میں سے تناول فرما یا، پھر آپ کے سامنے کھجور یں پیش کی گئیں تو آپ کھجوریں کھا رہے تھے۔اور گٹھلیاں اپنی دو انگلیوں کے درمیان ڈالتے جا رہے تھے۔ (کھا نے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی اور درمیانی انگلی اکٹھی کی ہوئی تھیں۔شعبہ نے کہا: میر اگمان (غالب) ہے اور ان شاء اللہ یہ بات یعنی گٹھلیوں کو دوانگلیوں کے درمیان ڈالنا اس (حدیث) میں ہے۔پھر (آپ کےسامنے) مشروب لا یا گیا۔آپ نے اسے پیا، پھر اپنی دائیں جا نب والے کو دے دیا۔ (عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو میرے والد نے جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگا م پکڑی ہو ئی تھی عرض کی: ہمارے لیے اللہ سے دعا فرما ئیے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کرتے ہو ئے) فرما یا "اے اللہ!تونے انھیں جو رزق دیا ہے اس میں ان کے لیے برکت ڈال دے اور ان کے گناہ بخش دے اور ان پر رحم فرما۔
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ کے ہاں ٹھہرے اور ہم نے آپ کو کھانا اور برنی کھجور، پنیر اور گھی کا حلوہ پیش کیا، آپ نے اس سے کھایا، پھر آپ کو خشک کھجوریں پیش کی گئیں، آپ انہیں کھا رہے تھے اور گٹھلی انگلیوں میں ڈالتے، شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان رکھ کر پھینکتے تھے، شعبہ کہتے ہیں: میرے خیال میں ان شاءاللہ دو انگلیوں سے گٹھلی پھینکنا اس حدیث میں موجود ہے، پھر آپ کے پاس مشروب لایا گیا، آپ نے اس سے پی کر بعد میں دائیں والے کو دے دیا تو میرے باپ نے آپ کو سواری کی لگام پکڑ کر درخواست کی، ہمارے لیے اللہ سے دعا فرمائیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ ان کو جو کچھ دیا ہے، اس میں برکت فرما اور انہیں بخش دے اور ان پر رحم فرما۔“
حفص بن غیاث نے مصعب بن سلیم سے روایت کی، کہا: ہمیں حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں گھٹنے کھڑےکر کے تھوڑے سے زمین پر لگ کر بیٹھے تھے۔کھجوریں کھا رہے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرین کے بل بیٹھ کر، پنڈلیاں کھڑی کرکے کھجوریں کھاتے دیکھا۔
وحدثنا زهير بن حرب ، وابن ابي عمر جميعا، عن سفيان ، قال ابن ابي عمر حدثنا سفيان بن عيينة، عن مصعب بن سليم ، عن انس ، قال: " اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بتمر، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يقسمه وهو محتفز ياكل منه اكلا ذريعا "، وفي رواية زهير اكلا حثيثا.وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُهُ وَهُوَ مُحْتَفِزٌ يَأْكُلُ مِنْهُ أَكْلًا ذَرِيعًا "، وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ أَكْلًا حَثِيثًا.
زہیر بن حرب اور ابن ابی عمر نے سفیان بن عیینہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے مصعب بن سلیم سے انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی: کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجوریں پیش کی گئیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھےہو ئے ان کو تقسیم فرما نے لگے جیسے آپ ابھی اٹھنےلگے ہوں (بیٹھنےکی وہی کیفیت جو پچھلی حدیث میں بیان ہو ئی دوسرے لفظوں میں بتا ئی گئی ہے) اور آپ اس میں سے جلدی جلدی چند دانے کھارہے تھے۔زہیر کی۔ روایت میں ذَریعاً کے بجائے حَثِیثًا کا لفظ ہے یعنی بغیر کسی اہتمام کے جلدی جلدی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں لائی گئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اکڑوں بیٹھ کر تقسیم کرنے لگے، ان سے جلدی جلدی کھا رہے تھے، زہیر کی روایت میں ذريعا
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت جبلة بن سحيم ، قال: كان ابن الزبير يرزقنا التمر، قال: وقد كان اصاب الناس يومئذ جهد وكنا ناكل، فيمر علينا ابن عمر ونحن ناكل، فيقول: لا تقارنوا فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن الإقران إلا ان يستاذن الرجل اخاه "، قال شعبة: لا ارى هذه الكلمة إلا من كلمة ابن عمر يعني الاستئذان.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَبَلَةَ بْنَ سُحَيْمٍ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَرْزُقُنَا التَّمْرَ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ أَصَابَ النَّاسَ يَوْمَئِذٍ جَهْدٌ وَكُنَّا نَأْكُلُ، فَيَمُرُّ عَلَيْنَا ابْنُ عُمَرَ وَنَحْنُ نَأْكُلُ، فَيَقُولُ: لَا تُقَارِنُوا فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ الْإِقْرَانِ إِلَّا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ أَخَاهُ "، قَالَ شُعْبَةُ: لَا أُرَى هَذِهِ الْكَلِمَةَ إِلَّا مِنْ كَلِمَةِ ابْنِ عُمَرَ يَعْنِي الِاسْتِئْذَانَ.
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی کہا: میں نے جبلہ بن سحیم سے سنا کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہمیں کھجوروں کا راشن دیتے تھے ان دنوں لوگ قحط سالی کا شکار تھے۔اور ہم (کھجوریں) کھاتے تھے۔ہم کھا رہے ہو تے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہمارے قریب سے گزرتے اور فرما تے: اکٹھی دودوکھجوریں مت کھاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکٹھی دودو کھجوریں کھانے سے منع فرما یا ہے، سوائے اس کے کہ آدمی اپنے (ساتھ کھانے والے) بھا ئی سے اجازت لے۔ شعبہ نے کہا: میرا یہی خیال ہے کہ یہ جملہ یعنی اجازت لینا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔ (انھوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نہیں کیا۔)
جبلہ بن سحیم بیان کرتے ہیں، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہمیں کھجوریں دیتے تھے، کیونکہ لوگ ان دنوں (قحط سالی کی وجہ سے) ضرورت مند تھے اور ہم کھا رہے تھے تو ہمارے پاس سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما گزرتے اور فرماتے: ملا کر نہ کھاؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر ملانے سے منع فرمایا ہے، شعبہ کہتے ہیں: اجازت لینے کی بات، میرے خیال میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بات ہے۔
عبید اللہ کے والد معاذ اور عبدالرحمٰن بن مہدی دونوں نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ان دونوں کی روایت میں شعبہ کا اور ان (جبلہ بن سحیم) کا یہ قول موجود نہیں، ِ" ان دنوں لوگ قحط سالی کا شکار تھے۔"
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے شعبہ ہی کی سند سے یہ روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں شعبہ کا قول موجود نہیں ہے اور نہ یہ بات ہے کہ ”لوگ ان دنوں قحط سالی کا شکار تھے، یا مشقت میں مبتلا تھے۔“
سفیان نے جبلہ بن سحیم سے روایت کی کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص ساتھیوں سے اجازت لیے بغیر اکٹھی دودوکھجوریں کھائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر دو کھجوریں ملا کر کھائے۔